یہ بیماری بہت پرانی ہے صرف نام نیا ہے۔ یہ کسی بھی عمر میں لگ سکتی ہے۔ جونہی آدمی کے حالات تھوڑے سے بہتر ہوجائیں وہ پاش Posh ہونے لگتا ہے۔ اور اپنے سے کم پاش پر ‘‘میں کچھ ہوں’’ کا تاثّر چھوڑنے لگتا ہے۔ حالات تھوڑے سے اور سدھر جائیں تو ‘‘میں بھی کچھ ہوں ’’ کے دائرے میں داخل ہوجاتا ہے۔ جب مزید ترقی ہونے لگے سائیکل یا بائیک کے جگہ نئے ماڈل کی کار میسّر آجائے، فیس بُک پر لائیک بڑھ جائیں، ٹی وی یا اخبار میں کچھ تصویریں یا خبریں شائع ہوجائیں اور کسی سیاستداں یا بڑے افسر سے دوستی ہوجائے تو ایک جست میں ‘‘میں ہی سب کچھ ہوں’’ کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔
لوگ زندگی پوری پرانے شہر میں گزار کر جونہی نئے شہر کے کسی پاش علاقے میں مکان لینے کے قابل ہوجاتے ہیں اچانک انہیں پرانے شہر یعنی ‘‘اولڈ سٹی’’ سے الرجی ہوجاتی ہے۔ جس سڑک پر ان کی کار کو تکلیف ہو وہ سڑک اب ان کے قابل نہیں رہتی۔ گفتگو میں پرانے شہر کے لوگوں، گڑھوں، موریوں وغیرہ کا حقارت سے ذکر کرکے اپنے ماضی کے گڑھے بھرنے لگتے ہیں۔ جب تک خود بائیک یا اسکوٹر پر سواری کرتے تھے مچھر اور مکھیوں کی طرح اڑانیں مار مار کر کرتب دکھاتے اوراچانک سامنے سے کٹ مار کر موٹر والوں کو تنگ کرتے تھے لیکن اب خود کارنشین ہوجانے کے بعد سارے اسکوٹر اور بائیک والے ان کو جاہل اور گنوار نظر آتے ہیں۔ ان کی بیویاں بھی جو کل تک بائیک کے پیچھے دو دو تین تین بچوں کو سنبھال کر بیٹھتی تھیں اور موٹر والوں کو اگر وہ تیزی سے پاس سے گزریں تو کوستی تھیں اب بچے سعودی یا امریکہ جانے کے بعد خود کار چلانے لگتی ہیں اور سامنے آنے والے سارے بائیک والوں کو کوستی ہیں۔
پاشیریا کی علامتیں (سِمپٹمس) سوٹ اور ٹائی زیب تن کرنے کے بعد زیادہ نمایاں ہوتے ہیں۔ جب تک جناب منہ نہ کھولیں انتہائی مہذّب اور ویسٹرن نظر آتے ہیں۔ یہ بے تکلفّی سے نہیں ملیں گے بلکہ احیتاط سے فاصلہ رکھتے ہوئے مصافحہ کرینگے اور سوٹ کی استری کا پورا پورا خیال رکھتے ہوئے گلے ملیں گے۔ ہاتھ دھونے کیلئے حمام جاتے اور آتے آئینے پر ایک بھر پور نظر بھی ڈال لیں گے کہ کہیں ٹائی کَن تو نہیں کھارہی ہے۔ فوٹو گرافر اگر آس پاس نظر آجائے تو ایسے پوز اختیار کریں گے جیسے ان کی تصویر کل کے اخبار میں سرِورق شائع ہونے والی ہو۔ کئی لوگ سعودی عرب آکر پاش ہوجاتے ہیں اور توپ غوترہ پہننا شروع کردیتے ہیں جبکہ سعودی لوگ خود امریکہ یا یورپ جاکر پاش ہوجاتے ہیں اور توپ غوترہ یا برقع ایرپورٹ سے ہی نکال پھینکتے ہیں۔ ہم نے بڑے بڑے قوم پرست عرب لیڈر بھی دیکھے جو امریکی صدر سے ایک ملاقات کی خاطر پاش ہوگئے، اپنا قومی لباس اتار کر ٹائی سوٹ پہن لیا۔ سنا ہے امریکی صدر نے ان کو ‘‘گُڈ بوائے’’ بھی کہا۔ اور خوش ہوکر حکمران بنے رہنے کی اجازت دے دی۔
ہم نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ پاشیریا کے وائرس پہلے پہل امریکہ لندن سے آنے والے لے کر آئے۔ اِن کے ابّاجان اور دادا جان کی شادیاں تو پرانے شہر کے کویلو کے مکانوں میں آئسکریم یا چائےکی ضیافت پر منعقد ہوئی تھیں لیکن اب انہی کی اولادوں کو پاشیریا کی وجہ سے آئسکریم یا چائے سے زکام ہوجاتا ہے۔ لڑکی والوں سے کہتے ہیں ‘‘ جہیز میں کوئی چیز مت دیجئے بس کھانا پاش ہونا چاہئے’’ یعنی فائیو اسٹار ضیافت ہونی چاہئے۔ اِن کے جہیز مانگنے کے طریقے بھی پاش ہوجاتے ہیں کیونکہ اِنہیں پتہ ہوتا ہے کہ لاکھوں کی پاش ضیافت کرنے والا جہیز بھی پاش ہی دے گا اسلئے مانگنے کی ضرورت کیا ہے۔
کئی لوگوں کو شادی کے بعد پاشیریا ہوجاتا ہے۔ اگر سسر تگڑا مل جائے تو ان کے سارے ذوق ایک ایک کرکے پاش ہونے لگتے ہیں۔ مہدی حسن یا محمد رفیع کے گانے انہیں ‘‘روتی صورت’’ نظرآتے ہیں اِن کی جگہ اب گاڑی میں مائیکل جیکسن اور شکیرا کی کیسٹیں چلتی ہیں۔ ہمارے ایک ایسے ہی دوست جن کے ساتھ ہم نے شاد کیفے میں کئی برس ایک چائے میں دو کرکے فلمی گانے سنتے ہوئے گزارے ، شادی کے بعد غائب ہوگئے۔ کئی عرصے بعد جب ملے تو ہماری شکایت کے جواب میں کہنے لگے کہ ‘‘یار، اِس علاقے میں نہ تو کوئی سلیقے کا کافی شاپ ہے نہ اسٹار بکس’’۔ ہم نے کہا کہ بھائی جب پانچ دس روپئے کے ایک چائے اور سگریٹ میں شاندار وقت گزرسکتا ہے تو سو روپئے برباد کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ کہنے لگے ‘‘یار، پیسہ اہم نہیں ہے۔ یہ دیکھنا اہم ہے کہ کس قسم کے افراد کے بیچ بیٹھ کر آپ چائے یا کافی پیتے ہیں۔ بڑے کافی ہاوس میں پی آر ڈیویلپ ہوتا ہے’’۔ ہم نے کہا کہ ‘‘ گویا ہم پانچ روپئے چائے کے ادا کریں اور پچانوے روپئے ان پاش لوگوں کے ساتھ بیٹھنے کی فیس ادا کریں جنکو ہم جانتے تک نہیں۔ اُن افراد کے ساتھ بیٹھنے سے ہمیں بھلا فائدہ کیا ہوتا ہے؟ شاد کیفے میں بیٹھنے سے کم از کم یہ تو فائدہ ہوتا ہے کہ ایک ٹیبل پر ہمیں تازہ سیاسی خبریں مل جاتی ہیں تو دوسرے ٹیبل پر نئی فلموں پر تبصرے یا محلّے والوں کے معاشقوں، طلاقوں اور منگنیوں سے آگاہی ہوجاتی ہے۔ یہ سب معلومات بھلا اسٹار بکس میں کیسے مل سکتی ہیں؟ ہاں ایسی جگہ عورتوں کو ضرور یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ہر ٹیبل پر اُنہیں نئے فیشن کے زیور، لباس اورمیک اپ اسٹائیل دیکھنے کا موقع مل جاتا ہے’’۔ یہ سن کر کہنے لگے کہ ‘‘یار اصل راز کی بات بتاتا ہوں۔ لوگ پانچ روپئے کی چائے جہاں پیتے ہیں وہاں صرف سڑک سے گزرنے والے میلے کچیلے برقعے یا وجینتی مالا اور وحیدہ رحمان جیسی پرانی شکلیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔لیکن یہاں سو روپئے میں ایک سے اعلیٰ ایک پاش گلبدن کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اسلئے لوگ شوقِ دیدار میں سو کی جگہ پانچ سو بھی خرچ کرڈالتے ہیں۔ یہاں پی آر وی آر کچھ نہیں ہوتا سوائے نئے نئے بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈز بنانے کے۔ جب تمہاری جیب میں پیسہ ہوگا تب پاش ہونے کا شعور خودبخود تمہیں آجائیگا۔ ابھی تو تم وہی پانچ روپئے کی چائے پی کر خوش رہو، دل چھوٹا نہ کرو، اللہ ہر ایک کے دن بدلتا ہے۔’’
ہمارے ایک دوست تھے جو اردو لکھنے پڑھنے سے کافی شغف رکھتے تھے۔ اُن کے تکیہ کلام عام لوگوں کی طرح ‘‘در حقیقت، میرے خیال سے، آپ جانتے ہیں ’’ وغیرہ تھے۔ کچھ دن بعد ملے تو اب ہر بات میں ایکچولّی، ایکچولّی، یو نو؛ آئی تِھنک وغیرہ کہنے لگے۔ پہلے کسی خبر پر ماشااللہ یا استغراللہ کہا کرتے تھے لیکن اب او مائی گاڈ، او جیسس وغیرہ کہنے لگے۔ پتہ چلا کہ اِنہیں ایک اچھی نوکری مل گئی ہے۔ اوڑھنا بچھونا انگریزی میں ہونے لگا ہے۔ اردو میں اب انہیں کوئی جان نظر نہیں آتی بلکہ اردو پڑھنے والوں سے اُنہیں قدامت پسندی کی بو آتی ہے۔ فلمیں بھی اب وہ انگریزی دیکھنے لگے ہیں کیونکہ ہندی فلموں میں سوائے ہیرو ہیروئین اور ویلن کے کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ تو پھر بھی ٹھیک ہے کہ چلو وہ ایک حقیقی پاش قوم کے راستے پر چل کر نصف پاش تو ہوگئے۔ لیکن ایک دوسرے دوست ایسے ہیں جو کل تک اخبار نشیمن پڑھ کر مجلس کے جلسوں میں نعرۂ تکبیر پکارا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک قومی سیاسی پارٹی میں شرکت کرلی۔ ایک دن فرمانے لگے ‘‘ دیش کی اِستتھی بہت خراب ہے۔ اگر ہم نے پریورتن لانے کی کوشش نہیں کی تو آتنک وادی اور بھرشٹاچاری اس ملک کو نشٹ کردیں گے’’۔ لوگ پاش ہوکر انگریزی بولنے لگتے ہیں یہ تو کئی بار دیکھا لیکن ہندی بول کر مہاپاش ہونے کا نمونہ پہلی بار ہمارے سامنے آیا تھا۔ ہم انہیں حیرت سے تکنے لگے۔ وہ سمجھ گئے اور ہماری حیرت کو رفع کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ ‘‘بھائی اگر روم میں رہنا ہو رومن سیکھنا لازمی ہے۔ اب ہم جن نیتاوں کے درمیان اٹھتے بیٹھتے ہیں جس بھاشا میں سیریل اور سماچار دیکھتے ہیں، اس کی وجہ سے ہماری زبان پر ہندی نہیں تو کیا اردو آئیگی؟ یوں بھی اب اردو پڑھنے کا رواج کہاں رہا سوائے آپ کی طرح کے پرانے لوگوں کے؟ ’’
پاشیریا کے سائیڈ ایفیکٹ ہمیشہ مذہب پر وارد ہوتے ہیں۔ یہ مریض اپنے طور پر خود ہی مہذب مسلمان ہونے کی سند لے لیتے ہیں۔ وعظ و درس کے محفلوں میں جانا بند کردیتے ہیں کیونکہ شیخ گوگل اور ای۔مرشد سے بیٹھی جگہ آرام سے علومِ دینی ملنے لگتے ہیں۔ ایسے ہی ایک صاحب جو پہلے قربانی کے بکرے خریدنے کیلئے ایک سے دو منڈیوں کے چکر لگاتے، بکرے کو پکڑ کے ترازو کرواتے اور تب قیمت ادا کرتے تھے، جونہی پاش ہوگئے انہیں بکروں کی منڈی کے پاس سے گزرتے ہوئے بھی اس کی بو سے چکّر آنی شروع ہوگئی۔ قصّابوں کو لانا، بکرے کٹوانا، خون بہانا، اوجڑی کی بدبو برداشت کرنا، چِرم قربانی وصول کرنے والے مولویوں کے وقت بے وقت کھٹکے برداشت کرنا ، ان سب کاموں سے انہیں وحشت ہونے لگی۔ اسلئے وہ اپنے حصے کی قربانی کے پیسے اب ان لوگوں کو دے دیتے ہیں جو گاوں جاکر جانور خرید کر وہیں غریبوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔ پہلے پھر بھی سال میں ایک بار گوشت تقسیم کرنے کے بہانے سارے رشتے داروں سے مل تو لیتے تھے لیکن اب ان کا خیال یہ ہیکہ سارے رشتے دارچونکہ خود بھی قربانی کرتے ہیں اسلئے اسی گوشت کو اَدل بدل کرنے کا فائدہ کیا ہے؟ اسی طرح پاشیریا کا ایک اور سائیڈ افیکٹ جو مذہب پر نازل ہوتا ہے وہ یہ کہ آدمی جمعہ کے دن مسجد میں خطبہ شروع ہونے سے پہلے نہیں بلکہ ختم ہونے سے ذرا پہلے داخل ہوتا ہے۔ کیونکہ ‘‘مولوی صاحب خطبے میں بور کرتے ہیں، وہی باتیں دوہراتے ہیں جو بچپن سے سنتے آرہے ہیں’’۔ اکثر پاش صاحبان وضو سے نہ ہوں تو نماز ترک کردیتے ہیں کیونکہ مسجد کے حمام ۔۔۔۔۔۔ او مائی گاڈ۔۔۔۔ ان کے قابل نہیں ہوتے۔ پھر وہ بھی وقت آتا ہے جب یہ لوگ کہتے ہیں کہ‘‘اللہ تعالیٰ جب ہر جگہ موجود ہے تو آدمی گھر پر نماز کیوں نہیں پڑھ سکتا؟’’۔
ہم سجھتے تھے شاعر حضرات پاشیریا سے پاک ہوتے ہیں۔ پہلے پہل جدہ کے مشاعروں میں جب ہم انہیں آنے کی دعوت دیتے اور معاوضہ پوچھتے تو وہ بڑی خاکساری کے ساتھ کہا کرتے کہ جناب آپ ہمیں اتنے مقدس مقام پر آنے کا شرف عطا کررہے ہیں مکّہ مدینہ کی زیارت سے سرفراز فرمارہے ہیں اب ہم معاوضہ کیسے لے سکتے ہیں’’۔ لیکن یہی لوگ جب دو چار بڑے مشاعرے پڑھ لیتے ہیں، ان کی شہرت کا پارہ تھوڑا چڑھ جاتا ہے اور جیب میں کچھ مال آجاتا ہے تو پوچھتے ہیں۔ ‘‘معاوضہ کیا ملے گا؟ کس ہوٹل میں ٹھہرائیں گے؟ ضیافت ان کے خرچ پر ہوگی یا میزبانوں کے؟’’ سعودی عرب میں تو ان کی پسندیدہ ضیافت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی کرتا ہوا پکڑا گیا تو خود اسکو اور شاعر دونوں کو کوڑے پڑسکتے ہیں۔
آدمی کو کب پاشیریا ہوجائے اسکا اسے خود بھی اندازہ نہیں ہوتا ہاں؛ جب یہ نشہ اتر جائے جب ضرور پتہ چلتا ہے۔ جیسے ایک نوکر تھا رامو۔ وہ ہر روز سودا سلف لانے میں پانچ دس روپئے بچالیتا تھا۔ جب کافی رقم جمع ہوگئی تو اسے بھی پاشیریا ہوگیا۔ ایک دن جب مالک نے اسے رامو کہہ کر پکارا تو کہنے لگا ‘‘صاب، یہ رامو رامو اچھا نہیں لگتا، آپ مسٹر رامو یا رامو صاحب کہہ کر بلایئے تو مہربانی ہوگی’’۔ مالک بڑا چالاک تھا، سمجھ گیا کہ راز کیا ہے۔ ایک دن جب رامو گھر پر نہیں تھا تو اس نے اسکے کمرے کی تلاشی لی اور ساری رقم غائب کردی۔ جب رامو نے رات میں دیکھا کہ اب وہ پھر سے پیدل ہوگیا ہے تو بڑا اداس ہوگیا۔ اگلی صبح جب مالک نے ‘‘رامو صاب’’ کہہ کر پکارا تو لاچارگی سے کہنے لگا ‘‘ صاب یہ صاب واب چھوڑیئے سیدھے سیدھے رامو ہی کہہ کر پکاریئے’’۔
اس موقع پر ہمیں حسبِ حال دو اشعار یاد آرہے ہیں۔
میری غربت کو شرافت کا ابھی نام نہ دے
وقت بدلا تو تری رائے بدل جائیگی
جسے غریب سمجھ کر میں جھک کے ملتا ہوں
وہ دن بدلتے ہی کیا جانیئے خدا ہوگا۔
علیم خان فلکی ۔ جدہ دسمبر 2014