سید امتیازالدین
حیدرآباد جو کل تھا کے تحت عہدِ رفتہ کی مختلف باتیں کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ بعض سِن رسیدہ اصحاب نے ماضی بعید کی باتوں کی یاد تازہ کی ہے ۔ لیکن ماضی قریب کی یادوں کو بھی محفوظ کرنا ضروری ہے ۔ اسی سلسلے میں ایک مباحثہ 7جون 2014 کو سیاست کے اسٹوڈیو میں منعقد ہوا جس میں اردو کے نامور مزاح نگار پدم شری ڈاکٹر مجتبی حسین ، مدیر ماہنامہ شگوفہ ڈاکٹر مصطفی کمال اور مشہور ادیب و نقاد پروفیسر بیگ احساس سابق صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ و حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی نے حصہ لیا۔ سید امتیازالدین نے نظامت کے فرائض انجام دیئے ۔ مباحثہ میں جو باتیں زیربحث آئیں ان کو ہم مکالمے کی شکل میں آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
مجتبی حسین : پچھلے تیس چالیس سال سے حیدرآباد کو طنز و مزاح کی راجدھانی کہلانے کا اعزاز حاصل ہے ۔ اس اعزاز کو حاصل کرنے میں کئی افراد اور انجمنوں کی مساعی شامل ہیں۔ میں چاہوں گا کہ بیگ احساس اس مباحثہ کا آغاز کریں اور ہمیں بتائیں کہ حیدرآباد کے ادبی ماحول میں یہ خوشگوار لہر کس طرح شروع ہوئی ۔
بیگ احساس : میرا خیال ہے کہ پولیس ایکشن کے بعد کچھ عرصے تک حیدرآباد میں ایک طرح کی پژمردگی کا ماحول رہا ۔ نظام حکومت کی تبدیلی نے حیدرآباد کے عوام میں ہلچل سی پیدا کی ۔ جاگیردارانہ نظام ختم ہوا۔روزی روزگار کے مسائل پیدا ہوئے ۔ بہت سے لوگ ترک وطن کرگئے ۔ اردو کا چلن کم ہونے لگا ۔ لیکن جیسا کہ غالب نے کہا تھا مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہوگئیں۔لوگوں نے نئے حالات میں جینے کا سلیقہ سیکھا ۔ ہم نے اپنے آپ پر ہنسنے کا حوصلہ پیدا کیا ۔ یوں بھی جامعہ عثمانیہ کے قیام کے بعد سے نوجوانوں کی جو نسل ابھری تھی اس میں زندہ دلی موجود تھی ۔ مخدوم کا پیلا دوشالہ ، مرزا ظفرالحسن ، اشفاق حسین کی بذلہ سنجی ، دکن ریڈیو کے فیچرس ذہنوں میں تازہ تھے ۔ پہلے زبانی روایت تھی ۔ اب یہی طنز و مزاح تحریری روایت بن کر ابھرا۔ فائن آرٹس اکیڈیمی اور زندہ دلانِ حیدرآباد نے میدان سنبھالا ۔
مصطفی کمال : پولیس ایکشن سے پہلے آزادی تحریر و تقریر کم تھی ۔ شمالی ہند میں آزادی تحریر و تقریر نسبتا زیادہ تھی ۔ اودھ پنچ نے طنز و مزاح کی ایک فضا پیدا کی تھی ۔
مجتبی حسین : اودھ پنچ انگریزوں کے خلاف بہت سخت لکھتا تھا ۔ حیدرآباد میں برجستہ گوئی کی روایت تھی ۔ درباروں میں مصاحب ہوتے تھے جو امرا اور حاضرین محفل کی ضیافت طبع کا سامان پیدا کرتے تھے ۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے قیام کے بعد جو طالب علم یونیورسٹی میں آئے ان میں علم کی روشنی کے ساتھ ظرافت اور شوخی بھی بہت تھی ۔ ہاسٹل کا ماحول خوش مزاجی ، بذلہ سنجی اور لطیفہ گوئی کے لئے بہت سازگار تھا ۔ مخدوم اور ان کے رفقا کے ساتھ مرزا شکور بیگ کا نام بھی اہم ہے ۔ مجلہ عثمانیہ نوجوان طلبا کے ذہن کا عکس بن کر ابھرا ۔ اچھے استادوں کی تربیت نے طالب علموں کے ذوق کو نکھارا اور طنز ومزاح کو بھی فروغ ہوا ۔
مصطفی کمال : مہاراجہ کشن پرشاد کے پاس رتن ناتھ سرشار آئے جو خود ایک اچھے طنز و مزاح نگار تھے ۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے ادبی مجلس کی بنا ڈالی ۔
بیگ احساس : فرحت اللہ بیگ رہتے تو حیدرآباد میں تھے لیکن ان کا دل دہلی میں تھا ۔
مجتبی حسین : دہلی میں مغلیہ سلطنت میں بھی طنز و مزاح کے کئی فنکار دربار سے وابستہ تھے۔ ابتدا میں شاہی سرپرستی کی وجہ سے دہلی طنز و مزاح کا مرکز رہا ۔ اس کے بعد یہ سعادت لکھنو کے حصے میں آئی ۔ سلطنت اودھ کے خاتمے کے بعد پنجاب طنز و مزاح کا مرکز بنا۔ لاہور میں چراغ حسن حسرت ، پطرس بخاری اور عبدالمجید سالک نے طنز و مزاح کو بڑھاوا دیا ۔ ایک لحاظ سے اس کو باقاعدہ تحریری روایت کہنا چاہئے ۔
بیگ احساس : پنجابیوں میں ہنسنے ہنسانے کا جوہر فطری تھا۔ حیدرآباد میں زبانی روایت ملتی ہے ۔ ہم کو عظمت بھلاواں کی یاد آتی ہے ۔ دکھنی زبان میں طنز و مزاح بہت نمایاں رہا لیکن اس کا صحیح لطف مقامی لوگ اٹھاسکتے تھے ۔ طنز و مزاح کی روایت کو ملک گیر سطح پر لے جانے میں مجتبی حسین نے اہم رول ادا کیا۔ میں مجتبی صاحب سے کہوں گا کہ وہ زندہ دلانِ حیدرآباد کے آغاز پر روشنی ڈالیں۔
مجتبی حسین : 1940 سے ہی کچھ عوامل حیدرآباد میں بنتے جارہے تھے ۔ 47 میں ملک آزاد ہوا ۔ 48 میں بادشاہت ختم ہوئی ۔ بعد ازاں ریاستوں کی لسانی تقسیم ہوئی ۔ 50 سے 60 تک حیدرآباد مختلف ادوار سے گزرا ۔ ایک سکتہ سا رہا ۔ ہنسنے ، ہنسانے کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ایسے میں نالگو برادرس ( یعنی چار بھائی) مزاح کے منظرنامے میں آئے ۔ عزیز قیسی اور ان کے رفقا نے کمان سنبھالی ۔ ہمارے عہد کے ایک نہایت باصلاحیت فن کار حمایت اللہ بھی انھی دنوں روشناس ہوئے ۔ بیچلرس کوارٹرس بزم قہقہہ بن گیا۔ یہی لوگ اسٹیج پر آئے ۔ عوام اور طنز و مزاح کے شائقین نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس طرح زندہ دلی کی فضا عام ہوئی ۔
مصطفی کمال: معزالدین ملتانی ، بھگوان داس آنکھ ، اعجاز حسین کھٹہ ، رحیم صائب میاں کے نام بھی بھلائے نہیں جاسکتے ۔ پہلے فائن آرٹس اکیڈیمی قائم ہوئی ۔ اس کے بعد زندہ دلانِ حیدرآباد وجود میں آئی ۔
مجتبی حسین : ترقی پسند تحریک اور زندہ دلانِ حیدرآباد میں تال میل پیدا ہوا جس سے طنز و مزاح میں ادبی رنگ پیدا ہوا اور یہ تحریک پورے ملک میں مشہور ہوئی ۔ حمایت اللہ دکنی لوک گیت کو بھی بڑے دلنواز ترنم سے سناتے تھے۔
بیگ احساس : فائن آرٹس اکیڈیمی کے فنکاروں نے کچھ کیریکٹر بنا لیے تھے جو عوام و خواص دونوں میں بہت مقبول ہوئے ۔
مصطفی کمال : عیاذ انصاری ریڈیو میں تھے ۔ انھوں نے 1961 میں زندہ دلانِ حیدرآباد کا پہلا مشاعرہ نشر کیا جس کی صدارت عزیز قیسی نے کی ۔
مجتبی حسین : 1962 سے 65 تک چھوٹے پیمانے پر مشاعرے ہوتے تھے ۔ جیسے نمائش کلب اور نظام کلب کے مشاعرے ۔ میں نے 12 اگست 1962 سے مزاح نگاری کا آغاز کیا ۔ منظور احمد صاحب نے غالب صدی تقاریب کے سلسلے میں ایک محفل رکھی تھی جس میں میں نے ہم طرفدار ہیں غالب کے عنوان سے ایک مضمون سنایا تھا جو بہت کامیاب رہا ۔ ایک دن میں نے اخبار میں ایک خبر دیکھی دندان سازوں کی کانفرنس ۔ میں نے سوچا کہ جب دنداں سازوں کی کانفرنس ہوسکتی ہے تو مزاح نگاروں کی کانفرنس کیوں نہیں ۔ میں نے یہ تجویز اپنے دوست حفیظ قیصر کے سامنے رکھی وہ یہ سن کر اچھل پڑا اور اس کانفرنس کے انتظامات کے لئے سب سے پہلا عطیہ اسی نے دیا۔ اب کانفرنس کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ حمایت بھائی کی دلچسپی اور ان کا تعاون قدم قدم پر ساتھ رہا۔ روزنامہ سیاست کی طرف سے عابد علی خان صاحب اور محبوب حسین جگر صاحب کی سرپرستی اور ہرممکن تعاون نے نہ صرف ہماری ہمت بندھائی بلکہ یہ کانفرنس ان کی توجہات سے کامیاب ہوئی ۔ ہم نے شرکت کیلئے کرشن چندر کو آمادہ کیا ۔ بھارت چند کھنہ لیبر کمشنر تھے انھیں صدر بنایا جس سے ہمیں بڑی مدد ملی۔ چنانچہ اردو مزاح نگاروں کی یہ پہلی کل ہند کانفرنس زندہ دلانِ حیدرآباد کے بینر تلے 12 اور 13 مئی 1966 کو حیدرآباد میں منعقد ہوئی جس میں ملک کے 29 مندوبین نے شرکت کی ۔ اس کانفرنس کا افتتاح مخدوم محی الدین نے کیا اور صدارت کرشن چندر نے کی۔کچھ سنجیدہ ادیبوں نے اس کی مخالفت بھی کی لیکن کانفرنس ہوکر رہی اور بہت کامیاب ہوئی ۔
مصطفی کمال : نثر کا اتنا بڑا اجتماع اس سے پہلے حیدرآباد میں دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
بیگ احساس : بہت بڑا مشاعرہ بھی ہوا تھا۔
مجتبی حسین : کرشن چندر ، سلمی صدیقی ، یوسف ناظم ، احمد جمال پاشاہ ، غلام احمد فرقت کاکوروی ، تخلص بھوپالی ، شفیقہ فرحت ، دلاور فگار وغیرہ آئے تھے۔ سمینار بھی رکھا گیا تھا۔ اس سے اگلے سال 1967 میں جشنِ مزاح رکھا گیا جس میں راجندر سنگھ بیدی اور کنور مہندر سنگھ بیدی سحر نے شرکت کی۔ اس جشن میں نواب شاہ عالم خاں صاحب نے نہایت دلچسپی دکھائی تھی ۔ ہمالیہ ڈرگ کمپنی کے مالک ایم منال محفل لطیفہ گوئی میں سب سے کامیاب رہے تھے ۔ منال صاحب کو نواب شاہ عالم خان صاحب نے ہی بلایا تھا ۔مزاح نگاروں کے تعلق سے نواب صاحب کی دلچسپی ہمیشہ سے رہی ہے۔ خود میری پہلی کتاب نواب صاحب کے مالی تعاون سے شائع ہوئی ۔
مصطفی کمال : نواب صاحب نے زندہ دلان حیدرآباد کے جلسوں کیلئے بھی ہمیشہ بھرپور تعاون کیا ۔ پچھلے دو تین سال سے تو یہ جلسے انھی کے تعاون سے ہورہے ہیں۔
بیگ احساس : اس زمانے میں لوگ نثر کو بھی شعر کی طرح سنتے تھے اور اچھے جملے کے لئے مکرر ارشاد کہتے تھے۔ رشید قریشی صاحب کا اسٹائل بھی منفرد تھا ۔
مصطفی کمال : اسی طرح حمایت بھائی کا اسٹائل الگ تھا ۔ سرور ڈنڈا کااسٹائل بھی خاص تھا ۔
بیگ احسا س: ایک بار مخدوم کی موجودگی کے باوجود کسی نے سرور ڈنڈا کی فرمائش کردی تھی۔
مجتبی حسین : ہم نے طنز و مزاح کو حیدرآباد کے ذریعے سارے ملک میں ایک متعدی بیماری کی طرح پھیلادیا تھا۔ خواجہ عبدالغفور مرحوم نے سرسنگارسنسد کے زیراہتمام مزاح کی کانفرنس بمبئی میں منعقد کی ۔ پٹنہ میں محمد علی صاحب کی کوششوں سے جگن ناتھ مشرا چیف منسٹر خود جلسے میں شریک ہوئے ۔ 74 میں لال قلعہ دہلی کے میدان میں مزاح نگاروں کا اجتماع آراستہ ہوا ۔ بھوپال ، کٹک ، چنڈی گڑھ وغیرہ میں مزاح کے جلسے ہوئے ۔
بیگ احساس : طنز و مزاح کے میدان میں حیدرآباد کی برتری کو سب نے تسلیم کیا ۔
مصطفی کمال : زندہ دلان کی طرز پر بنگلور میں خوش دلان کرناٹک قائم ہوئی ۔
مجتبی حسین : ماہنامہ شگوفہ کا اجرا بھی اس سمت میں بہت بڑا قدم ہے ۔ ابتدا میں یہ ڈیڑھ ماہی رسالہ تھا ۔ شگوفہ نے کئی نئے لکھنے والے پیدا کئے ۔
بیگ احساس : انھی محفلوں سے متاثر ہوکر کئی لوگوں نے افسانہ نگاری چھوڑکر طنز و مزاح کا رخ کیا۔ خود نریندر لوتھر ، پرویز یداللہ مہدی ، مسیح انجم طنز و مزاح سے پہلے افسانے لکھتے تھے ۔ اس طرح آپ دونوں ( مجتبی اور مصطفی کمال) نے افسانہ نگاری کو نقصان پہنچایا ( قہقہہ)
مصطفی کمال : عاتق شاہ کا طنز بھی بہت عمدہ تھا ۔
بیگ احساس : سیاست نے زینت ساجدہ سے طنزیہ مضامین لکھوائے ۔
بیگ احساس: بھارت چند کھنہ نرم مزاج آدمی تھے ۔ جب نریندر لوتھر آئے تو انھوں نے زندہ دلان حیدرآباد میں نظم و ضبط پیدا کیا۔
مجتبی حسین : نریندر لوتھر صاحب کا ایک یادگار واقعہ یہ ہے کہ جس دن مسز گاندھی کا قتل ہوا اسی دن وہ دہلی آئے تھے ۔ زندہ دلان حیدرآباد کی جانب سے منعقد ہونے والی پہلی عالمی طنز و مزاح کانفرنس کے انتظامات کے سلسلہ میں ، وہ مسز اندرا گاندھی سے رسمی طورپر یہ درخواست کرنا چاہتے تھے کہ وہ اس عالمی مزاح کانفرنس کا افتتاح کریں لیکن قدرت کو یہ منظور نہ تھا ۔ دہلی کے سارے علاقے شورش زدہ تھے ۔لوتھر صاحب کا ڈرائیور سکھ تھا ۔ لوتھر صاحب نے اسے ہٹاکر خود ڈرائیونگ کی ۔ ہماری عالمی مزاح کانفرنس ، جو بعد میں 1985 میں منعقد ہوئی ، بلرام جاکھڑ کا تعاون بھی شامل تھا ۔ بارہ ممالک کے مندوبین نے حصہ لیا تھا ۔ ضمیر جعفری اور عطار الحق قاسمی پاکستان سے آئے تھے ۔ اس کانفرنس میں طالب خوندمیری کامیاب جنرل سکریٹری ثابت ہوئے تھے ۔
مصطفی کمال : مرہٹی ، کنڑی اور بنگالی و دیگر زبانوں کے ادیب بھی ہمارے مزاحیہ جلسوں میں شریک ہوئے ہیں۔ بحیثیت صدر زندہ دلان لوتھر صاحب تقریبا ہر روز ہی کام کا جائزہ لیتے تھے ۔
مجتبی حسین : میں نے حمایت اللہ اور محمد سلیمان کو سب سے پہلے 1955 میں نشاط ٹاکیز میں سنا تھا ۔ نمائش کے دنوں میں یہ دونوں اور علی صائب میاں وغیرہ ہر روز پروگرام پیش کرتے تھے جس سے نمائش میں آنے والے بہت محظوظ ہوتے تھے ۔
بیگ احساس : دوردرشن کے ذریعے سے بھی طنز و مزاح کو فروغ ہوا ۔ مجتبی صاحب ! آپ نے بھی کئی پروگرام پیش کئے اور مضامین پڑھے۔ حمایت بھائی کاترنم بھی ان کے کلام کے ساتھ خوب لگتا تھا ۔
مصطفی کمال : حمایت اللہ ، سرور ڈنڈا اور سلیمان خطیب حیدرآبادی عوام میں بہت مقبول تھے ۔
مجتبی حسین : حمایت بھائی کا مجموعہ کلام دھن مڑی ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے لیکن وہ اب خاموش اور گوشہ نشین ہوگئے ہیں۔ اسٹیج کی بات کی جائے تو میں ادرک کے پنجے کی تعریف کروں گا ۔ ببن خاں نے بڑی ذہانت سے لطیفے جمع کئے تھے ۔ میں نے بمبئی میں یہ ڈرامہ دیکھا تھا ۔
بیگ احساس : زندہ دلانِ حیدرآباد کے مشاعرہ میں حیدرآباد کے علاوہ اضلاع سے بھی شاعر آتے تھے جیسے مسافر نلگنڈوی ، پاگل عادل آبادی وغیرہ ۔
مجتبی حسین : مصطفی کمال شگوفہ کے ذریعے بہت اہم رول ادا کررہے ہیں۔ آپ شگوفہ اتنی پابندی سے کیسے نکال رہے ہیں؟
مصطفی کمال : اب بھی لوگ لکھ رہے ہیں گو اتنے توانا نہیں ۔ پھر بھی امید باقی ہے ۔ چالیس سال پہلے کی تحریریں اور مال مسروقہ کو بھی لوگ شوق سے پڑھتے ہیں۔
مجتبی حسین : شگوفہ نے کئی یادگار نمبر نکالے ہیں۔
بیگ احساس : مجتبی حسین نمبر بھی بہت شاندار تھا ۔
مجتبی حسین : میں چاہوں گا کہ ڈرامے کی صورت حال پر بیگ احساس روشنی ڈالیں۔
بیگ احساس : ڈراما اردو میں کمزور ہے۔ حیدرآباد ریڈیو سے چھوٹی چھوٹی باتیں اچھی کوشش تھی ۔ لیکن حیدرآباد کے فنکار بہت آگے نہیں بڑھے ۔ ٹی وی پر جو Laughter Show ہوتا ہے اس طرز پر ہمارا کوئی کارنامہ نہیں ہے ۔ ہم نے حیدرآباد کی دکنی زبان کو فلموں کے لئے استعمال کیا اور دھوکہ دینے والے کردار پیش کئے ۔
مجتبی حسین : محمود نے بھی حیدرآباد کی زبان استعمال کی ۔حمایت بھائی کے بعض کردار وہ لے اڑے۔
بیگ احساس : طنز و مزاح میں بالعموم ہمارا معیار بلند نہیں ہے ۔ ہندوستان میں مجتبی حسین اور دو ایک طنز و مزاح نگاروں کو چھوڑکر زبان و بیان کا وہ اعجاز کسی کوحاصل نہیں جو مشتاق احمد یوسفی اور مشفق خواجہ وغیرہ نے قائم کیا۔
مجتبی حسین : کمال صاحب ! کیا آپ موجودہ صورت حال سے مطمئن ہیں؟
مصطفی کمال : میں سمجھتا ہوں کہ اردو میں لوگوں کو اس طرف راغب کیا جائے۔ دوسرے اصناف سخن یا پیشوں کے لوگ اس طرف آئیں۔
مجتبی حسین : سچی بات یہ ہے کہ ہم خود بھی ویسے فعال نہیں رہے ۔ زندہ دلانِ حیدرآباد کو اور فعال ہونا چاہئے ۔
بیگ احساس : اب تحریر وں میں ابتذال بھی آگیا ہے جو اچھی بات نہیں ہے ۔
مجتبی حسین : یہ ماننا پڑے گا کہ پچھلے پچاس سال میں حیدرآباد نے طنز و مزاح کو بہت فروغ دیا ہے ۔ اور اس کی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
مصطفی کمال : لوگوں کے اشتیاق اور دلچسپی میں ابھی بھی کمی نہیں ہے ۔ زندہ دلان کے حالیہ جلسے میں بارش کے باوجود لوگ کثیرتعداد میں شریک ہوئے ۔ شگوفہ کو بھی لوگ شوق سے پڑھتے ہیں۔ پرچہ کسی کو نہ ملے یا تاخیر سے پہنچے تو فون آنے لگتے ہیں۔ رسالہ نکالنا مشکل کام ہے ۔
مجتبی حسین : اب اس مباحثہ کو یہیں ختم کرنا چاہئے ۔
سید امتیازالدین : میں تمام شرکا کا شکرگزار ہوں ۔ گفتگو کافی دلچسپ اور معلومات افزا رہی ۔ موضوع بہت وسیع ہے ۔ ایک نشست میں اس کے تمام پہلوں کو سمیٹنا مشکل ہے ۔ بہرحال یہ ایک طویل بات چیت کی شروعات ہے۔ مجھے امید ہے کہ آئندہ کسی محفل میں اور باتیں ہوں گی ۔ وہ مباحثہ ہی کیا جو ایک نشست میں مکمل ہوجائے