ایک پاکستانی ماں انگلستان میں

حوصلے بلند تھے۔ باغ کی شکل و صورت نکھر رہی تھی۔ کمروں میں صوفوں اور کرسیوں پر شیشوں والی گدیاں سجائیں۔ یہاں وہاں گلدان رکھ کر ان میں پھول پتے اٹکائے۔ یوں مکان گھر میں تبدیل ہو رہا تھا۔ اب سجاوٹ کے نئے نئے خیالات جنم لینے لگے۔

ایک دن سیل سے بلور کا فانوس خرید لائی۔ فانوس لگانے کے لیے مقامی اخبار سے چھانٹ کر ایک الیکٹریشن کو فون کیا۔ اس نے دس دن بعد کی تاریخ دی۔ انتظار کے علاوہ کچھ نہ کر سکتے تھے۔ ہمیں پتا چل چکا تھا کہ یہاں لوگ آج اور کل کے سہارے نہیں جیتے، بات ہفتے دو ہفتے کی ہوتی ہے۔ ڈائری اگلے سال تک کی بھری ہو گی چاہے ماں کے ساتھ کھانا یا بھائی کے ساتھ بازار کا چکر لگانا ہی ہو۔ الیکٹریشن تو ویسے بھی مصروف لوگ تھے، وہ کل کی بات کیسے کر سکتے تھے؟

حسب وعدہ الیکٹریشن صاحب تشریف لائے۔ ڈبا کھول کر فانوس نکالا، تو معلوم ہوا وہ ٹوٹا پڑا ہے۔ صدمے سے جان نکل گئی۔ بندہ دمڑی دمڑی جوڑ رہا تھا اور رام کُپے لنڈھانے پر کمربستہ تھے۔ الیکٹریشن بولا: ’’جا کر بدلوا لیجیے۔‘‘ بات کچھ سمجھ میں نہ آئی۔ اب اُس نے مکمل جملہ بولا: ’’فانوس دکان پر واپس لے جائیے اور ان سے کہیں یہ ٹوٹا ہوا ہے، اسے بدل دیں۔‘‘ منہ سے تو کچھ نہ نکلا‘ لیکن دل میں ضرور آئی کہ لو اور سن لو، کہیں ٹوٹا ہوا مال بھی کسی نے واپس لیا ہے؟ دکاندار چیز بیچ چکا، پیسے وصول کر لیے، اب اس کی ذمے داری ختم، اب یہ چیزہماری تھی۔ ہم توڑیں یا سنبھال کررکھیں ہماری مرضی یا ہمارے نصیب‘ اس کا کیا تعلق؟ پھر بھی اوپرے دل سے پوچھا ’’وہ واپس کر لے گا؟‘‘

اس نے بڑے زعم سے کہا ’’وہ یقینا بدلے گا،آپ لے کر تو جائیں۔‘‘ پرانے تجربات کی روشنی میں ادھر اب بھی تردّد تھا۔ اگر اس نے کہہ دیا ’’بی بی اس وقت آنکھیں کھول کر لینا تھا، ہمیں کیاپتا خود ہی پھینک پھانک کر توڑ ڈالا ہو۔ ہم کیوں واپس لیں۔‘‘ تو بڑی ناموسی ہو گی۔ الیکٹریشن اب بھی بضد تھا۔ بولا ’’فانوس بدل کر مجھے فون کر دیں، میں آ کر لگا دوں گا۔‘‘ وہ چلا گیا، تو کاپنتے ہاتھوں سے دکاندار کو فون کیا۔ اُس نے جھٹ سے کہہ دیا۔ ’’ہاں بدل دیں گے۔‘‘ پھر بھی یقین نہ آیا۔ لیکن حالت تذبذب میں بوجھل دل سے بھاری ڈبا اٹھا گھر سے نکلی۔ خیال یہی تھا کہ وقت ضائع کر رہی ہوں۔کبھی ٹوٹی ہوئی چیز واپس ہوئی ہے؟ کس طرح یقین دلائوں گی کہ فانوس میں نے نہیں توڑا۔
راستے بھر فانوس کے پہلے سے ٹوٹا ہونے کے ثبوت ڈھونڈتی اور اپنی معصومیت کے افسانے گھڑتی رہی۔ کبھی ذہن میں تاریخ کے وہ درخشندہ قاضی آ جاتے جو شکل دیکھتے ہی پہچان لیا کرتے تھے کہ آدمی بے گناہ ہے۔ تمنا ہوئی کاش یہ دکاندار ویسا ہی صاحب بصیرت نکلے۔

کبھی اپنے رزق حلال کے زیاں پر دل کڑھتا۔ غرض بے قصور ہونے کے باوجود سارا راستہ احساس جرم طاری رہا۔ دکان میں داخل ہوئی‘ تو دل حلق میں اٹکا ہوا تھا۔ سامنے ہی ایک سیلز مین کھڑا تھا، دیکھتے ہی بولا ’’مسز علوی؟‘‘ ’’ہاں‘‘ کہتے ہی اس نے ڈبا میرے ہاتھ سے لیا اور پوچھا ’’دوسرا فانوس چاہیے یا پیسے واپس لیںگی؟‘‘ حق تو یہ تھا کہ سوال سن کر میں تعجب اور حیرانی سے بے ہوش ہو جاتی… انہونی ہو رہی تھی۔ لیکن خود کو سنبھالا، حلق تر کیا اور دوسرا فانوس مانگا۔ وہ ہنس کر بولا ’’اس دفعہ ٹھوک بجا کر سو فیصدی ثابت فانوس دوں گا۔ پہلی دفعہ ٹوٹا ہوا دینے پر معافی چاہتا ہوں۔ آپ کو دوبارہ آنے کی زحمت ہوئی، اس کے لیے شرمندہ ہوں۔‘‘
اب بتائیے کوئی بولے‘ تو کیا بولے! تجربات کی بھٹی انگلستان میں بچوں کواسکول لے جانا اورواپس لانا کار مسلسل ہے۔ اور کسی ماں کو اس مشقت سے مفر نہیں۔ یہ سفر آپ کو بزور گھر سے باہر نکالنے کا ذریعہ ہے۔ آمدورفت کی یہ ورزش تجربوں کی بھٹی ہے جو آپ کو کندن بنانے کے لیے دہکتی ہے۔ اب آپ کی قسمت کہ سونا بن کر نکلتے ہیں یا راکھ کا ڈھیر۔

بچوں کو چھوڑتے ہوئے کار سے اترے بغیر بھی کام چل جاتا‘ لیکن واپسی پر اکثر و بیشتر اسکول کے سامنے کھڑے ہو کر چھٹی ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہ وقت دوسری مائوں سے میل جول بڑھانے اور گپ شپ کا ہوتا ہے۔ اس دن بھی یہی ہوا۔ جونہی میں اسکول پہنچی، ایک کے بعد دوسری ماں نے پوچھا، مسز علوی ہو نا؟ اقرار پر بتایا کہ ڈاکیا تمھیں پوچھ رہا تھا۔ چھٹی ہوتے ہی بچوں کی استانی باہر نکلی اور بولی ’’مسز علوی آپ کا کوئی خط آیا ہے۔ جا کر ڈاک خانے سے لے لیجیے۔‘‘

یا اللہ خیر، یہ کیسا خط آیا ہے کہ پورے شہر میں ہنگامہ برپا ہو گیا۔ اگلے روز بچوں کو اسکول چھوڑتے ہی ڈاک خانے پہنچی۔ وہاں کافی ہجوم تھا۔ اپنی باری پر کائونٹر پر کھڑے آدمی کواپنا نام ہی بتا پائی تھی کہ وہ بولا ’’ایک منٹ مسز علوی‘‘ اور غائب ہو گیا۔ پھر اندر سے ایک لفافہ لا میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے بولا ’’مسز علوی پہلے تو میں پوسٹ آفس کی طرف سے معافی کا طلب گار ہوں کہ خط پہنچانے میں تین دن کی تاخیر ہوئی۔ امید ہے اس وجہ سے آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوا ہو گا۔ آپ کے خط پر پتا مکمل نہیں تھا اور غالباً آپ اس علاقے میں نئی ہیں اور زیادہ لوگ آپ کو جانتے بھی نہیں۔ ہمیںکئی اسکولوں میں جا کر پتا کرنا پڑا کہ علوی نام کا کوئی بچہ وہاں پڑھتا ہے، اسی باعث اسکول میں آپ کے لیے پیغام چھوڑا۔ یہ لیجیے اپنا خط۔‘‘

سرسری نگاہ ڈالتے ہی مجھے پتا چل گیا کہ میری دوست گھر کا نمبر لکھنا بھول گئی ہیں۔ خط ہاتھ میں لیے چپ چاپ اس کی باتیں سنتی رہی۔ بڑی مشکل سے شکریے کے الفاظ منہ سے نکلے۔ اس بے چارے کو کیا پتا کہ ہم لوگ ایسے سلوک کے ہرگزعادی نہیں۔ ہمیں تو ڈانٹ پلا کر بھی خط دیا جاتا، تو اُف نہ کرتے۔ ہمارے حساب سے اوّل تو اس خط کو منزل تک پہنچنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ بلکہ اس کی اطلاع بھی نہ ملتی۔ بس دوست شکوہ کرتی کہ خط لکھا تھا، جواب نہیں دیا۔ میں شک کرتی کہ جانے لکھا بھی تھا یا نہیں اور بات ختم ہو جاتی۔

اگر کہیں ڈاکیا خط لے ہی آتا، تو پہلے ایک ڈانٹ پلاتا کہ آپ کے دوست عجیب گھامڑ لوگ ہیں، پتا بھی ڈھنگ سے نہیں لکھ سکتے۔ ساتھ طعنے الگ سننے پڑتے کہ آپ کے خط کی وجہ سے تین دن ضائع ہو گئے۔ ہمیں صرف ایک ہی خط تو نہیں پہنچانا ہوتا اور بھی کام ہوتے ہیں۔ طعنوں کے بعد یہ توقع ہوتی کہ یہ احسان کم از کم ہماری سات پشتیں مانیں۔ چونکہ وہ ممکن نہیں اس لیے انھیں انعام و کرام سے نوازا اور اپنی جائداد کا حصے دار بنایا جائے۔ آخر وہ اپنا فرض پورا کر رہے ہیں۔ عجیب تماشا ہے، یہاں گنگا الٹی بہ رہی ہے!

http://urdudigest.pk/aik-pakistani-maan/

اپنا تبصرہ لکھیں