” میں بهی ملازم ہوں فواد بهائی؟” ایک خیال سا اس کے ذہن میں ابهرا- ” کیا مطلب ؟” میں چونکا- ” اگر…… اگر میں کے دو کاموں میں سے کوئی ایک کر دوں تب تو ہم ڈنر پہ جا سکتے ہیں نا؟” وہ ہچکچا کر بولی کہ کہیں وہ برا نہ مان جائے- ” ارے مجهے یہ خیال کیوں نہيں آیا؟ تم بهی تو کمپنی کے اونرز میں سے ہو ، تم بهی تو یہ فائل سائن کروا سکتی ہو- بلکہ یوں کرتے ہیں، تم ڈرائیور کے ساتھ فائل لے کر چلی جاؤ، جب تک میں صدیقی صاحب سے نپٹ لیتا ہوں، اور پهر ڈرائیور تمہیں ہوٹل لے آئے گا، ٹهیک؟” اس نے منٹوں میں سارا پلان ترتیب دے دیا، وہ گہری سانس بهر کر رہ گئی- ” ٹهیک ہے ، میں پهر چینج کر لوں-” ” نہیں ، نہیں ایسے ہی ٹهیک ہے، اس طرح تو تم واقعی کوئی پراعتماد ایگزیکٹو لگ رہی یو- یہ ساری بزنس ویمن فارملی ایسے ہی ڈریس اپ ہوتی ہیں- میں ڈرائیور کو کال کر لوں-“ وہ اب مطمئن تها مگر محمل کو قدرے عجیب لگ رہا تها- وہ اتنی قیمتی اور جهلملاتی ساڑهی میں کسی فنکشن کے لیے تیار لگ رہی تهی، کسی آفیشل معاملے کے لیے موزوں نہیں، لیکن اگر فواد کہہ رہا تها تو ٹهیک ہی کہہ رہا ہو گا- یہ خیال کہ وہ ڈنر پہ جا رہے تهے، اسے پهر سے ایکسائٹڈ کر گیا-
سارا راستہ وہ پچهلی سیٹ پہ ٹیک لگائے آنکهیں موندے اس ہیرے کی انگوٹهی کے متعلق سوچتی آئی تهی، جو فواد نے یقینا لے لی ہو گی اور جب وہ تائی اماں کے سامنے کهڑا ہو کر محمل سے شادی کی بات کرے گا، تب تو مانو گهر میں طوفان ہی آ جائے گا- مگر اچها ہے- ایسا ایک طوفان ان فرعونوں کو لرزانے کے لیے آنا چاہیے-
وہ پرسکون اور مطمئن اور پراعتماد تهی-
گاڑی طویل ڈرائیو وے عبور کر کے پورچ میں رکی تو وہ ایک ستائشی نگاه خوبصورت سے لان پہ ڈالتی نیچے اتری-
مین ڈور پہ ایک سوٹڈ بوٹڈ اڈهیر عمر شخص جیسے منتظر کهڑا تها-
” اے ایس پی ہمایوں داؤد……؟” اس نے ذہن میں اندازہ لگایا اور فائل مضبوطی سے پکڑے اعتماد سے چلتی ان کے قریب آئی-
” میں آغا گروپ آف انڈسٹریز سے…..”
” جی محمل ابراہیم ! آئے اے ایس پی صاحب اندر آپ کا ہی انتظار کر رہے ہیں-” اس نے دروازہ کهول کر راستہ دیا- وہ لمحے بهر کو ہچکچائی اور ہهر خود کو ڈپٹتے ہوئے اندر قدم رکها-
روشنیوں میں گهرا وہ بےحد نفیس اور قیمتی سامان سے آراستہ گهر اندر سے اتنا خوبصورت تها کہ خود کو سنجیدہ رکهنے کی کوشش کے باوجود اکی نگاہیں بهٹک بهٹک کر اطراف کا جائزہ کے رہی تهیں-
” اے ایس پی صاحب کدهر -”
” وہ اندر آپ کا انتظار کر رہے ہیں-” وہ اس کے آگے تیز تیز چلتے ہوئے لاونج میں لے آیا ” سر ، یہ پہنچ گئی ہیں-”
اس نے لاونج میں قدم رکها تو سامنے بیٹهے شخص کو اپنی طرف متوجہ پایا-
وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکهے صوفے پہ بیٹها تها- تهوڑی تهوڑی سی شیو بڑهی تهی اور بال ماتهے پہ بکهرے تهے- بلیک کوٹ میں ملبوس جس کے اندر سفید شرٹ کے دو بٹن اوپر سے کهلے تهے- ایک ہاته میں اورنج جوس سے بهرا وائن گلاس پکڑے وہ بغور اسے اندر آتے ديکھ رہا تها-
ایک لمحے کو تو محمل کے قدم ڈگمگائے- اس کا پالا زیادہ تر گهر کے لڑکوں سے ہی پڑا تها- فواد اور حسن خوش شکل تهے ، کچھ دولت کی چمک دمک سے بهی اسٹائلش لگتے تهے، باقی اس کے چچاوں میں بهی کوئی اتنی متاثر کن شخصیت کا مالک نہ تها جتنا صوفے پہ بیٹها وہ مغرور سا دکهنے والا شخص تها- ہینڈسم….. بے حد ہینڈسم…….. اتنا وجیہہ مرد اس نے پہلی مرتبہ دیکها تها-
وہ نہ چاہتے ہوئے بهی مرعوب ہو گئی-
وہ خاموشی سے اسے بغور جانچتی ہوئی نگاہوں سے دیکهتا رہا، یہاں تک کہ وہ آ کر سیدهی سامنے والے صوفے پہ بیٹهی اور فائل سامنے میز پہ رکھ دی- اب اس کا اعتماد کسی حد تک بحال ہونے لگا تها-
“یہ فائل اپروو کروانی تهی اے ایس پی صاحب-”
وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکهے اس کے مقابل بیٹهی خوصے اعتماد سے بولی تو وہ ذرا سا مسکرایا، پهر سامنے ہاتھ باندهے کهڑے سوٹڈ بوٹڈ شخص کو دیکها-
” ان کو آغا فواد کریم نے ہی بهیجا ہے راؤ صاحب؟” مسکرا کرر کہتے ہوئے اس نے جوس کا گلاس لبوں سے لگایا- محمل نے ذرا چونک کر راؤ کو دیکها-
وہ بهی مسکرا دیا تها-
کچھ تها ان دونوں کی معنی خیز مسکراہٹ میں کہ دور اس کے ذہن میں خطرے کا الارم بجا-
” تو آپ فائل اپروو کروانے آئی ہیں؟” وہ استہزائیہ مسکراتی نگاہوں سے کہہ رہا تها- محمل کو الجهن ہونے لگی-
” جی ، یہ آغا گروپ آف انڈسٹریز کی فائل ہے اور……”
” اور آپ کی اپنی فائل؟ وہ کہاں ہے؟” اس نے گلاد سائیڈ پہ رکها اور قدرے جهک کر ہاتھ بڑها کے فائل اٹهائی-
” میری کونسی فائل؟” کچھ تها جو اسے کہیں غلط لگ رہا تها، کہیں کچھ بہت غلط ہو رہا تها-
” آپ جائیں راؤ صاحب-” اس نے فائل کے صفحے پلٹا کر ایک سرسری نگاه ڈالی اور پهر فائل اس کی طرف بڑهائی- محمل لینے کے لیے اٹهی مگر بیت تیزی سے راو صاحب نے آگے بڑه کر فائل تهامی-
” اور جا کر آغا فواد کے ڈرائیور کو کہیں کہ فائل اپرووڈ ہے، صبح ان کو رسید مل جائے گی-”
” مجهے دیں دے، میں لے جاتی ہوں-”
وہ دونوں ایک دم چونکے تهے، اور پهر رک کر ایک دوسرے کو دیکها- ہمایوں نے اشارہ کیا تو راؤ صاحب سر ہلا کر باہر نکل گئے-
” آپ بیٹهئے مادام” ڈرائیور دے آئے گا-”
ایک دم ہی اس کے کانوں میں خطرے کی گهنٹی زور زور سے بجنے لگی تهی- اسے لگا وہ غلط وقت پہ غلط جگہ اور غلط لوگوں کے درمیان آ گئی ہے – اسے وہاں نہیں آنا چاہئے تها-
” نہیں میں چلتی ہوں-” وہ پلٹنے ہی لگی تهی کہ وہ تیزی سے اٹها اور زور سے اس کو بازو سے پکڑ کر اپنی طرف گهمایا- اس کے لبوں سے چیخ نکلی-
” زیادہ اوور اسمارٹ بننے کی ضرورت نہیں ہے- جو کہا جا رہا ہے ویسے ہی کرو-” اس کے بازو کو اپنی آہنی گرفت میں دبوچے وہ غرایا تها- لمحے بهر کو تو زمین آسمان محمل کی نگاہوں کے سامنے گهومنے لگے-
جاری ہے