گذشتہ دنوں رات ساڑھے آٹھ بجے سے گیارہ بجے تک صوبہ اوسفولڈ کے شہر آشم میں صرف خواتین اور بچوں کے لیے شاپنگ بازار کا ہتمام کیا گیا۔یاد رہے کہ ناروے میں موسم سرماء میں عام طور سے شاپنگ سنٹرز شام کے چھ یا آٹھ بجے بند کر دیے جاتے ہیں۔جبکہ سورج ساڑھے تین بجے اور چار بجے کے درمیان ڈوب جاتا ہے۔اشیائے خور دو نوش کی دوکانیں البتہ رات دس بجے تک کھلی رہتی ہیں۔پچھلے کئی برسوں سے ناروے میں رات کو صرف خواتین کی خریداری کے لیے مارکیٹیں کھولنے کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔آشم اوسلو سٹی سے ایک گھنٹہ کی مسافت پر واقع ایک چھوٹا سا شہر ہے۔یہ بہت بڑا کاروباری مرکز نہیں ہے ۔اسی لیے یہاں کھلنے والی دوکانیں دو تین برسوں بعد کاروبار ٹھپ ہونے کے بعد بند ہو جاتی ہیں۔پچھلے چند ماہ میں ڈیجیٹل پراڈکٹس بیچنے والی کئی دوکانیں بند ہو چکی ہیں۔
یہاں تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد رہتی ہے۔جن میں سب سے ذیادہ تعداد عراقی،ویت نامی اور پاکستانیوں اور انڈین تارکین وطن کی ہے۔آشم میں عام طور سے تارکین وطن افراد اشیائے خور دو نوش کے کاروبار سے منسلک ہیں۔جس میں پیزا اور ٹیک اور Pizza take over کی دوکانیں شامل ہیں۔تاہم مقام ی کمیونٹی سنٹر نے کاروبار کے فروغ کے لیے نائٹ مارکیٹوں کی اسکیم سے استفادہ کرنے کی کوشش کی ہے جو کافی حد تک کامیاب ثابت ہوئی ہے۔نائٹ مارکیٹ میں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے ۔حالانکہ یہاں انڈیا پاکستان کی طرح بازاروں میں مرد عورتوں کو کبھی تنگ نہیں کرتے۔مارکیٹ کے داخلی دروازے پر دو پہرے دار بھی کھڑے تھے جو آشم مارکیٹ کی ممبرخواتین کو اجازت نامہ دے رہے تھے۔جبکہ جو ممبر نہیں تھے انہیں ممبر شپ فارم پر کرنا تھا۔مارکیٹ میں خواتین کی تواضع فری پیزہ کیک اور مشروبات سے کی گئی۔سب خواتین کو لاٹری ٹکٹ دیے گئے۔مارکیٹ کی دوکانیں بند تھیں۔ مارکیٹ کا صدر دروازہ ساڑھے آٹھ بجے کھولا گیا تھا جبکہ دوکانیں نو بجے کھلیں۔ اس سے پہلے لاٹر ی نکلنے والی خوش نصیب خواتین کے ناموں کا اعلان کیا گیا۔دو لاٹریوں کی مالیت پانچ ہزار نارویجن کرائون کے گفٹ کارڈتھی۔یہ رقم لازمی اسی رات میں خرچ کرنا تھی اس رات کے بعد یہ گفٹ کارڈ استعمال نہیں ہو سکتے تھے۔یعنی ان کارڈز کی مدت صرف ایک رات کی تھی۔ایک چائینیز اور ایک نارویجن خاتون کی لاٹری نکلی۔نو بجے تما دوکانیں کھول دی گئیں جن پر مختلف اشیائء کی سیل لگی ہوئی تھی۔خواتین کا یہ میلہ نماء بازار رات گیارہ بجے تک جاری رہا۔یہاں نارویجن اور دوسرے ممالک کی خواتین نے بھی بھرپور خریداری کی۔
تاہم پاکستان جیسے اسلامی ملک میں بھی اس قسم کے خواتین بازاروں کی سخت ضرورت ہے جو ہر ماہ یا ہر ہفتے میں ایک بار منعقد ہونے چاہیئں۔