عورت ፣خواتین کے عالمی دن کے موقعہ پر)

فرانس سے شاہ بانو میر کے قلم سے لکھی ایک دلگداز تحریر

شاہ بانومیر

سکینہ مرغ کی پہلی بانگ کے ساتھ ہی آنکھیں ملتے ہوئے اٹھ بیٹھی ـ چارپائی پر بیٹھے پیٹھے ہی اس نے منے کو دیکھا سردی شروع ھو گئی تھی وہ تو رضائی کو اوڑھ کر سردی سے بچتی تھی ـ
لیکن منے کو تب تک سکون نہی ملتا تھا جتنی دیر اسکے سینے میں منہ نیہوڑ کر
اپنا منا سا وجود اسکے جسم کے اندر سمو کر اسکی ساری گرمی اپنے وجود میں بھر کر ایسے بے خبر نہی ہو جاتا تھا ـ
کہ وہ تو ساری رات اس ڈر سے کروٹ بھی نہیں بدلتی تھی کہ کہیں اسکے وجود کی سر سراہٹ منے کو اٹھا نہ دےـ
اور خود ساری رات وہ آدھی سے بھی کم کھردری چارپائی پر جاگتے سوتے گذار دیتی یہ تو روز کا معمول تھا ـ
منے کو رضائی اوڑھا کر سکینہ نے بسمہ اللہ کا ورد کیا ـ
رب سوہنے کی قدرت پے صدقے واری گئی کہ جو ہر رات کی کالی چادر کو اتار کر ان کے لئے سفید روشنی لاتا تھاـ
تاکہ
شبراتی جائے دیہاڑی لگائے اور اس کے بچوں کیلۓ دال روٹی کا بندو بست کرے
شبراتی کا خیال آتے ہی حیا آلود مسکراہت اسکے ہونٹوں پے مچل گئی ـ
منے کی ولادت کے بعد سے وہ بڑے بیٹے مومن کے ساتھ سونے لگا تھاـ
اور رات کو سونے سے پہلے اشاروں کنایوں میں وہ اسکی بے تابی کو سمجھتی تھی
لیکن
مزدوری
صبح کیلۓ کام کرنا اور بھی ضروری تھا ـ
اسکی نیند نہ خراب ھو ا سلئے وہ منے کو اپنے پاس سلانے لگی تھی ـ
شبراتی
کا خیآل آتے ہی وہ غسل خانے سے نکلی ـ
اور کچی منڈیر پر چھجا ڈالے ہوئے ـ
اپنے باورچی خانے میں آگئی ٹین کا ڈبا دیکھا ـ
تو اللہ کا شکر کیا کہ اج کیلئے آٹا موجود تھا ـ
اس نے آٹا گوندھنے کیلئے
مٹی کی پرات نکالی اور گھڑولی میں سے پانی ہاتھ بڑھا کے وہیں سے مٹی کے پیالے میں ڈال لیا ـ
منہ میں وہ نبی جی کا درود پڑہتی جا رہی تھی ـ
نماز کی ایسی عادت نہیں تھی پر ہولے ہولے کانوں میں بچپن کی پڑی نعتوں کی گونج ابھی بھی کہیں موجود تھی ـ
بس صبح کی پو پھٹتے جب دیکھتی ہلکی ہلکی سفید روشنی میں جب پرندوں کے غول کے غول آسمانوں کی وسعتوں میں اڑتے پھرتے اور اللہ کی حمد کی آوازیں انکی بولیوں کی میں کانوں میں پڑتیں تو وہ بھی خود کو ایک آزاد پنچھی سمجھ لیتی اور ہلکے ہلکے گنگناتی پاک رب کا شکر کرتی اور رب کی تعریف کرتی
آٹا گوندھ کر رات کا بچا ساگ نکالا ـ
اسکو دیکھا
کل کا مکھن اس نے بچا کے رکھا ھوا تھا ـ
ایک ہی بھینس تھی ان کی
جس کا دودھ وہ بیچ کر اور مزدوری کے ساتھ اچھا براوقت گذار رہے تھے ـ
مکھن نکال کر وہ شہزادوں کیلیے بچا لیتی اور اپنی روٹی پے لگانے کا سوچتی پھر بچت کر جاتی ـ
شبراتی کے جانے کا وقت ہو رہا تھا ـ
اور اسکے اٹھنے کی کروٹ بدلنی کی چر چراہٹ چارپائی بتا رہی تھی ـ
لکڑیاں مٹی کے چولھے میں ڈال کے دھونکنی لیکر اس نے لمبے سانس لیکے جو دو چار پھونکیں ماریں تو آگ کے شعلے بھڑ ک گئے ـ
توے کو تھوڑے سے پانی کےساتھ دھویا ـ
اور بسمہ اللہ کہ کر اس نے توا اوپر رکھ دیا ـ
ادھر چکی پیسنے والی محنتی انگلیان سخت ھو کے اپنی کہانی خود سنا رہی تھیں ـ
آٹے کا گولہ پھر پیڑا اور پھر روٹی یہ بھی ایک فن ہے ـ
اگر کوئی اسکی باریکی کو سمجھے توـ
آٹے کو گندم سے لیکے چکی سے نکال کے اور گوندھ کر پیڑے سے روٹی تک اور لذیذ نوالہ ہونٹوں تک پہنچ کر جس راحت کا سامان کرتا ہے وہ بھی ایک گہری نظر رکھنے والا پرکھ سکتا ہے ـ
روٹیان بنا کر اس نے دو روٹیوں پے ڈھیر سارا مکھن ڈالا
اور ساتھ ہی دودھ پتی کیلیۓ پتیلا چڑھا دیا ـ
کرماں والی
او بھاگوان
کچھ ہے کہ ایسے ہی جانا ہے آج
ایسے کیسے کبھی بھیجا ہے؟ ،
جو آج جاو گے
یہ لو
چنگیر اسکے پاس چارپائی پے رکھتے ہوئے وہ محبت بھرے انداز میں بولی
اسکی زات کا اعتماد چہرے کا سکون اور الفاظ کا درست چناؤ
آج تک شبراتی کو نہیں بتا سکا تھاـ
کہ وہ کس وقت بے تحاشہ پریشانیوں کیلیۓ پریشان ہوتی ہے ـ
اسکو ہنستے کھیلتے روٹی کھلا کے اور ساتھ ڈبے میں دو روٹیان اور اچار دے کے اس نے اطمینان کا سانس لیا ـ
ڈبہ تو خالی ہے؟
آٹا گھر میں نہیں ہے رات کو کیا کرنا ہے ؟
اللہ کرے کہ آج دیہاڑی لگ جائے؟
آسمان کی طرف ایک نظر دیکھ کر اپنی دعا جس سادگی سے وہ اس کے حوالے کرتی ـ
وہ بھی اتنی سادگی اور آسانی سے اسکی بگڑی سنوار دیتا تھا ـ
بڑا سوھنا ڈاڈھا اور پکا یقین تھا اسے سوہنے رب پے
اور اسکا سوھنا رب بھی اسکی ہر بات مان لیتا تھا
چلی کُڑی جب پتہ تھا رب سنتا ھے تو اور مانگ کھل کے مانگ
پر نہیں
عاجزی سادگی اور قناعت شائد رب کا خاص اور سوھنا کرم تھا اس پر
یہی وجہ تھی ہماری طرح گاڑی بنگلہ پیسہ وہ چلی مانگتی ہی نہیں تھی ـ
رات کیلۓ پیٹ بھر روٹی اور شبراتی کی ہر روز کی مزدوری وہ مانگ لیتی
اور یہ کام ہو بھی جاتے ـ
اگر کسی دن شبراتی کو کام نہ ملتاـ
تو آسمان کی طرف سادگی سے دیکھتی اور کہتی
لگتا ھے اللہ سوھنے جی آج بڑے کام تھے جو آواز ہی نہیں سنی ـ
اور خود ہی دھیرے سے آسمان کی چمک اور روشنی کو دیکھ کے ہنس پڑتی جیسے سچ میں یہی بات ہو ـ
دونوں بیٹوں کے اٹھنے سے پہلے اس نے کل کا پانی جو لائی تھی وہ احتیاط سے نکالا اور بچوں کے کپڑے بڑے دھیان سے دھونے لگی ہلکی خنکی تھی صبح کے وقت پر بچوں کے اٹھنے سے پہلے ہی اسے نمٹانے تھے یہ کام ٹھنڈے پانی سے قینچی چپل پہنے ہویے وہ کپڑے دھوتی رہی ـ
ارد گرد گھروں سے لکڑیاں جلنے کی بو آ رہی تھی ـ
ڈھور ڈنگروں کی گھنٹیاں ٹن ٹن کی آواز کے ساتھ اسکے آس پاس سے گذر ہی تھیں ـ
ٌاس تھوڑے سے پانی سے کپڑوں کو دھوتے دیکھ کے حیرت ہوتی تھی لیکن ایک ایک کپڑا لشکارے مار رہا تھا ـ
ایک ایک کپڑا عام سوتی کا تھا لیکن اسکی ممتا کی خوشبو انکے نکھار میں نظر آ رہی تھی ـ
کپڑوں کو دھو کر اطمینان کا ایک لمبا سانس اسکے حلق سے خارج ہوا ـ
جیسے بچوں کے سوتے ہوئے یہ کام کر کے وہ ایک معرکہ سر کر گئی ـ
منے کی ہلکی ہلکی آواز آ رہی تھی بڑا مومن اتنے میں آنکھیں ملتا اٹھ کے آ گیا
اس نے انکو غسل خانے میں بھیجا ـ
اور ہاتھ منہ دھو کر آنے کی تلقین کی ـ پھر اس نے لکڑیاں جلائیں اور ان کو تازہ روٹی بنا کے دی ـ
دونوں کو گرم روٹی پے مکھن دال کے گرم روٹی کو انگلیوں سے مسلتے ہوئے اسکی انگلیاں جل بھی رہی تھیں ـ
لیکن
ماں یہ تکلیف سہتی ہے تو گرم روٹی شکر اور مکھن کے ساتھ مل کر چُوری بن جاتی ہے ـ
چُوری کا ذائقہ ممتا کی چاشنی شائد ہر انگریزی ناشتے سے بڑھ کے ہے ـ
طاقت غذائیت مزا اور سب سے بڑھ کر خالص
ان دونوں کو چُوری کھلا کے
انکا ماتھا چوم کے اس نے انہیں اندر جا کے سردی سے بچنے کیلۓ کہاـ
اور دونوں کو چند ایک بوسیدہ اور پرانے کھلونے دئے جو وہ بڑی احتیاط سے رکھتی تھی کیونکہ اسکے بچوں کیلۓ یہ خزانہ تھا ـ
پیٹی کے اوپر کرسی رکھ کے جب وہ چڑہتی اور پھر تین ٹرنک اتار کر وہ چوتھے ٹرنک میں سے کپڑوں میں چھپائے ہوئے یہ کھلونے نکالتی تو بچوں کو حیرت
تو ہوتی ـ
لیکن
ساتھ ہی ان کی اہمیت بڑھ جاتی اور وہ بہت دھیان سے احتیاط سے کھیلتے ـ
انہیں دھیان لگا کے
سکینہ نے سارے گھر کی صفائی کرنی تھی کچھے آنگن کا یہ گھر دو کوٹھڑی نما کمروں پے محیط تھا ـ
جھاڑؤ کی طرف بڑھتے ہوئے کمزوری سی لگی تو یاد آیا کہ ابھی تک ایک کھیل کا ٹکڑا بھی اڑ کر اس کے حلق میں نہی گیا ـ
جھاڑؤ کا پروگرام ملتوی کرتے ہوئے وہ اپنے اسی چھر والے حصے کی طرف بڑھی تو سب کو تو کھلا چکی تھی ـ
اورا پنے لئے ڈھونڈ رہی تھی ـ چنگیریں ساری دیکھ لیں ـ
نِدارد
ایک کپڑے میں کچھ تھا کھولا تو کل رات کی روٹی کا بچا ہوا ٹکڑا تھا ـ
ساگ تو نہی تھا مکھن بھی ختم اس نے وہیں کھڑے کھڑے اس ٹکڑے پر اچار کی ایک لمبی ہری مرچ رکھی تیز مرچ نے اسکو یہ بھلا ہی دیا کہ
رِوٹی کم تھی یا سالن نہیں تھاـ
حلق اور زبان کی جلن اس نے ٹھنڈے پانی کا کٹورہ بھر کر پیا اور اسکو کم کیا ـ
مومن
روز ہی یہ دیکھتا تھا وہ آج بھی ماں کو دیکھ رھا تھا ـ
اماں
آپ نے روٹی کیوں نہی کھائی ؟
ایک ہنسی اسکے ہونٹوں پے نمودار ہوئی
کیا بتاتی اسے
کہ میرے لال
آج تو میں ماں ہوں اس لئے کم آٹا دیکھتی ہوں تو خود ہی بھوک مر جاتی ہے
لیکن
یہ تو شائد ماں بننے سے پہلے ہی عمل شروع تھا ـ
کہ
چیز کم ہے بھائی کیلۓ رکھ دو
لڑکیوں کی خیر ہوتی ہے ـ

ابو کیلۓ فلاں چیز کو اٹھادو کیونکہ کم ہے
اور وہ حیرت سے گنگ یہی سوچتی رہ جاتی کہ
باپ تو کماتا ہے باہر سے بھی کھا لے گاـ
گھر میں کبھی تو اچھا بنتا ھےـ
یہ بھی تو کہو کہ باپ کو رہنے دو تم کھا لو بیٹی تم کہاں سے لیکے کھاؤ گی ـ
وہ ماں کی طرف بار بار ملتجی نظروں سے دیکھتی
پھر اس چیز کو حسرت سے دیکھتی ـ
لیکن
ماں عادی تھی یہ سب سہنے کی
اسکی سوچ کبھی اس کے لئے نرم نہیں ہوئی ـ
بولو ناں
مومن

اسے ہلا ہلا کر ماضی کے جھروکوں سے واپس لایا ـ
ھھھھھھھھھھھ
ایک ہنسی اسکے ہونٹوں پے ابھری
اور حوا کی بیٹی بولی
عورت کی خیر ہوتی ہے نہ بھی کھائے تو
یہ وہی جواب ہے
جو اس کی نانی بھی دیتی آئی ہوگی ایسے سوال پر
اس کی ماں بھی دیتی ہوگی
جو شائد
بنتِ حوا صدیوں سے دیتی آ رہی ہے؟
کیا یہ جواب کبھی بدلے گا؟

Shah Bano Mir

Paris

Liker · ·
اپنا تبصرہ لکھیں