قہقہ خوشگوار زندگی کی علامت ہے۔اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے ایک ریسر چر ڈاکٹر ولیم نے تیس سال انسانی صحت پر ہنسے کے اثرات کی تحقیقی کی ہے۔انہوں نے کہا ہ جب ہم ہنستے مسکراتے ہیں تو ہمارے لا تعداد عضلاتحرکت میں آ جاتے ہیں۔ان عضلات کا حرکت میں رہنا صحت اورتندرستی کے اصولوں کے مطابق ہے۔مسکراہٹ سے جسمانی تھکاوٹ کا احساس ختم ہو جاتا ہے۔زہنی دبائو یا ٹینشن میں کمی ہوتی ہے۔بیزار سے بیزار شخص کو ایک قہقہ یکثر تبدیل کر دیتا ہے۔جبکہ دوسری صورت میں طبیعت کا بوجھل پن روگ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔اس قسم کے افراد چڑ چڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ایسے لوگوں کی صبحت سے اکثر لوگ کتراتے ہیں۔اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اپنی لطیف اور خوشگوار طبیعت سے خود بھی خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھیں تو ان باتوں پر عمل کریں۔
خوش مزاج لوگون سے میل جول بڑہائیں۔اگر آپ اپنی طبیعت میں مایوسی اور اضمحلال محسوس کر رہے ہیں تو کوئی مزاحیہ درامہ یا فلم دیکھیں یا کوئی مزاحیہ کتاب پڑھ لیں ۔مزاج میں شگفتگی پیدا ہو جائے گی۔کچھ وقت بچوں کے ساتھ گزاریں۔ان کی سطح پر ان کے ساتھ وہی کھیل کھیلیں جو بچے پسند کرتے ہیں۔بچوں کی نادانیوں پر انہیں برا بھلا کہنے کے بجائے یہ سوچیں کہ آپ بھی کبھی ایسا کرتے ہوتے تھے۔اپنی زندگی میں رنگوں کی ترتیب اور استعمال پر غور کریں۔اگر آپ بہت گہرے رنگ استعامال کر رہے ہیں تو آپ گہرے رنگ شروع کر دیں۔
جب آپ ڈیپریس ہوں تو آئینہ میں اپنی شکل دیکھیں اپنی منہ بسورتی شکل دیکھ کر خود آپ کو ہنسی آجائے گی۔کہ یہ میں نے کیا شکل بنا رکھی ہے۔اپنے آپ کو یقین دلائیں کہ آپ مشکلوں سے مقابلہ کرنے والے زندہ دل شخص ہیں۔
مزاح نگار کوزبی کا کہنا ہے کہ طبیعت کی شگفتگی کی وجہ سے ہم زندگی کے مشکل اور کٹھن ترین واقعات کو خوشدلی سے برداشت کرلیتے ہیں۔آپ کیسی ہی تکلیف دہ صورتحال سے کیوں نہ دوچار ہوں بس ایک مرتبہ ہنس دیں تو یقیناًذہنی پریشانی سے چھٹکار اپا لیں گے۔
ایک مرتبہ ایک مغربی مزاح نگار کی ائیر پورٹ پہنچنے پر طبیعت تشویشناک حد تک نا خوشگوار ہو گئی۔اسے فوری طور پر ایک ایمبولینس میںڈال دیا گیا۔اس کے منہ پر آکسیجن ماسک لگا دیا گیا۔جس کی لمبی ربڑ کی نالی نارنجی رنگ کے سلنڈر سے منسلک تھی۔جو اسک ی ٹاگو کے درمیا ن پھنسا ہوا تھا۔ایمبولنس کے عملے کے ایک فرد ے اس کی تانگیں سیدھی کرتے ہوئے اس سے پوچھا تم ٹھیک ہو نا۔
ہاں لیکن آکسیجن کے رکتے ہی میری طبیعت خراب ہو سکتی ہے۔یہ کہ کر اس نے اپنی حالت پر گور کیا تو اسے ہنسی آگئی۔اسے مسکراتا دیکھ کر ایمبولنس میں موجود دیگر افراد بھی ہنس پڑے۔اور ہسپتال تک کا راستہ بہت جلد طے ہو گیا۔
خوش مزاجی دراصل نفسیاتی صحت مندی کی علامت ہے۔آپ اپنے اطراف میں موجود واقات کو کس طرھ دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔سوچیے کیا مسائل کا رونا رونے سے مسائل حل ہو جاتے ہیں؟آپ کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا۔تو آپ کے پاس جو وقت ہے اسے کیوں نہ خوشی سیگزارا جائے۔اگر آپ کہتے ہیں کہ جب دل اداس ہو تو مصنوعی ہنسی ہنسنے کا کیا فائدہ؟۔۔۔تو آپ غلطی پر ہیں۔آپ مصنوعی مسکراہٹ ہی اپنے لبوں پر سجا لیجیے۔یہ بہت جلد آپ کو حقیقی طور پر مسکرانا سکھا دے گی۔