تشنہ بریلوی جمعہ ۔ 12 دسمبر 2014
مشاعرہ اپنے عروج پر تھا۔ ایک شاعر جو تغزّل اور ترنّم دونوں میں باکمال تھا‘ اپنی تازہ غزل اِس انداز سے سُنا رہا تھا کہ ہر شعر پر حاضرین داد و تحسین کے نعرے بلند کرتے اور ہر شعر بار بار سُنتے۔ اچانک ایک سوٹڈ بوٹڈ نوجوان چیخ مار کر کھڑا ہو گیا اور پھر فرش پر گر کے بے ہوش ہو گیا۔ کسی شاعر کو داد دینے کا اس سے زیادہ بھر پور طریقہ نہیں ہو سکتا وہ نوجوان شعروں کے معنوی حُسن اور روح پرور غنائیت سے متاثر ہو کر ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا:۔
کیوں مستِ شرابِ عیش و طرب تکلیفِ توّجہ فرمائیں
آوازِ شکستِ دل ہی تو ہے آوازِ شکستِ جام نہیں
حیرت انگیز‘ مگر ناقابلِ یقین ہرگز نہیں۔ کیونکہ جس شاعر کے اشعار نے نوجوان کو مست و بے حال کر دیا تھا وہ حضرت جگرؔ مراد آبادی ہی تھے ‘ اپنے وقت کے سب سے زیادہ مقبول شاعر جن کے نام سے مشاعروں کے پنڈال کھچا کھچ بھر جاتے تھے۔ مگر وہ نوجوان کون تھا جس نے حضرت جگر ؔ کو اتنے انوکھے طریقے سے داد دی؟ شعری ذوق رکھنے والا کوئی گمنام شخص‘ جگرؔ صاحب کے لاکھوں پرستاروں میں سے ایک؟ یقینا شعری ذوق رکھنے والا ایک پرستار۔ مگر گمنام نہیں۔ وہ نوجوان فرید ایس جعفری تھا جو آگے چل کر صحافی کے طور پر بہت مشہور ہوا۔
علی سکندر جگر مرادآبادی صاحب کو‘ جو شروع میں عینکیں فروخت کرتے تھے‘ اردو شعر و ادب میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ انھوں نے دو یا تین نسلوں کو بے حد متاثر کیا اور کلاسیکی غزل گو شعرا کی فہرست میں اپنا نام شامل کرایا:۔
غیروں کی جفا یاد نہ اپنوں کی وفا یاد
اب کچھ بھی نہیں مجھ کو محبت کے سوا یاد
جگرؔ صاحب بھی اپنے لڑکپن میں داغؔ کے شاگرد بن گئے تھے۔ بہت جلد ہی پورے ملک میں مشاعروں کا طوفان برپا ہو گیا۔ مشاعرہ ہال میں مذہب اور ذات پات کی کوئی قید نہیں تھی۔ ہر شخص دنیاوی کھکھیڑوں کو بُھلا کر چند گھنٹوں کے لیے تغزّل اور ترنّم سے لطف اندوز ہوتا اور اس کی زندگی میں ایک نئی جہت ‘ ایک لطیف جہت‘ شامل ہو جاتی۔ اردو نظم رباعی اور قطعہ بھی نہایت اہم اصناف ہیں لیکن مشاعروں کی جان تو غزل رہی ہے۔ جگر ؔ جیسا شاعر تغزّل اور ترنّم کو ہم آہنگ کر کے جو اشعار پیش کرتا ہے وہ تیر کی طرح دل میں پیوست ہوتے ہیں۔
حضرت جگر ؔ کی بادشاہت کا زمانہ تقریباَ َ40 سال پر محیط رہا۔ اُن کے بغیر مشاعرہ‘ مشاعرہ نہیں ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بھی جو تعریف کرنے میں خاصے بخیل تھے ‘ یہ کہا کہ ہر اچھا مشاعرہ جگرؔ کا مشاعرہ ہوتا ہے۔ جگرؔ صاحب ایک اور بڑے شاعر اصغرؔ گونڈوی کے بھی شاگرد رہے۔
حضرت داغؔ کے 1905ء میں انتقال کے بعد اُن کے بہت سے شاگردوں نے استاد کے طور پر خود کو پیش کر دیا۔ مثلاََ نوحؔ ناروی‘ سائل ؔدہلوی‘ جوش ؔملیسانی‘ سیمابؔ اکبر آبادی وغیرہ۔ یہ سب شعراء داغؔ کے معاون کے طور پر کام کرتے رہے تھے۔ جگر ؔ صاحب داغؔ کے سب سے کم عمر شاگردوں میں شمار ہوتے تھے اِس لیے کہ داغؔ کی وفات پر ان کی عمر صرف 16 سال تھی۔ لہٰذا انھوں نے کبھی اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھا کہ وہ ’’اُستادی‘‘ کا دعویٰ کریں۔ بہت سے نوجوان شاعر جگرؔ صاحب کو اپنا کلام دکھانا چاہتے تھے مگر انھوں نے ’’اِصلاح ‘‘ کی ذمے داری سے خود کو دور رکھا۔
لیکن اِس کے باوجود بھی جگرؔ صاحب کے بہت سے ’’شاگرد‘‘ پیدا ہو گئے۔ یہ نوجوان شاعر اُن کے باقاعدہ ’’تلمیذ‘‘ تو نہیں تھے لیکن وہ سب کے سب ’’جگرؔ اسکول‘‘ سے تعلق رکھتے تھے اور جگرؔ صاحب کے بے حد قریب تھے۔ مزید یہ کہ تغزّل اور ترنّم کی دولت میں سے اُن کو بھی حصّہ ملا تھا۔ ان میں سے سے پہلے نام آتا ہے جناب بہزادؔ لکھنوی کا جن کی غزلیں اور نعتیں قبولیت کی معراج تک پہنچیں۔ نیرّہ نور نے بہزادؔ صاحب کے ہی انداز میں ان کا شعر پیش کیا ہے:۔
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں ہر چیز مقابل آ جائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آ جائے
شکیل ؔاور مجروحؔ نے فلمی شاعری کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ جگرؔ صاحب کو فلمی گیت لکھنے کی پیش کش ہوئی اور پروڈیوسر ڈبلیو زیڈ احمد نے‘ جن کے لیے جوشؔ بھی گیت لکھتے تھے (نگری مری کب تک یونہی برباد رہے گی) جگرؔ صاحب کو پُونا بلایا اور ایڈوانس رقم دے دی۔ جگرؔ صاحب نے کام شروع ہی کیا تھا کہ مولانا ماہر القادری نے اُن سے رابطہ کیا اور کہا کہ فلموں کے لیے گانا لکھنا تو ’’گناہ‘‘ ہے۔ جگر صاحب نے ایڈوانس کی رقم واپس کر دی اور فلمی گیت لکھنے کا خیال دل سے نکال دیا۔ کچھ ہی عرصے بعد انھیں معلوم ہوا کہ ماہر القادری صاحب خود ایک فلم (زینت) کے گیت لکھ رہے ہیں۔ یہ جگر صاحب کی بڑائی تھی کہ وہ صرف مسکرا کر رہ گئے اور ماہر القادری صاحب سے کچھ بھی نہیں کہا۔
روشؔ صدیقی تقریباََ ہر مشاعرے میں موجود ہوتے تھے:۔
غمیں نہ ہوں جو گریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہِ یار سلامت ہزار مے خانے
خُمار بارہ بنکوی نے سامعین کو کبھی مایوس نہیں کیا :۔
وہی پھر ہمیں یاد آنے لگے ہیں
جنھیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں
جہاں تک نشور واحدی صاحب کا تعلق ہے تو انھوں نے تقریباََ 60 سال پہلے کراچی میں عظیم الشان مشاعرہ ’’لوٹا‘‘ تھا:۔
پیسے کا پجاری دنیا میں سچ پوچھو تو انساں ہو نہ سکا
دولت کبھی ایماں لا نہ سکی سرمایہ مسلماں ہو نہ سکا
جگر صاحب رومانی شاعر تو یقیناً تھے لیکن انسانیت کا درد بھی اُ ن کے سینے میں تھا۔ ظلم اور تعصّب کے خلاف آواز اٹھانے میں وہ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ تقسیم کے قتل و غارت کے موقعے پر انھوں نے کہا:۔
شاعر نہیں ہے جو غزل خواں ہے اِن دنوں
آزادی کے بارے میں یہ مصرعہ سب کچھ کہہ رہا ہے :۔
اوپر اوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ
سیاسی رہنماؤں کے کردار پر کف ِ افسوس ملتے ہوئے وہ بول اُٹھے :۔
جہلِ خرد نے دن یہ دِکھائے
گھٹ گئے انساں بڑھ گئے سائے
جگرؔ صاحب نے مشاعروں کے ذریعے دولت کمائی‘ وہ ہاتھ کے کُھلے ہوئے تھے۔ یار لوگوں نے اُن سے خوب فائدہ اٹھایا۔ مگر جگر ؔ صاحب قلندرانہ مزاج بھی تھے۔ حیدر آباد دکن کے صدر اعظم مہاراجہ سر کشن پرشاد اور نواب رامپور نے ان کو ’’جاگیر‘‘ دینا چاہی تو انھوں نے یہ فرما کر معذرت کر لی کہ ’’جگرؔ کی جاگیر تو مشاعرے ہیں۔‘‘
صرف ایک شاعر ایسے تھے جو جگر ؔ صاحب کے سحر میں گرفتار نہیں ہوئے بلکہ مقابلہ پر آئے تھے۔ وہ تھے جناب ساغر ؔ نظامی جو حضرت سیماب اکبر آبادی کے شاگردِ خاص رہ چکے تھے اور اچھّے ترنّم کے مالک تھے مگر وہ حسّاس بھی بہت تھے۔ ریاست ٹونک کے ایک بڑے مشاعرے میں جگر صاحب‘ جوش صاحب اور ساغر صاحب تینوں مدعو تھے‘ منتظمین نے جگر ؔ اور جوشؔ کو الگ کمروں میں ٹھہرایا اور باقی تمام شاعروں کے لیے ایک ہال میں بستر بچھوا دیا۔
ساغرؔ نظامی سے یہ برداشت نہ ہوا۔ ’’بتاؤ میں کس طرح جوشؔ یا جگرؔ سے کم ہوں؟‘‘ انھوں نے منتظمین پر اپنا غصّہ اُتارا ’’کیا میں مشاعروں کا کامیاب شاعر نہیں ہوں؟ اگر تم نے اِن دونوں کو کمرے دیے ہیں تو پھر مجھے بھی کمرہ چاہیے۔‘‘ یہ شور سن کر جوشؔ صاحب تو مزے سے لیٹے رہے لیکن جگرؔ صاحب فوراَ َ باہر آ گئے اور ساغر صاحب سے کہا ’’آپ یقیناً کمرے کے حقدار ہیں۔‘‘ اور ہال میں ایک بستر پر دراز ہو گئے۔
جوشؔ صاحب کا ذکر آ رہا ہے تو یہ بھی سن لیجیے کہ ’’یار لوگوں ‘‘ نے مشہور کر دیا کہ جوشؔ صاحب نے غزل لکھنا اس لیے ترک کیا ہے کہ وہ اس میدان میں جگرؔ صاحب کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔‘‘ یہ بھی اُڑا دیا گیا کہ جگرؔ اور جوشؔ ایک دوسرے کے ’’رقیب اور حریف ‘‘ ہیں۔ ان باتوں میں کوئی سچائی نہیں تھی۔ دونوں دل کے بڑے تھے اور ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ یہ ضرور ہے کہ جگرؔ صاحب غزل میں چمکے اور جوشؔ صاحب نظم کے بادشاہ تھے۔
ستمبر 1960ء میں گونڈہ شہر میں جگرؔ صاحب کا 70 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا اور جوشؔ صاحب1982ء میں رخصت ہوئے۔ کیا باکمال ا ور بیمثال استادانِ فن تھے۔ اب بھی بے شمار شاعر موجود ہیں مگر اُن جیسا کہاں۔ لہٰذا میں اسی طرح ان کو خراجِ عقیدت پیش کروں گا :۔
میخانۂ اردو بہت آباد ہے تشنہؔ
آتے ہیں مگر یاد مجھے جوشؔ و جگرؔ آج
Abdul Mateen Muniri
WhatsApp Group: 00919008175269