تحریر شازیہ عندلیب
وہ جاتے جاتے پھر سے لوٹ آتی۔بار بار پلٹ کر ،پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتی۔اس کا تو جیسے یہاں سے جانے کو دل ہی نہیں کرتا تھا۔حالانکہ اب موسم بدل رہا تھا۔اب اسکا یہاں کوئی کام نہیں تھا مگر ناروے کی زمین میں جانے کیا کشش تھی کہ وہ تو جانے کا نام ہی نہیں لیتی تھی۔ناروے کی سرزمین کا سفید چادر سے ڈھکا جسم دھیرے دھیرے باہر آ رہا تھا۔ اب اس زمین پرننھے منے سبز پودے اور پھول سر اٹھانے لگے تھے جو شدید ٹھنڈ اور برف کی دبیز تہوں کی وجہ سے چھپ گئے تھے۔ٹھنڈ اور نقطہء انجماد سے نیچے یخ بستہ منجمد کر دینے والے موسم نے تمام نباتات کو جما دیا تھا۔مگر اب سورج کی حدت برف کو دھیرے دھیرے پگھلا رہی تھی۔بچے اور پرندے اپنے اپنے گھروں اور گھونسلوں سے نکل کر باغوں اور سبزہ زاروں میں بکھر گئے تھے۔ہر جانب موسم بہار ایک نوید مسرت بن کر مسرتیں اور رنگ بکھیر رہا تھا۔مائوں نے اپنے بچوں کے گرم برفانی اور اونی لباس جوتے اور جیکٹیں سب سمیٹ کر ونٹر اسٹوروں کی الماریوں میں رکھنے شروع کر دیے تھے۔موسم بہار اور موسم گرماء کی تیاریاں تھیں ساتھ ہی ایسٹر کی چھٹیوں نے ہر طرف زردنگ کی بہار پھیلا دی تھی۔ اب تو سورج بھی روز نکلتا اور دیر تک آسمان پر ٹکا رہتا۔
ایسٹر کی چھٹیاں شروع ہونے والی تھیں۔ہر جانب روائتی پیلے رنگ کی ڈیکوریشنز اور پردوں کی سجاوٹ گھروں کی کھڑکیوں سے جھانک کردعوت نظارہ دیتی نظر آتی۔شیشے کی کھڑکیوں کے پار زرد رنگ کے پردے زردپھولوں کے گلدستوں کے ساتھ عجب بہاردکھاتے۔موسم کھل رہا تھا اور سورج کی تمازت بدن میں ایک عجیب سرورآمیز سارشاری سی بھر دیتی۔ایسے میں بڑے بوڑہے اور کچھ نو جوان بھی شکر بجا لاتے کہ وہ چلی گئی تھی ۔مگر اتنا کچھ ہونے کے باوجود اسکا جانے کو جی نہیں چاہ رہاتھا گو کہ اب اس کا کام بھی نہیں رہ گیاتھا اسے اب تک چلے جاناچاہیے تھا ۔گذشتہ ہفتے تو حد ہی ہو گئی جب ایسٹرکی چھٹیوں سے کچھ روز پہلے وہ پھر لوٹ آئی اور وہ بھی تنہا نہیں بلکہ سردی جاتے جاتے بچی کھچی برف بھی ساتھ لائی۔لوگ ساحلوں اور لان میں دھوپ سینکنے بیٹھے تھے کہ اچانک برفباری شروع ہو ئی ۔سوچیں ذرا کیا حال ہوا ہو گا ان کا ؟؟؟ناروے کی سرزمین گرم دھوپ میں نہاتی نہاتی پھر سے ٹھٹھرنے لگی۔سردی کا تو جی ہی نہیں چاہتا تھا یہاں سے جانے کو اسے نہ جانے یہاں سے اتنی محبت کیوں ہو گئی تھی!!!