غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
حسین وقت کا منظرٹھہر کے چومتا ہے
ہر ایک لمحہ اسے سج سنور کے چومتا ہے
فلک میں پھیلتا ہے نور اسکے چہرے کا
تو چاند بھی اسے چھت پر اترکے چومتا ہے
ہر ایک شے کی ہے خواہش قریب ہو اسکے
ہر ایک ذرہ فضا میں بکھر کے چومتا ہے
وہ دیکھتا ہے جب آئینے میں وجود اپنا
تو آئنہ اسے بانہوں میں بھر کے چومتا ہے
چمن میں کرتا ہے جب وہ گلوں سے سرگوشی
گلاب بھی اسے کیسا نکھر کے چومتا ہے
لبوں پہ آئی ہے اسکے یہ کیسی رنگینی
خیال کس کا نہ جانے ابھر کے چومتا ہے
ہدف سے کوئی کہاں اس کو روک پائے گا
جنوں ہر ایک خطر سے گزر کے چومتا ہے
ابھی حیات ہے الفت، کرم کرو اس پر
تمہیں بتاؤ بھلا کون مر کے چومتا ہے
خلوص کی ترے اسکو خبر نہیں جاوید
خلوص تیرا اسے کب سے ڈر کے چومتا ہے