۔
تحرير۔ نمرہ احمد
انتخاب۔ راحيلہ ساجد
رات کے تیسرے پہر اس نے آہستہ سے دروازہ کهولا- مدهم سی چرچراہٹ سنائی دی اور پهر خاموشی چها گئی- لاؤنج سناٹے اور تاریکی میں ڈوبا ہوا تها-
وہ دکهتے جسم کو زبردستی گهسیٹتی ٹی وی تک آئی- ساتھ ہی فون اسٹینڈ رکها تها- اس نے کارڈ لیس نکالا اور ادهر ادهر احتیاط سے دیکهتی واپس آئی-
مسرت آج گهر پہ نہ تهیں- صبح جب وہ مسجد جانے کے لیے نکلی تهی تو مسرت گهر پہ ہی تهیں ، مگر شاید اس کے جاتے ہی ان کو کہیں بهیج دیا گیا تها- غالبا رضیہ پهپهو کے گهر-
وہ دروازے کی کنڈی لگا کر بیڈ پہ بیٹهی- لائٹ آن کر رکهی تهی- سامنے دیوار پہ آئینہ لگا تها- اسے اپنا عکس سامنے ہی دکهائی دے رہا تها-
لمبے بال چہرے کے اطراف میں گرے، سوجے ہونٹ- ماتهے اور گال پہ سرخ سے نشان جو نیلے پڑ رہے تهے- اس نے بےاختیار بال کانوں کے پیچهے اڑسے-
وہ کارڈ ابهی تک اس کی جینز کی جیب میں تها- اس نے مڑا تڑا سا وہ کارڈ نکالا اور نمبر ڈائل کرنے لگی-
پہلی گهنٹی پوری بهی نہ گئی تهی کہ چوکنی سی ” ہیلو” سنائی دی-
” اے…اےایس پی صاحب؟” اس کی آواز لڑکهڑائی-
” کون؟” وہ چونکا تها-
“مم……میں……محمل-” اسے اپنا گهمنڈی انداز یاد کر کے رونا آیا-
” محمل؟ کدهر ہو تم؟ خیریت ہے؟”
وہ چپ رہی- آنسو اس کے چہرے پہ لڑهکتے گئے-
“محمل……بولو-”
” مجهے ، مجهے انہوں نے ٹارچر کیا ہے- مارا ہے-”
” اوہ-” وہ چپ ہو گیا- پهر آہستہ سے بولا- ” اب کیسی ہو؟”
” مجهے نہیں پتہ-” وہ رونے لگی تهی- ” مجهے بتائیں، فواد بهائی جیل میں ہیں ؟”
“ہے تو سہی مگر شاید جلد ہی اس کی ضمانت ہو جائے- وہ لوگ عنقریب تمہیں میرے خلاف گواہی دینے پہ اکسائیں گے-”
” پهر میں کیا کروں؟”
“مان جاو-”
” کیا؟” اس نے بےیقینی سے فون کو دیکها- عجیب سر پهرا شخص تها-
” تم جهوٹا وعدہ کر لو کہ تم میرےخلاف بیان دو گی، ورنہ یہ تمہیں کورٹ میں نہیں پہنچنے دیں گے-”
” اور کورٹ میں جا کر مکر جاؤں-؟”
“ہاں، وہاں سب سچ بتا دینا-”
” اور وہ اس دهوکے پہ میرا کیا حشر کریں گے ، آپ کو اندازہ ہے؟”
“تم اسکی پرواہ…….”
‘آپ سب مجهے اپنے اپنے مقصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں، آپ کو مجھ سے کوئی سچی ہمدردی نہیں ہے-”
چند لمحے خاموشی چهائی رہی، پهر ہمایوں نے ٹهک سے فون بند کر دیا-
وہ دکهی سی فون هاتھ میں لیے بیٹهی رہ گئی-
مسرت اگلی صبح ہی آ گئی تهیں- انہوں نے کوئی سوال نہیں کیا، کوئی جواب نہ مانگا- بس اسے دیکھ کر ایک جامد سی چپ ہونٹوں پہ لگ گئی- بہت دیر بعد بولیں تو صرف اتنا کہ –
” تم فواد کے خلاف ضرور گواہی دو گی- انہوں نے میری بیٹی کے ساتھ اچها نہیں کیا- اور پهر چپ چاپ کام میں لگ گئیں-
پورے گهر کا اس سے سوشل بائیکاٹ تها-وہ کمرے میں کهانا کهاتی اور سارا دن کمرے میں ہی بیٹهی رہتی- باہر نہ نکلتی- اگر نکلتی بهی تو کوئی اس سے بات نہ کرتا-
اس روز بہت سوچ کر وہ فرشتے سے ملنے مسجد چلی آئی-
کالونی کی سڑک گهنے درختوں کی باڑ سے ڈهکی تهی- درختوں نے سارے پہ ٹهنڈی چهایا کر رکهی تهی- آہنی گیٹ کے سامنے رک کر اس نے گردن اوپر اٹهائی-
سفید اونچے ستونوں والی وہ عالیشان عمارت اپنے ازلی وقار و تمکنت کے ساتھ کهڑی تهی- برابر میں سبز بیلوں سے ڈهکا بنگلہ تها جس کی بیرونی دیوار کے ساتھ ایک خالی سنگی بنچ نصب تها- محمل جب بهی ادهر آتی، وہ بنچ ویران نظر آتا- اسے بےاختیار بس اسٹاپ کا بنچ اور وہ سیاه فام لڑکی یاد آئی تهی- نہ جانے کیوں-
سفید سنگ مر مر کی لش پش چمکتی راہداریاں آج بهی ویسی ہی پرسکون تهیں جیسی وہ ان کو چهوڑ کر گئی تهی- وہ ادهر ادهر کلاسز کے دروازوں میں جهانکتی آگے بڑهتی گئی-
” باب’ دجال مدینہ طیبہ میں نہ آسکے گا-”
آخری کهلے دروازے سے اسے فرشتے کی آواز سنائی دی- اس نے ذرا سا جهانکا-
وہ کتاب ہاتھ میں لیے منہمک سی پڑها رہی تهی- سیاه عبایا کے اوپر سرمئی اسکارف میں اس کا چہرہ چمک رہا تها- اور وہ سنہری چمک دار کرسٹل سی آنکهیں ….. اس نے کہیں دیکھ رکهی تهیں…. مگر کہاں؟
وہ ان ہی سوچوں میں گهری دروازے کی اوٹ میں کهڑی تهی جب فرشتے باہر آئی-
” ارے محمل! السلام علیکم-”
اور اسے دیکھ کر خود وہ بهی بہت خوش ہوئی تهی-
” تم کیسی ہو محمل!؟ آؤ بلکہ یوں کرو ، میرے ساتھ اندر آفس میں چلتے ہیں- ” فرشتے نے اس کا ہاتھ ہولے سے تهاما اور پهر اسے تهامے ہی اسے مختلف راہداریوں سے گزارتی اپنے آفس تک لائی-
” اور یہ کیا حالت بنا رکهی ہے تم نے؟”
” پتا نہیں-” اس نے بیٹهتے ہوئے میز کے شیشے کی سطح پہ اپنا عکس دیکها- بهوری اونچی پونی ٹیل سے نکلتی لاپروا لٹیں، آنکهوں تلے گہرے حلقے ‘ ماتهے اور گال پہ گہرے نیل ، اور ہونٹوں کے سوجے کنارے-
یکدم روشنی اس کے چہرے پہ پڑی تو اس نے چندهیا کر چہرہ پیچهے کیا- فرشتے اپنی کرسی کہ پشت پہ کهڑکی کے بلائینڈز کهول رہی تهی-
” ہمایوں نے بتایا تها ، تم نے اسے کال کی تهی-”
وہ ذرا سا چونکی- ہمایوں ہر بات اسے کیوں بتاتا تها؟” اسے یہ نہیں بتانا چاہیئے تها-
” ہمایوں کو تمہاری بہت فکر تهی-” وہ واپس کرسی پہ آ بیٹهی تهی-
” انہیں میری نہیں اپنی فکر ہے، بہت خود غرض ہیں آپ کے کزن-”
” جانے دو-” وہ نرمی سے مسکرائی- ” کسی کے پیچهے اسکا برا ذکر نہیں کرتے-”
” جو بهی ہے-” اس نے شانے اچکائے- یقینا وہ اپنے کزن کی برائی نہیں سن سکتی تهی-
” اچها یہ بتاؤ-” وہ ذرا سی کرسی پہ آگے کو ہوئی” آگے پڑهائی کا کیا پروگرام ہے؟”
” ستمبر میں یونیورسٹی جوائن کرنی ہے-”
” تو ابهی گرمیوں کی چهٹیوں میں ادهر آ جاؤ قرآن پڑهنے-”
” آ….. نہیں…. ایکچوئلی….. میرے پاس قرآن ہے ترجمے والا- میں گهر میں پڑھ لونگی-”
” بی ایس سی میں کون سا سبجیکٹ تها؟”
” میتهس-”
” کس سے پڑها تها؟”
“کالج میں پروفیسر سے اور شام میں ایک باجی کے پاس ٹیوشن لینے جاتی تهی-”
” میتهس کی بک تهی تو سہی تمہارے پاس ، پهر دو دو جگہ سے کیوں پڑها؟ گهر بیٹھ کر پڑھ لیتیں-”
” گهر میں خود سے کیسے پڑها جاتا ہے اور…….” پهر رک گئی ، اور جیسے سمجھ کر گہری سانس لی- ” قرآن اور نصابی کتابوں میں فرق ہوتا ہے-”
” اسی لیے ہم چار سال کی عمر سے گهنٹوں نصاب کو پڑهتے رہتے ہیں ، اور قرآن کو بڑهاپے کے لیے رکھ چهوڑتے ہیں-”
مگر قرآن کو اللہ نے آسان بنا کر اتارا ہے تا کہ ہر کوئی سمجھ سکے- میتهس ٹیچر کے بغیر سمجھ نہیں آتا-”
” قرآن آ جاتا ہے؟”
” ہاں ، کیوں نہیں-”
فرشتے نے گہری سانس لی ، اور جهک کر دراز سے ایک سیاه جلد والی دبیز کتاب نکالی-
” یہ انجیل مقدس کا ایک قدیم حصہ ہے – اس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی پیش گوئی ہے- کافی دلچسپ ہے یہ پڑهو-” اس نے ایک صفحہ کهول کر اس کے سامنے کیا- محمل نے کتاب اپنی جانب کهسکائی-
” اس کی امت کی اناجیل ان کے سینوں میں ہوں گی-” وہ بےاختیار رکی- ” اناجیل؟” اس نے پوچها-
” انجیل کی جمع- مراد ہے قرآن مجید- یہ یہاں سے پڑهو-” فرشتے نے ایک جگہ انگلی رکهی- مخروطی سپید انگلی جسکا گلابی ناخن نفاست سے تراشیدہ تها- اس نے انگلی میں زمرد جڑی چاندی کی انگوٹهی پہن رکهی تهی-
” اوہ اچها-” وہ ادهر سے پڑهنے لگی-
وہ بازاروں میں شور کرنے والا ہوگا، نہ بےہودہ گو – نام احمد ہوگا- ولادت مکہ ، ہجرت طیبہ اور ملک شام ہوگا- وہ آفتاب کے سایوں پہ نظر رکهنے والا ہوگا- اس کے اذان دینے والے کی پکار دور تک سنی جائے گی- ” وہ رک کر ، جیسے الجھ کر پهر شروع سے دیکهنے لگی-
” ملک شام ہو گا؟”
” بعد میں مسلمانوں کی حکومت شام تک پهیل گئی تهی ، اسی طرف اشارہ ہے-”
” اور آفتاب کے سایوں پہ نظر رکهنا…..؟”
” نمازوں کے اوقات کے لیے-”
” اور اذان دینے والا……..؟”
” بلال-” فرشتے جواب دیتے ہوئے مسکرائی- گهر بیٹھ کر پڑهو گی تو یہ سوال کس سے پوچهو گی؟”
” قرآن کی تفاسیر بهی تو پڑھ سکتے ہیں-”
“علم پڑهنے سے نہیں سمجهنے سے آتا ہے-”
” آخر گهر بیٹھ کر پڑهنے میں کیا حرج ہے؟”
” موسی کو خضر کے پاس جانا پڑتا ہے میری جان ، خضر موسی کے پاس نہیں آتے- اچهی کوالٹی کے علم کے لیے اتنا ہی سفر کرنا پڑتا ہے-”
” آپ …… آپکی ساری بات ٹهیک ہے مگر میری بات بهی ٹهیک ہے-”
” مزبزبین بین ذالک، لاالی هولاء ولا الی هولاء- فرشتے پین کو انگلیوں کے درمیان گهماتی مسکرا کر ، گہری سانس لے کر بولی- ” وہ ان کے درمیان تزبزب میں ہیں ، نہ ادهر کے ہیں نہ ادهر کے ہیں-”
” آپ نے عربی میں کچه کہا نا، اب عام بندے کو عربی کہاں سمجه میں آتی ہے؟ قرآن اردو میں کیوں نہیں اترا؟”
” اچها سوال ہے-” وہ اپنی نشست سے اٹهی اور سامنے کتابوں کے ریک کی طرف گئی- پهر سیدهی کهڑی کتابوں کی جلدوں پہ انگلی گزارتی کسی کتاب کو تلاش کرنے لگی-
” تو تمہارا نقطہ یہ ہے کہ صرف خالی محاورتا ترجمہ دیکھ کر قرآن پڑهنا بهی کافی ہے-” اس نے ایک کتاب پہ انگلی روکی اور اسے کهینچ باہر نکالا-
” یہ سورت بنی اسرائیل میں ابلیس کے آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کرنے کا قصہ ہے- یہاں ابلیس نے اولاد آدم کے لیے کیا لفظ استعمال کیا- یہ پڑهو-” وہ بڑا سا ترجمے والا قرآن اس کے سامنے کهول کر رکها، اور اپنی زمرد جڑی انگوٹهی والی انگلی ایک لفظ پہ رکهی- محمل بےاختیار قرآن پہ جهکی-
” لاحتنکن ، البتہ میں ضرور قابو کرونگا-” اس نے لفظ اور ترجمہ دونوں پڑهے-
” رائٹ- اگر البتہ میں اور ضرور کے ضمائر کو نکال دو تو تین حرفی لفظ رہ جاتا ہے- ح ں ک یعنی حنک ، حنک کے تین معانی ہوتے ہیں – کسی چیز کو خوب باریکی میں سمجهنا، ہڈیوں کا کهیت کا صفایا کرنا اور گهوڑے کے جبڑوں کے درمیان سے لگام گزار کر گهوڑے کو قابو کرنا، اردو میں بس اتنا لکها ہے قابو کرنا- جسے انگریزی میں کنٹرول کہتے ہیں- جبکہ عربی کی وسعت ہمیں بتاتی ہے کہ شیطان کس طرح ہماری نفسیات سمجھ کر ، ہمارے ایمان کا صفایا کر کے ہمیں لگام ڈالتا ہے اور وہ عموما لگام منہ کے راستے سے ڈالی جاتی ہے اور قرآن اسی لیے عربی میں اترا اور…… تم میری بات سے بور ہو رہی ہو- چلو جانے دو- ابهی تمہارے پاس ٹائم ہے ، اس لیے کہہ رہی تهی ، ورنہ بعد میں دنیاوی تعلیم میں کهو کر تمہیں اس کا وقت نہیں ملے گا-
” یعنی آپ بهی ٹیپیکل مولویوں کی طرح دنیاوی تعلیم کو گناه سمجهتی ہیں؟”
” میں دنیاوی تعلیم میں کهو کر مادہ پرست بننے کو گناه سمجهتی ہوں-”
” اچها میں چلتی ہوں-” وہ بیگ کندهے پہ ڈالتی اٹھ کهڑی ہوئی –
” ہاں ، تمہیں دیر ہو رہی یے، گهر میں سب پریشان ہو رہے ہونگے-”
” پریشان وریشان کوئی نہیں ہوتا، یتیموں کی پرواہ کسی کو نہیں ہوتی-”
” کون یتیم؟”
” میں! میرے ابا نہیں ہیں-”
” عمر کیا ہے تمہاری؟”
” بیس سال-”
” پهر تو تم یتیم نہیں ہو- یتیم تو اس نابالغ بچے کو کہتے ہیں جس کا باپ فوت ہو جائے- بلوغت کے بعد کوئی یتیمی نہیں ہوتی- اپنی اس خودترسی کو اپنے اندر سے نکال دو محمل!”
” آپ کیا کہہ رہی ہیں؟” محمل بےیقینی سے پیچهے ہٹی اور چند لمحے اسے یونہی بےاعتماد نگاہوں سے دیکه کر، بنا کچھ کہے تیزی سے باہر بهاگ گئی-
فرشتے کی بات نے اسے ایک دم بہت ڈسٹرب کر دیا تها-
” بهاڑ میں گئی ڈکشنری ، میں یتیم ہوں !” وہ تیزی سے راہداری عبور کر کے برآمدے میں آئی- آگے نکل ہی نہ پائی تهی کہ ریسیپشنسٹ نے روک دیا-
” السلام علیکم – یہ آپ کا ایڈمیشن فارم فرشتے باجی نے کہا تها کہ آپ کو اس کی ضرورت ہے-”
” اف ! وہ گہری سانس بهر کر ڈیسک کے قریب آئی – ” دکهائیے-”
” بس دیکھ کر واپس کر دونگی مجهے مولوی نہیں بننا ، ماسٹرز کرنا ہے-” اس نے سوچا-
” نیا بیج کونسا ہے؟” وہ اب پراسپیکٹس کے صفحے پلٹ کر دیکھ رہی تهی-
” علم الکتاب- پرسوں پہلی کلاس ہے-”
” میں فرشتے کو صاف انکارکر دونگی، بهلے وہ برا منائے- بس پورا دیکھ کر واپس کر دونگی-” وہ سوچ رہی تهی-
” اور یہ فارم فل کر کے کدهر دینا ہے؟”
” اسی ڈیسک پہ-”
” اور فیس؟”
” علم کی فیس نہیں ہوتی-”
” پهر بهی، کچھ چارجز تو ہونگے؟”
” ہم قرآن پڑهانے کے چارجز نہیں لیتے-”
” تو نہ لیں ، مجهے کونسا ادهر داخلہ لینا ہے- میں تو پورا دن اسکارف لپیٹ رت قرآن نہیں پڑھ سکتی- آئی ایم سوری فرشتے، مگر میں یہ نہیں کرونگی- اس نے خود کلامی کی تهی-
مگر دس منٹ بعد وہ فارم فل کر رہی تهی-
وہ بیگ کو اسٹریپ سے تهامے، ہاتھ گرائے ہوئے تهکے تهکے قدموں سے چل رہی تهی کہ بیگ لٹکتا ہوا زمین کو چهو رہا تها- کالونی کے گهنے درخت خاموشی سے جهکے کهڑے تهے- وہ آہستہ سے بنچ پہ جا بیٹهی جو آج بهی اداس تها-وہ فارم جمع کرا کے فرشتے سے ملے بغیر وہاں سے نکلی تهی، ابهی تک وہی سوچ رہی تهی، تب ہی کسی کے دوڑتے قدم اس کے قریب سست پڑے-
” کیسی ہو؟” کوئی اس کے پاس آ کهڑا ہوا-
اس نے ہولے سے سر اٹهایا-
ہمایوں بہت سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تها- سیاه ٹراؤزر پہ رف سی سفید شرٹ پہنے ، ماتهے کے گیلے بال اور چہرے پہ نمی، پهولی سانس، جیسے تیز جاگنگ کرتا ادهر آیا تها-
” کیا فرق پڑتا ہے آپ کو؟”
” فرق تو پڑتا ہے- تمہیں دیکھ کر مجهے یقین ہے کہ تم میرے خلاف کورٹ میں پیش ہونے کو تیار ہو گئی ہو-”
” ہونا پڑے گا، مگر اب کیا کروں -”
” کچھ نہ کرو-” وہ اس کے ساتھ بیٹھ گیا- محمل چہرہ موڑ کر اسے دیکهنے لگی- جو سامنے گهنے درختوں کی باڑ کو دیکھ رہا تها- ” جب تک تم عدالت میں جاؤگی، ہمارا پهندا فواد کی گردن کے گرد مزید تنگ ہو چکا ہو گا- بس ابهی ان کی مانتی جاو، اور کورٹ میں سچ بول دینا-”
” استعمال کر لیں سب مجهے اپنے اپنے مقاصد کے لیے-” وہ دکھ سے سر جهٹکتی اٹهی اور زمین پہ گرا بیگ اسٹریپ سے اٹهایا-
” کمزور ہو گئی ہو بہت، اپنا خیال رکها کرو-”
” آپ کی فکر میں بهی غرض پوشیدہ ہے- کاش میں آپ کے خلاف بیان دے سکوں-” وہ تیز تیز قدموں سے سڑک پہ آگے بڑھ گئی-
وہ شانے اچکا کر گیٹ کی طرف آیا- گیٹ بند کرتے ہوئے اس نے لحظہ بهر کو گردن موڑ کر اسے دیکها ضرور تها جو سر جهکائے تیز تیز سڑک کنارے چلتی جا رہی تهی- اس کی بهوری اونچی پونی ٹیل گردن پہ برابر جهول رہی تهی-
ہمایوں پلٹ کر ڈرائیو وے پہ جاگنگ کی طرح بهاگتا ہوا اندر بڑھ گیا-
درختوں یی باڑ اور پتهر کا بنچ پهر سے ویران ہو گئے-
جاری ہے……..