بنارس تیرے کیا کہنے

رضا علی عابدیbanaras 2

الہ آباد سے آگے تک جہاں جہاں جی ٹی روڈ چلی، ساتھ ساتھ سیدھے سپاٹ کھیت نظر آتے رہے۔ تپتی دھوپ میں آنکھیں سائے کے منظردیکھنے کو ترس گئی تھیں کہ اچانک درختوں کے جھنڈ آ گئے۔ باغوں کی ٹھنڈی چھائوں آئی اور ان کے ساتھ کوئل کی وہ پکارجسے سن کر آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے ،آنکھ کا نشہ کا وہ گانا ذہن میں مچلا: کوئلیا مت کر پکار… کریجو الاگے کٹار پھر اچانک یاد آیا کہ یہی بنارس تو آغا حشر کا شہر ہے۔ بمبئی اور کلکتے کے تھیٹر سے نکل کر جس کی پکار ادب اور ناٹک کی دنیا کے کونے کونے تک گئی ،یہ اسی آغا حشر کی بستی ہے۔ چلیں اور وہ گلیاں اور وہ درودیوار ڈھونڈیں جن میں ایسا عہد ساز ذہن پروان چڑھا۔ گنگا کی لہروں کے دھیمے دھیمے تھپیڑوں اور باغوں میں کوئل کی پکاروں نے جس کے دل میں کیسا سوز وگداز نہ بھرا ہو گا۔ چناںچہ ہم گئے اور نہ صرف آغا حشر کی گلیاں ڈھونڈ نکالیں بلکہ ان کے سوزوگداز کی داستانیں سنانے والی ایک شخصیت کو بھی پا لیا۔ وہ تھے آغا محمد شاہ حشر کاشمیری کے بھتیجے آغا جمیل کاشمیری! یہ بنارس کے محلہ گووندپورا کلاں کا ناریل بازار تھا جہاں ایک تختی لگی نظر آئی: آغا حشر لین۔ اسی گلی میں وہ مکان ابھی جوں کا توں موجود ہے،جہاں ۳اپریل ۱۸۷۹ء کو آغا حشر پیدا ہوئے۔ ان کے کاغذات، تحریریں اور ڈراموں کے مسودے وہ سب اسی گھر میں محفوظ ہیں۔ صرف یہی نہیں، وہ مسہری بھی جس پر وہ سوتے، وہ آرام کرسی جس پر بیٹھتے، وہ میز جس پر لکھتے، وہ پیالیاں جن میں وہ چائے پیتے… یہ ساری اشیا بڑی احتیاط سے رکھی گئی ہیں۔ دنیائے ادب کی یہ گرانقدر امانت سنبھالے آغا جمیل کاشمیری بے قدری کے اس دور میں ایسی شخصیت ہیں کہ اگر کسی کو دیکھنا ہو کہ امین کیسے ہوتے ہیں، وہ جا کر آغا حشر کے چھوٹے بھائی آغا محمود شاہ کے بیٹے کو دیکھے۔ ان کی زبان سے آغا حشر کی باتیں سنیے: بڑے ابّایوں تھے۔ یوں بیٹھتے، اس طرح خوش ہوتے،یوں ٹہل ٹہل کر منشیوں کو ڈرامے لکھواتے اور گھٹا گھر کر آئی ہو اور احباب کا جمگھٹا ہو تو یوں زبان کے تکلف اٹھا دیتے۔ میں پہنچا تو دیر تک بڑے ابا کے ناٹکوں کی باتیں سناتے رہے۔ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ میرے اصرار پر ناٹک کے بول سنائے۔ سٹیج پر ہیروئن کس طرح بولتی تھی۔کوئلیا مت کر پکار، کریجو الاگے کٹار، انھوں نے گا کر سنا دیا۔ پھر نصرانی کی لڑکی کا ایک گانا، مجھ سے یہ وعدہ لے کر کہ میں ہنسوں گا نہیں، انھوں نے وہی تھیٹر کے انداز میں سنا دیا: والی تُو جگ کا ہے والی تُو جنم جنم ترے نور کی تجلی ڈالی ڈالی، اعلیٰ اعلیٰ، کوئلیا کو کے توجگ کا ہے والی تُو بنارس علم و ادب کا شہر رہا ہے۔ یہ کبیر، تلسی، چندر بھان، پریم چند کا شہر ہے۔ فارسی شاعر علی حزیں یہیں دفن ہیں۔ رجب علی بیگ سرور نے زندگی کے کتنے ہی برس یہاں گزارے۔ جگر مراد آبادی یہیں پیدا ہوئے۔ غالبؔ کلکتے جاتے ہوئے صرف ایک مہینے بنارس میں رہے ،مگر وہ مہینا عمر بھر یاد رکھا۔ علم و ادب اور درس و تدریس کے اس شہر پر اب بڑی افتاد پڑی ہے۔ سفید پوشی کے لیے اور دووقت پیٹ بھرنے کی خاطر اب گھروں کے لڑکے جولاہے اور ٹھٹھیرے بن چکے۔ سب سے برا حال مسلمانوںکا ہے۔ میں جن دنوں جرنیلی سڑک پر جا رہا تھا مجھ سے آگے آگے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر سید حامد سفر کرتے رہے۔ ہرجگہ لوگ مجھے بتاتے کہ وہ آئے تھے۔ التجائیں کررہے تھے کہ گھر کے لڑکوںکو دست کاری یقینا سکھائیں ،مگر یونیورسٹی کی تعلیم بھی دلوائیں۔ روزی کی خاطر انھیں علم کی دولت سے محروم نہ رکھیں۔ علم پانے کی ضرورت کا احساس ایک نسل سے دوسری کو منتقل ہوتا ہے۔ اگریہ کڑی ٹوٹ گئی تو ہمارے ہاتھوں میں صرف جہالت کی ڈور رہ جائے گی۔ چند دن بعدہندوئوںکے علم کا حال دیکھنے بنارس ہندو یونیورسٹی پہنچا۔ شہر سے ذرا باہر گنگا کنارے نہایت صاف ستھرا اور آراستہ کیمپس۔ دائرے بناتی ہوئی سڑکیں،باغوں اور روشوں کے پچھواڑے‘ سلیقے اور ترتیب سے بنی ہوئی عمارتیں۔ خالص ہندو طرز کے در، ویسے ہی ستون اور ویسی ہی جالیاں۔ درس گاہوں، انتظامی دفتروں، رہائش گاہوں یہاں تک کہ معمولی خدمت گاروں کے کوارٹروں کی عمارتیں بھی اسی طرز تعمیر کا نمونہ تھیں۔ میں اردو کے نوجوان اور ہونہار استاد ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی کے پاس پہنچا اور ان سے پوچھا کہ بتائیے بنارس میں تعلیم کا کیا حال ہے؟ انھوں نے بتایا: چونکہ یہاں بیشتر مسلم آبادی کی معیشت کا دارومدار دستکاری پر ہے، اس لیے ان لوگوں کی توجہ تعلیم کی طرف نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں تعلیمی اداروں میں بنارس ہندو یونیورسٹی بہت بڑا ادارہ ہے۔ اس میں بھی مسلمان طلبا کی تعداد نسبتاً کم ہے۔ اول تو تعلیم کی طرف ان کی توجہ کم ہے۔ دوسرے اس علاقے کے مسلمان طلبا زیادہ تر علی گڑھ کا رخ کرتے ہیں۔ اکثر و بیشتر باہر کسی سے ملاقات ہو،تو وہ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ آپ ہندو یونیورسٹی کے کس شعبے میں ہیں؟ جب عرض کروں کہ شعبۂ اردو سے متعلق ہوں، تو بہت حیرت کے ساتھ دریافت کرتے ہیں کہ کیا بنارس میں اردو کا شعبہ بھی قائم ہے؟ میں ان کے سامنے اکثر و بیشتر یہ کہتا ہوں کہ صرف اردوہی نہیں یہاں فارسی اور عربی کے شعبے بھی ہیں، لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ آپ اس طرف آتے نہیں، توجہ نہیںدیتے۔ یہ صورت حال ہے۔ چلیے مانا کہ ہندو یونیورسٹی کے نام میں کچھ ایسی تاثیر ہو گی کہ مسلمان نوجوان ادھر کا رخ نہیں کرتے، تو پھر شہر میں ایک مسلم جامعہ بھی ہے۔ چل کر اسے دیکھا جائے۔بنارس کا مرکز دارالعلوم ریوڑی تالاب کے علاقے میں ہے۔ نہایت بڑی اور شاندار عمارت ہے۔ جماعتیں لگی ہیں، امتحان ہو رہے ہیں، تحقیق ہو رہی ہے، کتابیں چھاپی جا رہی ہیں، جریدے نکالے جا رہے ہیں، کتب خانہ آراستہ کیا جا رہا ہے، اقامت گاہیں بن رہی ہیں، جامعہ کا اسپتال تعمیر ہو رہا ہے اور فتاویٰ جاری ہو رہے ہیں،مگر یہ درس گاہ علمائے دین تو پیدا کر دے گی، آج کی دنیا کے قدم سے قدم ملا کر چلنے والے نوجوان کہاںسے لائے گی؟ میں نے مرکز دارالعلوم کے استاد مولانا صفی الرحمن سے پوچھا کہ تنے بڑے ادارے میں پرائمری کے پانچ سال اور عربی تعلیم کے دس سال لگانے کے بعد لڑکے کیا کرتے ہیں؟ انھوں نے کہا:عام طور پر کسی نہ کسی جگہ وہ تدریس کا کام کرتے ہیں، یعنی بڑی تعداد ایسے طلبا کی ہے جو پڑھنے پڑھانے کا کام یا مساجد میں امامت اور خطابت کا بھی عمل انجام دیتے ہیں۔ کچھ تجارت میں لگ جاتے ہیں۔ کچھ یہاں کی سند کی بنیاد پر کسی میڈیکل کالج میں داخلہ لیتے اور ڈاکٹر بن جاتے ہیں۔ خاصی تعداد یہاں سے فارغ ہو کر کسی عرب ملک خاص طور پر سعودیہ میں مزید تعلیم پانے پہنچتی ہے۔ وہاں انھوں نے بہت کچھ آسانیاں اور سہولتیں حاصل کیں۔ کچھ لوگوں نے ایم اے کیا اور کچھ لوگ پی ایچ ڈی میں بھی پہنچے۔تو یہ تھا بنارس کا مرکزی دارالعلوم جس کی اعلیٰ جماعتوں میں تقریباً چار سو لڑکے زیرتعلیم تھے۔ان میں سے ساڑھے تین سو گونڈہ، بہار اور بنگال سے آئے ہیں، خود بنارس کے بمشکل پچاس لڑکے ہیں۔ اس شہر کے لیے یہ معمولی نہیں، بڑی تشویش کی بات ہے۔ اور پھر منظربدلا۔یہ بنارس کے مشہور علاقے مدن پورہ میں پارچہ بانی کے پرانے تاجروںکی قدیم ،لیکن شاندار کوٹھیوں میں ایک وسیع و عریض کمراہے۔ اونچی اونچی چھتیں جن پر نقش و نگار ابھرے ہیں، رنگین شیشوں کی کھڑکیوں میں لوہے کے نفیس کام کی جالیاں لگی ہیں۔ دیواروں پر سبز روغن ہے اور سنہری بیلوں کے نقش و نگار بنے ہیں۔ اطالوی طرز کی ٹائلیں جو کنول کے پھولوںاور شہتوت کے پتوں سے مزین ہیں۔ دیواروں پر الماریاں جڑی ہیں جن میں کپڑے کے تھان لپٹے رکھے ہیں۔ ساڑیوں کے ہر ڈیزائن کا کوئی نام یا نمبر ہے۔ فرش پر سفید چاندنی بچھی ہے۔ ایک طرف مسند ہے جس پر لکڑی کا فرشی ڈیسک رکھا ہے، وہی جس پر بہی کھاتے لکھے جاتے ہیں۔اسی کمرے میں ایک چھوٹی سی شعری نشست آراستہ ہے۔ ان تاجر گھرانوں کے ایک بزرگ، عبدالقدوس نسیم ؔاپنی غزل پڑھ رہے ہیں۔ یوں بنارس میں مشاعرے کی روایت غنیمت ہے کہ ابھی تک چلی آ رہی ہے: ہوش و خرد سے گزرے دیوانگی سے گزرے کچھ بھی سمجھ نہ پائے اس برہمی سے گزرے کس حال میں بتائیں تیری گلی سے گزرے سب سے گزر گئے جب، تب اپنے جی سے گزرے گر تم کو پوچھنا ہو، شام و سحر سے پوچھو فرقت کے چار دن تھے کس بے کلی سے گزرے آ کر نسیمؔ ان کے دل کی کلی کھلا دو برسوں گزر گئے ہیں راہ خوشی سے گزرے یہ تھے عبدالقدوس نسیمؔ نہایت شفیق، چھوٹوں کا بہت خیال رکھنے والے، نورانی ڈاڑھی اور اس پر ایک مسلسل مسکراہٹ جس میں سونے کے دانت جگمگ جگمگ کرتے ہیں۔ آنکھوں اور پیشانی سے جو نور پھوٹتا ہے، اس کا کیف سب سے جدا ہے۔شعر و ادب کی بات چلی، تو ہم کوچۂ آغا حشر کاشمیری چلے، جہاں دال منڈی ختم ہوئی وہاں ناریل بازار شروع ہوا۔ اب آغا حشر کاشمیری مرحوم کی بیرونی بیٹھک تھی اور ان کے بھتیجے آغا جمیل احمد جن کی باتوں میں دال یا ناریل کی نہیں، گلوں کی خوشبو تھی۔ پرانے بنارس کی ساری تہذیب سمٹ کر ان کی گفتگو میں چلی آئی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس رات شمع کی روشنی میںآغا جمیل احمد شاہ کاشمیری نے بڑے ابا کی طرح مکالموں سے وہ منظر کھینچا کہ مرزا غالبؔ کے کسی خط کاوہ فقرہ جی اٹھا: ’’بنارس کا کیا کہنا! ایسا شہر کہاںپیدا ہوتا ہے۔ انتہائے جوانی میں میرا وہاں جانا ہوا۔ اگر اس موسم میں جوان ہوتا تو وہیں رہ جاتا، ادھر کو نہ آتا۔‘‘ ٭…٭…٭

Vedleggsområde

Imran Junani <imranjunani@gmail.com>

اپنا تبصرہ لکھیں