Episode 17
تحرير۔ نمرہ احمد
انتخاب۔ راحيلہ ساجد
” چهوڑیں مجهے” وہ سنبهل ہی نہ پائی تهی کہ ہمایوں داؤد نے اس کی دونوں بازووں کو ہاتهوں میں پکڑ کر اسے جهٹکا دے کراپنے بالکل سامنے کیا –
” زیادہ چالاکی دکهائی تو اپنے پیروں پہ گهر نہیں جاؤ گی-”
” مم…… مجهے چهوڑ دیں- مجهے گهر جانا ہے-” محمل نے اس کو پرے دهکیلنا چاہامگر اس کی گرفت بہت مضبوط تهی-
” گهر جانا ہے، گهر ہی جانا تها تو یہ اتنے بناؤ سنگهار کیوں کیے تهے، ہوں؟” اس نے ہولے سے اس کی تهوڑی کو انگلی سے اوپر کیا، دوسرے ہاتھ سے کہنی اتنی مضبوطی سے جکڑ رکهی تهی کہ وہ ہل نہ پائی اور گهبرا کر چہرہ پیچهے کیا-
” میں فنکشن پہ جا رہی تهی، آپ مجهے غلط سمجھ رہے ہیں ، میں ایسی لڑکی نہیں ہوں- آپ فواد بهائی سے میری بات کرائیں، انہیں بتائیں کہ-”
” بهائی؟” وہ چونکا- ” آغا فواد تمہارا بهائی ہے؟”
” جی…….جی….. وہ میرے بهائی ہیں، آپ بےشک ان سے پوچھ لیں- مجهے یہاں نہیں آنا تها، فواد بهائی کو خود آنا تها، مگر ان کی میٹنگ تهی-” وہ ایک دم رونے لگی تهی- ” آپ پلیز مجهے گهر جانے دیں، میں غلط لڑکی نہیں ہوں، میں ان کی بہن ہوں-”
” جهوٹ بول رہی ہے-” راؤ پیچهے آ کهڑا ہوا تها- ” اسی کو ادهر آنا تها- چار ہفتے پہلے ڈیل ہوئی تهی سر اور اسی کے نام سے ہوئی تهی- کم عمر’ خوبصورت اور ان چهوئی- آغا نے کہا تها یہ ہماری ڈیمانڈ پہ پوری آترتی ہے-” راؤ کا لہجہ سپاٹ تها، محمل ابراہیم نام ہے نا تمهارا؟ تم آغا کی بہن کیسے ہو سکتی ہو، وہ تین کروڑ کے نفع کے پیچهے اپنی بہن کو ایک رات کے لیے نہیں بیچ سکتا-”
اس کے اردگرد جیسے دهماکے ہو رہے تهے- اسے بہت زور کا چکر آیاتها، وہ گرنے ہی لگی تهی کہ ہمایوں نے اس کی دوسری کہنی پکڑ کر اسے سیدها کهڑا رکها-
اب سیدهی طرح بتاو کہ تم ہمیں بیوقوف بنا رہی ہو یا آغا نے تمہیں بیوقوف بنایا ہے- تم محمل ابراہیم ہو اور وہ فواد کریم! وہ تمہارا سگا بهائی ہے؟ اتنے عرصے سے لڑکياں فراہم کر رہا ہے، پہلے تو کبهی اپنی بہن کا سودا نہیں کیا-”
” نہیں-” اس نے بے یقینی سے نفی میں سر ہلایا- ” آپ جهوٹ بول رہے ہیں- فواد بهائی میرے ساتھ ایسا نہیں کر سکتے- آپ….. آپ میری ان سے بات کرائیں….. آپ خود سن لینا وہ میرا ویٹ کر رہے ہیں، ہمیں فنکشن پہ جانا تها-”
ہر عام انسان کی طرح محمل کو بهی جهوٹ کی ہلکی پهلکی عادت تو تهی ہی اور اسی عادت کا کمال تها کہ خودبخود اس کے لبوں سے ڈنر کی جگہ فنکشن نکلا تها، لاشعور میں اسے احساس تها کہ اگر وہ اپنے اور فواد کے خاص ڈنر کا کہتی تو وہ اسے بری لڑکی سمجهتا-
” راو صاحب، آغا کو فون ملائیں-”
” رائٹ سر-” راؤ موبائل پہ نمبر ملانے لگا-
” اور سپیکر آن رکهیں-” اس نے یہ کہہ کر ایک گہری نگاہ محمل پہ ڈالی جو بے قرار اور ہراساں سی راوؤکے ہاتھ میں پکڑے فون کو ديکھ رہی تهی-
” جی راؤ صاحب…….” ایک دم کمرے میں فواد کی آواز گونجی- ” مال پہنچ گیا؟”
“پہنچ تو گیا ہے مگر پرزے آواز بہت دیتے ہیں- آپ بات کر لیں-” اس نے فون آگے بڑها کر محمل کے کان سے لگایا-
” ہیلو فواد بهائی-” وہ رو پڑی تهی- ” فواد بهائی یہ لوگ مجهے غلط سمجھ رہے ہیں، آپ پلیز ان کو……”
” بکواس مت کرو اور میری بات غور سے سنو- تمہیں وہ ڈائمنڈ رنگ چاہیے یا نہیں؟ چاہیے ہے نا، تو جیسے اےایس پی صاحب کہتے ہیں کرتی جاؤ-”
” فواد بهائی!” وہ حلق کے بل چلائی- ” یہ میرے ساتھ کچھ غلط کر دیں گے-”
” وہ جو کرتے ہیں کرنے دو، صرف ایک رات کی تو بات ہے نا، اب زیادہ بک بک مت کرنا، صبح تمہیں ڈرائیور لینے آ جائے گا-” ساتوں آسمان اس کے سر پہ ٹوٹے تهے-
وہ ساکت سی کهڑی رہ گئی-
” صرف ایک رات کی ہی تو بات ہے….. صرف ایک رات ہی کی تو بات ہے-” فواد کی آواز اس کے ذہن پہ ہتهوڑے برسا رہی تهی-
” بس ایک ڈائمنڈ رنگ کا لارا دیا ہے اس نے تمہیں؟ اور تم کہتی ہو کہ وہ تمہارا بهائی ہے؟” فون اس کے کان سے ہٹا کر بند کرتے ہوئے ہمایوں نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے دیکها-
وہ اسی طرح پتهر کا بےجان بت بنی کهڑی تهی- اس کا ذہن ، دل ، کان، آنکهیں سب بند ہو چکے تهے-
” رؤ صاحب، پتہ کرائیں کہ یہ واقعی فواد کریم کی بہن ہے یا نہیں اور اس کی بات میں کتنی سچائی ہے ، یہ تو ہم بعد میں خود معلوم کر لیں گے- شمس ، بچل-” اس نے زور سے آواز دی-
اس کے ہاتھ پاؤں ٹهنڈے پڑنے لگے تهے، ساکت وجود میں سے سہمی سہمی جان آہستہ آہستہ نکل رہی تهی- اس کی آنکهوں کے سامنے اندهیرے بادل چهانے لگے تهے-
دو گن مین دوڑتے ہوئے اندر آئے تهے-
” شمس، اسے اوپر والے کمرے میں بند کر دو، اور دهیان کرنا کہ بهاگنے نہ پائے اور بچل…… اس سے پہلے کہ اس کا فقرہ مکمل ہوتا ،محمل چکرا کر گری اور اگر اس نے اس کو دونوں بازووں سے تهام نہ رکها ہوتا تو وہ نیچے گر پڑتی-
” محمل……محمل-” وہ اسکا چہرہ تهپتهپا رہا تها- اس کی آنکهیں بند ہوتی گئیں اور ذہن گہرے اندهیروں میں ڈوبتا چلا گیا-
اس کی آنکهوں پہ کچھ نمی ڈالی گئی تهی- گیلے پن کا احساس تها یا کچھ اور اس نے ایک دم ہڑ بڑا کر آنکهیں کهولیں-
” اٹھ جاؤ، بہت سو لیا-” وہ گلاس ٹیبل پہ رکھ کر سامنے کرسی پہ جا بیٹها تها-
چند لمحے تو وہ خالی خالی نگاہوں سے اسے تکتے رہی اور جب آہستہ آہستی ذہن بیدار ہوا تو جیسے چونک کر سیدهی ہوئی-
وہ بڑا سا پرتعیش بیڈروم تها- قیمتی صوفے، قالین اور بهاری خوبصورت پردے- وہ ایک بیڈ پہ لیٹی تهی اور اب اس کے اوپر بیڈکور ڈالا ہوا تها- سامنے کرسی پہ وہ اکهڑے اکهڑے تیور کے ساتھ ٹانگ پہ ٹانگ رکهے بیٹها اسے ديکھ رہاتها-
اسے یاد آیا وہ اسے کسی کمرے میں بند کرنے کی بات کر رہے تهےجب وہ شاید بیہوش ہو گئی تهی- اب وہ کدهر تهی؟ اور اسے کتنی دیر بیت چکی تهی؟ گهر میں سب پریشان ہو رہے ہونگے-
وہ گهبرا کر قدرے سیدهی ہو بیٹهی- وہ ابهی تک اسی سیاہ جهلملاتی ساڑهی میں ملبوس تهی اور بیوٹیشن کی لگائی گئی ساری پنیں ویسے کی ویسے ہی لگی ہوئی تهیں-
” مم….. میں کدهر ہوں؟” کیا وقت ہوا ہے؟ صبح ہو گئی؟ وہ پریشان سی ادهر ادهر دیکهنے لگی تو سامنے وال کلاک پہ نگاه پڑی-
ساڑهے تین بج رہے تهے-
” ابهی صبح نہیں ہوئی اور آپ وہیں ہیں، جہاں پہ لانے کے لیے فواد نے آپ کو ڈائمنڈ رنگ کا لالچ دیا تها-”
” مجهے فواد بهائی نے ایسا کچھ بهی نہیں کہا تها، انہوں نے کہا تها کہ میں فائل سائن کروا کر واپس آ جاؤں- میں جهوٹ نہیں بول رہی-”
” میں کیسے مان لوں کہ تم سچ کہہ رہی ہو، آغا فواد کریم تو کہتا ہے کہ تم اس کے گهر میں پلنے والی ایک یتیم لڑکی ہو، نہ کہ اس کی بہن-”
” یتیم ہوں جب ہی تو تم جیسے عیاشوں کے ہاتھ بیچ ڈالا، اس نے مجهے جو میرا سگا تایازاد بهائی تها- تم سب گدهوں کا بس یتیموں پہ ہی تو چلتا ہے-” وہ پهٹ پڑی تهی-
” مجهے یہ آنسو اور جذباتی تقریریں متاثر نہیں کرتیں-” وہ اب اطمینان سے سگریٹ سلگا رہا تها-” مجهے صرف سچ سننا ہے اور ٹهیک ٹهیک ورنہ میں تهانے لے جا کر تمہاری کهال ادهیڑ دونگا-”
“میں جهوٹ نہیں بول رہی-”
” مجهے صرف یہ بتاؤ کہ اس سے پہلے وہ تمہیں کتنا شئیر دیتا رہا ہے، کدهر کدهر بهیجا ہے اس نے تمہیں اور تمہارے اس گینگ میں اور کون کون ہے؟” سگریٹ کا ایک کش لے کر اس نے دهواں چهوڑا تو لمحے بهر کو دهوئیں کے مرغولے ان دونوں کے درمیاں حائل ہو گئے-
” مجھ سے قسم لے لو میں سچ…….”
“قسم لے لوں؟ واقعی-”
” ہاں لے لیں-”
” سو بندوں کے سامنے عدالت میں اٹهاؤگی قسم؟” وہ ٹانگ پہ ٹانگ رکهے بیٹها سگریٹ لبوں میں دبائے کش لے رہا تها-
” میں تیار ہوں، مجهے عدالت میں لے جائیں میں یہ سب دہرانے کو تیار ہوں-”
” وہ تب ہو گا جب میں تمہارے کہے پہ یقین کرنگا- یقین جو ابهی تک مجهے نہیں آیا- ” اس نے سگریٹ ایش ٹرے میں جهٹکی- راکھ کے چند ٹکڑے ٹوٹ کر گرے-
” میں سچ کہہ رہی ہوں ، میرا کسی گینگ سے کوئی تعلق نہیں ہے- مجهے فواد بهائی نے کچھ نہیں بتایا تها-”
” تم اسے بچانے کی کوشش کر رہی ہو، میں جا نتا ہوں-”
” نہیں پلیز-” وہ لحاف اتار کر بستر سے اتری اور گهٹنوں کے بل اس کے قدموں میں آ بیٹهی-
” اےایس پی صاحب-” اس نے اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑ دیے-” میں لاعلم تهی کہ آپکا کیا مقصد ہے، کہ فواد بهائی کا کیا مقصد ہے، میں میریٹ پہ ڈنر پہ جانے کے لیے تیار ہوئی تهی- میرا کوئی قصور نہیں ہے-”
اس کی کانچ جیسی سنہری آنکهوں سے آنسو گرنے لگے-“اللہ کی قسم ! یہ سچ ہے-”
” اللہ کی قسم کهانے کے لیے آغا فواد نے کیا پیش کیا تها؟ ڈائمنڈ کا سیٹ؟”
وہی شکی پولیس آفیسر اور طنزیہ انداز- جتنا وہ شخص وجیہہ تها، اسکی زبان اتنی کڑوی تهی-
محمل کا دل.چاہا کہ اسکا منہ نوچ لےاور اگلے ہی پل وہ اس پہ جهپٹی اور اس کی گردن دبوچنی چاہی- مگر ہمایوں نے اس کی دونوں کلائیاں اپنی گرفت میں لے لیں- اسی کشمکش میں محمل کے دو ناخن اس کے گال سے رگڑے گئے-
” صرف آنکهیں نہیں، تمهاری تو حرکتیں بهی بلیوں والی ہیں- وہ کهڑا ہوا اور اس کو کلائیوں سے پکڑے پکڑے ساتھ کهڑا کیا-پهر جهٹکا دے کر چهوڑا وہ دو قدم پیچهے ہوئی –
“مجهے گهر جانا ہے، مجهے گهر جانے دو میں تمہاری منت کرتی ہوں-” وہ مڑ کر جانے لگا تو وہ تڑپ کر اس کے سامنے آ کهڑی ہوئی اور پهر سے ہاتھ جوڑ دیے-” صبح ہو گئ تو بدنام ہو جاؤنگی-”
” میں نے کہا نا بی بی ، مجهے یہ جذباتی تقریری متاثر نہیں کرتیں- اس نے اپنے گال پہ ہلکا سا ہاتھ پهیرا پهر استہزائیہ مسکرایا،- پهر کہا ، تم بہادر لڑکی ہو-” میں تمہیں گهر جانے دونگا مگر ابهی نہیں-ابهی تم ادهر ہی رہو گی کم از کم صبح تک-
” میں بدنام ہو جاؤنگی اے ایس پی صاحب- رات گزر گئی تو میری زندگی تباہ ہو جائے گی-”
” ہو جائے، مجهے پرواہ نہیں ہے-” وہ سگریٹ جهک کر ایش ٹرے میں پهینک کر دروازے کی طرف بڑها- وہ ہاتھ جوڑے کهڑی رہ گئی اور وہ دروازہ باہر سے بند کر کے جا چکا تها- دروازے کی جانب وہ لپکی، ڈورناب زور سے کهینچا، وہ باہر سے بند تها-
جاری ہے……