تحریر محی الدین غازی
شوہر اور بیوی کے درمیان تعلقات کی بناء محبت ہونا چاہیے ،
یہ بات اتنی سادہ ہے کہ ہرشخص کو سمجھ آ جانا چاہیے۔خواہ وہ اتنی سمجھ نہ رکھتا ہو کہ دو اور دو چار ہوتے ہیں۔
لیکن ایسا نہیںہے میں نے اپنی زندگی میں ایسے بہت سے عقلمند دیکھے ہیں جو اس بات کو زندگی بھر نہیں سمجھ سکے۔
ایک صاحب کی پوری زندگی بیوی کو یہ باور کراتے گزر گئی کہ میں ایک مرد ہوں۔جس کے ہر اشارے کو سمجھنا اور فوری تعمیل کرنا بیوی کا فرض ہے۔ایک دوسرے صاحب ساری زندگی بیوی کو یہ جتاتے رہے کہ میں نے تم سے شادی اس لیے کہ ہے تاکہ تم میرے ماں باپ کی خدمت کرو ۔اس عظیم مقصد کے سوا کچھ میرے پیش نظر نہیں تھا۔ضاہر ہے ماں باپ کی خدمت خود کرنے میں وہ لطفکہاں جو بیوی سے کرانے میں ہے۔خدمت بھی ہو جاتی اور شوہر کے جذبہء حاکمیت کی تسکین بھی۔میرا یہ ماننا ہے کہ بہو کو ساس کی خدمت کرنی چاہیے ضرور کرنی چاہییمگر اپنی مرضی سے اور اپنے جذبہء تسکین کے لیے۔
کچھ لوگ شادی کے بعد بیویوں کو یہی دکھاتے رہتے ہیں کہ وہ اپنی بہنوں کے حقوق کی کوتاہی نہیں کرتے ہیں ۔بیوی کو کوئی چیز خرید کر دینی ہو تو یہ دیکھتے ہیں کہ ویسی ہی چیز بہنوں کے لیے بھی خریدنے کی استظاعت رکھتے ہیں کہ نہیں۔
ایسے بھی لوگ ملے جو زندگی بھر بیوی پر یہ دھونس جماتے رہے کہ میں بہت مصروف ہوں۔اور بڑے کاموں کی انجام دہی میں میرے شب و روز گزرتے ہیں۔حالنکہ وہ اپنی زندگی میں کوئی بھی قابل قدر کم نہیں کر سکے۔اگروہ اپنی بیوی کے دل میں اچھی سی جگہ بنا لیتے تو کم از کم بیوی کے لیے تو قابل قدر ہو جاتے۔
شریک حیات کے دل کو بے تو جہی کے نشتر سے زخمی کرنا اور زندگی کے خوبصورت دن ٹی وی کے چینل بدلنا تو اکثر شوہروں کا شیوہ ہے۔اور بعض لوگ تو ایسے ہیں کہ سگریٹیں،دھواں چائے رات گئے بحثیں ۔۔۔اور کہیں کوئی پھول سا آنچل نم ہوتا ہے۔
اس مضمون کے لکھنے کا یہ محرک بنا کہ چند روز پہلے ہمارے ایک دوست کا فون آیا کہ وہ کسی ساحب کے ساتھ ہمارے ہاں ملنے آنا چاہتے ہیں کسی گھریلو مسلے پر بات کرنے کیلیے۔میں نے خوش آمدید کہا غرض مل؛اقات ہوئی تھوڑی جھجھک تھی۔جس کے دور ہو جانے کے بعد انہوں نے بتایا کہ شادی کو کئی سال ہو گئے۔میرے چار بچے ہیں۔بیوی سے سدا نوک جھونک رہی۔لہٰذا میں نے فون پر اسے ایک طلاق دے دی۔اب میرا احساس یہ ہے کہ بچے میرے پاس ہیں ظاہر ہے بچوں کوماں کی بھیضرورت ہے اور باپ کی بھی۔بچوں کی ماں کا بھی یہی خیال ہے اس لیے اب ہم یہ چاہتے ہیں کہ صرف بچوں کے لیے ہمارا زدواجی رشتہ بحال ہو جائے۔میں نے ان سے یہ کہ اکہ آپ نے یہ اچھا کام کیا کہ صرف ایک طلاق دی۔ جس کا مطلب ہے کہ عدت گزرنے کے بعد آپ نکاح کر کے دوبارہ اپنا نکاح کر سکتے ہیں۔یہ سمجھداری کا کام نہ ہمارے عوام کرتے ہیں نہ علماء انہیں تعلیم دیتے ہیں۔کیونکہ لوگوں کو اس فضول بحث سے فرصت نہیں کہ تین طلاقیں ایک ہوتی ہیںیا تینحالانکہ طلاق اگر دینا ضروری ہو جائے تو صرف ایک دینا چاہیے۔یہ تین طلاق کا مزاج اور رواج نہ جانے کس نے چلا دیا۔
پھر میں ان سے کہا آپ دونوں صرف بچوں کے لیے کیوں یہ رشتہ بحل کرنا چاہتے ہیں آپ دونوں کی اپنی زندگی بھی تو ایک دوسرے کے بغیر نا مکمل ہے۔اس بات پر ان کی خاموشی میں میں بہت کچھ سمجھ سکتا تھا۔ان کی زندگی میں ان کی اجازت سے جھانکنے کی کوشش کی تو ماں باپ بہن بھائی سا س سسر اور بہت سے لوگ دخیل نظر آئے۔
شوہر اور بیوی کی ایک دنیا ہوتی ہے۔اس دنیا کو قانون فطرتکے تحت سکون و فرحت کی اماجگاہ ہوناچاہیے۔لیکن اس میں جب دوسرے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ دنیا خرابی کا شکار ہونے لگتی ہے۔ذیادہ تر بیوی کی ماں اور بہنیں شوہر کی ماں اور بہنیں اس دنیا میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔کبھی کبھی پڑوسیوں اور دوستوں کی طرف سے بھی در اندازی ہوتی ہے۔
ماں کا رتبہ بہت عالی ہے ۔بہنوں کے حقوق بھی یقیناً بہنوں پر ہوتے ہیں۔شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کیحقوق ذمہ داری سے پورے کرے۔ اسی طرح بیوی بھی اپنے ماں باپ کے حقوقکی ادائیگی حسب امکان کرے۔بیوی کے آنے کے بعد شوہر اپنے ماں باپ یا بہن بھائیوں کے حقو ق میں کوئی کمی کرے کسی طرح جائز نہیں۔
تاہم شوہر اور بیوی کی باہمی زندگی پر مشتمل جو چھوٹی سے دنیا وجود میںآتی ہے۔اس کا حسن و جمال سدا باقی رہے۔سدا بہار رہے اور کبھی خزاں نہ آئے۔یہ سدا شاداب رہے ۔کبھی ویران نہ ہو اس کی فکر دونوں کو کرنی چاہیے۔
کہیں ایس ہوتا ہے شوہر کی بہن جس کی شادی نہ ہوئی ہو شوہر اور بیوی کی زندگی میں دخیل رہنا چاہتی ہے۔اور جب شادی ہو جاتی ہے تو وہ اپنی دنیا میں کسی کی مداخلت پسند نہیں کرتی۔بلکہ بساء اوقات تو اپنی شادی کے بعد بھی بھائی کی زندگی میں تصرف اپنا حق سمجھتی ہے۔اس سے بہت سی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ہر لڑکی اپنی ایک الگ دنیا بسانے کا خواب لے کر آتی ہے۔اور جب اس تصور کے لیے کوئی گنجائش نہیں پاتی تو منفی رد عمل جنم لیتے ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے کہ اس دنیا کی رومان بھری فضاء بچوں کی آمد سے بھی متاثر نہ ہواور ببچوں کی ایک دنیا تو ضرور ہو۔اور شوہرو بیوی کی دنیا بھی وہیں باقی رہے۔دونوں اس دنیا کے بھی باسی رہیں اور اس دنیا سے بھی ہجرت نہ کریں۔فیملی امور کے ماہر نے ایک بجاء مشورہ دیا کہ شوہر اور بیوی بچوں کے ساتھ تفریح پر نکلا کریں ۔اور وہ کبھی بچوں کے بغیر بھی تفریحی مہم پر جایا کریں۔تاکہ انہیں احساس رہے کہ جو چھوٹی سی دنیا ان دونوں نے مل کر بنائی ہے وہ باقی ہے۔پھر جب مستقبل میں ان کے بچے انہیں خدا حافظ کہ کر اپنی اپنی نئی دنیائوں میں الوداعکہ کر چلے جائیں گے تو انہیں کبھی تنہائیو ویرانی کا احساس نہ ہو گا۔نہ جانے کیوں بہت سے شوہر اور بیویاں اپنے بچوں کے آنے کے بعد اپنی دنیائوں کو بالکل خیر باد کہ دیتے ہیں۔
بھائی اپنی بہنوں کے حقوق ادا کرے اور بخوبی ادا کرے۔یہ مطلوب ہے لیکن بہن کو بھی اس کی فکر ہونا چاہیے۔کہ بھائی نے جو چھوٹی سے حسین ارمانوں کی بستی سجائی ہے ۔اس میں کوئی خرابی اور بد مزگی پیدا نہ ہو۔
مثالی شوہر وہ نہیں جو اپنی بیوی کی ہر فرمائش پوری کرے اور نہ مثالی بیوی وہ ہے جو اپنے شوہر کا ہر حکم مانے۔مثالی شوہر اور بیوی وہ ہیں جو ایک دوسرے کے لیے جو ایک دوسرے کے لیے قلبی سکون و اطمینان کا سر چشمہ بن جائیں۔جو ایک دوسرے کو یہ احساس دلا دیںکہ وہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔شوہر اور بیوی کی عادتوں میں مزاج میں پسند اور سوچ میں یکسانیت کوئی ضروری نہیں۔اور اگر یکسانیت کے بجائے ذیادہ فرق ہو تو بھی کوئی خرابی کی بات نہیں۔تا ہم یہ ضروری ہے کہ ان کے درمیان بہت سارا فرق ان کے ایک جان دو قالب ہونے کا سبب بن جائے۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو یکساں ٹکڑے مل کر ایک پرزہ نہیں بن سکتے۔وہیں یہ بھی ہوتا ہے کہ دو مختلف پرزے مل کر ایک پرزہ بن جاتے ہیں۔اس لیے فرق کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہے بلکہ فرق کو سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا نہ صرف مفید ہے بلکہ مقصد تخلیق میں شامل ہے۔اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کو ایک جیسا نہیں بنایا لیکن ایک جنس سے بنایا ہے۔ان میں بہت سارے فرق ہیں اور وہ اس فق کا سہارا لے کر ایک ایسی اکائی بن سکتے ہیں۔جس میں نہ کچھ بے جوڑ ہو اور نہ کوئی جوڑ نظر آئے۔
بشکریہ ماہنامہ حجاب