کشور ناھید
ایک پاکستانی کا، ضدی اور وہ بھی اردو کے نام پر بلیک میل کرنے والا رنجیت چوہان کہ مجھے جاتے ہی بنی۔ عجب پر لطف سفر تھا۔ جانا تھا، شنابلی ٹرین سے، بیٹھتے ہی ا پ کی خدمت میں لیموں پانی کا گلاس پیش کیا جاتا ہے، پھر پانی کی بوتل اور اگر صبح کی گاڑی ہے تو پھر ناشتہ، جس میں کارن فلیکس اور دودھ، بعدازاں یا تو ا ملیٹ اور ٹوسٹ یا پھر ا لو کے پراٹھے اور دہی کے علاوہ چائے۔ اگر ڈنر کا ٹائم ہو تو شام کو پہلے سموسہ، سینڈوچ اور مٹھائی کے بعد سوپ، کھانے میں دال مکھنی، پنیر مصالحہ، چاول دہی اور دو پراٹھے ، بعد میں ا ئس کریم۔ یہ سب کچھ ائیرکنڈیشنڈ کوچز میں ہوتا ہے جو ہرٹرین میں پندرہ بوگیاں ہوتی ہیں۔ باقی بوگیوں میں یہ نخر ے نہیں ہوتے ہیں۔ میں یہ کہانی اصل میں خواجہ سعد رفیق جو کہ میرے بیٹوں جیسا ہے، اس کو سنانا چاہتی ہوں کہ ریلوے ہماری خاص کر ریل کار میں یہ سب نخرے ہوتے تھے۔ اب تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ ٹرین چلتی ہے تو کیسے اور کب کب۔ جگہ جگہ ٹرین کو اڑانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر کئی گھنٹے ٹرین ر کی کھڑی رہتی ہے۔ اس جگہ جہاں نہ کچھ کھانے کو میسر ہوتا ہے حتی کہ پینے کا پانی بھی نہیں ہوتا ہے۔
ا ج سے 20برس پہلے ٹرین سے جانے کا اپنا مزا ہوتا تھا۔ جانے سے ہفتہ بھر پہلے، حلوے بننا شروع ہو جاتے تھے، کباب پراٹھوں اور کھڑے مصالحہ کا قیمہ تیار کیا جاتا تھا۔ جو خاندان کے علاوہ گاڑی میں سوار دوسرے مسافروں کو بھی دیا جاتا تھا مگر اب تو ٹرینوں کی نہ وہ تعداد رہی نہ اس کا ڈسپلن رہا اور نہ ٹرین سے جانا محفوظ ہی رہا۔ جبکہ ہندوستان میں جو راجدھانی ٹرین ہے۔ اور اگر سفر رات کا ہو تو اوڑھنے کے لئے موسم کے مطابق کمبل یا چادر دی جاتی ہے۔ لیٹنے کے لئے چادر اور تکیہ اور کھانا بالکل اس طرح جیسے شنابلی میں دیا جاتا ہے۔اب رہی بات مشاعرے کی، ڈاکٹر کرن سنگھ مہمان خاص تھے اور میں صدارت کر رہی تھی۔ مشاعر ے میں کل 17شاعر تھے۔ دو پنجابی کے ، دو ہندی کے اور باقی اردو کے شاعر تھے۔ بہت اہم اور انوکھا مزا دو خواتین شاعرات تھیں، انہوں نے دیا وہ دونوں کمشنر انکم ٹیکس اور ریونیو ٹیکس تھیں۔ بہت زبردست غزلیں کہیں تھیں۔ مظفر ابدالی، اقبال اشعر اور خوشبیر سنگھ شاد تو جانے پہچانے شاعر تھے۔ علاوہ ازیں جنہیں تمغہ امتیاز دیا گیا۔ وہ ہندوستان بھر میں مشہور ش۔ک نظام صاحب ہیں تعلق راجھستان سے ہے۔ عمدہ غزل اور نظم کہتے ہیں۔ ہندی کا تمغہ ڈاکٹر ہربچن کو دیا گیا۔ مشہور مزاحیہ شاعر پاپولر میرٹھی نے بہت عمدگی سے مزاحیہ کلام پیش کیا۔ ان کا مزاحیہ کلام بیوی پہ یا عورت کا مضحکہ ا ڑانے کے لئے نہیں بلکہ سماجی موضوعات پر ہوتا ہے۔ پڑھنے کا انداز اتنا معصوم اور دلربا ہوتا ہے کہ شعر سننے کا مزا آ جاتا ہے۔ باقی شاعر علی گڑھ، لکھنو اور دلی ہی سے تھے۔ سردار شاعر نے چھوٹی چھوٹی نظمیں سنا کردل اور درد کے تعلق کو واضح کیا۔ سامعین کا کمال یہ تھا کہ پورے مشاعرے میں ایک شخص بھی اپنی سیٹ سے نہیں ہلا۔ خواتین کی بڑی تعداد مشاعرے میں شریک تھی۔ سردی نے اس دن اپنا چہرہ دکھایا تھا۔ چونکہ دلی میں دھند پہلے ہی سے اپنا گھر بنانا شروع کر دیتی ہے۔ اس لئے رات کو لان میں گرم گرم چائے اور کھانا کھاتے ہوئے اور دوستوں کی موجودگی کی گرمجوشی بہت لطف دے رہی تھی۔ ہندوستان میں مشاعرے بہت ہوتے ہیں۔ مگر یہ مشاعرہ اندر ہال میں تھا۔ اس لئے پانچ سو کے قریب لوگ تھے۔ ہر شخص کو میری نظم وہ جو بچیوں سے بھی ڈرگئے۔ یاد تھی ، کچھ لوگوں نے بھی فرمائش کی کہ ہم گنہگار عورتیں، نظم بھی سنائی جائے۔ چونکہ ایک دن پہلے ہی ملالہ کو نوبل پیس پرائز ملا تھا۔ ٹرین سے لیکر مشاعرے میں شامل لوگ ملالہ کی بہت تعریف کر رہے تھے۔ اس کے بولنے کے انداز کو سراہ رہے تھے۔ جو لوگ ملتے تھے۔ سن کہ میں پاکستان سے ہوں۔ وہ مجھے بار بار ملالہ کی مبارکباد دے رہے تھے۔ ٹیکسی ڈرائیور ہوں کہ ہوٹل کے منیجر، سب بار بار کہتے تھے کہ دونوں ملکوں کے لوگ بہت اچھے ہیں، ا پس میں ملنا چاہتے ہیں۔ مگر یہ نیتا لوگ اپنی سیاسی دکانداری کرنے کے لئے روز کوئی نہ کوئی جھگڑا مول لے لیتے ہیں۔ دلی میں ٹھہرنے کے لئے صرف ایک دن جس میں ایف۔ ایم ، ریڈیو کے علاوہ سارے ٹی وی چینلز کا انٹرویو کرنیکا سلسلہ اس تسلسل سے جاری رہا اور سوالوں کے پیچھے دوستی کرنے کی ضرورت کا بار بار تذکرہ اتنی شدت کیساتھ کیا جا رہا تھا کہ جب میں نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ تو سارے صحافیوں نے کہا کہ سوفٹ بارڈر کرنے سے یہ کام شروع کیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ویزے کی سہولتیں بڑھائی جائیں اور بارڈر پرویزا دینے کے پرانے فیصلے پر عملدرا مد ممکن کیا جائے تو دونوں ملکوں کی تجارت بڑھے گی اور ٹورازم میں بھی اضافہ ہو گا۔ لوگ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ اگر یورپین یونین قائم رہ سکتی ہے تو سارک یونین کیوں نہیں بن سکتی ہے۔ جب سے واہگہ بارڈر پر خود کش حملہ ہوا ہے۔ پاکستان کی حکومت نے اتنی سختیاں کر دی ہیں کہ پیدل بارڈر کراس کرنا مصیبت ہے۔ مثلا ہندوستان کی جانب سے بارڈر سے امیگریشن دفتر تک باقاعدہ بس چلا کر لیجایا جاتاہے۔ جبکہ پاکستان کی جانب سے وہ فاصلہ پیدل اور پھر ہم جیسوں کو جو بڈھے ہیں ، بڑی ہمت کر کے گزرنا پڑتاہے۔رہی دوستوں سے ملاقات کامرحلہ، چونکہ وقت نہیں تھا اس لئے صرف شمیم صاحب کو دیکھنے کیلئے وہ بھی پرویز احمد ساتھ لے گئے کہ شمیم تقریبا دو ماہ سے بیمار چلے آ رہے تھے۔ ان سے ملاقات کرنے گئی۔ بہت ٹیسٹوں کے بعد، ڈاکٹروں نے خدا نہ کرے کینسر کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ ابھی ہمت بہت ہے۔ اس لئے اس شبہ پہ بھی قابو پایا جائے گا۔ باقی دوستوں سے ملاقات نہ ہونے کی تشنگی ہی رہی۔ واپس ا ئی تو ظفر اقبال کی تنقیدی مضامین کی کتاب لاتنقید سامنے رکھی تھی۔ کتاب کا انتساب چونکہ میرے نام ہے۔ اس لئے فی الحال ظفر اقبال کا شکریہ ہے کہ انتساب کے ساتھ جو شعر درج ہے۔ اس کا لطف اپنی جگہ۔ ا پ بھی سن لیں۔
معشوقِ مابہ شیوئہ برکس برابر است
باما شراب خور دوبہ زاہد نمار کرد