تحرير۔ نمرہ احمد
انتخاب۔ راحيلہ ساجد
شام کو اس نے بہت محنت سے چاکلیٹ سوفلے بنایا اور جب خوب ٹهنڈا ہو گیا تو ٹرے میں سجا کر اوپر سیڑهیاں چڑهنے لگی،ابهی دوسری سیڑهی پہ ہی تهی کہ آرزو نیچے آتی دکهائی دی-
“یہ کس کے لیے ہے؟”وہ ماتهے پہ بل ڈالے لمحے بهر کو رکی “فادی کے لیے ہے؟”
“جی،انہوں نے کل کہا تو تها،میرے پاس ٹائم کہاں تها،آج بهی کسی کو یاد نہ آیا تو بنا ہی دیا-” اس نے بے نیازی سے شانے جهٹکے- وہ دوسری سیڑهی پہ ٹرے اٹهائے کهڑی منتظر تهی کہ آرزو نیچے اترے اور وہ اوپر جا سکے-
“اور ڈنر کی تیاری کر لی تم نے ؟” آرزو زینے سے اتر کر بالکل سامنے آکهڑی ہوئی-
“اماں بنا رہی ہیں-”
“قورمہ بنا لیا ہے؟ ممی نے کہا بهی تها -تم نے چیک کیا ؟”
“آپ سیدهے سیدهے کہہ دیں کہ میں چلی جاوں اور آپ یہ ٹرے فواد بهائی کو دے کر اپنے نمبر بنا لیں تو لیں پکڑیں-” اس نے زور سے اسے تهمائی “مجهے اور بهی کام کرنے ہیں “اور کهٹ کهٹ سیڑهیاں اتر کر کچن کی طرف چلی گئی –
“بدتمیز-” وہ بڑبڑائی-
مگر محمل کو معلوم تها کہ اس کی بلند آواز فواد سن چکا ہو گا اور اب آرزو جو چاہے کر لے،وہ جانتا تها کہ کام کس نے کیا تها اور نمبر کون بنانا چاہ ریا تها –
اور پهر یہی ہوا-
رات کهانے پہ جب مسرت نے سوفلے لا کر رکها تو فواد نے سب سے پہلے ڈالا-
“یہ تم نے بنایا ہے محمل؟”
“جی-” وہ سادگی سے بولی-
آرزو نے ناگواری سے پہلو بدلا-
“بہت ٹیسٹی ہے،تم ہی روز میٹها کیوں نہیں بناتیں؟”
“اتنی فارغ نہیں ہوں میں،سو کام ہوتے ہیں مجهے،ایگزام ہو رہے ہیں میرے،دل کرے گا تو بنایا کرونگی ورنہ سب جانتے ہیں،محمل سے جی حضوریاں نہیں ہوتیں- اماں ایک پهلکا مجهے اٹها دیں-” وہ مصرف سی اماں کے ہاتھ سے پهلکا لینے لگی،جیسے اسے فواد کے تاثرات کی پرواہ ہی نہ ہوتی-
وہ سر ہلا کر سوفلے کهانے لگا مگر بار بار نگاه بهٹک کر اس کے مومی چہرے پہ جا ٹکتی تهی،جو بہت مگن سی ابهی تک کهانا ہی کها رہی تهی،سوفلے کو اس نے ہاتھ بهی نہیں لگایا تها-
وہ کچن میں کهڑی سنک کے سامنے دوپہر کے جهوٹے برتم دهو رہی تهی جب سامنے بڑی سی کهڑکی کے پار آسمان پہ سرمئی بادل اکٹهے ہونے لگے- وہ ابهی تک اسفنج پلیٹوں پہ مارتے ہوئه اس سیاہ فام لڑکی کے متعلق سوچے جا رھی تهی،جس سے وہ گزشتہ کچھ دنوں سے احتراز برت رہی تهی ،عین بس کے ٹائم پہ اسٹاپ پہ جاتی اور بنچ پہ بیٹهنے کی بجائے ذرا فاصلے پہ کهڑی ھو جاتی،نہ تو دانستہ اس لڑکی کو دیکهتی اور نہ ہی قریب جاتی،معلوم نہیں کیوں اسے اس سےاور اسکی سیاہ جلد والی کتاب سے خوف محسوس ہونے لگا تها-
بادل ذرا گرجے تو وہ چونکی- نیلگوں سنہری شام پہ ذرا سی دیر میں چهایا ہو گئی تهی،بجلی چمکی اور یکایک موٹی موٹی بوندیں گرنے لگیں-
محمل نے جلدی جلدی آخری برتن دهو کر ریک میں سجائے،ہاتھ دهوئےاور باہر لان کی طرف بهاگی- بارش ديکھ کر اسکا دل یونہی مچل جایا کرتا تها –
“محمل!جاو مسرت سے کہو،بلکہ……” تائی مہتاب جو برآمدے میں کرسی پہ بیٹهی لڑکیوں سے گپ شپ میں مصروف تهیں،اسے آتے ديکھ کر حکم صادر کرتے کرتے رکیں، اس کے چہرے پر بارش میں کهیلنے کا شوق رقم تها- تائی نے لمحے بهر کو سوچااور پهر حکم میں ترمیم کردی”بلکہ جاؤ،پکوڑےبنا کر لاو،ساته میں دهنیے کی چٹنی بهی ہواور معاذ،معیز کے لیے آلو کے چپس فرائی کر لو-”
اس کے چہرے پہ پهیلا اشتیاق پهیکا پڑ گیا-اس نے قدرے بے بسی سے ان کو دیکها –
“مگر تائی ابهی کیسے؟ وہ بارش …… بعد میں کر دوں گی-” وہ منمنائی-
“ہاں تو بارش کے لیے ہی تو کہہ رہی ہوں-جاو شاباش،جلدی کرو اور ندا! یہ سوٹ پهر تمہیں کتنے کا پڑا تها ؟” وہ ندا کے دوپٹے کو انگلیوں میں مسل کر ستائشی انداز میں پوچھ رہی تهیں-
“صرف ڈیڑھ ہزار کا تائی! میں کل ہی آپکو بهی لے چلتی ہوں،وہاں بہت اچهے پرنٹس آئے ہوئے تهے،آپ کا کمپلیکشن تو وسیے بهی بہت فئیر ہے،آپ پہ تو ہر رنگ کهل جاتا ہے-”
وہ آپس میں مصروف ہو گئی تهیں- محمل پیر پٹختی اندر آئی-
آلو چهیل کر کاٹے،بیسن گهول کر رکها تو تائی مہتاب نے آواز لگائی” مکس پکوڑے بنانا،فواد کو پیازوں والے پکوڑے پسند ہیں بہت-”
“بهاڑ میں گئی اس کی پسند-” اس نے زور سے چهری سلیب پہ پٹخی- آلو قتلوں میں کاٹے تهے،اب پهر سے ان کو چهوٹا کرما پڑےگا- مرچیں،پیازبهی کآٹنے پڑیں گے-
شدت بےبسی سے اس کی آنکهوں میں آنسو آگئے تهے – آج اماں بیمار تهیں،صبح سے بخار تها سو اگر وہ نہ کرتی تو مسرت کو بیماری میں اٹھ کر کرنا پڑتا- وہ ناں بهی نہیں کر سکتی تهی-
پیاز کاٹتے ہوئے اس کی آنکهوں سے آنسو نکلتے گالوں پہ پهسل رہے تهے-تب ہی فواد ماں کو پکارتا کچن کے کهلے دروازے پہ ٹهٹهک کر رکا-
کهلی جینز پہ لمبا کرتا اور گرفن پر مفلر کی طرح دوپٹہ لپیٹے، بهوری اونچی ٹیل بامهے وہ سر جهکائے کهڑی کٹنگ بورڈ پہ ٹهک ٹهک پیاز کاٹ رہی تهی – آنسو گالوں پہ چمک رہے تهے-
“محمل!” وہ بےچین سا قریب چلا آیا- “کیا ہوا،تم رو کیوں رہی ہو؟”
“میری مرضی آپ لوگوں کو کیا- آپ لوگوں کو تو اپنے کهانوں سے غرض ہوتی ہے -” فواد کے دل میں جگہ بنانے کے سارے ارادے بهلا کر وہ تڑخ کر بولی-
” پهر بهی کسی نے کچھ کہا ہے؟”
یہاں کہتا کوئی نہیں ہے سب حکم صادر کرتے ہیں-” اس نے چهری والے ہاتھ کی پشت سے گال صاف کیا “اور مجھ ابهی کوئی بات نہ کریں ، میں غصے میں ہوں یا چهری مار دونگی’یا پکوڑوں میں زہر ملا دونگی-”
“اچها -” وہ پتہ نہیں کیوں ہنس دیا تها-
وہ رک کر اسے دیکهنے لگی –
“آپ کیوں ہنسے؟”
“کچه نہیں،خیر بناو پکوڑے -” وہ اپنی پسند بتا کر لمبے لمبے ڈگ بهرتا باہر نکل گیا –
اس کے آنسو پهر سے بہنے لگے- جانے کس بهول پن میں وہ یہ سمجھ بیٹهی تهی کہ اگر وہ اس کی مٹهی میں آگیا تو…… اس نے نفی میں سر جهٹکا- وہ سب ایک جیسے تهے ‘بےحس’خودغرض’مطلبی-
اور جب تک پکوڑے بنے، بارش ہلکی ہو چکی تهی – وہ سب لڑکے لڑکیاں برآمدے میں بیٹهے دو منٹ میں ہی پکوڑے چٹ کر گئے تهے اور اب حسن سب کو لانگ ڈرائیو پہ لے جانے کا پلان بنا رہا تها-
” تم لوگ بهی کیا یاد کرو گے ،کس سخی سے پالا پڑا تها-” وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکهے بیٹها فرضی کالر جهاڑ کر کہہ رہا تها-
حسن فضہ چچی کا بیٹا اور ندا اور سامیہ کو بهائی تها- شکل میں ندا سے مشابہہ تها،بڑی بڑی پرکشش آنکهیں اور سانولی رنگت- البتہ عادتوں میں وہ قدرے مختلف تها- اس نے فضہ کہ میٹهی زبان تو مستعار لی تهی،مگر کڑوا دل نہیں کیا تها- وہ گهر کا واحد فرد تها جو دل کا بهی اچها تها ،نرم گو،صاف دل،اور ہینڈسم-
ابهی بهی وہ آفس سے آیا تبا اور کوٹ کرسی کے پیچهے ٹکائے آستینیں فولڈ کیے بیٹها وہ تهکن کے باوجود سب کو آوٹنگ پہ لے جانے کی دعوت دے رہا تها –
“کون کون چلے گا؟” سامیہ بلند آواز میں پوچهنے لگی تو محمل بهی دل میں مچلتی خواہش کے باعث قریب آ گئی-
“میں بهی چلونگی-”
سب نے رک کر اسے دیکها تها-
کندهے پہ پرس لٹکائے،بالوں کو ایک اسٹائل سے بینڈ میں جکڑتی آرزو نے،جو اندر سے باہر آ رہی رهی،قدرے ناگواری سے اسے دیکها-” ان کو بهی یہ شوق ستانے لگے ہیں ؟” اور پهر سب ہی ساتھ ساتھ بولنے لگے-
“تمہاری جگہ نہیں بنے گی -”
” ہم پاپا پی ہائی ایس لے کر جا رہے ہیں، سب کی سیٹیں پوری ہیں-”
” تم باہر جا کر کیا کرو گی؟” سدرہ تمسخرانہ ہنسی- مہتاب تائی کی فوٹو کاپی-
“بیٹا جان،آپکے تو ایگزام ہو رہے تهے-” فضہ چچی بہت فکرمندی اور پیار سے اسے ديکھ رہی تهیں”خوب دل لگا کر پڑهو،آپ نے بہت اچهے مارکس لینے ہیں،جاو شاباش، کورس کم ازکم دو دفعہ ضرور ریوائز کرنا، ابهی شروع کرو گی تو رات تک پورا ہو گا- ”
تائی مہتاب نے فضہ چچی کی بات ختم ہونے کا انتظار کیا اور پهر تیزی سے بولیں-” ناں تم نے باہر کیا کرنا ہے؟ رات کا کهانا کون بنائے گا؟ ماں الگ ڈرامے کر کے بستر پہ پڑی ہے،کوئی پوچهنے والا ہے انکو- بس مفت کی روٹیاں توڑے جاتے ہیں-
فواد نے لمحے بهر کو کچھ کہنا چاہا، پهر خاموش رہااور حسن جو خاموشی سے ساری کاروائی ديکھ رہا تها،بالآخرکہہ اٹها-“کوئی محمل سے بهی تو پوچهے کہ وہ کیا چاہتی ہے؟”
” ہاں اب ہم اس سے پوچهتے رہیں؟”تائی بگڑ کر بولیں- حسن لمحے بهر کو بالکل چپ ہو گیا- مگر فضہ نے بیٹے کے جهاڑے جانے پہ واضح برا مانا-
“جاو تم اندر جاو-“بس اتنا ہی کہہ سکیں- تائی مہتاب سے مقابلہ کرنا ان کے بس سے باهر تها-
وہ پیر پٹختی بهاگ کر کچن میں آئی اور سنک پر سر جهکائے پهوٹ پهوٹ کر رونے لگی-
کافی دیر بعد روتے روتے سر اٹهایا تو کهڑکی کے پار ڈرائیو وے پہ نکلتی ہائی ایس دکهائی دی-
اس میں ایک دو لوگوں کی جگہ تو واضح بن جانی تهی-
بے اختیار اس کا دل چاہا تها کہ وہ رات کے کهانے میں زہر ملا دے اور کاش کہ وہ ایسا کر سکتی-
جاری ہے…….!