وسیم ساحل
ضروتمند کی حاجت روائی اور دلجوئی ہر مذہب کی بنیادی تعلیم ہے ۔ دین اسلام میں بھی محتاجوں،غریبوں اور یتیموں کی مدد کرنے کے واضح احکامات دئےے گئےہیں ۔ نبی کریم اور آپ کے صحابہ کرامؓ خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھانا کھلایا کرتے تھے ۔آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو فلاحی اور رفاہی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیںاس مقصد کے لئے پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں مختلف انجمنیں خدمت خلق میں مصروف ہیں ۔
اے اللہ ! میرا اوپر والا ہاتھ بنا ، کسی کا محتاج نہ کر ، یہ اور اس سے ملتی جلتی دعائں اکثر اللہ کے حضور کی جاتیہیں۔ شوکت نے بھی اپنے گھر میں اکثر اپنے بزرگوں کو یہ دعا کرتے دیکھا تھا ۔
ایک دن شوکت نے اپنے دادا سے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے وضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اتنا دے کہ میں ضرورتمندوں اور حاجتمندوں میں تقسیم کرتا رہوں ۔ ظاہر ہے جب ہم کسی کی مدد کے لئے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو وہ اوپر ہوتا ہے ۔اور جس کی مدد کی جاتی ہے اس کا ہاتھ نیچے ہوتا ہے ۔
اسلام کی تعلیم بھی یہ ہے کہ غریبوں اور حاجتمندوں کی ضرورت پوری کی جائے ۔اللہ تعالیٰ نے امیروں کے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ۔ صاحب استطاعت لوگوں پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مدد کیاکریں ۔ کئی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر مال و دولت سے نوازا ہوتا ہے کہ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی سات پشتیں بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھے یعنی کوئی کام کئے بغیر شان و شوکت سے زندگی گزار سکتی ہیں ان کے متعلق عموماًیہ رائے قائم کی جاتی ہے کہ وہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے مال و دولت میں اضافہ ہوتا رہے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دوسروں کی مدد کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتےہیں اور جب بھی ملتا ہے اپنے مال کو راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ کئی لوگ ایسا کرتے ہوئے کسی کو نہیں بتاتے بلکہ وہ اس مقولے پر عمل کرتے ہیں ,نیکی کر دریا میں ڈال بلکہ بعض اس ہدایت پر پوری طرح عمل کرتے ہیں کہ دائیںہاتھ سے دیا جائے تو بائیں ہاتھ کو خبر تک نہ ہو ۔
یعنی دوسروں کے ساتھ اچھائی یا بھلائی بغیر کسی غرض کے ہونی چاہئے ۔ایک حدیث مبارکہ کے مطابق دین سراسرخیر خواہی ہے ۔ یعنی دوسروں کی بھلائی چاہنا اور ان کی خیرخواہی کرنا ہی دین کا نام ہے ۔اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر ہے جن کی ادائگی سے وہ دوسروں کی مدد کر کے اپنا ثواب بھی حاصل کرلیتا ہے اور دوسروں کے کام بھی آتا ہے اور یہی حقیقی خوشی ہے۔
حضرت محمد نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ آپ خود بھی ہمیشہ غریبوں ،یتیموں ،مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتے تھے ۔ایک مرتبہ آپ مسجد نبوی میں صحابہ ؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت اپنی کسی ضرورت کے لئے آپکے پاس آئی۔آپ صحابہ ؓکے درمیان سے اٹھ کر دیر تک مسجد کے صحن میں اس کی باتیں سنتے رہے اور اس کی حاجت روائی کا یقین دلا کر اسے مطمئن کر کے اسے بھیج دیا ۔آپ کا فرمان ہے کہ حاجت مندوں کی مدد کیلئے مدینہ کے دوسرے سرے تک جا نے کیلئے تیا ر ہوں ۔
حدیث نبوی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگا ر چھوڑتا ہے جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا ۔
نبی نے اپنی جوانی کے زمانہ میں معاہدہ ہلف الفضول میں شرکت کی جس کا مقصد مظلوموں اور غریبوں کی مدد کرنا تھا یہ ایک انجمن تھی جس کے ممبران ہر وقت محتاجوں کی مدد کے لیے قمر بستہ رہتے تھے ۔
حضرت علی ؓ کی سخاوت کا واقعہ ہے کہ آپ کے بیٹے اور نواسہ رسول حضرت امام حسین ؓاور حضرت حسن ؓ بیما ر ہوگئے تو حضرت علی ؓ اور حضرت فاطہ ؓ نے منت مانی کہ بچوں کے صحت یا ب ہونے پر تین تین روزے رکھیں گے چنانچہ بچوں کی صحت مند ہونے پر میاں بیوی نے روزوں کا اہتمام کیا ۔
افطاری کے وقت ایک صاحب نے دروازے پر دستک دی آپؓ نے سارا کھا نا اسے دے دیا ۔ باقی دونوں روزوں میں بھی یہی صورت حال رہی حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہ ؓ دونوں میاں بیوی نے بھوکے رہ کر سائل کی داد رسی کی ،اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ اد ا اس قدر پسند آئی کہ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ملتا ہے ۔
صحابہ اکرامؓ بھی نبی کریم کے کہنے پر اپنا جان ومال اپنے مسلمان بھائیوں پر نچھاور کرنے کیلئے تیا ر ہو جا تے تھے ۔ مواہات مدینہ اس کی واضح مثال ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کی حاجت روائی کرنے پر بڑی نیکی ہے ۔ حضرت عثمان ؓ نے ہجرت مدینہ کے بعد دیکھا کہ مدینہ میں ایک ہی کنواں تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا آپؓ نے بیس ہزار درہم کے عوض وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا ۔
ارشاد نبوی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا )رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے ۔ صرف اسلام ہی نہیں دنیاکا تقریباً ہر مذہب ضرورت مندوں کی مدد کرنے پر یقین رکھتا ہے اس مقصد کیلئے دنیا بھر میں مختلف قسم کی انجمنیں اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں یہی نہیں کہ انفرادی طور پر دوسروں کی ضروریات کا خیا ل رکھتے ہیں ۔صرف وہی نہیں جن کے پاس وسائل ہیں بلکہ کئی ایسے بھی افراد ہیں جو کم وسائل کے باوجود محتاجی کی دستگیری کرتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں ایک خبر بھی سنی تھی کہ ایک عورت نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ وہ فی کس ہردن دس روپے میں کھانا فراہم کرتی ہے ۔ مہنگائی کے اس دور میں بلاشبہ یہ ایک بڑی بات ہے , اس کے علاوہ بھی اکثر و بیشتر مقامات پر ایسے سخی لوگ ہے جو خوشی خوشی دوسروں کی دلجوئی اور مدد کرتے ہیں- بہت سی انجمنیں اور رفاہی ادارے جو آج سے کئی سال پہلے غریبوں کی مدد کے لئے کھلتے تھے موجودہ دور میں بھی ان کا وجود پایاجاتاہے۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ایسےبہت سے ادارے ہیں جو غریبوں کی مدد میں پیش پیش ہیں۔
مختصر یہ کہ انسان اپنے لئے تو جیتا ہی ہے اصل مزہ یہ ہے کہ دوسروں کی مشکلات ومسائل کو محسوس کیا جائے۔ ہماری ایک نیکی سے اگر کسی کی جان بچ سکتی ہے تو اس سے بڑی کیا بھلائی ہوسکتی ہے لہٰذا اپنی زندگی کو اس انداز سے گزارنے کی کوشش کی جائے کہ دین و دنیاوی خوشنودی کے ساتھ دلی اطمینان بھی حاصل ہو۔ یہ انسانیت کی معراج بھی ہے
ایک دن شوکت نے اپنے دادا سے اس کا مطلب پوچھا تو انہوں نے وضاحت کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے اتنا دے کہ میں ضرورتمندوں اور حاجتمندوں میں تقسیم کرتا رہوں ۔ ظاہر ہے جب ہم کسی کی مدد کے لئے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہیں تو وہ اوپر ہوتا ہے ۔اور جس کی مدد کی جاتی ہے اس کا ہاتھ نیچے ہوتا ہے ۔
اسلام کی تعلیم بھی یہ ہے کہ غریبوں اور حاجتمندوں کی ضرورت پوری کی جائے ۔اللہ تعالیٰ نے امیروں کے مال میں سے غریبوں کو دینے کا حکم دیا ہے ۔ صاحب استطاعت لوگوں پر واجب ہے کہ وہ مستحقین کی مقدور بھر مدد کیاکریں ۔ کئی لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اس قدر مال و دولت سے نوازا ہوتا ہے کہ ان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی سات پشتیں بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھے یعنی کوئی کام کئے بغیر شان و شوکت سے زندگی گزار سکتی ہیں ان کے متعلق عموماًیہ رائے قائم کی جاتی ہے کہ وہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں اور ان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے مال و دولت میں اضافہ ہوتا رہے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو دوسروں کی مدد کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتےہیں اور جب بھی ملتا ہے اپنے مال کو راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ کئی لوگ ایسا کرتے ہوئے کسی کو نہیں بتاتے بلکہ وہ اس مقولے پر عمل کرتے ہیں ,نیکی کر دریا میں ڈال بلکہ بعض اس ہدایت پر پوری طرح عمل کرتے ہیں کہ دائیںہاتھ سے دیا جائے تو بائیں ہاتھ کو خبر تک نہ ہو ۔
یعنی دوسروں کے ساتھ اچھائی یا بھلائی بغیر کسی غرض کے ہونی چاہئے ۔ایک حدیث مبارکہ کے مطابق دین سراسرخیر خواہی ہے ۔ یعنی دوسروں کی بھلائی چاہنا اور ان کی خیرخواہی کرنا ہی دین کا نام ہے ۔اسلام میں حقوق العباد کی اہمیت حقوق اللہ کی اہمیت سے بڑھ کر ہے جن کی ادائگی سے وہ دوسروں کی مدد کر کے اپنا ثواب بھی حاصل کرلیتا ہے اور دوسروں کے کام بھی آتا ہے اور یہی حقیقی خوشی ہے۔
حضرت محمد نے نہ صرف حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیا بلکہ آپ خود بھی ہمیشہ غریبوں ،یتیموں ،مسکینوں اور ضرورتمندوں کی مدد کرتے تھے ۔ایک مرتبہ آپ مسجد نبوی میں صحابہ ؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ ایک عورت اپنی کسی ضرورت کے لئے آپکے پاس آئی۔آپ صحابہ ؓکے درمیان سے اٹھ کر دیر تک مسجد کے صحن میں اس کی باتیں سنتے رہے اور اس کی حاجت روائی کا یقین دلا کر اسے مطمئن کر کے اسے بھیج دیا ۔آپ کا فرمان ہے کہ حاجت مندوں کی مدد کیلئے مدینہ کے دوسرے سرے تک جا نے کیلئے تیا ر ہوں ۔
حدیث نبوی ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یارومددگا ر چھوڑتا ہے جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے ،اللہ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیا مت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا ۔
نبی نے اپنی جوانی کے زمانہ میں معاہدہ ہلف الفضول میں شرکت کی جس کا مقصد مظلوموں اور غریبوں کی مدد کرنا تھا یہ ایک انجمن تھی جس کے ممبران ہر وقت محتاجوں کی مدد کے لیے قمر بستہ رہتے تھے ۔
حضرت علی ؓ کی سخاوت کا واقعہ ہے کہ آپ کے بیٹے اور نواسہ رسول حضرت امام حسین ؓاور حضرت حسن ؓ بیما ر ہوگئے تو حضرت علی ؓ اور حضرت فاطہ ؓ نے منت مانی کہ بچوں کے صحت یا ب ہونے پر تین تین روزے رکھیں گے چنانچہ بچوں کی صحت مند ہونے پر میاں بیوی نے روزوں کا اہتمام کیا ۔
افطاری کے وقت ایک صاحب نے دروازے پر دستک دی آپؓ نے سارا کھا نا اسے دے دیا ۔ باقی دونوں روزوں میں بھی یہی صورت حال رہی حضرت علی ؓاور حضرت فاطمہ ؓ دونوں میاں بیوی نے بھوکے رہ کر سائل کی داد رسی کی ،اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ اد ا اس قدر پسند آئی کہ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ملتا ہے ۔
صحابہ اکرامؓ بھی نبی کریم کے کہنے پر اپنا جان ومال اپنے مسلمان بھائیوں پر نچھاور کرنے کیلئے تیا ر ہو جا تے تھے ۔ مواہات مدینہ اس کی واضح مثال ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسروں کی حاجت روائی کرنے پر بڑی نیکی ہے ۔ حضرت عثمان ؓ نے ہجرت مدینہ کے بعد دیکھا کہ مدینہ میں ایک ہی کنواں تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا آپؓ نے بیس ہزار درہم کے عوض وہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا ۔
ارشاد نبوی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک اپنے بندے کے کام میں (مدد کرتا )رہتا ہے جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کے کام میں مدد کرتا رہتا ہے ۔ صرف اسلام ہی نہیں دنیاکا تقریباً ہر مذہب ضرورت مندوں کی مدد کرنے پر یقین رکھتا ہے اس مقصد کیلئے دنیا بھر میں مختلف قسم کی انجمنیں اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں یہی نہیں کہ انفرادی طور پر دوسروں کی ضروریات کا خیا ل رکھتے ہیں ۔صرف وہی نہیں جن کے پاس وسائل ہیں بلکہ کئی ایسے بھی افراد ہیں جو کم وسائل کے باوجود محتاجی کی دستگیری کرتے ہیں ۔
گزشتہ دنوں ایک خبر بھی سنی تھی کہ ایک عورت نے ایسا انتظام کر رکھا ہے کہ وہ فی کس ہردن دس روپے میں کھانا فراہم کرتی ہے ۔ مہنگائی کے اس دور میں بلاشبہ یہ ایک بڑی بات ہے , اس کے علاوہ بھی اکثر و بیشتر مقامات پر ایسے سخی لوگ ہے جو خوشی خوشی دوسروں کی دلجوئی اور مدد کرتے ہیں- بہت سی انجمنیں اور رفاہی ادارے جو آج سے کئی سال پہلے غریبوں کی مدد کے لئے کھلتے تھے موجودہ دور میں بھی ان کا وجود پایاجاتاہے۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں ایسےبہت سے ادارے ہیں جو غریبوں کی مدد میں پیش پیش ہیں۔
مختصر یہ کہ انسان اپنے لئے تو جیتا ہی ہے اصل مزہ یہ ہے کہ دوسروں کی مشکلات ومسائل کو محسوس کیا جائے۔ ہماری ایک نیکی سے اگر کسی کی جان بچ سکتی ہے تو اس سے بڑی کیا بھلائی ہوسکتی ہے لہٰذا اپنی زندگی کو اس انداز سے گزارنے کی کوشش کی جائے کہ دین و دنیاوی خوشنودی کے ساتھ دلی اطمینان بھی حاصل ہو۔ یہ انسانیت کی معراج بھی ہے
Klikk her for å svare eller videresende
|