احمد ندیم قاسمی کا افسانہ – ماسی گل بانو

انتخاب خالد عمری

اُس کے قدموں کی آواز بلکل غیر متوازن تھی، مگر اُس کے عدم توازن میں بھی بڑا توازن تھا۔آخر بے آہنگی کا تسلسل بھی تو ایک آہنگ رکھتا ہے۔سو اُس کے قدموں کی چاپ ہی سے سب سمجھ جاتے تھے کہ ماسی گُل بانو آرہی ہے۔گُل بانو ایک پاؤں سے ذرا لنگڑی تھی۔وہ جب شمال کی جانب جا رہی ہوتی تو اُس کے بائیں پاؤں کا رخ تو شمال ہی کی طرف ہوتا مگر دائیں پاؤں کا پنجہ ٹھیک مشرق کی سمت رہتا تھا۔یوں اُس کے دونوں پاؤں زاویہ قائمہ سا بنائے رکھتے تھے اور سب زاویوں میں یہی ایک زاویہ ایسا ہے جس میں ایک توازن،ایک آہنگ،ایک راستی ہے۔سو گُل بانو کا لنگڑا پن کجی میں راستی کا ایک چلتا پھرتا ثبوت تھا۔
گُل بانو جب چلتی تھی تو دائیں پاؤں کو اُٹھاتی اور بائیں کو گھسیٹتی تھی۔اس بے ربطی سے وہ ربط پیدا ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگ گُل بانو کو دیکھے بغیر پہچان لیتے تھے۔عورتیں اندر کوٹھے میں بیٹھی ہوتیں اور صحن میں قدموں کی یہ منفرد چاپ سُنائی دیتی تو کوئی پکارتی ! ادھر آجا ماسی گُل بانو،ہم سب یہاں اندر بیٹھے ہیں۔اور ماسی کا یہ معمول سا تھا کہ وہ دہلیز پر نمودار ہوکر اپنی ٹیڑھی میڑھی لاٹھی کو دائیں سے بائیں ہاتھ میں منتقل کرکے دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت سے اپنی ناک کو دہرا کرتے ہوئے کہتی ،ہائے تونے کیسے بھانپ لیا کہ میں آئی ہوں ۔سبھی بھانپ لیتے ہیں ۔سبھی سے پوچھتی ہوں پر کوئی بتاتا نہیں۔جانے میں تم لوگوں کو اتنی موٹی موٹی دیواروں کے پار بھی کیسے نظر آجاتی ہوں۔
بس ماسی،چل جاتا ہے پتہ۔پکارنے والی عورت کہتی، تم سے پہلے تمہاری خوشبو پہنچ جاتی ہے۔اور گُل بانو مسکرانے لگتی۔
آج تک گُل بانو کو سچی بات بتانے کا حوصلہ کسی نے نہیں کیا تھا۔دراصل اُس سے سب ڈرتے تھے اور اُس کے بارے میں عجیب عجیب باتیں مدتوں سے مشہور تھیں۔
ادھیڑ عمر کسان بتاتے تھے کہ انہوں نے ماسی گُل بانو کو ہمیشہ اسی حالت میں دیکھا ہے کہ ہاتھ میں ٹیڑھی میڑھی لاٹھی ہے اور وہ ایک پاؤں اُٹھاتی اور دوسرا گھسیٹتی دیواروں کے ساتھ لگی لگی چل رہی ہے ۔مگر گاؤں کے بعض بوڑھوں کو یاد تھا کہ گُل بانو جوان ہو رہی تھی تو اُس کی ماں مر گئی تھی باپ کھیت مزدور تھا۔بیوی کی زندگی میں تو تین تین مہینے تک دوردراز کے گاؤں میں بھٹک سکتا تھا مگر اب جوان بیٹی کو اکیلا چھوڑ کر کیسے جاتا۔پھر جب وہ کماتا تھا تو جب بھی ایک وقت کا کھانا کھا کر اور دوسرے وقت پانی پی کر زندہ تھا مگر اب کیا کرتا۔کٹائی کے موسم کو تو جبڑا بند کرکے گزار گیامگر جب دیکھا کہ فاقوں سے گُل بانو نچڑی جا رہی ہے تو اگلے موسم میں وہ گُل بانو کو ساتھ لے کر دور کے ایک گاؤں میں فصلوں کی کٹائی کرنے چلا گیا۔
وہیں کا ذکر ہے کہ ایک دن اُس نے زمیندار کے ایک نوجوان مزارعے بیگ کو کھلیان پر کٹی ہوئی فصل کی اوٹ میں گُل بانو کی طرف بازو پھیلائے ہوئے دیکھا۔اس گاؤں میں اسے ابھی چند روز ہوئے تھے۔اس وقت اُس کے ہاتھ میں درانتی تھی اُس کی نوک بیگ کے پیٹ پر رکھ دی اور کہا کہ میں تیری انتڑیاں نکال کر تیری گردن پر ڈال دوں گا۔پھر گُل بانو نے باپ کے درانتی والے ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے پکڑلیا اور کہا———————-” بابا ! یہ تو مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں تجھ سے شادی کروں گا اور میں کہہ رہی تھی کہ پھر مجھے پیار بھی شادی کے بعد کرنا۔اس سے پہلے کرو گے تو خدا خفا ہوجائے گا۔
تب باپ نے درانتی اپنے کندھے پر رکھ لی ۔گل بانو کو اپنے بازو میں سمیٹ لیا اور رونے لگا۔پھر وہ بیگ سے برات لانے کی بات پکی کرکے گاؤں واپس آگیا۔برات سے تین روز پہلے گل بانو کو میوں بٹھا دیا گیا اور اُسے اتنی مہندی لگائی گئی کہ اُس کی ہتھیلیاں سُرخ،پھر گہری سُرخ،اور پھر سیاہ ہو گئیں اور تین دن تک آس پاس کی گلیاں گل بانو کے گھر سے اُمڈتی ہوئی مہندی کی خوشبو سے مہکتی رہیں۔پھر رات کو تاروں کی چھاؤں میں برات کو پہنچنا تھا ،اور دن کو لڑکیاں گل بانو کی ہتھیلیوں کو مہندی سے تھوپ رہیں تھیں کہ دور ایک گاؤں سے ایک نائی آیا۔اور اس نے گل بانو کے باپ کو بتایا کہ کل زمیندار ہرن کے شکار پر گیا تھا اور بیگ اُس کے ساتھ تھا۔جنگل میں زمیندار کے پرانے دشمن زمیندار کی تاک میں تھے اُنہوں نے اُس پر حملہ کر دیا اور بیگ اپنے مالک کو بچانے کی کوشش میں مارا گیا۔آج جب میں وہاں سے چلا تو بیگ کی ماں اپنے بیٹے کی لاش کے سر پر سہرا باندھے اپنے بال نوچ نوچ کر ہوا میں اُڑا رہی تھی۔
گل بانو تک یہ خبر پہنچی تو یوں چپ چاپ بیٹھی رہ گئی جیسے اُس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔پھر جب اُس کے پاس گیت گانے والیاں سوچ رہی تھیں کہ ماتم شروع کریں یا چپکے سے اُٹھ کر چلی جائیں ،تو اچانک گل بانو کہنے لگی : ” کوئی عید کا چاند دیکھ رہا ہو اور پھر ایک دم عید کا چاند کنگن کی طرح زمین پر گِر پڑے تو کیسا لگے ؟ کیوں بہنو ! کیسا لگے ؟
اور وہ زور زور سے ہنسنے لگی اور مسلسل ہنستی رہی۔ایسا لگتا تھا کہ کوئی اُس کے پہلوؤں میں مسلسل گدگدی کئے جا رہا ہے ۔وہ اتنا ہنسی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور پھر وہ رونے لگی اور اُٹھی اور مہندی سے تُھپی ہتھیلیاں اپنے گھر کی کچی دیوار پر زور زور سے چھرر چھرر رگڑنے لگی اور چیخنے لگی۔جب تک اُس کے باپ کو لڑکیاں بلاتیں اس کی ہتھیلیاں چِھل گئی تھیں اور خون اُس کی کہنیوں پر سے ٹپکنے لگا تھا۔پھر وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی صبح تک اسے محرقہ بخار ہوگیا۔اسی بخار کی غنودگی میں اس کی دائیں ٹانگ رات بھر چارپائی سے لٹکی رہی اور ٹیڑھی ہوگئی۔پھر جب اس کا بخار اترا تو اس کے سر کے سب بال جھڑ گئے اس کی آنکھیں جو عام آنکھوں سے بڑی تھیں اور بڑی ہو گئیں اور اُن میں دہشت سی بھر گئی۔پھٹی پھٹی میلی میلی آنکھیں ،ہلدی سا پیلا چہرہ،اندر دھنسے ہوئے گال،خشک کالے ہونٹ اور اُس پر گنجا سر۔جس نے بھی اُسے دیکھا،آیت الکرسی پڑھتا ہوا پلٹ گیا۔پورے گاؤں میں یہ خبر گشت کر گئی کہ اپنے منگیتر کے مرنے کے بعد گل بانو پر جن آگیا ہے اور اب جن نہیں نکلا گل بانو نکل گئی ہے،اور جن بیٹھا رہ گیا ہے۔
یہیں سے گل بانو اور جِنوں کے رشتے کی بات چلی۔ساتھ ہی انہی دنوں اُس کا باپ چند روز بیمار رہا اور اپنے دُکھوں کی گٹھڑی گل بانو کے سر پر رکھ کر دوسری دنیا کو سدھار گیا۔باپ کی بیماری کے دنوں میں گل بانو ہاتھ میں باپ کی ٹیڑھی میڑھی لاٹھی لے کر چند بار حکیم سے دوا لینے گھر سے نکلی،اور جب بھی نکلی بچے اُسے دیکھ کر بھاگ نکلے۔اسے گلی سے گزرتا دیکھ کر مسجد میں وضو کرتے ہوئے نمازیوں کے ہاتھ بھی رُک گئے ۔اور حکیم نے بھی ایک لاش کو اپنے مطب میں داخل ہوتا دیکھ کر گھبراہٹ میں اُسے نہ جانے کیا دے ڈالا کہ اُس کا باپ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گیا۔سنا ہے مرتے وقت اُس نے نہ خدا رسول کا نام لیا نہ کلمہ پڑھا بس کفر بکتا رہا کہ اچھا انصاف ہے ! یہ خوب انصاف ہے تیرا !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
قریب کا کوئی رشتہ دار پہلے ہی نہیں تھا دور کے رشتہ دار اور بھی دور ہو گئے۔مگر اللہ نے گل بانو کی روزی کا عجیب سامان کر دیا۔وہ جو پتھر کے اندر کیڑے کو بھی اُس کا رزق پہنچاتا ہے ،گل بانو کو کیسے بھولتا۔سو یوں ہوا کہ باپ کی موت کے تین دن بعد وہ ایک کھاتے پیتے گھر میں اس ارادے سے داخل ہوئی کہ پاؤ دو پاؤ آٹا ادھار مانگے گی۔اُس وقت سب گھر والے چولہے کے ارد گرد بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ۔گل بانو کو دیکھتے ہی سب ہڑبڑا کر اُٹھے اور کھانا وہیں چھوڑ کر مکان میں گُھس گئے۔گل بانو جو اس سے پہلے بچوں کی خوفزدگی کے منظر دیکھ چکی تھی ،سمجھ گئی اور مسکرانے لگی۔یوں جیسے کسی بےروزگار کی نوکری لگ جائے۔مکان کی دہلیز پر جا کر وہ کچھ کہنے لگی تھی کہ گھر کی بہو نے جس کا چہرہ فق ہورہا تھا ،اُس کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھ دئیے۔گل بانو ایکاایکی ہنسی کہ سب گھر والے ہٹ کر دیوار سے لگ گئے پھر وہ ہنستی ہوئی واپس آگئی۔

کہنے والے کہتے ہیں کہ اُس روز وہ دن بھر اور رات بھر ہنستی رہی اور کئی بار یوں بھی ہوا کہ گل بانو کے گھر کا دروازہ باہر سے بند ہوتا تو جب بھی لوگوں نے گھر کے اندر سے اُس کے قہقہوں کی آواز سُنی۔
پھر گل بانو کے بال بھی اُگ آئے چہرہ بھی بھر گیا رنگ بھی چمک اُٹھا اور آنکھیں جگمگانے لگیں۔مگر اُس کی ذات سے جو خوف وابستہ ہوگیا تھا اُس میں کوئی کمی نہ آئی ——————- اُنہی دنوں وہ مشہور واقعہ ہوا کہ جب چُھٹی پر آئے ہوئے ایک نوجوان نے اس عجیب سی لڑکی کو گلی میں تنہا دیکھا تو سیٹی بجا دی اور گل بانو اُنھی قدموں پر رک گئی جیسے اس کے پاؤں میں سیٹی نے بیڑی ڈال دی ہو۔نوجوان نے سیٹی کا اتنا فوری اور شدید اثر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔وہ لپکا اور گل بانو کا بازو پکڑ کر اپنی طرف کھینچا،مگر پھر چیخنے لگا کہ مجھے بچاؤ ،میں جل رہا ہوں۔اگر گل بانو اُس کے منہ پر تھوک نہ دیتی تو وہ راکھ کی مٹھی بن کر اُڑ جاتا۔کہتے ہیں لوگ جب نوجوان کو اُٹھا لے گئے تو جب بھی گل بانو دیر تک گلی میں تنہا کھڑی رہی اور اُس کے ہونٹ ہلتے رہے۔اور اُس رات گاؤں میں خوفناک زلزلہ آیا تھا جس سے مسجد کا ایک مینار گر گیا تھا اور چیختے چلاتے پرندے رات بھر اندھیرے میں اُڑتے رہے تھے اور مُرغوں نے آدھی رات ہی کو بانگیں دے ڈالیں تھیں۔
گل بانو کی زندگی کے چند معمولات مقرر ہوگئے تھے۔سورج نکلتے ہی وہ مسجد میں جا کر محراب کو چومتی اور مسجد کے صحن میں جھاڑو دے کر واپس گھر آجاتی ۔وہاں سے ہاتھ میں ایک پرانا ٹھیکرا لئے نکلتی اور جہانے میراثی کے گھر آگ لینے پہنچ جاتی اور دن ڈھلے وہ ایک گھڑا اُٹھائے کنوئیں پر جاتی اور واپس آکر آدھا پانی مسجد کے حوض میں انڈیل دیتی اور شام کی اذان سے پہلے ہی مسجد میں دیا جلانے آتی پھر گھر چلی جاتی اور صبح تک نہ نکلتی ۔دونوں عیدوں پر وہ چند کھاتے پیتے گھروں میں جا کر بس جھانکتی اُسے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی اُسے دیکھتے ہی اُس کے ہاتھ پر پانچ روپے رکھ دئیے جاتے ————-اور وہ چپ چاپ واپس آجاتی۔پھر ہر سال دونوں عیدوں کے چند دن بعد وہ اچانک غائب ہو جاتی اور جب پلٹتی تو اُس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی سی ہوتی ۔جہانے میراثی کی بیوی کو اُس نے ایک بار بتایا تھا کہ وہ قصبے میں اپنے کفن کا کپڑا خریدنے گئی تھی مگر عام خیال یہ تھا کہ جنوں کے بادشاہ کو ملنے جاتی ہے۔
کچھ لوگ کہتے تھے کہ گل بانو کے قبضے میں جنات ہیں اور جو گھر اُس کے مطالبات پورے نہیں کرتا اس کے خلاف وہ اُن جنات کو بڑی بے رحمی سے استعمال کرتی ہے۔مثلاً برسوں پہلے کی بات ہے ،وہ ملک نورنگ خان کے ہاں بقرعید کی رقم لینے گئی تو ملک کا بی-اے پاس بیٹا عید منانے آیا ہوا تھا اُس نے یونہی چھیڑنے کے لئے کہہ دیا کہ دو اڑھائی مہینے کے اندر پہلی عید والے پانچ روپے اُڑا دینا تو بڑی فضول خرچی ہے اور ایسی فضول خرچی تو صرف نئی نئی دلہنوں کو زیب دیتی ہے۔گل بانو نے یہ سنا تو ملک کے بیٹے کو عجیب عجیب نظروں سے گھورنے لگی سارا گھر جمع ہو گیا اور نوجوان کو ڈانٹنے لگا کہ تم نے ماسی کو کیوں چھیڑا ،گل بانو کے ہاتھ پر پانچ کے بجائے دس روپے رکھے گئے مگر اس نے دس کا نوٹ آہستہ سے چولہانے کی حد بندی پر رکھ دیا اور چپ چاپ چلی آئی ۔اور پھر ہوا یوں کہ آدھی رات کو یہ نوجوان پلنگ سے گِر پڑا مگر یوں گِرا کہ پہلے یوں ہی لمبا لمبا چھت تک اُبھر گیا،پھر بجلی کی سی تیزی کے ساتھ تڑ سے زمین پر گِرا چیخ ماری اور بےہوش ہوگیا۔ساتھ ہی یہ سلسلہ بھی شروع ہوگیا کہ ہر روز ملک نورنگ خان کی جوان بیٹی کی ایک لٹ کٹ کر گودمیں آگرتی۔راتوں کو چھت پر بھاگتے ہوئے بہت سے قدموں کی اِدھر سے اُدھر دھب دھب ہوتی رہتی۔دیواروں پر سجی ہوئی تھالیاں کیلوں پر سے اُتر کر کمرے میں اُڑنے لگتیں اور دھڑ دھڑ جلتا ہوا چولہا چراغ کی طرح ایک دم بجھ جاتا۔
بعض لوگوں کا خیال یہ بھی تھا کہ ماسی گل بانو خود ہی جن ہے وہ گلیوں میں چلتے چلتے غائب ہوجاتی ہے ۔دروازے بند ہوتے ہیں مگر وہ صحن میں کھڑی دکھائی دے جاتی ہے،جب سارا گاؤں سو جاتا ہے تو ماسی گل بانو کے گھر میں سے برتنوں کے بجنے،بکسوں کے کُھلنے اور بند ہونے ،گھنگھریوں کے جھنجھنانے اور کسی کے گانے کی آوازیں یوں آتی رہتی ہیں جیسے کوئی گہرے کنوئیں میں گا رہا ہو۔اور اگر پھر ماسی گُل بانو جن نہیں ہے تو وہ نوجوان جلنے کیوں لگا تھا جس نے ماسی کا بازو چھو لیا تھا ۔اور جو اپنی موت تک سردیوں کے موسم میں بھی صرف ایک چادر میں سوتا تھا اور وہ بھی صرف مچھروں سے بچنے کے لئے ورنہ اس چادر میں بھی اُسے پسینے آتے رہتے تھے۔
ابھی پچھلے دنوں کی بات ہے قادرے موچی نے چمڑا کاٹتے ہوئے اپنا انگوٹھا بھی کاٹ لیا۔سب لوگوں کی طرح خود قادرے کو بھی یقین تھا کہ وہ بچپن میں ہم جولیوں سے شرط بد کر شام کے بعد ماسی گل بانو کے دروازے کو چُھو آیا تھا تو ماسی کے جنوں نے اب جاکر اُس کا بدلہ لیا ہے۔
دن کے وقت اکِا دکا لوگ گل بانو کے ہاں جانے کا حوصلہ کر لیتے تھے اور جب بھی کوئ گیا یہی خبر لے کر آیا کے ماسی مصلے پر بیٹھی تسبیح پر کچھ پڑھ رہی تھی اور رو رہی تھی ۔البتہ شام کی اذان کے بعد ماسی گل بانو کے گھر کے قریب سے گزرنا قبرستان میں سے گزرنے کے برابر ہولناک تھا۔بڑے بڑے حوصلہ مندوں سے شرطیں بدی گئیں کہ رات کو ماسی سے کوئی بات کر آئے مگر پانچ پانچ دس دس قتلوں کے دعویدار بھی کہتے تھے ہم ایسی چیزوں کو کیوں چھیڑیں جو نظر ہی نہیں آتیں۔اور جو نظر آبھی جائیں اور ہم برچھا اُن کے پیٹ میں اُتار بھی دیں تو وہ کھڑی ہنستی رہیں۔اڑوس پڑوس کے لوگوں نے بڑے بڑے سجادہ نشینوں سے حاصل کئے ہوئے تعویذ اپنے گھروں میں دبا رکھے تھے کہ وہ ماسی گل بانو کے ہاں راتوں رات جمع ہونے والی بلاؤں کی چھیڑ چھاڑ سے محفوظ رہیں ۔یہ گاتی ،برتن بجاتی اور گھنگھریاں چھنکاتی ہوئی بلائیں !
گل بانو کی جناتی قوتوں کا اُس روز تو سکہ بیٹھ گیا تھا جب اُس نے گاؤں کی ایک لڑکی کے جن کو عجیب حکمت سے نکالا تھا ۔یہ جہانے میراثی کی جوان بیٹی تاجو تھی۔بڑی شاخ و شنگ اور بے انتہا بڑ بولی۔ماسی کو اس لڑکی سے بڑا پیار تھا ایک تو پورے گاؤں میں جہانے میراثی ہی کا گھر ایسا تھا جہاں آگ لینے کے سلسلے میں ماسی کا روز آنا جانا تھا۔پھر جب تاجو ننھی سی تھی تو ماسی سال کے سال جب بھی شہر سے اپنا کفن خریدنے جاتی تو تاجو کے لئے ایک نہ ایک چیز ضرور لاتی۔ساتھ ہی تاجو جب ذرا بڑی ہوئی تو اُس کی آواز میں پیتل کی کٹوریاں بجنے لگیں ۔کئی بار ایسا ہوا کے ماسی نے گلی میں سے گزرتی ہوئی تاجو کا بازو پکڑا اور اپنے گھر لے گئی ۔دروازہ بند کردیا ،تاجو کے سامنے گھڑا لا کر رکھ دیا۔خود تھالی بجانے بیٹھ گئی اور نمازوں‌کے وقفوں کو چھوڑ کر شام تک اُس سے جہیز اور رخصتی کے گیت سُنتی رہی اور ہنستے میں روتی رہی اور روتے میں ہنستی رہی۔جب تاجو پر جن آئے تو لوگوں کو یقین ہوگیا کہ تاجو ان جنوں کو وہیں ماسی گل بانو کے ہاں سے ساتھ لگا لائی ہے۔پھر جن اچھی آواز،اچھی صورت اور بھرپور جوانی پر تو عاشق ہوتے ہی ہیں۔اور تاجو میں یہ سب کچھ تھا۔اور وہ جنات کے گڑھ میں بیٹھی ان تینوں صفات کا مظاہرہ بھی کرتی رہی تھی ۔اُس پر ستم یہ کہ تاجو بلا کی طرار تھی اور جنات طرار لڑکیوں کی تو تاک میں رہتے ہیں۔
تاجو کی طراری کا یہ عالم تھا کہ ایک بار وہ لڑکیوں کے ایک جھرمٹ میں پانی بھر کر آرہی تھی ۔ملک نورنگ خان کی چوپال کے قریب سے گزری تو کسی بات پر اس زور سے ہنسی جیسے کانسی کی گاگر پتھروں پر لڑھکتی جا رہی ہے۔چوپال بھری ہوئی تھی ملک نورنگ خان کو میراثی کی ایک بچی کی یہ بےباکی بُری لگی۔اُس نے کڑک کر کہا: ” اے تاجو ! لڑکی ہوکر مردوں کے سامنے مردوں کی طرح ہنستے ہوئے شرم نہیں آتی ؟ “ اور تاجو نے عجیب طرح معافی مانگی۔وہ بولی ! ملک جی ، سرداریاں قائم ! میری کیا حیثیت کے میں ہنسوں ۔پیر دستگیر کی قسم ! میں جب ہنستی ہوں تو میں نہیں ہنستی ،میرے اندر کوئی اور چیز ہنستی ہے !۔
اس پر ملک نورنگ خان نے پہلے تو حیران ہوکر اِدھر اُدھر لوگوں کی طرف دیکھا اور پھر بے اختیار ہنستے ہوئے کہا ” بلکل بلھے شاہ کی کافی کہہ گئی میراثی کی لونڈیا ۔
سو ایسی طرار لڑکی پر جن نہ آتے تو اور کیا ہوتا،جو آئے اور اس زور سے آئے کہ باپ نے اُسے چارپائی سے باندھ دیا۔روتی پیٹیتی بیوی کو اُس کے پہرے پر بٹھا دیا اور خود پیروں فقیروں کے پاس بھاگا۔کسی نے تاجو کی انگلیوں کے درمیان لکڑیاں رکھ کر اُس کے ہاتھ کو دبایا کسی نے نیلے کپڑے میں تعویذ لپیٹ کر جلایا اور اُس کا دھواں تاجو کو ناک کے راستے پلایا۔کسی نے تاجو کے گالوں پر اتنے تھپڑ مارے کہ اُس کے مساموں میں سے خون پھوٹ کر جم گیا ۔مگر تاجو کی زبان سے جن چلاتا رہا کہ میں نہیں نکلوں گا میں تو تمھاری پیڑھیوں سے بھی نہیں نکلوں گا۔
پھر کسی نے جہانے کو مشورہ دیا کہ جس نے تاجو کہ جنوں کے حوالے کیا ہے اُس سے بھی بات کر دیکھو ۔ماسی گل بانو سے بھی اس کا ذکر کرو،جہانا فوراً ماسی کے پاس پہنچا اسے اپنا دکھڑا سنایا اور منت کی میرے ساتھ چل کر تاجو کے جن نکال دو۔
ماسی بولی” چھ سات سال پہلے تم نے اُس کی منگنی کی تھی اب تک شادی کیوں نہیں کی ؟
جہانے نے جواب دیا ،کیا کروں ماسی ! لڑکے والوں نے تو تین چار سال سے میرے گھر کی دہلیز گِھسا ڈالی ہے۔پر اُس لڑکے کو اب تک کبڈی کا ڈھول بجانا نہیں آیا۔وہ تو بس بوڑھے باپ کی کمائی سے طرے باندھتا ہے اور کان میں عطر کی پھریریاں رکھتا ہے تاجو کو تو وہ بھوکا مار دے گا۔
ماسی نے کہا ! کچھ بھی کرے ،تاجو کی فوراً شادی کر دو۔جوانی کی انگھیٹی پر چپ چاپ اپنا جگر پھونکتے رہنا ہر کسی کا کام نہیں ہے۔اور تمھاری تاجو تو بالکل چھلکتی ہوئی لڑکی ہے اُس کی شادی کردو دولہا آیا تو جن چلا جائے گا۔
اور بلکل ایسا ہی ہوا ۔جہانے کو لوگوں نے سمجھایا کہ ماسی جنات کی رگ رگ سے واقف ہے، اُس کے کہے پر عمل کر دیکھو ۔اُس نے دوسرے دن ہی شادی کی تاریخ مقرر کر دی اور جب چارپائی پر جکڑی ہوئی تاجو کے ہاتھوں میں مہندی لگائی جانے لگی تو اُس نے کلمہ شریف پڑھا اور ہوش میں آگئی۔جن نے دولہا کی آمد کا بھی انتظار نہ کیا وہ مہندی کی خوشبو سے ہی بھاگ نکلا۔
بے انتہا خوف اور بے حساب دہشت کے اس ماحول میں گل بانو کی غیر متوازن چاپ کا توازن بچوں اور نمازیوں تک کو چونکا دیتا تھا۔ماسی گل بانو گلی میں سے گزر رہی ہے ! ماسی گل بانو گھر سے نکلی ہے—————-ماسی گل بانو واپس جا رہی ہے————–یہ سب کچھ برسوں سے ہو رہا تھا،مگر ہر روز یہ ایک خوفناک خبر بن کر پورے گاؤں میں گونج جاتا تھا۔
پھر مدتوں بعد ایک قطعی مختلف خبر نے گاؤں کو چونکا دیا۔سورج نیزہ سوا نیزہ بلند ہوگیا جب خبر اُڑی کہ آج ماسی گل بانو مسجد کی محراب چومنے اور صحن میں جھاڑو دینے نہیں آئی۔مسجد کی پچھلی گلی میں ایک ہجوم سا لگ گیا تو جہانے میراثی نے بتایا کہ آج وہ اس کے گھر میں آگ لینے بھی نہیں آئی ۔مگر ماسی کے پڑوسیوں نے گواہی دی کہ ہمیشہ کی طرح آج بھی رات کو گہرے کنوئیں میں سے کسی کے گانے کی آواز آتی رہی اور تھالیاں بجتی رہیں،اور گھنگریاں چھنکتی رہیں۔پھر کسی نے آکر یہ بھی بتایا کہ کل دن ڈھلے ماسی گل بانو مسجد کے حوض میں آدھا گھڑا اُنڈیل رہی تھی تو اُس کے ہاتھ سے گھڑا گِر کر ٹوٹ گیا تھا اور وہ ٹھیکریاں سمیٹتی جاتی تھی اور روتی جاتی تھی۔پھر معلوم ہوا کہ جب شام کو وہ مسجد میں دیا جلانے آئی تو صحن کے باہر جوتا اُتارتے ہوئے گِر پڑی ۔مگر اُٹھ کر اُس نے دیا جلایا اور واپس چلی گئی۔اور جب وہ واپس جا رہی تھی تو رو رہی تھی۔
طے پایا کہ دن کا وقت ہے اس لئے تشویش کی کوئی بات نہیں ہے۔سب لوگ اکٹھا ماسی گل بانو کے ہاں چلیں کہ خیریت تو ہے۔آخر وہ آج گھر سے کیوں نہیں نکلی۔
اُس وقت جھکڑ چل رہا تھا،گلیوں میں مٹی اُڑ رہی تھی اور تنکے ننھے بگولوں میں چکرا رہے تھے۔ہجون مسجد کی گلی میں سے گزرا تو تیز جھکڑ نے مسجد کی بیری پر سے زرد پتوں کا ایک ڈھیر اتار کر ہجوم پر بکھیر دیا۔عورتیں چھتوں پر چڑھ گئیں اور بچے ہجوم کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگے۔
بلکل برات کا سا منظر تھا،صرف ڈھول اور شہنائی کی کمی تھی ۔بس ہجوم کے قدموں کی خش خش تھی یا تیز ہوا کے جھکڑ تھے۔جو وقفے وقفے کے بعد چلتے تھے اور اُن کے گزرنے کے بعد صحنوں میں اُگی ہوئی بیریوں اور بکائنوں کی شاخیں یوں بے حس ہوجاتی تھیں جیسے مدتوں سے ہوا کے جھونکے کے لئے ترس رہی ہیں۔
ماسی گل بانو کے دروازے تک تو سب پہنچ گئے مگر دستک دینے کا حوصلہ کسی میں نہ تھا۔
ماسی گُل بانو ! “ کسی نے پکارا اور جھکڑ جیسے مُٹھیاں کر اور دانت پیس کر چلا اُٹھا۔ماسی کے گھر کا دروازہ یوں بجا جیسے اُس پر اندر سے ایک دم بہت سے ہاتھ پڑے ہیں۔تیز ہوا دروازے کی جھریوں میں سے بہت سی تلوار بن کر نکل گئی۔جھکڑ کے اس ریلے کے نکل جانے کے بعد ہجوم پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔پھر جہانے میراثی نے ہمت کی وہ آگے بڑھا اور کواڑ کوٹ ڈالے۔اور جب وہ پیچھے ہٹا تو اُس کے چہرے پر پسینہ تھا اور اُس کے ناخن زرد ہو رہے تھے۔
پھر ہجوم کو چیرتی ہوئی تاجو آئی اور ماسی کے دروازے کی ایک جھری میں سے جھانک کر بولی ” ماسی کے کوٹھے کا دروازہ تو کُھلا ہے ! “
ماسی گُل بانو !۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پورا ہجوم چلایا،مگر کوئی جواب نہ آیا۔اب کے جھکڑ بھی نہ چلا کہ سناٹا ذرا ٹوٹتا۔صرف ایک ٹیڑھا میڑھا جھونکا بے دلی سے چلا اور یوں آواز آئی جیسے ایک پاؤں کو گھسیٹتی ہوئی ماسی گُل بانو آ رہی ہے۔
بہت سے لوگوں نے ایک ساتھ کواڑ کی جھری سے جھانکا،اور پھر سب کے سب ایک ساتھ جیسے سامنے سے دھکا کھا کر پیچھے کھڑے ہوئے لوگوں پر جا گرے————–
ماسی گل بانو آ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب نے کہا !
اب کے تاجو دروازے سے چمٹ گئی اور باپ نے اُسے وہاں سے کھینچ کر ہٹایا تو اُس کی ایسی حالت ہو چکی تھی جیسے جن آنے سے پہلے اُس پر طاری ہوا کرتی تھی۔
پھر دروازے پر کچھ ایسی آواز آئی جیسے اندھیرے میں کوئی اُس کی زنجیر تک ہاتھ پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔اچانک زنجیر کُھلی ،مہندی کی خوشبو کا ایک ریلہ سا اُمڈا۔سامنے کوئی کھڑا تھا ،مگر کیا یہ ماسی گُل بانو ہی تھی ؟
اُس نے سرخ ریشم کا لباس پہن رکھا تھا۔اُس کے گلے میں اور کانوں میں اور ماتھے پر وہ زیور جگمگا رہے تھے جو آج کل بازاروں کی پٹڑیوں پر بہت عام ملتے ہیں۔اُس کے بازو کہنیوں تک چوڑیوں سے سجے ہوئے تھے اور اُس کے ہاتھ مہندی سے گُلنار ہو رہے تھے۔
ماسی گُل بانو دلہن بنی کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں تو شام کے بعد تاروں کی چھاؤں میں آنا چاہیے تھا
ماسی گُل بانو ایک عجیب سی آواز سے بولی۔یہ ماسی گُل بانو کی اپنی آواز نہیں تھی۔یہ اُس کے اندر سے کوئی بول رہا تھا،اور وہ گاؤں کے اس ہجوم سے مخاطب نہیں تھی وہ برات سے مخاطب تھی۔
ماسی ! “ تاجو نے ہمت کی اور ایک قدم آگے بڑھایا۔
ماسی گل بانو کی نظریں تاجو پر گڑ گئیں اُس نے تاجو کو پہچان لیا تھا۔ساتھ ہی اُس کی آنکھوں میں کچھ ایسی لوٹ سی پھیل گئی جیسے وہ سمجھ گئی ہے کہ اُس کے دروازے پر برات نہیں آئی ہے۔پھر اُس کے ہاتھ سے لاٹھی چھوٹ گئی،اُس نے دروازے کو اپنے ہاتھوں کی ہڈیوں سے جکڑنے کی کوشش کی مگر پھر دروازے پر ڈھیر ہوگئی۔
ہجوم کی دہشت ایک دم ختم ہوگئی۔لوگ آگے بڑھے اور ماسی گُل بانو کو اُٹھا کر اندر لے گئے۔
پورا کوٹھا مہندی کی خوشبو سے بھرا ہوا تھا۔چارپائی پر صاف ستھرا کھیس بچھا تھا،چار طرف رنگ رنگ کے کپڑے اور برتن پیڑھیوں اور کھٹولوں پر دلہن کے جہیز کی طرح سجے ہوئے تھے۔ایک طرف آئینے کے پاس کنگھی رکھی تھی،جس میں سفید بالوں کا ایک گولہ سا اٹکا ہوا تھا۔ماسی کو صاف ستھرے کھیس پر لٹا دیا گیا اور اُسے اُسی کے ریشمی ڈوپٹے سے ڈھانک دیا گیا۔
تب پیتل کی کٹوریاں سی بجنے لگیں،زار زار روتی ہوئی تاجو ،دلہن کی رخصتی کے گیت گانے لگی اور ہجوم جنوں کی طرح چیخ چیخ کر رونے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1965 ء

اپنا تبصرہ لکھیں