تحرير۔ نمرہ احمد
انتخاب۔ راحيلہ ساجد
صبح آٹھ بجے وہ مسجد کے گیٹ پہ تهی- اندر داخل ہونے سے قبل اس نے رک کر بیلوں سے ڈهکے بنگلے کو دیکها-جسکا سنگی بنچ آج بهی ویران پڑا تها-
” بابا تمہارا صاحب ہے؟” کچھ سوچ کر اس نے باوردی گارڈ کو مخاطب کیا-
” وہ تو شہر سے باہر گیا ہے-”
” کب آئے گا؟”
” معلوم نہیں-”
” اچها-” اس نے ذرا سی ایڑی اونچی کر کے گیٹ کے پار دیکها – ہمایوں کی گاڑی کهڑی تهی-
” گاڑی تو ہے ان کی؟”
” وہ…. بی بی وہ جہاز پہ گیا ہے-” گارڈ قدرے گڑبڑا گیا-
” بهاڑ میں گیا تمهارا صاحب میری طرف سے- اس سفید سر پہ جهوٹ تو نہ بولو، نہیں ملنا چاہتا تو سیدها منع کر دو- جهوٹ بولنا منافقت کی نشانی ہوتی ہے، ایمان کی نہیں- خدا کا خوف کرو-” وہ آخری فقرے قدرے نصیحت آمیز انداز میں کہتی مسجد کے گیٹ کی طرف بڑھ گئی- پتا نہیں ہمایوں نے اس کے لیے یہ کیوں کہہ رکها تها-( اور پتا نہیں میں نے صحیح کیا یا غلط – مگر وہ ایسے میری جائیداد کبهی نہیں دیں گے، پهر اور کیا کرتی؟)
بے زار سے تاثر چہرے پہ سجائے، بیگ اٹهائے وہ سست روی سے برآمدے کی طرف چل رہی تهی-( اور یہ جهوٹ تو نہیں، اس نے مجهے حبس بے جا میں رکها تها-)
اس نے چپل ریک پہ اتاری اور خود کو گهسیٹتی ہوئی نیچے سیڑهیاں اترنے لگی-
( مگر اغوا تو نہیں کیا تها، میں ادهر اپنی مرضی سے ہی گئی تهی تو اس پہ یوں اغوا کا الزام لگا دینا جهوٹ نہیں ہو گا؟)
وہ سر جهکائے آہستہ آہستہ زینے اتر رہی تهی-
( نہیں ، جهوٹ کہا، اس نے ڈیل تو کی تهی ،اغوا اور خریدنا ایک ہی بات ہے- اگر ذرا سا لفظوں کا ہیر پهیر کر دوں تو کیا ہے؟)
اس نے کرسی پہ بیٹھ کر کتابیں سائیڈ بورڈ پہ رکهیں ، اور ساتھ بیٹهی لڑکی کے سیپارے پہ جهانکا، اور پهر مطلوبہ صفحہ کهولنے لگی- تفسیر شروع ہو چکی تهی- وہ آج بهی لیٹ تهی-
( فواد کے خلاف گواہی نہ بهی دوں تو بهی وہ سزا پائے گا، اور وہ اتنا بڑا اےایس پی، کوئی میرے بیان سے اسے سزا تهوڑی ملے گی؟ بس لفظوں کو تهوڑا سا انٹرچینج کر دیا جائے، تو کیا ہے، میری نیت تو صاف ہے-)
مطلوبہ صفحہ کهول کر اس نے پین کی کیپ اتاری ، اور آج کی تاریخ لکهنے لگی-
” اور تم جهوٹ کو سچ کے ساتھ نہ ملاؤ، اور نہ تم سچ کو چهپاؤ حالانکہ تم خوب جانتے ہو-”
میڈم مصباح کی آواز پہ جیسے اس نے کرنٹ کها کر سر اٹهایا- وہ اپنی ٹیچر چئیر پہ موجود کتاب سے پڑھ رہی تهیں- اس نے بے اختیار اپنے سیپارے کو دیکها – اس صفحے پہ سب سے اوپر یہی لکها تها-
” تم میری آیات کے بدلے تهوڑی قیمت نہ لو، اور صرف مجھ سے ہی ڈرو- اور تم جهوٹ کو سچ سے نہ ملاؤ اور نہ تم حق کو نہ چهپاؤ حالانکہ تم جانتے بهی ہو-”
وہ سن سی، بےحد ساکت سی، پهٹی پهٹی نگاہوں سے ان الفاظ کو دیکھ رہی تهی- میڈم آگے پڑھ رہی تهیں مگر اسے کچھ سنائی نہ دے رہا تها- ساری آوازیں جیسے بند ہو کر رہ گئی تهیں- بنا پلک جهپکے انہی الفاظ کو دیکهے جا رہی تهی-
” کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو، اور اپنے نفسوں کو بهول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب پڑهتے ہو – کیا پهر تم عقل سے کام نہیں لیتے-؟”
اسے ٹهنڈے پسینے آنے لگے تهے- ذرا دیر پہلے گارڈ کو کی گئی نصیحت اس کے کانوں میں گونجی- اسے لگا وہ کتاب اسے اس سے زیادہ جانتی ہے-
( پهر ……پهر…. میں کیا کروں؟) اس کا دل کانپنے لگا تها- بے اختیار اس نے رسی تهامنی چاہی- کلام کی رسی – وہ نہ جانتی تهی کہ دوسرے سرے پہ کون ہے، مگر اسے یقین تها کہ دوسرے سرے پہ کوئی ضرور موجود ہے-
” صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو- بے شک وہ ( نماز) سب پہ بہت بهاری ہے، سوائے ان کے جو ڈرنے والے ہیں-”
اس نے وحشت زدہ سی سر اٹهایا- پنک اسکارف والے بہت سے سر اپنی کتابوں پہ جهکے تهے- کوئی بهی اس کی طرف متوجہ نہ تها-
اس نے پهر سے ان الفاظ کو پڑها- وہ کوئی مضمون نویسی نہ تهی، وہ گفتگو تهی- بات ” او مائی گاڈ” اس کا دل زور زور سے دهڑک رہا تها-
It’s talking to me
ساتھ بیٹهی لڑکی نے سر اٹهایا-
” تو یہ ٹاک ہی تو ہے- کلام- اس کو ہم کلام پاک اسی لیے تو کہتے ہیں-” وہ سادگی سے کہہ کر اپنے سیپارے پہ جهک گئی-
محمل نے سیپارہ بند کر دیا، اور کچھ بهی اٹهائے بنا، تیزی سے بهاگتی ہوئی سیڑهیاں چڑهتی گئی-
فرشتے اپنے آفس میں آئی تو وہ اسکا انتظار کر رہی تهی-
” محمل تم؟”
” میں….. میں آئندہ نہیں آؤنگی، میں مدرسہ چهوڑ رہی ہوں-” وہ جو کرسی پہ بیٹهی تهی، بے چینی سے کهڑی ہوئی- اس کی آنکهوں میں عجیب سا خوف اور گهبراہٹ تهی- فرشتے نے آرام سے فائل میز پہ رکهی اور کرسی کی دوسری جانب جگہ سنبهالی، کهڑکی کے بلائنڈز بند تهے، کمرے میں چهاؤں سی تهی-
” آپ میری بات سن رہی ہیں؟”
” بیٹهو-” وہ میز کی دراز کهول کر جهکی کچھ تلاش کرنے لگی تهی- محمل بمشکل ضبط کرتی کرسی پہ ٹکی، اس کا بس نہیں چل رہا تها وہ ادهر سے بهاگ جائے-
” میں نہیں آؤں گی آئندہ فرشتے!” اس نے دہرایا- وہ ابهی تک دراز سے مصروف تهی-
” پهر کہاں جاؤ گی؟”
” بس قرآن چهوڑ رہی ہوں-”
” اسے چهوڑ کر کہاں جاؤ گی محمل!” وہ کچھ کاغذات نکال کر سیدهی ہوئی اور اسے دیکها-
” اپنی نارمل لائف میں-”
” تمہیں یہ ابنارمل لائف لگتی ہے؟”
” یہ مجھ سے بات کرتی ہے فرشتے!” وہ دبی دبی سی چیخی- ” آپ سمجھ نہیں سکتیں میں کتنے کرب سے گزر رہی ہوں- مجھ سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا- آپ سمجھ نہیں سکتیں-”
” میں سمجھ سکتی ہوں، جب قرآن مخاطب کرنے لگتا ہے تو سب اس کرب سے گزرتے ہیں-”
” نہیں-” اس نے سختی سے نفی میں سر ہلایا- ” وہ کسی کے ساتھ نہیں ہو سکتا جو میرے ساتھ ہوا، آپ تصور نہیں کر سکتیں-”
” تمہیں لگتا ہے تم پہلی ہو؟”
اس نے گہری سانس لے کر آنکهیں بند کیں اور سر دونوں ہاتهوں میں گرا لیا-
، ہم انسان ہی تو یہ بوجھ اٹهانے کے قابل ہیں، پهرتم اتنی کمزور کیوں پڑ رہی ہو؟ ہم پہاڑ نہیں ہیں جو اس کو سہار نہ سکیں اور دب جائیں-”
اس نے آہستہ سے سر اٹهایا- فرشتے کو وہ لمحے بهر میں بہت بیمار لگی تهی-
” وہ میری سوچیں پڑھ رہی ہے فرشتے!”
” وہ مخلوق نہیں ہے، وہ کلام ہے- بات ہے اللہ کی بات، اور اللہ ہی تو سوچیں پڑھ سکتا ہے-”
وہ گم صم سی ہو گئی-
” میں…. میں اللہ تعالی سے بات کر رہی تهی؟”
” تمہیں کوئی شک ہے؟”
” مگر یہ چودہ سو سال پرانی کتاب یے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ لائیک یہ پامسٹ میں ہو کر ہم سے چودہ سو سال کے فیوچر سے خود کنیکٹ کر لے؟ اٹس لائیک اے میریکل-” ( یہ تو معجزے کی طرح ہے-)
” یہی تو ہم اسے کہتے ہیں- معجزہ!”
” اور جب یہ ختم ہو جائے گی؟”
” تو پهر سے شروع کر لینا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تهے، قرآن کے معجزے کبهی بار بار دہرانے سے پرانے نہیں ہونگے- فہما بتا رہی ہوں-”
” میں….. میں اسے چهوڑ دوں تو؟”
فرشتے نے تاسف سے اسے دیکها-
” محمل! جب روز قیامت اللہ زمین آسمان کو ہلائے گا تو ہر چیز کهنچی چلی آئے گی، طوعا” یا کرہا”، خوشی سے یا ناخوشی سے- جب ہم اللہ کے بلانے پہ نماز اور قرآن کی طرف نہیں آتے تو اللہ ہمارے لیے ایسے حالات بنا دیتا ہے دنیا اتنی تنگ کر دیتا ہے کہ ہمیں زبردستی، سخت ناخوشی کے عالم میں آنا پڑتا ہے اور پهر ہم کرہا” بهی بهاگ کر آتے ہیں اور اس کے علاوہ ہمیں کہیں پناہ نہیں ملتی- اس کی طرف طوعا” آجاؤ محمل، ورنہ تمہیں کرہآ” آنا پڑے گا-”
پهر وہ مزید کوئی بحث نہ کر سکی-
اسے فرشتے کی بات سے بےحد خوف آیا تها – اسے لگا وہ اب کبهی قرآن نہ چهوڑ سکے گی-
اگر اسے معلوم ہوتا کہ اس ایک لفظ میں اس کی زندگی کا سب سے بڑا امتحان چهپا ہے تو وہ اسے کبهی مس نہ کرتی، اور نہیں تو لغت میں ہی تلاش کر لیتی مگر جانے کیسے وہ اس سے لکهنا رہ گیا تها-
آج کا رکوع میڈم مصباح کے علاوہ ایک اور ٹیچر پڑها رہی تهیں- میڈم ذکیہ آیات بنی اسرائیل کے ہیکل میں داخل ہونے کا قصہ بیان کر رہی تهیں-
” اور دروازے میں داخل ہو جاؤ ، سجدہ کرتے ہوئے، اور کہو” حطتہ” ہم تمہارے گناه بخش دیں گے اور عنقریب ہم محسنین کو زیادہ دیں گے- وہ آیت پڑھ کر اب الفاظ کی گہرائی میں جا رہی تهیں” حطتہ” کا مطلب گرانا مراد گناہ گرانے یعنی بخشش مانگنے سے ہے، اب بنی اسرائیل نے یہ کیا کہ انہوں نے جیسا کہ آیت میں ذکر ہے، منہ ٹیڑها کر کے بات کو بدل دیا، وہ سجدہ کرتے ، یعنی جهک کر ” حطتہ” کہہ کر داخل ہونے کے بجائے ” حنطتہ” hinta’ tun کہہ کر داخل ہوئے- حنطتہ کہتے ہیں-”
وہ تیز تیز قلم چلا کر لکھ رہی تهی کہ کسی نے برہمی سے پین اس کے رجسٹر پہ رکها- اس نے ہڑ بڑا کر سر اٹهایا-
ایک کلاس انچارج اس کے سر پہ کهڑی تهیں-
” بعض لوگ قرآن پڑهتے ہیں ، اور قرآن ان کے لیے دعا کرتا ہے اور بعض لوگ قرآن پڑهتے ہیں اور قرآن ان پہ لعنت کرتا ہے-”
” کیا ہوا میم؟”
” آپ رجسٹر قرآن پہ رکھ کر لکھ رہی ہیں-” انچارج نے صدمے سے اسے دیکها تو اس نے گهبرا کر قرآن نیچے سے نکالا- یہ اسکا تجوید کا قرآن تها، سمپل آف وائٹ جلد والا-
“سوری میم-” اس نے قرآن احتیاط سے ایک طرف رکها، اور رجسٹر پہ جهک گئی- پهر ادهر ادهر ساتھ والی لڑکی کے رجسٹر پہ جهانکا کہ حنطتہ کا کیا مطلب میڈم نے لکهوایا ہے، مگر اس نے کچھ نہ لکها تها- قرآن کی کلاس تهی ، وہ بول نہ سکتی تهی، سو مایوسی سے واپس اپنے نوٹس کو دیکها- صفحے کی لائن یہاں ختم ہوتی تهی، وہاں اس نے لکھ رکها تها” حنطتہ” یعنی گند….. گند کے دال کے آگے صفحہ ختم تها، بعض دفعہ ہم میکانکی انداز میں کچھ لکهتے ہوئے جب صفحہ ختم ہو جائے تو آگے جو بهی چیز ہو، بهلے نیچے رکهی ہوئی کتاب یا ڈیسک کی لکڑی اس پہ لکھ ڈالتے ہیں، اور بعد میں یاد ہی نہیں رہتا- ” گند” اسکا مطلب ہے؟” وہ اس ادهورے لفظ پہ حیران ہوئی- کوئی سینس نہ بنتا تها ، مگر خیر وہ آگے لکهنے لگی- سوچا بعد میں کسی سے پوچھ لے گی، مگر بعد میں یاد ہی نہ رہا-
چهٹی کے وقت اس نے ہمایوں کو اپنے گیٹ کا دروازہ بند کرتے دیکها- وہ ہک چڑها کر پلٹا ہی تها کہ وہ سامنے آ کهڑی ہوئی-.پنک اسکارف میں مقید چہرہ کندهے پہ بیگ، سفید یونیفارم ، اور سینے پہ ہاتھ باندهے وہ تیکهی نظروں سے اسے دیکھ رہی تهی-
” یہ تبدیلی کیسے آئی؟” وہ بے اختیار مسکرا دیا- غالبآ اچهے موڈ میں تها- محمل اسی طرح تیکهی نظروں سے اسے دیکهے گئی-
” خیریت؟” وہ دو قدم آگے بڑها- اس کے پیچهے سیاه گیٹ کا مستعد چوکیدار کن انکهیوں سے دونوں کو دیکھ رہا تها- جو آمنے سامنے کهڑے تهے- ہمایوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے اور وہ سخت تیوروں کے ساته سینے پہ بازو لپیٹے-
” آپ کو مسئلہ کیا ہے فواد بهائی کے ساتھ؟”
” شاطر مجرم کسی بهی پولیس آفیسر کے لیے چیلنج ہوتے ہیں اور مجهے چیلنج میں مزہ آتا ہے-”
” اس مزے میں اگر آپ الٹا پهنس گئے تو؟”
” میں کیوں پهنسوں گا؟ تم نے کورٹ میں مکر جانا ہے نا؟”
” آ پ کو کس نے کہا کہ میں مکر جاؤنگی؟”
” کیا مطلب؟” وہ یک لخت چونکا-.
وہ اسی طرح اسے چبهتی نگاہوں سے دیکهتی پلٹی اور سینے پہ بازو لپیٹے سر جهکائے سڑک پر چل دی عقل کے سارے راستے عجب دهوئیں میں گم ہوتے تهے، وہ کچھ سمجھ نہ پا رہی تهی-
کتنے دنوں کے بعد آج وہ شام کی چائے سرو کرنے ٹرالی دهکیلتی باہر لائی تهی- لان میں سب بڑے یونہی بیٹهے تهے- ادهر ادهر کی خوش گپیاں، تبادلہ خیال چل رہے تهے-
” محمل میری چائے میں کینڈل ڈالنا بیٹا-” آغاجان جس بےتکلفی سے کہہ کر غفران چچا کے ساتھ بات کرنے میں مصروف ہو گئے، ناعمہ اور فضہ نے معنی خیز نگاہوں سے اک دوسرے کو دیکها- جب سے فواد جیل گیا تها، ان دونوں کا الائینس ( اتحاد) تائی مہتاب سے ہٹ کر بن چکا تها- دونوں کے خواب اسے داماد بنانے کے چکنا چور ہو چکے تهے- اور وہ اب مزید تائی کی خوشامدیں کرنے کے بجائے انہیں بےرخی دکهانے لگی تهیں-
” یہ لیجئیے آغاجان-” اس نے بهی پورے اعتماد سے کپ ان کو تهمایا، اور پهر تائی مہتاب کو، جو الگ سے گم صم سی بیٹهی تهیں-
” تهینک یو محمل-” جانے انہوں نے کس دل سے بظاہر مسکرا کر کہا- فضہ نے آنکهوں ہی آنکهوں میں ناعمہ کو ہلکا سا اشارہ کیا، ناعمہ نے ” ہونہہ” میں سر جهٹکا- انہیں ابهی معلوم نہ ہو رہا تها کہ وہ اس پہ اچانک اتنے مہربان کیوں ہو رہے تهے-
وہ خالی ٹرالی لیے اندر آئی تو سیڑهیوں سے اترتا حسن جو شرٹ کے کف بند کر رہا تها، اسے دیکھ کر لمحے بهر کو رک گیا- ” محمل!”
ایک پرانامنظر اسکی آنکهوں میں لہرایا تها- فواد کایوں اترنا پهر اس کا اسے چائے دینا، اور وہ انگلیوں کا ٹکرانا- کیا تب فواد نے یہ سوچا تها کہ یہ لڑکی بهی اس کا ہتهیار بن سکتی ہے- اتنی ارزاں تهی وہ؟
منظر وہی تها، بس چہرہ بدل چکا تها، اس کی آنکهوں میں کرچیاں سی چبهنے لگیں- ” مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا-” وہ تیزی سے کچن کی طرف آئی تهی-
” محمل! رکو، سنو-” وہ سرعت سے اس کے پیچهے لپکا- اور کچن کے دروازے پہ ٹهہر سا گیا-
اندر مسرت سلیب کپڑے سے صاف کر رہی تهیں- محمل ساتھ ہی کرسی پہ رخ موڑے بیٹهی تهی- اونچی بهوری پونی ٹیل جس سے اس کی لمبی گردن پیچهے سے جهکی تهی اور کرتے کے اوپر دوپٹے کو شانوں پہ ٹهیک سے پهیلائے ٹانگ پہ ٹانگ چڑهائے وہ چہرہ موڑے بیٹهی تهی- اس کے اس سائیڈ پوز سے بهی حسن کو اس کی جهکی آنکهوں کا سوگوار سا رنگ دکهائی دیا تها، اسے لگا وہ بہت بدل گئی ہے-
” محمل! مجهے تم سے بات کرنی ہے-”
مسرت کا سلیب کو رگڑتا ہاتھ رک گیا، انہوں نے حیرت سے گردن موڑی-
” حسن -”
” چچی! محمل کو کہیں ذرا میری بات سن لے-”
انہوں نے اسے دیکها، جو بےتاثرسی لب بهنچے سر جهکائے کرسی پہ بیٹهی تهی-
” محمل حسن بلا رہا ہے-”
” میں ان کے باپ کی نوکر ہوں جو آؤں-“اس کا دل چاہا کہ وہ یہ کہہ دے مگرصبح ہی تو فرشتے نے اس سے کچھ کہا تها-
“محمل-” مسرت نے پهر پکارا-
” انہیں جو کہنا ہے، یہیں کہہ لیں- منظور نہیں ہے تو بےشک نہ کہیں-” وہ سر جهکائے ٹیبل کو دیکھ رہی تهی- ایک قسم اس اترتی فجر میں اس نے کهائی تهی، وہ قسم اسے اب آخری سانس تک نبهانی تهی-
” محمل تم سمجهتی کیوں نہیں ہو-” وہ بےبس سا اسکے سامنے آیا- ” وہ تمہیں فواد کے لیے استعمال کر رہے ہیں-
تم خود کو اس کیس میں مت الجهاؤ- اس نے گردن اٹهائی- وہ اس کے سامنے کهڑا فکرمندی سے اسے دیکھ رہا تها-
محمل کا چہرہ بالکل بےتاثر تها، بالکل سپاٹ-
” آپ نے کہہ لیا جو کہنا تها؟ اب آپ جا سکتے ہیں- ” اس نے آلوؤں کی ٹوکری قریب کهسکا کر اور میز سے چهری اٹهائی، وہ چند لمحے بےبس سا اسے دیکهتا رہا پهرتیزی سے باہر نکل گیا- مسرت الجهی سی اس کے قریب آئیں-
” کس کیس کی بات کر رہا ہے حسن-”
” آلو گوشت میں بنا دونگی، قورمہ آپ دیکھ لیجئے گا اور کهیر بهی- کیونکہ میں نہیں چاہتی کہ کسی کو کوئی شکائت ہو- ” وہ اب مگن سی آلو چهیل رہی تهی-
جاری ہے……!