شازیہ عندلیب
وہ دونوں گہرے دوست تھے۔اکثر اکٹھے نظر آتے۔گو کہ ان کے مزاج میں کافی فرق تھا پھر بھی ان کی گاڑہی چھننی تھی۔ایک فربا ء جبکہ دوسرا اسمارٹ تھا۔کرسٹوفر ڈیوڈ کی نسبت اسمارٹ اور پھرتیلا ہونے کے ساتھ ساتھ خاصا رنگین مزاج بھی تھا۔اسے جیسے ہی کوئی لڑکی شوخ لباس اور زیورات مں ملبوس نظر آتی اسکی نظریں اسکا طواف کرنے لگتیں۔جبکہ آندریاس کو لڑکیوں کی نسبت کھانے پینے سے دلچسپی تھی۔اس کی نگاہیں ہر وقت کوئی نہ کوئی کھانے پینے والی چیز کی تلاش میں بھٹکتی رہتیں۔جبکہ کرسٹوفر کبھی کبھی لڑکیوں کے زیورات کو اس قدر للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھتایوں لگتا جیسے وہ چور ہو اور انہیں چوری کا ارادہ رکھتا ہو۔اس کے ماضی کے بارے میں کسی کو ذیادہ علم نہیں تھا۔بس صرف اتنا ہی پتہ تھا کہ وہ اس سے پہلے کسی عراقی کے گھر رہتا تھا۔اب یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ عراقی زیورات کا سوداگر تھا یا چور بہر حال کرسٹوفر کویہ عادت کہیں نہ کہیں سے ضرور پڑی تھی۔
ایک روز تو حد ہی ہو گئی۔ریٹا ڈرائنگ روم کی طرف جا رہی تھی کہ اسے آندریاس دروازے کے پاس اکیلا کھڑا نظر آیا۔کرسٹوفر کہیں نظر نہیں آ رہاتھا۔ریٹا کو دیکھ کر اس نے ہلکی سی سیٹی ماری اور مڑ کر ریٹاکو دیکھنے لگا۔اتنے میں کرسٹوفر بھی تیزی سے آندریاس کے پاس آگیاریٹا نے جلدی سے اس سمت دیکھا جدھر سے کرسٹوفر بھاگ کر آیا تھا۔وہاں گلدان کے آس پاس کچھ گلاب کے پھول بکھرے ہوئے تھے۔
اچھا تو موصوف پھولوں سے کھیل رہے تھے۔اس نے سوچا ۔اس کے دوست نے اسے سیٹی بجا کر وارننگ دی کہ ریٹا آ رہی ہے جلدی سے واپس آئو ورنہ وہ پھر انہیں واپس پنجرے میںنہ بند کر دے ۔کیونکہ آج چمکیلی دھوپ تھی۔ اور ریٹا نے صبح ہی اپنے پیرا کٹ طوطوں کی خوبصورت جوڑی کو باہر نکالا تھا۔اور فربا طوطے آندریاس نے اسے سیٹی بجا کر اطلاع دی تاکہ وہ پکڑا نہ جا سکے۔رنگین مزاج کہیں
کا۔یہ سوچ کر ریٹا مسکرا دی۔