غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
ہوش ہم کھوتے نہیں ہیں کبھی جذبات میں بھی
ہر قدم پھونک کے رکھتے ہیں خیالات میں بھی
ہے محبت کا تعلق کہاں دانش سے کوئی
یہ وہ جذبہ ہے جو ہوتا ہے نباتات میں بھی
ذکر میرا نہ چھڑے، کتنی بھی کرلے کوشش
آ ہی جاتی ہے مری بات تری بات میں بھی
اوروں کو ٹوکتا پھرتا رہوں ایسا بھی نہیں
رہتا محتاط ہوں خود اپنے بیانات میں بھی
منحصر رہتا ہوں اقدام پہ اور حکمت پہ
اور یقیں رکھتا ہوں تھوڑا سا کرامات میں بھی
داخل_شہر میں ہوتا ہوں جھکا کر سر کو
ہوتا مغرور نہیں ہوں میں فتوحات میں بھی
میں سوالات فقط کرتا نہیں ہوں جاوید
چاق و چوبند میں رہتا ہوں جوابات میں بھی