اب دوسری وجہ کی وضاحت کرتے ہیں۔
لاہور سے نکلنے والے ایک رسالے “ادبِ لطیف” میں میرا ایک مضمون بہ عنوان “وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن” شائع ہوا ۔اس کے بعد جرمنی میں رہنے والے آغا کے ناجائز نومولودنے انور سدید ، سلیم آغا قزلباش اور دیگر نے میری کردار کشی کا منصبوبہ بنایا۔ طریقہ تو یہ تھا کہ جو اعتراضات میں نے آغا پر کیے تھے، ان کا اسی طرح جواب پیش کردیا جاتا، لیکن انور سدید اپنے روایتی ہتھکنڈوں پر اتر آیا اور اس نے بھی آغا گروپ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے محبوب مشغلے یعنی میری کردار کشی کرنے ہی کو عزیز جانا۔ اس کے بعد نارنگ اور آغا کے حواریوں کی مشترکہ کاوشوں سے ہندوستان کے ایک اخبار کو خطیر رقم دے کر میرے خلاف “اعلیٰ ادبی” عنوان سے ایک تحریر شائع کی گئی۔عنوان ملاحظہ کریں:
” فلسفی کی نوجوانی، شیلا کی جوانی”۔
ایک ایسی تحریر جس کے بارے میں اس شخص کو یہ کہنا پڑا کہ اسے سنجیدگی سے لیا جائے۔ جرمنی کے جس ادبی نومولود کا نام اس پر لکھا ہوا تھا، اس کی ادبی حیثیت کو اتنا ہی میں جانتا ہوں جتنا دوسرے لوگ جانتے ہیں۔ سب کو علم ہے کہ وہ انگریزی کے ایک فقرے کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔بیلسی یا بارتھ کی کسی کتاب کو پڑھنا اور ا س کے بعد ان میں سے ایک فقرہ نکالنا اور اس کا’ میرے’ ایک اخباری آرٹیکل کے ایک فقرے کے ساتھ تقابلی جائزہ لینا اس نومولود کے بس کی بات نہیں ہے۔ بارتھ کا وہی مضمون لے کر اس کے سامنے بیٹھ جائیںاور اسے کہیں کہ اس کے پہلے سات فقروں کا ترجمہ کردے، تو اسی سے اس کی اہلیت عیاں ہوجائے گی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ دوسروں کے نام سے لکھی ہوئی تحریریں کون اپنے نام سے شائع کراتا ہے۔اس حصے کو حذف کردیا جائے تو باقی صرف کردار کشی سے متعلق مواد باقی رہ جاتا ہے جو بلاشبہ اسی ادبی نومولود کا لکھا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ لکھنے کی اس کی حیثیت ہی نہیں ہے۔آغا کا ایک شاگرد ان دنوں جرمنی میں مقیم تھا، اس کے نارنگ کے ساتھ بہت قریبی تعلقات ہیں، اس نے نارنگ اور جرمن نومولود میں صلح کروائی، نومولود کو کچھ لالچ دیا گیا، اور وہ اپنا ضمیر بیچنے پر تیار ہوگیا۔ ایک ایسی تحریر پر اس نے اپنا نام لکھوایا جس کو لکھنے کی وہ اہلیت ہی نہیں رکھتا ہے۔ اس کی تمام زندگی کی “تنقیدی” تحریروں میں انگریزی کا کوئی ایک اقتباس تک پیش نہیں کیا گیا ہے۔
“اعلیٰ عنوان” سے میرے خلاف جومضمون شائع کیا گیا تھا اس میں صرف ایک ہی نکتہ ایسا تھا جس کی وضاحت میں نے کردی تھی، لیکن اس نکتے کو لے کر جس طرح ماہِ رمضان کے آخری عشروں میں مسلمانوں نے مجھ پر بہتان طرازیوںکا سلسلہ جاری رکھا تھا، میں نے خود کو اتنا اہم کبھی بھی نہیں سمجھا تھا۔اس دن سے مجھے یہ اندازہ ہونا شروع ہوا کہ اُردو ادب میں بت شکنی کا عمل صحیح خطوط پر استوار ہے۔
“اعلیٰ عنوان” سے لکھی گئی اس تحریر میںمجھ پر یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ میرا ایک مضمون “دی نیشن ، لندن، مارچ 22، 2007” میں شائع ہوا اور اس میں میرا صرف ایک فقرہ کیتھرین بیلسی کی بارتھ پر لکھی گئی ایک تعارفی کتاب سے ماخوذ ہے۔ معترضین کا کہنا ہے کہ چونکہ میں نے حوالہ نہیں دیا اس لیے وہ ایک فقرہ ان کے الفاظ میں “بدترین سرقات” کے زمرے میں آتا ہے۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ صرف ایک فقرہ جو کہ سرقہ نہیں بلکہ بقول معترضین “بدترین سرقات” ہیں اور اسی بنیاد پر نارنگ کے حواریوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ نارنگ کو بھی بری الذمہ سمجھا جائے یعنی ایک ایساشخص جس نے اپنی انعام یافتہ کتاب میں تین سو صفحات لفظ بہ لفظ سرقہ کیے ہیں اور دوسری کتاب میں بھی صفحات کے صفحات سرقہ کر کے، پوری اُردو دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کر انعام پر انعام وصول کرتا جارہا ہے، اس کو بھی استثنا حاصل ہے۔یہ وہ حقیقی کھیل تھا جو آغا اور نارنگ کے نومولودوں کے درمیان طے پایا ، اورمیرے خلاف عمل میں آنے لگا۔
معترضین کا سب سے مضبوط نکتہ ان کے اپنے الفاظ میں یوں ہے کہ
مختصر یہ کہ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ میں نے اس مضمون کا مطالعہ کیا ہے یا اس کا حوالہ مر ی کتاب میں درج ہے تو ان کی اس دلیل کا ابطال ہوجاتا ہے۔
اسی نکتے کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے جواب میں یہ لکھا کہ میری کتاب کے پہلے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 119 ،اور دوسرے ایڈیشن کے صفحہ،123 پر انھیں فقروں سے متعلقہ بارتھ اور اس کے مضمون کا حوالہ درج ہے۔ بات صاف ہوگئی کہ اگر حوالہ موجود ہے تو اعتراض کس پر؟
معترضین نے جواب الجواب لکھا اور اس میں کہا کہ وہ کتاب کا تو ذکر ہی نہیں کررہے، وہ تو اس آرٹیکل کا ذکر کر رہے ہیں، جو “دی نیشن لندن” میں شائع ہوا تھا۔ وہ آرٹیکل کہاں ہے؟ جو شخص اس کا حوالہ دے رہا ہے اس تک کیسے پہنچا؟ اس میں سے ایک فقرے کی نشاندہی کس نے کی؟ اگر یہ لوگ میری کتاب کا ذکر کرتے تو اُردو کے قارئین میری کتاب کا متعلقہ صفحہ نکالتے ، بیلسی اور بارتھ کی کتابوں کو سامنے رکھ کر ان میں مماثلت دیکھ لیتے، اور ان کا جھوٹ آشکار ہوجاتا۔ حقیقت تک پہنچنے کا بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اصل مآخذات تک رسائی حاصل کی جائے، اس کے بعد ان کو آمنے سامنے رکھ کر جانچا جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میری کتاب میں اسی فقرے کے ساتھ اس مضمون کا حوالہ موجود ہے، لیکن بیلسی نے بارتھ کے اس مضمون کا اس جگہ کوئی حوالہ نہیں دیا۔
حقیقت یہ ہے جو لوگ اس مہم کا حصہ بن چکے ہیں ان کا سچائی سے کیا تعلق ہوسکتا ہے۔ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ میں نے مغرب کی جن جامعات میں تعلیم حاصل کی ہے وہاں ادب میں اخبارات کے حوالوں کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ میں نے اپنی ساری زندگی میں کسی اخبار میں کوئی مفصل حوالہ نہیں دیکھا۔ میں نے نارنگ کے کسی اخباری آرٹیکل کے ایک فقرے کو نشان زد نہیں کیا، بلکہ اس کی انعام یافتہ کتاب کے تین سو صفحات کو اپنی کتاب میں لفظ بہ لفظ مسروقہ ثابت کیا ہے۔ اسی طرح وزیر آغا کی کتاب “امتزاجی تنقید” اور دستک اس دروازے پر” میں سے صفحات کے صفحات لفظ بہ لفظ پیش کیے ہیں، جو انھوں نے اندھا دھند سرقہ کیے ہیں۔میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ جب ہم اپنا ایک مؤقف لے کر چلتے ہیں تو اس وقت دو چار فقرے بھی ایک جیسے ہوں تو وہ بھی سرقے کے زمرے میں نہیں آتے۔ انگریزی میں ایسی انگنت تحریریں موجود ہیں جہاں ایک ہی موضوع پر بات کرتے ہوئے دو تین فقروں میں مماثلت کا نظر آنا فطری بات ہے۔
جب کسی سرقے کو ثابت کرنا ہو، تو جس فقرے پر اعتراض ہو،وہ فقرہ پیش کیا جاتا ہے، اور اس کے بعد جہاں سے وہ فقرہ اٹھایا گیا ہو، اس فقرے کو اس کے ساتھ ہی پیش کردیاجاتا ہے، تاکہ مماثلت قائم کرنے میں آسانی رہے، یہی طریقہ میں نے نارنگ کے بارے میں اپنی کتاب میں اختیار کاک ہے۔ یہاں معاملہ الگ ہے، معترضین نے میرا ایک فقرہ پیش کرکے ادھر ادھر کی گفتگو شروع کردی ، اس کے بعد بجائے اس کے کہ بیلسی کی کتاب کا متعلقہ فقرہ پیش کرتے، انھوں نے بارتھ کے مضمون کے تقریباً سات فقرے پیش کردئیے ، اگر میرے اور بیلسی کے فقرے میں مماثلت ہے تو دونوں کو اکٹھا پیش کیا جائے، لیکن ساتھ ہی بارتھ کے متعلقہ مضمون کے صرف پہلے چار فقرے پیش کردئیے جاتے تاکہ واضح ہوجاتا کہ بیلسی نے بھی اپنے وہ فقرے بارتھ ہی سے مستعار لیے ہیں۔ ایسا نہیں کیا گیا، اس کی وجہ میں پیش کرچکا ہوں۔
یہاں یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا لازمی ہے کہ جس آرٹیکل کا حوالہ پیش کیا گیا ہے، وہ میری تحریری زندگی کا تیسرا آرٹیکل تھا، جبکہ 2004 کے شاید آخری مہینے میں میرا پہلا آرٹیکل شائع ہواتھا۔ کتاب کی اشاعت کے بارے میں میرا نقطۂ نظر بہت مختلف ہے۔ مجھے اُس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کتاب کے لیے جس فکری پختگی کی ضرورت ہوتی ہے میں اس سطح پر نہیں ہوں۔ میں نے جو اخباری مضامین مختلف اخبارات میں شائع کیے، انھیں ہمیشہ کے لیے داخل دفتر کردیا۔
یاد دہانی کے لیے عرض کردوں کہ نارنگ اور آغا نے جن سرقوں کا ارتکاب کیا ہے ، اپنی تحریری زندگی کے آغاز میں نہیں، بلکہ عمر کے اس حصے میں کیا ہے ،جب انسان کافکری ارتقا رک جاتا ہے اور انسان فکری حوالوں سے بحران کی جانب بڑھنے لگتا ہے۔ نارنگ کی دو اور کتابوں کا سرقہ میری نظروں کے سامنے ہے لیکن ان پر شاید مضمون نہ لکھ سکوں۔اسی طرح آغا کی کتابیں”تخلیقی عمل” اور ساختیات اور سائنس سرقوں کی آماجگاہ ہیں۔ میں نے اُردو کے” سینئر لکھنے والوں” کے گھناؤنے سرقوں کو آشکار کرکے ایک رجحان کی حوصلہ شکنی کی ہے اور ایک نئے رجحان کی تشکیل کی جانب قدم اٹھادیا ہے۔جہاں تک علمی معاملات کا تعلق ہے تو نہ ہی نارنگ اور نہ ہی آغا کا کوئی شاگرد ہی میری کتاب کے دو صفحات کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ میں نے اپنی جو تحریریں پھاڑ کر پھینک دیں، نارنگ کی ذہنی سطح کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ کہیں اس کے ہاتھ لگتیں تو وہ انھیں اپنے نام سے ضرورشائع کرالیتا۔
اب تھوڑا آغا کے ذہنی و فکری حوالوں سے معذور ساتھیوں کا ذکر کرتے ہیں۔ انور سدید کی بطورِ ادیب حیثیت اور بحیثیت انسان حقیقت سب پر آشکار ہے۔جہاں تک تنقید کا تعلق ہے تو اس حوالے سے میں اس شخص کو ٹیلی فون کا نقاد سمجھتا ہوں۔ جو شخص اس کو کتاب بھیجتا ہے، یہ ٹیاں فون پر ہی اس سے کتاب کے مندرجات کی نوعیت کے بارے میں دریافت کرتا ہے۔ اور اس کے بعد اس پر تبصرہ تحریر کردیتا ہے۔ سدید کی تحریریں یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس نے تمام زندگی کوئی کتاب تک نہیں پڑھی۔ اس کی تنقیدی تحریروں کو آغا درست کردیا کرتے تھے۔ میرے لیے یہ حررت کی بات نہیں کہ عمر کے اس حصے میں بھی یہ شخص اس تنقیدی علم و بصیرت سے محروم ہے جس کے بغیر تنقیدی میدان میں قدم نہیں رکھا جاسکتا۔ اس پر استہزاد یہ کہ یہ شخص انتہا درجے کے اخلاقی بحران کا شکار ہے۔نارنگ پر میری 480 صفحات کی کتاب شائع ہوئی جس میں، میں نے نارنگ کے تین سو صفحات کے سرقوں کو ثبوت سمیت پیش کیا تھا،اس شخص کی بددیانتی کا عالم یہ تھا کہ اس نے نارنگ کو ایک بار بھی کھل کر موردِ الزام نہیں ٹھہرایا۔اس کے خطوط نکال کر دیکھیں تو سر پٹخنے کو جی چاہتا ہے۔ میرے بارے میں انور سدید کی ذہنی پستی، اخلاقی بحران اور علمی بددیانتی کی حد ان الفاظ میں ملاحظہ کریں:
اب جبکہ میں انور سدید کے استاد وزیر آغا کے انگنت سرقوں کو طشت از بام کرکے ان کی ادبی حیثیت پر سوال قائم کرچکا ہوں، تو امید کرتا ہوں کہ انور سدید خالقِ حقیقی سے ملنے سے پہلے اپنی زندگی میں بولے گئے ہر ادبی جھوٹ کا کفارہ ادا کرنے کے لیے آگے بڑھے گا اور میرے نشان زد کیے ہوئے آغا کے سرقوں اور ان کے فکری دیوالیہ پن پر ایک مفصل مضمون تحریر کرے گا ۔ سدید نے یہ صحیح لکھا ہے کہ
وزیر آغا کے بے شمار سرقے سامنے آچکے ہیں تومیںانور سدید سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی اس اعلیٰ سوچ کو حقیقت کا جامہ پہناتے ہوئے اس کا اطلاق اپنے دیرینہ ساتھی وزیر آغا پر بھی کرے گا۔ میرے بارے میں جھوٹ لکھ کر اس نے آغا گروپ کی روایت کی پاسداری تو کی ہے، ساتھ ہی اس نے اپنے دیرینہ ساتھیوں کے حوالے سے اپنی’ اخلاقی’ ذمہ داری بھی نبھادی ہے۔اگرسدید کا حقیقی اخلاقیات کے ساتھ کوئی تعلق ہے تو اس پر لازم ہے کہ اب وہ آغا، جنھیں میں اپنی مفصل تحقیق کے تحت اُردو کا دوسرا بڑا سارق ثابت کرچکا ہوں، پر لکھ کر اپنا حقیقی اخلاقی فریضہ ادا کرے۔
سب جانتے ہیں کہ وزیرآغا کے بیٹے سلیم آغا قزلباش نے نارنگ کے سرقوں سے متعلق کبھی ایک لفظ تک ادا نہیں کیا، مگر میرے بارے میں رائے دینا اس نے بھی اپنا فرض سمجھا۔غیر ادبی اصناف سے تعلق رکھنے والے اس شخص کی ادبی میدان میں جو حیثیت ہے وہ سب پر عیاں ہے۔ اس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اسے وزیر آغا کا بیٹا تصور کیا جاتا ہے، اور وزیر آغا کی عیمی حیثیت اس کتاب میں کی جانے والی بحث سے عیاں ہوچکی ہے۔ اس کے علاوہ آغا،نارنگ کے بعد سب سے بڑے سارق ہیں، لہذا اس تعارف سے بھی سلیم آغا کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ جن لوگوں نے میرے خلاف اعلیٰ عنوان سے مضمون لکھوایا ہے ان میں سلیم آغا نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کی تکلیف کو سمجھنے کے لیے اس کے فقروں پر غور کریں جو اس نے جرمنی میں پناہ گزین ادبی نومولود کو اس مضمون کو پڑھنے کے بعد لکھنے ہیں ۔ لکھتا ہے کہ
سلیم آغا نے اس مضمون پر اپنی رائے دی ہے جس میں صرف کردار کشی کی کوشش کی گئی ہے۔ بجائے اس کے کہ سلیم آغا اپنے دیرینہ ساتھی کو ذاتیات سے ہٹ کر کچھ لکھنے کا مشورہ دیتا، اس نے میری ذات سے متعلق اگلی ہوئے زہر یلی تحریر کو سراہنا شروع کردیا، اور ساتھ ہی مجھے یہ مشورہ دے ڈالا کہ میں کسی علمی و ادبی موضوع پر سوچ سمجھ کر قلم اٹھاؤں۔ یہاں میںسلیم آغا سے یہ سوال کرنا تو ضروری سمجھتا ہوں کہ معترضین نے میری کون سی علمی تحریر کو بحث کا موضوع بنایا ہے؟کردار کشی پر مبنی جس تحریر کی جونیئر آغا تعریف کررہا ہے اس سے اس کی ذہنیت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔جب میں نے”وزیر آغا اور ڈی کنسٹرکشن” کے عنوان سے مضمون لکھا تھا تو اس وقت یہ لوگوں کو ٹیلی فون پر میرے مضمون کا جواب لکھنے کے احکامات صادر کررہا تھا، خود ہر طرح کے علمی دیوالیہ پن کا شکار ہونے کی وجہ سے سلیم آغا اپنے والد کے علمی دفاع میں میدان میں نہیں اترسکا۔ میری شعبدہ بازی تو اسے بہت جلد دکھائی دینے لگی ہے مگر وزیر آغا کی تمام عمر کی شعبدہ بازیاں اسے کیوں دکھائی نہیں دی ہیں؟ اب میں نے پوری کتاب اس کے والد کے بارے میں لکھ دی ہے، اس کا فرض ہے کہ علم کی اسی سطح پر پہنچ کر جواب دے، مگر میں اس کی اوقات سے بخوبی آگاہ ہوں، یہ کردار کشی کو ہی ترجیح دے گا، کیونکہ اس کی تربیت ہی اس انداز میں ہوئی ہے۔ آغا نے لاہور میں ایک بیہودہ گروپ بنایا اور انور سدید کو ہر شریف انسان پر کیچڑ اچھالنے کا ذمہ سنبھالنے کے لیے تیار کیا۔بدلے میں آغا اس گروپ میں شامل تمام نااہل لوگوں کی تعریف کرتے تھے اور ان سے اپنی تعریف کروانے کے علاوہ دوسروں کی تضحیک کرانے کا کام بھی لیتے تھے۔اب اس گندگی کی صفائی کا وقت آچکا ہے۔
معترضین نے میرے حوالے سے ایک اور جھوٹ تراشا ہے۔
کہتے ہیں کہ میں سلمان شاہد کے نام سے مضمون لکھ کر اپنی تعریف کرتا رہتا ہوں۔ میں اُردو کے سنجیدہ قاری کے سامنے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سلمان شاہد کے نام سے لکھی ہوئی کسی بھی تحریر میں میری تعریف تو بہت دور کی بات ہے اگر کہیں میرا نام بھی لکھا ہوا مل جائے تو میں آج سے لکھنا ہی بند کردوں گا، شرط یہ ہے کہ تحریر اس تاریخ سے پہلے کی ہو، جس دن ان لوگوں نے مجھ پر الزام لگایا تھا۔ اور اگر ایسی تحریر نہ مل سکے تو معترضین اپنے لیے خود ہی کوئی سزا تجویز کرلیں۔ میرے علم کے مطابق سلمان شاہد کے نام سے ایک تحریر تین برس قبل “خبر نامہ شب خون” میں شائع ہوئی تھی اور اس تحریر میں مرحوم قیصر تمکین اور جرمنی کے اس نومولود کے کسی کام کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا تھا، جبکہ مقدم جرمنی کے نومولود ہی کو ٹھہرایا گیا تھا۔ میرے نزدیک قرص تمکین اور جرمن نومولود کا موازنہ کرنا ہی ایک گناہِ کبیرہ ہے۔ اب قاری فیصلہ کرے کہ سلمان شاہد کے نام سے لکھی ہوئی تحریر میں کس کی تعریف کی جاتی رہی ہے۔ حوالے کے لیے ” خبر نامہ شب خون” ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
معترضین کا کہنا ہے کہ میں نے صرف “ایک علمی نکتے کا جواب دیا ہے۔”
میں نے تو ایک اور ‘علمی نکتے کا جواب بھی دیا تھا لیکن اس کی علمیت کو جاننا آغا اور نارنگ کے ناجائز ادبی نومولودں کی ذہنی استعداد سے باہر ہے۔ معترضین نے لکھا ہے کہ :
اب جہاں جہالت اور لاعلمی کی حد یہ ہو وہاں کیا دلیل دی جاسکتی ہے؟ ان نومولودں کو کیسے سمجھایا جائے کہ یہ کوئی شعر نہیں ہے کہ ایک لفظ بدل کر اپنے نام سے پیش کردیا جائے جو غالب سمیت بیشتر بڑے شعراء کرتے رہے ہیں۔ اگر معترضین بارتھ کی “مائیتھالوجی”میں سے اس کے آخری مضمون بہ عنوان “Myth Today” کا مطالعہ کرلیتے تو شاید میں ان کی کچھ بہتر طریقے سے رہنمائی کرسکتا۔ اگر یہ ممکن نہیں تھا تو Image Music Text” “میں بارتھ کے مشہور مضمون “مصنف کی موت” کا مطالعہ کرلیتے، لیکن اسے تو ان کے استاد آغا نے بھی نہیں پڑھا تھا ، اور اسی ایک مضمون میں سے دو اقتباس پیش کرکے انھیں دو مختلف مضامین سے حاصل کرنے کا دعویٰ کردیا تھا۔ آغا کی اس غلطی کا تفصیلی تجزیہ میں اسی کتاب کے پہلے باب میں پیش کرچکا ہوں۔اسی طرح بارتھ نے اپنی کتاب S/Z میں مائیتھالوجی کی جگہ آئیڈیالوجی کی اصطلاح استعمال کی ہے، اور یہ حقیقت بیلسی سے بھی مخفی رہی ہے۔ بارتھ نے اپنے مضمون “Myth Today” میں ‘متھ’ کے اس کردار کو زیادہ بہتر طریقے سے دیکھ لیا تھا۔ بارتھ کا یہ مضمون اس کی کتاب کے پہلے تمام مضامین کی نفی کردیتا ہے۔ میں نے اپنی کتاب “فلسفہ مابعد جدیدیت” میں بارتھ کے ا س مضمون پر بھی تفصیلی بحث کی ہے۔ پہلے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 120 اور دوسرے ایڈیشن کے صفحہ نمبر 124 پر اس مضمون سے متعلق تجزیہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔میں نے یہ بتایا ہے کہ بارتھ معنی کو منہدم کرنے پر کیوں آمادہ ہوا؟ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ جس متھ کو پیش کررہا ہے وہ معنی کی سطح کو کمزور نہیں،بل کہ مزید مضبوط کررہی ہے۔ اس کا فائدہ بورژوازی ہی کو ہورہا ہے۔
بارتھ کے آخری مضمون کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ
تاہم اس کا واضح اظہار بارتھ نے “امیج، موسیاگ اور متن” کے علاوہ “مصنف کی موت” میں کھل کر کیا ہے۔ ان مباحث کو سمجھنے کے لیے جتنی عقل کی ضرورت ہے وہ آغا کے کسی شاگردکے پاس کہاں سے آئے گی، اگر ان کے پاس اتنی عقل ہوتی تو یہ دوسروں کی کردار کشی کرتے، اور جو براہِ راست اس میں حصہ نہیں لے سکے تھے ،وہ ان کردار کشی کرنے والوں کی پذیرائی کرتے؟ آغا کے یہ شاگرد ادب میںباطل تشریحات اور غیر اخلاقی رجحانات کے فروغ کے لیے سرگرمِ عمل ہیں۔ میرا مقصد ان کی باطل تشریحات سے بلند ہوکر افکار کا تقابلی و تنقیدی جائزہ پیش کرنا ہے۔
متھ جب معنی کو متعین کرتی ہے تو وہ سگنی فائڈ کی تشکیل کررہی ہوتی ہے، سگنی فائڈ ایک طرح کا تعقل ہے، جس میں معنی مجسم ہوتا ہے۔ اور معنی کی تشکیل ایک آئیڈیولاجیکل عمل ہے۔ بارتھ لکھتا ہے کہ
اگر اس نظام کو متھ کی شکل دے دی جائے تو سگنی فائڈ یا معنی وجود میں آتا ہے۔اگر زبان کے اصولوں کے تحت، سگنی فائر پہلے ہی سے دوسرے سگنی فائرز کے ساتھ ایک نظام میں مربوط ہو تو سگنی فائڈ یا معنی کا قیام مشکل ہوجاتا ہے، یہی وہ نکتہ ہے جہاں مائیتھالوجی یا آئیڈیالوجی کا کردار معدوم ہوجاتا ہے۔لہذا یہاں سے وہ اس ‘سائن’ کو مہندم کرنے کے عمل کا آغاز کرتا ہے جس کی تشکیل معنی کی شکل میں ہوتی رہی ہے۔
اگرمغربی فلسفے کا علم ہو،اور اس کے بعد اس پر مارکسی یا مابعد جدید تنقید کی کچھ خبر ہو تو آئیڈیالوجی کی تفہیم مشکل نہیں رہتی۔ اگر بیلسی کے ذہن میں یہ نکتہ راسخ نہیں ہوسکا تو کیا اس مںد مجھے قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے؟کیا میرا بیلسی سے متفق ہونا ضروری ہے؟ اگر آغا کے شاگرد ان قضایا سے باخبر نہیں ہیں تو لوگوں کی کردار کشی کرنے کی بجائے فلسفہ ، تھیوری اور مارکسزم کے حوالے سے باریک اکتسابی عمل سے گزریں، علمی معاملات سے بچنے کے لیے دوسروں کی کردار کشی کرکے اپنی نالائقی کو نہیں چھپایا جاسکتا۔معترضین کا مزید کہنا ہے کہ “بارت نے صرف فرانسیسی معاشرے میں بورژوا طبقے کا ذکر کیا ہے۔” ان نومولودوں کو کیا خبر کہ یہی فقرہ میری کتاب میں بھی درج ہے۔ یہ تو ان شارحین کو سمجھانے کی ضرورت ہے جنھوں نے مابعد جدیدیت کو اس کے تناظر سے محروم کرکے پیش کرنے کی کوشش ہی نہیںکی ہے بلکہ اس عمل کی مخالفت کرنے والوں کے ساتھ مخاصمانہ رویہ بھی رکھتے رہے ہیں۔ دوسروں پر وہ اعتراضات کررہے ہیں، جو خود ان پر کیے جانے چاہیں۔ میں انھیں یہاں بارتھ ہی کے بارے میں ایک اور سبق بھی دینا چاہتا ہوں۔ میری کتاب میں بارتھ کے اسی مضمون میں سے اس فقرے پر بھی توجہ دی گئی ہے، جو موصوف کے مطابق میں نے نہیں پڑھا، یہ فقرہ انھیں بیلسی کی کتاب میں بھی نہیں ملے گا:
اس فقرے سے بھی یہ عیاں ہوجاتا ہے کہ بارتھ پر سارتر کے خیالات کی چھاپ تھی ، جو آیڈیولاجیکل سطح پر” دوسرے” کی تخفیف کے ساتھ جڑا ہوا ہے،جو عقلی مقولات کے فاعلانہ کردار کا مرہونِ منت ہے۔اس کے لیے بارتھ یا بیلسی سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس فقرے میں تیسری دنیا کے لوگوں کے بارے میں مغربی معاشرے کے رویے کو دیکھا جاسکتا ہے۔ جو لوگ جرمن فلسفے پر نظر رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ فوکو، بارتھ اور دریدا نے کس طرح کلاسیکی جرمن فلسفے کے ساتھ بددیانتی کی ہے۔جرمن فلسفیوں کو خیالات کا چربہ بھی پیش کیا ہے اور ان کی مخالفت بھی کی ہے۔ اُردو کے نام نہاد مابعد جدیدیت پسندوں کے برعکس مغربی فلسفے و ادب کے سچے طالب علم فرانسیسی مابعد جدیدید مفکروں کے اس عمل سے بخوبی آگاہ ہیں۔آغا کے شاگرد شیطانیوں میں ضرور ماہر ہوسکتے ہیں، تاہم وہ اتنی ذہانت مالک نہیں ہیں کہ وہ اس اقتباس کا تیسری دنیا کو سامنے رکھتے ہوئے تنقیدی جائزہ پیش کرسکیں۔ وہ تشریحات کے اس حد تک عادی ہوچکے ہیں کہ دوسروں سے بھی تشریحات کی امید لگائے رکھتے ہیں۔ جہاں کوئی اپناموقف اختیار کرتاہے، وہ اسے اپنی کم علمی سمجھنے کی بجائے دوسرے کی کم فہمی سمجھنے لگتے ہیں۔ موصوف نے جو اقتباس پیش کیا ہے اسی میں بارتھ کے یہ الفاظ ملاحظہ کریں:
اوپر والے اقتباس میں”Ethnocentric” اور دوسرے اقتباس میں”Black” کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ ان الفاظ میں ‘اقلیتوں’ اور ‘سیاہ فام ‘ لوگوں کا مفہوم پنہاں ہے۔ آغا کے شاگرد وں میں اتنی اہلیت نہیں کہ اسے سمجھ سکتے۔ میری کتاب میں اس کا تجزیہ کچھ ان الفاظ میں ہے:
یہ تجزیہ بھی اسی مضمون سے اخذ کیا گیا ہے جو معترضین کے مطابق میں نے نہیں پڑھا ہے، لیکن خود انھوں نے پڑھ رکھا ہے۔اس علیت بحث کی ضرورت صرف آج کے باشعور قارئین کو سامنے رکھتے ہوئے محسوس کی گئی تھی، ورنہ آغا اور نارنگ کے نومولودوں کا علم سے جو تعلق ہے اس کے بارے میں ان کے تاریخی کردار کو سمجھنے والے مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
…