ردو کے مٹتے الفاظ
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اب سے کوئی بیس برس پہلے ہم لفظ “دہشت گرد” دن میں کتنی بار سنتے تھے؟
“جہانیانِ جہاں گرد” جیسا لفظ ہماری تہذیب کا حصہ تھا مگر اب ۔۔۔۔۔۔؟ افسوس کہ “دہشت گرد” کا لفظ ہمارا مقدر ہے ، یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔
بہت سی چیزیں جو اب استعمال نہیں ہوتیں ، ان کے نام بھی لوگ بھول جاتے ہیں یا ان کی جگہ انگریزی الفاظ استعمال ہونے لگے ہیں۔
ہماری دس سالہ بھتیجی مجھ سے پوچھتی ہے : پھپھو ! آپ کچن کو “باورچی خانہ” کیوں کہتی ہیں، ہمارے گھر میں تو کوئی باورچی نہیں ہے۔
گھر میں شادی کا سلسلہ تھا ، مایوں کی رسم تھی۔ میں نے کہا کہ کمرے میں چاندنی کا فرش کر لو۔
“چاندنی” ؟ ہماری نند کی بیٹی میرا منہ تکنے لگی۔
“چاندنی” تو ہماری تقریبات اور رسومات کا ایک اہم جز تھی اور ہے۔
کچھ دن پہلے شہر ریاض میں ایک دوست نے دعوت کی تو فیرنی مٹی کی “سکوریوں” میں پیش کی جو وہ بطورِ خاص ہندوستان سے لائے تھے۔ میں نے ان کی بچیوں سے پوچھا کہ بتاؤ ان کو کیا کہتے ہیں؟ ظاہر ہے ان بچیوں کو معلوم نہیں تھا حتیٰ کہ ان بچیوں کی ماں کو بھی مشکل سے یہ نام یاد آیا۔
مٹی کے “کلہڑ” لوگوں کو پھر بھی یاد رہ گئے ہیں کیونکہ ہمارے ہندوستان کے مشہور ریلوے منسٹر لالو پرساد یادو نے ماحولیاتی آلودگی کے پیش نظر ٹرین میں چائے “کلہڑ” میں دینے کا حکم جاری کیا تھا۔
حالانکہ مجھے یاد ہے ہماری امی بہت خفا ہوتی تھیں اگر ہم “کلہڑ” کہتے ، وہ ہمیشہ اسے “آب خورہ” کہتی تھیں۔
گھر میں استعمال ہونے والی چیزیں ۔۔۔۔ سلفچی ، آفتابہ ، بادیہ ، رکابی ، خاصدان ۔۔۔ یہ سب الفاظ اب تاریخ کا حصہ بن گئے ہیں جو ہم نے اپنے بچپن میں سنے تھے۔
البتہ “پاندان” اب بھی زندہ ہے جو اکثر غزلوں میں بھی جدت پیدا کرنے کے لئے بروزن خاندان باندھا جاتا ہے۔ یعنی : خاندان کی خوشبو ، پاندا ن کی خوشبو۔
چلتے چلتے کچھ اور بھی سن لیں۔
ایک صاحبہ ہیں۔ ان کی بیٹی کے جہیز کے کپڑوں کی تیاری جاری تھی۔ وہ کچھ اتنی بوکھلائی ہوئی تھیں کہ “کمبخت” کا غرارہ بنوانے لگیں۔
خدا نہ کرے ، وہ اپنی بیٹی کو کمبخت نہیں کہہ رہی تھیں۔
“زربفت” اور “کمخواب” ان کے ذہن میں خلط ملط ہو گئے اور ان دونوں کو ملا کر ایک نیا کپڑا ایجاد ہو گیا : “کمبخت” !!