کتاب: قلمی خاکے (مشہور شخصیات کا جامع تعارف

Suhail Anjum
مصنف: پروفیسر ظفر احمد نظامی
مرتب: ڈاکٹر شمع افروز زیدی
صفحات: ۲۶۴، قیمت: ۴۰۰ روپے
ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، جوگا بائی، نئی دہلی۔۱۱۰۰۲۵
تبصرہ نگار: سہیل انجم
کل وہ ہمارے درمیان تھے، زمین پر مثلِ آسمان تھے۔ آج ساکنِ شہرِ لافانی ہیں، یعنی خلد آشیانی ہیں۔ فنِ خاکہ نگاری میں طاق تھے، چہرہ سازی میں مشاق تھے۔ جس کا بھی سراپا لکھا، بے محابا لکھا۔ خامی ہو یا خوبی، تحریر میں سب پرو دی۔ اہلِ ذوق پڑھ کے سر دھنتے، بے پڑھے پڑھوا کے سنتے۔ ان کے چہروں کو سجایا ڈاکٹر شمع افروز نے، یعنی اک دلِ پر سوز نے۔ آبجیکٹیو اسٹڈیز سے اشاعت ہوئی، کتاب باعث سعادت ہوئی۔ وہ رومی تھے نہ شامی تھے، بس پروفیسر ظفر احمد نظامی تھے۔
یہ خراج عقیدت ہے ایک ایسے فنکار کو جو اردو ادب کا نہ ہونے کے باوجود زندگی بھر اردو ادب کا شیدائی رہا۔ جس نے خاکہ نگاری کے فن میں ایک نئی راہ نکالی۔ جس نے اپنی جودت طبع سے قلمی چہروں کو نئی شناخت دی۔ جس کے قلمی خاکے قارئین بیسویں پڑھ پڑھ کر جھوما کرتے تھے اور جو علمی و ادبی دنیا میں پروفیسر ظفر احمد نظامی کے نام سے مشہور تھا۔ وہ یوں تو سیاسیات کے آدمی تھے لیکن ان کا مطالعۂ ادب اردو ادیبوں کو حیرت میں ڈال دیتا تھا۔ وہ جتنے لائق و فائق تھے اتنے ہی شریف النفس اور خوش اخلاق بھی تھے۔ وہ شاعر اور افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کی تخلیقات ایک زمانے تک اپنے وقت کے مشہور ادبی رسالے بیسویں صدی میں شائع ہوتی رہیں۔ بعد میں انھوں نے بیسویں صدی کے معروف کالم قلمی چہرہ کے سلسلے کو آگے بڑھانے کا بیڑہ اٹھایا۔ اس طرح انھوں نے ۱۹۹۰ سے لے کر ۲۰۰۶ تک بیسویں صدی کے لیے قلمی خاکے لکھے۔ اس کے علاوہ وہ علیحدہ بھی شخصیات کا قلمی خاکہ لکھا کرتے اور پروگراموں میں پڑھا کرتے تھے۔
انھی قلمی خاکوں کو ماہنامہ بیسویں صدی کی مدیر ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے مرتب کیا ہے اور آبجیکٹیو اسٹڈیز نے کتابی شکل میں شائع کیا ہے۔ شمع افروز زیدی نے ’’عرض مرتب‘‘ میں لکھا ہے ’’۱۹۹۰ سے جولائی ۲۰۰۶ کے درمیان ۱۱۴ ؍یا ۱۱۵؍ قلمی چہرے نظامی صاحب نے تحریر کیے۔ ان میں علمی و ادبی شخصیات بھی ہیں اور سیاسی و سماجی شخصیات بھی جو بیسویں صدی کی مختلف اشاعتوں میں شامل ہیں۔ نظامی صاحب نے اپنے خاکوں میں کسی کا خاکہ نہیں اڑایا بلکہ اپنے علم کی حد تک انھوں نے بڑی محبت سے انھیں قارئین سے بھرپور انداز میں متعارف کرایا۔۔۔ ان کے تمام قلمی چہرے ایک طرح سے صاحب خاکہ کا بھرپور انداز میں تعارف پیش کرتے ہیں اور ان کے ذریعے ایسی معلومات فراہم کی گئی ہیں جو مستقبل میں کام کی چیز ثابت ہوں گی‘‘۔
اس کتاب کا پیش لفظ آئی او ایس کے ڈاکٹر منظور عالم نے لکھا ہے۔ ان کے بقول ’’انھوں نے انسٹی ٹیوٹ کے ذریعے دیے جانے والے شاہ ولی اللہ ایوارڈ کے موقع پر قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، پروفیسر نجات اللہ صدیقی، مولانا محمد شہاب الدین ندوی اور پروفیسر یٰسین مظہر صدیقی کے نام بھی قلمی خاکے تیا رکیے ہیں جو اس میں شامل ہیں‘‘۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بس یہی چار خاکے بیسویں صدی میں شائع نہیں ہوئے ورنہ باقی تمام خاکے بیسویں صدی میں شائع ہو چکے ہیں۔ یہ بھی ذکر کر دینا مناسب ہے کہ بیسویں صدی میں شائع ہونے والے خاکوں کے ساتھ متعلقہ شخصیت کا کیری کیچر بنایا گیا ہے جبکہ مذکورہ چاروں خاکوں کے ساتھ ان کی تصویریں شامل ہیں۔ کتاب میں ۶۹ خاکے شعراء و ادباء کے ہیں اور ۵۰ خاکے دانشوروں اور ممتاز سیاسی و سماجی شخصیتوں کے ہیں۔
قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے مقدمہ لکھا ہے جس میں انھوں نے فن خاکہ نگاری پر بھرپور روشنی ڈالی ہے اور اس فن کے آئینے میں پروفیسر ظفر احمد نظامی کے خاکوں کو پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’ظفر احمد نظامی کا شمار ہمارے Main Stream اردو ادیبوں میں نہیں ہوتا ۔۔۔ تاہم ان کے خاکوں کی یہ خوبی ضرور ہے کہ ان میں فراہم کردہ اطلاعات، مواد اور حقایق کے استناد سے انکا رکی جرأت نہیں ہو سکتی ۔۔۔ ظفر احمد نظامی اپنے خاکوں میں کسی بڑی ادبی خدمت کے لیے راہ ہموار کرنے کے بجائے فوری مسرت اور سرخوشی کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ یقیناً پوری طرح کامیاب ہیں‘‘۔
جن شخصیات کے قلمی چہرے لکھے گئے ہیں ان میں شمس الرحمن فاروقی، آل احمد سرور، انتظار حسین، پروفیسر اختر الواسع، ڈاکٹر بشیر بدر، بیکل اتساہی، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، جمیل الدین عالی، جوگندر پال، حیات اللہ انصاری، پروفیسر شمیم حنفی، ظفر گورکھپوری، علی سردار جعفری، قرۃ العین حیدر، کیفی اعظمی، مجروح سلطانپوری، پروفیسر مظفر حنفی، مجتبیٰ حسین، ندا فاضلی اور پروفیسر نثار احمد فاروقی قابل ذکر ہیں۔ جبکہ سیاسی و سماجی شخصیات میں اٹل بہاری واجپئی، اے آر قدوائی، اندر کمار گجرال، جسٹس اے ایم احمدی، اے پی جے عبد الکلام، پرویز مشرف، خوشونت سنگھ، سید حامد، سونیا گاندھی، سید شاہد مہدی، سید ظفر محمود، شنکر دیال شرما، پروفیسر شمیم جیراجپوری، حکیم عبد الحمید، علی محمد خسرو، نجمہ ہبۃ اللہ، نرسمہا راؤ، اور ویرپن شامل ہیں۔
ظفر احمد نظامی کے قلمی خاکوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کا پہلا پیراگراف عموماً یکساں ہوتا ہے۔ دوسرے پیراگراف میں بھی اکثر جملوں کی تکرار ملتی ہے۔ ہاں وہ شخصیات کے کارناموں کو اس انداز میں خاکوں میں پیوست کرتے ہیں کہ طبیعت عش عش کر اٹھتی ہے۔ جہاں تک تکرار کی بات ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ پورا خاکہ مقفع و مسجع لکھتے ہیں۔ جن میں قافیہ بندی ہوتی ہے۔ اگر وہ پہلا پیراگراف ہی مقفع و مسجع لکھتے خواہ وہ قدرے بڑا ہی کیوں نہ ہوتا تو یہ سقم پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور جس کی طرف قاضی عبید الرحمن ہاشمی نے بھی اشارہ کیا ہے کہ وہ جو اطلاعات، مواد اور حقایق پیش کرتے ہیں اس کی صداقت سے کسی کو انکار نہیں۔ ان کے خاکوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ زیادہ بڑے نہیں ہوتے۔ صرف پروفیسر نجات اللہ صدیقی کا خاکہ تین صفحات پر مشتمل ہے ورنہ بیشتر ڈیڑھ اور دو صفحات تک محدود ہیں۔ ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ ہر خاکہ کے آخر میں ایک شعر دیا گیا ہے جو مذکورہ شخصیت پر پوری طرح فٹ آتا ہے۔
میں دو مثالیں دے رہا ہوں باقی قارئین پر چھوڑتا ہوں کہ وہ پڑھیں اور محظوظ بھی ہوں او راپنے علم میں اضافہ بھی کریں۔ مثال کے طور قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کا خاکہ یوں شروع کرتے ہیں ’’چہرہ گول، دل انمول، آنکھوں میں چمک، فضیلت کی دمک، ستواں ناک، زبان بیباک، بڑے بڑے کان، بڑے پن کا نشان، سر پر بال، بلند اقبال۔ یہ ہیں مملکت علمیت کے تاجدار، مالکِ شخصیتِ باوقار، سلطانِ اقلیمِ فقہ اسلامی، پیکر و مظہر و مجسمہ نیک نامی، کاروانِ عدل و انصاف کے سالار، عالم دانش و بینش کا وقار، امت مسلمہ کا اعتبار و اعتماد، وجہ افتخار و عظمت عظیم آباد، صاحبِ جہانِ علم و آگہی، علوم و فنونِ مشرقیہ کے منتہی ۔۔۔ علی میاں کے لائق و فائق جانشین، مسلم پرسنل لا بورڈ کا اعتبار و یقین۔ مکرمی و محترمی و معزمی۔ یعنی حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی‘‘۔ اسی طرح پروفیسر نجات اللہ صدیقی کا خاکہ یوں شروع کرتے ہیں ’’یہ ہیں ماہرِ اقتصادیات، ممتاز عالمِ معاشیات، استادِ علومِ اسلامی، صاحبِ شرافت و نیک نامی، ماہر زبانِ اردو، سر چڑھ کر بولتا جادو، مجسم فہم و فراست، ترجمانِ افکارِ ریاست، تاجدارِ مملکتِ علوم اسلامی، شارحِ علوم قرآنی، حاملِ ذہنِ تحقیقی، یعنی پروفیسر نجات اللہ صدیقی۔
اس کتاب کی ترتیب میں ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے نہایت مشقت سے کام لیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نے اسے شائع کر کے اہل ذوق کے لیے ایک بہترین تحفے کا انتظام کیا ہے۔ اس کے علاوہ فن خاکہ نگاری میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بھی اس کتاب میں بہت کچھ ہے۔ البتہ اس کا پروڈکشن انتہائی غیر معیاری ہے۔ کاغذ اچھا نہیں ہے۔ قیمت بہت زیادہ ہے۔ پروفنگ کی اغلاط ہیں۔ اسے کتاب کے موضوع کے شایان شان شائع کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کیا جائے توان خامیوں کو دور کیا جانا چاہیے۔

اپنا تبصرہ لکھیں