گل بخشالوی
گل زمان خیال ٹیلیفون کا رسیوررکھتے ہوئے خود سے ہم کلام تھا پاگل کہیں کا ۔۔۔۔کون پاگل جی ۔۔۔۔ایک نسوانی آواز نے اُسے چونکا دیا ۔۔۔۔۔۔آپ ؟ہاں میں !خاتون نے مسکراتے ہوئے چائے کی پیالی میز پر رکھی ،ٹیبل پر بکھرے کاغذ اور سیگریٹ کے ٹکڑے اسٹرے میں ڈالتے کہنے لگی ،چائے پی لیجئے ٹھنڈی ہو جائے گی ۔۔۔۔۔اور شرماتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں ۔
خیال ،خیالوں میں گم ہوگیا ۔۔۔۔۔میں نے اس خاتون کو کہیں دیکھا ہے ۔۔۔۔۔کہاں دیکھا ہے میں نے اسے ،اگر گھر میں کسی ضرورت یا کسی سے ملنے آئی ہے تو میرے لےے چائے لے کر کیوں آئی ،میرے کمرے میں ۔۔۔۔کتنی اپنائیت سے کہنے لگی ،چائے پی لیجئے ٹھنڈی ہو جائے گی ،مجھے کیسے جانتی ہے ۔۔۔۔اگر مجھے جانتی ہے تو میں اُسے کیوں نہیں جانتا ،لیکن میں نے اسے کہیں دیکھا ضرور ہے ۔
خیال نے میز پر سے سگریٹ کی ڈبیا اُٹھائی ،ایک سگریٹ نکال کر ہونٹوں میں دبایا ماچس کی تیلی جلائی ۔۔۔۔۔سوچ رہا تھا ،سگریٹ سلگانا بھول گیا ۔ماچس کی تیلی جلتی جلتی اُنگلیوں تک آئی ۔اُف۔۔۔جلتی تیلی پھینک کر اُنگلیاں منہ میں لینے لگا تو ہونٹوں میں دباسگریٹ ٹوٹ کر نیچے گر گیا ۔
اُنگلیاں منہ میں دبائے سوچ رہا تھا کہاں دیکھا ہے اس خاتون کو ۔شاید کسی مشاعرے میں ۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں مشاعرے میں نہیں ۔مشاعرے میں خواتین کی ایسی سادگی کہاں ۔۔۔۔یہ مشاعرے والی خاتون نہیں ہوسکتی ۔مشاعرے میں تو خواتین حسنِ غزل کی نسبت اپنے چہرے کے رنگ وروغن سے مشاعرہ لوٹ لیا کرتی ہیں ۔خاتون شاعرہ کے سرخ گلاب لبوں پر جیسے ہی مصرعہ آتا ہے ،واہ! واہ! کے شور میں مصرعہ ہی دب جاتا ہے ۔میں جانتا ہوں شاعرات کو ایسے بن ٹھن کر آتی ہیں جیسے مشاعرے میں نہیں کسی سہیلی کی مہندی میں شریک ہوں ۔
ہاں!شاید اس خاتون کو میں نے اپنی شادی میں دیکھا ہوگا، ۔۔خیال ہنس پڑالیکن وہاں کیسے دیکھ سکتا ہوں ۔۔۔۔۔وہاں تو مجھے میرا پتہ نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں ۔خیال نے سگریٹ کی ڈبیا سے دوسرا سگریٹ نکالا ،ہونٹوں میں دبایا اور سلگاکر ایک لمبا کش لیتے ہوئے خود سے کہنے لگا ۔
عجیب رسم ہے پختون قوم میں شادی کی بھی ،شادی کیا چور سپاہی کا کھیل ہے ۔شادی سے تین دن پہلے دوستوں کے سپرد ہو جاﺅ گھر کی دہلیز پارکرنے کی اجازت نہیں کہیں آئے ہوئے کسی مہمان کی نظر نہ لگ جائے دن بھر دوستوں کے نرغے میں اور رات حجرے میں ،شادی کے دن رسم کے مطابق د وستوں سے نظر بچاکر غائب ہو جانا ۔جون کی گرمی اور مکئی کے کھیت میں چھپے بیٹھے رہنے سے تو میرے ہوش ٹھکانے آئے تھے ۔شکر ہے خدا کا کہ کھیت میں سایہ دار درخت تھا
بارات تیار تھی اور میں غائب ،دوست میری تلاش میں ایسے پھر رہے تھے جیسے چو رکی تلاش میں پولیس اور جب مجھ پر اُن کی نظر پڑی تو دوڑتے ہوئے آتے ہی مجھ پر چادر ڈال کر ایسے پکڑ لیا جیسے چور مرغی پکڑتا ہے ۔
خیال خیالوں میں گم شادی میں اپنے ساتھ ہونے والے رسمی عمل میں خود ہی مسکرارہا تھا ۔ دوستوں نے تانگے میں بٹھایا ،دلہن کے گھرکے قریب جیسے ہی باراتیوں کی مجھ پر نظر پڑی تو خوشی سے ایسے چھلائے جیسے میں کرکٹ کھیلتے سینچری بناکر آیا تھا ۔دوستوں نے حجرے کے عین درمیان میں پڑے ہوئے سرخ رنگ دار پلنگ میں کھڑا کر دیا حبس اور گرمی میں اپنے ہی پسینے کی بدبو سے برا حال تھا۔پلنگ پر ایسے لگا جیسے میرے اپنے بازو شل ہوں ،دوستوں نے پسینے میں بھیگے ہوئے زیب تن لباس پر شادی کا جوڑا پہنایا ،تِلے دار ٹوپی سر پر رکھی ،نئی نائیلون کی چادر سر پر ڈال دی اور پلنگ میں بٹھا کر موزے اور تِلے دار جوتےپہنائے ،جیسے ہی دوست چار پائی سے اُترے میں پلنگ کےساتھ ہوا میں اُچھلنے لگا ۔خیال کی ہنسی چھوٹ گئی ۔۔۔۔
اخروٹ،بادام،چھوہاروں اور مصری کے دانوں کی ساتھ سکوں کی برسات میں حالت ایسی تھی جیسے منیٰ میں حج کے دوران شیطان کی ہوتی ہے اور جب پلنگ میں ہوا خوری سے نجات ملی تو دوست اخلاقی مجرم کی طرح سرپر چادر ڈالے دونوں بازﺅوں سے پکڑے دلہن کے گھر لے آئے اور صحن میں خواتین کی توجہ کا مرکزبن گیا ۔بڑی بیبیوں کے پاﺅں چھونے کا حکم ملنے لگا یہ دلہن کی بڑی بہن ہے پاﺅں چھولو،یہ دلہن کی چاچی ہے ،یہ دلہن کی مامی ہے ،یہ تمہاری ساس ہے ،دوستوں کے حکم کی تکمیل میں جھکتا گیا اور سلامی کے نوٹ لیتا رہا ۔ ایسے ہنگامے میں بھلااس خاتون کو کیسے دیکھ سکتا تھا ہر خاتون سجی سجائی دلہن ہی تو لگ رہی تھی ۔خیال خیالوں میں گم ہنس پڑا ،یہ بھی اچھا ہوا کہ حجرے کے قریب ہی کسی کی بیٹھک میں لباس تبدیل کرنے کا موقع ملا ،پسینے میں بھیگے شلوار قمیص کے بوجھ سے ہلکاہوا تو کھانے کو بھی کچھ ملا ۔
بارات دلہن کو لے کر واپس آنے لگی ،تانگوں میں سوار باراتی ڈھول باجے میں سُریلے گیت گارہے تھے کچھ بدمست نوجوان تانگے سے اُتر کر دلہن اور دلہا کے تانگے کے سامنے رقص کرنے لگے کہ گولی چلی اور بارات رُک گئی ،شور اُٹھا ،گھوڑی لنگڑی ہوگئی ،دلہن کے تانگے کی گھوڑی لنگڑی ہوگئی ۔خیال نے مسکراتے ہوئے سگریٹ سلگایا کیا دلچسپ رسم ہے ہم پختون قوم کی غریب سے غریب تر لوگ بھی شادی کے دوران خلوص ومحبت میں سر شار رہتے ہیں اور خوب مزے لوٹتے ہیں ۔گھوڑی لنگڑی ہوئی تو دلہن کے تانگے سے مٹھائی کا ٹوکرا باہر آیا اور جیسے ہی مٹھائی کا ٹوکرا پردے سے نکلا باراتی ٹوکرے پر ٹوٹ پڑے۔مٹھائی تو کسی کو نصیب ہوئی یا نہ ہوئی البتہ رسم کا منظر ہی تو شادی کی شان تھی ۔
خیال خود سے کہنے لگا ایسے ہنگامے میں اس خاتون کو ۔۔۔۔۔کہیں یہ میری بیوی تونہیں ۔۔۔۔وہ سوچنے لگا ۔۔۔ہاں!شاید یہ میری بیوی ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔لیکن شادی کے تیسرے دن وہ میرے پاس کیسے آگئی ۔۔شاید۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔۔۔ممکن ہے وہی ہو ۔۔۔۔۔۔کیونکہ میں نے تو اُسے دیکھا نہیں ۔
سہاگ رات کا منظر ذہن میں آیا تو ہنس پڑا ،پختون قوم کی رسمیں بھی کمال کی ہیں ۔سہاگ رات کو حجرے سے گھرآیا تو ۔۔۔۔۔خیال کھلکھلا کر ہنس پڑا۔۔۔۔۔میں نے آپ سے کہا تھا چائے پی لیں ٹھنڈی ہوجائے گی ۔نسوانی آواز پر وہ چونک پڑاتم پھر آگئی ہو ۔۔۔۔۔کون ہو تم!
خاتون کو مخاطب کرتے ہوئے خیال نے پوچھا ۔۔۔۔خاتون نے دوپٹہ دانتوں میں دباتے ہوئے شرما کر کہا،تمہاری بیوی :کیا؟۔۔۔۔میں اتنی دیر سے پریشان تھا کہ تم کون ہو
بیوی نے کہا لیکن سہاگ رات کو تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ شرما کر خاموش ہوگئی ۔خیال کہنے لگا ہاں سہاگ رات کو صحن میں لائن میں لگی چارپائیوں پر سوئے ہوئے خاندا ن کے درمیان سے چوروں کی طرح گزرتے ہوئے جب میں تمہارے کمرے کا دروازہ کھولنے لگا تو لکڑی کے دونوں دروازے بول پڑے تھے اور میں جھک سے اندر داخل ہوگیا کہ کوئی دیکھ نہ لے ۔تم چارپائی پر بیٹھی ہوئی سرخ شال اوڑھے ہوئے تھیں لالٹین کی مدہم روشنی میں جب میں نے تمہارے چہرے سے دوپٹے کا پَلوہٹایا تو تمہارا بدصورت چہرہ دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا ۔کمرے میں گرمی او رحبس کی وجہ سے تمہارا برا حال تھا یہ تو اچھا ہوا کہ تم نے دوپٹے کے پَلو سے اپنے چہرے کا پسینے خشک کیا تو پتہ چلا کہ تمہارے چہرے پر سرخ پوڈر کے پلستر اور آنکھوں میں لگے کاجل نے تمہارے چہرے پر گلکاری کی ہے تمہارا چہرہ تو پھر بھی میں نہیں دیکھ سکا تھا اور آج جب تم چائے لے کر میرے کمرے میں آئی اور میں نے تمہیں دیکھا تو سوچ رہا تھا اتنی خوبصورت لڑکی کون ہوسکتی ہے جو میرے لےے چائے لے کر آئی ہے
خیال کے اس خیال پر نرگس اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکی اور دونوں کھلکھلا کر ہنس دیے