تحریر: حسیب اعجاز عاشر
ظالم درندے آگئے ہستی کے باغ میں۔۔آنکھیں ہیں اشک بار، ہے منظر لہولہو
کس نے بہایا خون ہے ننھے فرشتوں کا۔۔اے پھول! ہو گیا ہے پشاور لہو لہو
یہ سانحہ پشاور کی داستانِ دلفگاراتنی وحشت ناک ہے کہ تاریخِ عالم میںانسانیت کی ایسی تذلیل کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی۔بہت کچھ ہے جولکھنا بھی ہے۔ مگرکہاں سے شروع کیا جائے؟ کیسے لکھا جائے؟کہاں سے لائوں ہمت؟ وہ اندازوہ الفاظ جو میرے احساسات کی حقیقی ترجمانی کر سکیں؟تکلیف کی شدت بیان کرنے کے لئے ”شدت” کا لفظ بھی کوئی حثیت نہیں رکھتا۔ذات پات، نسل ،قوم ، مسلک ، مذہب سے قطع نظر سبھی غم میں سوگوار ہیں آنکھیں اشکبار ہیں، دل لہو لہو ہے،ایسا درد ہے کہ سونے نہیں دیتا ایسی بے چینی ہے کہ دن کٹتنے کا نام نہیں لیتا۔
یاد آتے ہیں اکبر و قاسم۔۔ظالمو! غم ہے دیدہ تر میں
خون پھر بہہ گیا ہے اصغر کا۔۔منظرِ کربلا پشاور میں
گھروں میں کہرام مچا،جنازے اُٹھ چکے،تدفین ہو چکیں،تعزیتی اجلاس ہو چکے،شماعیں جل کر بجھ چکیں،مذمتیں ہو چکیں،مگر وہ مسلی ہوئی کلیاں،وہ بکھری ہوئی پتیاں،وہ جھلسی ہوئی ٹہنی ،وہ چھلنی درخت ،وہ بربادخون میں لت پت چمن،اُس چمن کی بے بسی کی بھی بے بسی میں اُٹھنے والی چیخ و پکار ،آوہ بکا اور دھاڑیں،نظروں سے اُوجھل ہونے کا نام نہیں لے رہے۔عالم سکتے میں ہے کہ آخر ظلم کی بھی کوئی انتہا تو ہوتی ہے ،ظالم ِ وقت بھی اِس ظلم پر چیخ اُٹھے ہیں کہ اُن انسانی روپ میں درندوں نے کیسے١٤٨ بیگناہ انسانوں کو چن چن کر تاک تاک کر سروں اور چہروں پے گولیاںمار کر کر شہید کر ڈالا۔وہ گولیاں اور باردو بھی اپنے مقدر پہ روتے ہونگے۔یہ سوچ کر ہی تن بدن کانپ اُٹھتا ہے کہ دنیا کی اشرف مخلوق کوکس طرح کسی ایندھن کی خشک لکڑی کی مانند جلا ڈالا اُن خبیثوں نے، مگر اُس شہید دلیر ٹیچر کو سلام کہ وہ تڑپ رہی ہے، جل رہی ہے، مر رہی ہے مگر بچوں کو بھاگنے کا کہہ رہی ہے۔کیا کیفیت ہو گی اس معصوم ننھے غازی کی جو منہ میں ٹائی دبائے اپنے اِردگرد پڑی دوستوں کی لاشوں اور سامنے خون کے پیاسے درندوںکی موجودگی میں زندگی اور موت کی کشمکش سے تن تنہا لڑ رہا تھا ،جسے شاید یہی علم تھا کہ اب اُسکی باری ہے۔آرمی پبلک سکول پر وحشیانہ ،بزدلانہ حملہ کرنے والوں کو انسان کیا حیوان بھی لکھوں تو کیسے لکھوں ؟کیوں کہ ٍحیوانوں کے بھی کچھ احساسات ہوتے انہیں بھی اپنے بچوں کی حفاظت کرناخوب آتی ہے اور وہ بھی اپنے ہم جنس جانوروںکومارنے کے بجائے، بچانے کی ہرممکن کوشش کرتے ہیں،ایک کتے کو مارو تو سبھی احساس درد سے بھونک اُٹھتے ہیں۔ تویہ کون تھے ؟ جنکے پاس نہ دل تھے نہ دماغ نہ بصیرت نہ سماعت ،نہ رحم تھا نہ ہی ضمیر ؟یہ کون تھے ؟جوجو بغاوت اور عداوت کی حدوں کو ماننے سے بھی عاری تھے۔کیا اُنکی کوئی اولاد، کوئی باپ، کوئی بہن ،کوئی ماں،کوئی بھائی اور کوئی دوست بھی نہ تھے جو اُن بد بختوں کو کسی معصوم بچے یا کسی ٹیچر کے روپ میں نظر آ کراِن کے ضمیر جھنجوڑ دیتے،ہاتھ جوڑ کر پاوں پکڑ کر رحم کی اپیل کر دیتے،کہ اباجان خدا کے واسطے مجھے گولی نہ مارو، بھائی تجھے قرآن کا واسطہ مجھے آگ نہ لگائو؟یہ کون تھے ؟جوا اللہ اکبر کا نعرہ لگاکر دین کا مذاق اُڑاتے رہے ؟یہ کون تھے ؟ جو طالبِ علموں کو بے رحمی سے شہید کرکے طالبان ہونے کے دعویدار تھے؟یہ کون تھے ؟جوجنت کے پھولوں کو کچل کر جنت کے طلبگار تھے؟یہ کون تھے ؟جوانسانوں کے روپ میں انسانیت کو تار تار کرتے رہے؟سب کچھ سمجھ سے بالاتر ہے۔
آج بھی خبروں،کالموں،تبصروں میں ہر دن ہر پل اس سانحے کے حوالے سے کوئی نہ کوئی دل دہلکا دینے نئی داستانیں سامنے آکر تازہ زخموں کو کرید دیتیں ہیں۔”اشک بن کر بہہ گیا آنکھوں میں جتنا خون تھا۔۔ہم سے کب دیکھی گئی تھیں سرخیاں اخبار کی”کیا کیا خواب تھے ماں کی آنکھوں میں ؟کیا کیا ارمان تھے باپ کے دل میں؟۔۔۔۔مگر۔۔۔۔ننھے منے شہیدسب کے سب ادھورے چھوڑ کر آنکھوں کو آبدیدہ، دلوں کے افسردہ کر گئے ۔وہ چمن پھر سے آباد ہو جائے گا، شجر پھر لہلہانے لگیں گے،کلیاں کھلنے لگیں گی مگر ان معصوم شہیدوں کے لہو کی خوشبو درو دیوار سے،کتابوں کے اوراق سے ،قلم کی سیاہی سے، آتی رہے گی جو کبھی چھپائی اور کبھی مٹائی نہیں جا ئے گی۔آہیں” عرش تک پہنچیں ہیں۔انکا بہے ہوئے لہو کا ایک ایک قطرہ رائیگاں نہیں جائے گا انشاء اللہ۔١٩٤٧ کی عظیم قربانی نے اس آزاد پاکستان کی بنیاد رکھی۔اور اب اِن ننھے منے معصوموں نے اپنے لہو سے اس پاکستان کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے اپنا حق ادا کر دیا ہے کہ آج ہم باہمی اختلافات بھلا کر متحد ہوئے ہیںاور پچھلے چند ماہ سے جاری پاکستان میں غیر یقینی سیاسی صورتحال کا خاتمہ ہواہے۔عمران خان نے فی الفور اپنے مطالبات اور مفادات کو بالا طاق رکھ کر ملک کے عظیم ترین مفاد میں دھرناختم کرنے کا اعلان کر دیاجسے ہر سطح اور ہر حلقے میں سراہا گیا ہے۔تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں ایک موقف پریکجا نظر آرہی ہیں کہ دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینکنا نہیں،بلکہ جلا ڈالنا ہے۔سبھی کو احساس ہو چکا ہے کہ باہمی اتحاد اور تعاون سے ہی اس ملک کو امن کا گہوارہ بنایا جا سکتاہے۔
عوام نے تمام رہنماوں کا ایک صف میں کھڑے ہونیکا خیر مقدم کیاہے ۔وزیرِاعظم نواز شریف کا کہناکہ” دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت خود کرونگا”، دہشگردی کوئی عام قسم کا مرض نہیںبلکہ ایک کینسر جیسی بیماری ہے ،جسکااگر بروقت علاج نہ کیا گیاتو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریگی۔ انہوں نے کہا کہ قوم کی نگاہیں ہماری طرف ہیں، لولے لنگڑے فیصلوں کا کوئی فائدہ نہیں ۔غیر معمولی صورتِ حال میں غیر معمولی فیصلے کرنا ہو نگے ،جبکہ دیگر قائدین کے بیانات”آئندہ نسلوں کو دہشت گردی سے پاک پاکستان دینا فرض ہے،حکومت سے مکمل تعاون کرینگے:جنرل راحیل”، ”دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے اسباب کو ختم کرنا ہوگا،:عمران خان”، ”حکومت دہشت گردی کے خلاف قومی جنگ کا اعلان کرے: طاہر القادری”، ”دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے قانون کی حقیقی حکمرانی قائم کرنا ہوگی،: سراج الحق”، ”دہشت گردی کے خلاف حکومت کے ساتھ ہیں: خورشید شاہ”،”دہشت گردوں کو عبرتنا ک سزائیں ملنی چاہیے: فضل الرحمن”، ”ملک دشمن کا جڑ سے صفایا کر دیا جائے:الطاف حسین”،”آخری دہشت گرد کے تعاقب تک باہمی اتحاد قائم رہنا چاہیے: افتخار حسین”سب بھی بظاہر باعث تقویت اور کافی حوصلہ افزاء ہیں۔وطن کی خدمت کے لئے سیاسی اور عسکری قائدین کااکٹھے ہوجاناخوش آئند بات ہے ۔
معصوموں کا لہو رنگ لا رہا ہے۔اے پی سی بیس نکاتی جامع ایکشن پلان کو عوامی حلقے میں خوب سراہا گیا ہے۔جس میں پھانسی کی سزائوں پر عملدرآمد، سپیشل ٹرائل کورٹس کا قیام، عسکری تنظیموں اور مسلح جتھوں پر پابندی، نیکٹا کی فعالی، نفرت انگیز موادپر پابندی، دہشت گردوں کی مالی معاونت کے وسائل کا خاتمہ، کالعدم تنظیموں کے ناموں میں ردوبدل پر پابندی، سپیشل اینٹی ٹیرراسٹ فورس، اقلیتوں کے تحفظ، مدارس کے لئے ضابطہ بندی، میڈیا پر دہشگردوں کے نظریات کی تشہیر پر پابندی، آئی ڈی پیز کی واپسی، دہشگردوں کے مواصلاتی نیٹ ورک کے خاتمہ، سوشل میڈیا پر چیک ان کنٹرول رکھنا، تمام صوبوں سے انتہا پسندی کے خاتمہ، کراچی میں جاری آپریشن میں تیزی کرنا، بااختیار بلوچستان، فرقہ ورانہ عناصر کے خلاف کاروائی کرنا، افغان مہاجر کی رجسٹریشن شامل ہیں۔
تمام محبت وطنوں کا یہی خیال ہے کہ حالات یہ تقاضا کرتے ہیں کہ محب وطن اور دشمنانِ وطن کے درمیان ایک واضح لکیربھی کھینچ دی جائے۔دہشت گردی اور دہشت گردوں کی تعریف و شناخت کا پیمانہ بھی طے کر دیا جائے اور پھر واضح کیا جائے کہ اِس دشمن کے لئے نرم گوشہ رکھنے والا،سہولت کار بننے والا، حمایت میں خاموش رہنے والابھی ہمارا دشمن ہی ہے ،اور اِسکی بھی وہی سزا جو دشمن کی۔دانشواروں کی رائے میں پاکستانی قوم ایک زندہ قوم کے طور پر اُبھری ہے ، اے پی سی میں کئے جانے والے فیصلے قابلِ تحسین ہیں، سیاسی و عسکری قیادت کا متحد ہونا قوم کے لئے نیا پیغام ہے،حکومت مکمل بااختیار ہو چکی ہے،بظاہری نیت صاف ،ارادے نیک اور عزائم بلند ہیں۔حکومت کو اب اپنے لفظوں کی لاج رکھتے ہوئے ہر حال میں فیصلوں پر عمل درآمد کرنا ہوگا ۔کیونکہ اِس شدید کرب کی گھڑی میں دل گرفتہ پاکستانی اب صرف مثبت نتائج کے منتظر ہیں۔وہ صرف معصوم شہیدوں سمیت بے گناہ شہریوں کے قاتلوں ،دہشت گردوںاور تخریب کاروں کا عبرت ناک انجام ہی نہیں چاہتے،بلکہ اپنے اور آئندہ نسلوں کے جان مال آن کے تحفظ کی یقین دہانی بھی چاہتے ہیں۔
حصول امن کے لئے دہشت گردے کے خلاف اِس جنگ میں فوج تو پہلے ہی ٥٠٠٠ سے زائدانوجوانوں کی قربانیاںدے چکی ہے اوراب بھی جذبہ ایثار سے سرشارہے۔ آج سیاست دان بھی وطن کی بقاء و سلامتی کے لئے ہر قربانی دینے کا عہدکر رہے ہیں ۔تو کیوں نہ ہم بھی عہدکریں کہ”معصوموں کا لہو رائیگاں جانے نہیں دیں گے” اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں، پہلے تو اللہ کے حضور اپنے گناہوں پر استغفار کریں،ہر شر سے پناہ مانگیں۔اپنے اندر چھپے ہوئے دہشت گرد کو بھی ماریں۔جودوسرے مسلک کو برداشت نہیں کرتا۔جو دوسری قوم کو برداشت نہیں کرتا ۔ جو دوسری سیاسی جماعت کو برداشت نہیں کرتا۔جو اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کرتا۔جو”میں ،میںاور بس میں” کی رٹ لگائے بیٹھا ہے۔اُن نام نہاد مذہب کے ٹھیکیداروں کونظرانداز کریں جو اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر کافر کے فتوے لگا دیتے ہیں۔گردونواح سے با خبر رہیں۔ اپنی اولادوں کی تعلیمی اور تفریحی مصروفیات پر نظر رکھیں۔بس دہشت گردی کے خاتمے کے لئے سیاسی قائدین اور افواجِ پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوں جائیںتا کہ عالم میں اپنا وقار حاصل کر سکیں۔ شاعر صباحت عاصم کی اِس نظم پر اختتام کرتا ہوں
چلو یہ عہد کرتے ہیں
کہ معصوموں کا پاکیزہ لہو ہم رائیگاں جانے نہیں دیں گے
چلو تاریخ پر کچھ غور کر کے
آج یہ اقرار کرتے ہیں
کہ ہم نے اپنے بچوں کو
تحفظ اور خوشحالی فراہم کی نہیں ہے
کہو، تسلیم کرتے ہیں کہ ہم غافل رہے ہیں
کہو،یہ مانتے ہیں ہم سے کوتاہی ہوئی ہے
لیکن اب بات کھل کر
کہو، لیکن کہ کبھی آئیندہ پھر ایسا نہیں ہوگا
آو یہ عزم کرتے ہیں
کہ اپنی سرزمین پر ظلم پھر ہونے نہیں دیں گے
کسی بھی رہنما کو اب غلط رستے پہ ہم چلنے نہیں دیں گے
گلی،کوچوں،محلوں،درسگاہوں میں
ذرا سا خون بھی
حق کبھی بہنے دیں گے
آو آج سب مل کے کہتے ہیںکہ
ہمیں اُس کی قسم کہ جس نے ہم کو زندگی دی ہے
کسی صورت بھی معصوموں کا پاکیزہ لہو ہم رائیگاں جانے نہیں دیں گے