“محمل…… تمہاری ڈاک آئی تهی- کیا یہ وہ اسکالرشپ تها؟”
کهانے کی میز پہ آغاجان نے پوچها تو یکدم سارے کمرے پہ سناٹا چها گیا- محمل نے جهکا ہوا سر اٹهایا- سب ہاتھ روکے اسے ہی دیکھ رہے تهے-
” جی-” اسے اپنی آواز کہیں دور سے آتی سنائی دی- خوشی یا جوش سے خالی آواز-
” ہوں- تو کلاسز کب اسٹارٹ ہونگی؟” آغاجان بات کرنے کے ساتھ ساتھ کانٹا پلیٹ میں کهڑکا رہے تهے- باقی سب دم سادهے محمل کو دیکھ رہے تهے- بلاشبہ وہ ایک بڑی خبر تهی-
” ستمبر میں-”
” تمام اخراجات وہی اٹهائیں گے؟”
“جی-” وہ بهی جواب دینے کے ساتھ ساتھ کهانے لگی تهی- ڈائیننگ ہال میں اب اس کے چمچے کی بهی آواز آرہی تهی-
” ویری گڈ-”
” انگلینڈ میں؟”
” اسکالرشپ؟”
” محمل انگلینڈ چلی جائے گی؟”
سرگوشیاں چہ مگوئیاں شروع ہو چکی تهیں – اس نے سر جهکائے خاموشی سے کهانا ختم کیا، پهر کرسی دهکیل کر اٹهی اور بنا کچھ کہے ڈائننگ ہال سے چلی گئی-
اسے نہیں معلوم تها کہ وہ جوش تهی یا ناخوش- اسے ایک نئی زندگی گزارنے کا موقع مل رہا تها، اسے خوش ہونا چاہیے- لیکن پهر یہ ناخوشی؟ دل ڈوبنے کا یہ احساس؟ شاید اس لیے تها کہ اس صورت میں اسے علم الکتاب اور مسجد چهوڑنی پڑے گی- قرآن کی تعلیم ادهوری رہ جائے گی- لیکن وہ تو میں بعد میں بهی کر سکتی ہوں- انگلینڈ جانے کا موقع بعد میں نہیں ملے گا-
ان ہی سوچوں میں گم اسے نیند آ گئی-
صبح کلاس میں سیپارہ کهولتے وقت اسے امید تهی کہ آج کے سبق میں اس کے اسکالرشپ کے بعد کے خیالات کے متعلق آیات ضرور آجائیں گی، لیکن آج کی آیات بنی اسرائیل کے کسی قدیم قصے کی تهیں-
یہ پہلی دفعہ ہوا تها کہ اسے اس کا جواب نہیں مل رہا تها، اور وہ واقعہ جو بیان کیا جا رہا تها، وہ بهی قدرے ناقابل فہم تها- بلکہ تها نہیں اسے لگا تها-وہ اسکالر شپ بهلا کر اسی واقعے میں ہی الجھ گئی-
” پهر جب طالوت لشکروں کے ساتھ جدا ہوا، اس نے کہا، بےشک اللہ تم کو آزمانے لگا ہے ایک نہر کے ساتھ تو جو کوئی اس نہر سے پئیے گا، وہ مجھ سے نہیں ہے- اور جو سوائے اپنے ہاتھ سے ایک چلو بهر پینے کے اس( نہر کے پانی کو) نہ چکهے گا ، تو وہ بےشک مجھ سے- تو سوائے چند ایک کے، انہوں نے اس میں سے پی لیا-”
واقعہ کچھ یوں تها کہ جب طالوت کا لشکر جالوت سے مقابلے کے لیے نکلا، تو راستے میں آنے والی ایک نہر میں ان کے لیے آزمائش ڈال دی گئی- اللہ نے اس نہر کے پانی کو سوائے ایک چلو کے، پینے سے منع کیا، تو جو لوگ پانی پینے گئے، وہ نہر پہ بیٹهے رہ گئے، اور جنہوں نے چلو سے زیادہ نہ پیا، وہ آگے نکل گئے، اور انہی میں حضرت داؤد علیہ السلام تهے جنہوں نے جالوت کو قتل کر کے اس کو اپنے انجام تک پہنچایا-
پوری تفسیر سن کر بهی اسے کچھ نہ سمجھ آیا کہ بهلا نہر کا پانی کیوں نہیں پینا تها؟ پانی تو حرام نہیں ہوتا، پهر کیوں؟ وہ پورا دم یہی سوچتی ره گئی تهی، یہاں تک کہ رات جب میٹها لینے کچن میں آئی تو بهی سوچ رہی تهی-
کچن خالی تها اس نے فریزر کا ڈهکن کهولا، سویٹ ڈش کے ڈونگے نکالے، ٹرے میں رکهے اور ٹرے اٹهائے باہر آئی-
” پهر جب طالوت اپنے لشکروں کے ساتھ جدا ہوا……”
وہ ٹرے اٹهائے ڈائننگ ہال میں آئی- اونچی پونی جهکے سر سے اور اٹھ جاتی تهی- کندهوں پہ پهیلایا دوپٹہ، اور شفاف چہرے پہ سنجیدگی لیے، اس نے ٹرے ٹیبل پہ رکهی- سب وقفے وقفے سے اسے ہی دیکھ رہے تهے- متاثر، جلن زدہ نگاہیں-
” اس نے کہا، بےشک اللہ تم کو آزمانے والا ہے ایک نہر کے ساتھ-”
وہ خاموشی سے ٹرے سے ڈونگے نکال رہی تهی- پہلا ڈونگا اس نے آغاجان کے سامنے رکها-
” تو جو کوئی اس نہر سے پیئے گا، وہ مجھ سے نہیں ہے-”
دوسرا ڈونگا دونوں ہاتهوں میں ہی اٹها کر اس نے ٹیبل کے وسط میں رکها-
” اور جو کوئی اس نہر سے نہ پیئے گا، سوائے اپنے ہاتھ سے ایک چلو بهر پینے کے، وہ بے شک مجھ میں سے ہے-”
اس نے آخری ڈونگا ٹیبل کے آخری سرے پہ رکها، اور واپس اپنی کرسی پہ آئی-
” تو سوائے چند ایک کے انہوں نے اس( نہر میں) سے پی لیا-”
سب سوئیٹ ڈش شروع کر چکے تهے- شیشے کے پیالوں اور چمچوں کے ٹکرانے کی آوازیں وقفے وقفے سے آ رہی تهیں، ان آوازوں کے درمیان وہ مدهم مہربان آواز بهی اس کے کانوں میں گونج رہی تهی، اور وہ تو ابهی تک دور کہیں اس آواز میں کهوئی تهی-
” تو سوائے چند ایک کے، انہوں نے اس میں سے پی لیا-”
اس نے پیالہ آگے کیا، اور تهوڑی سی کهیر اپنے پیالے میں ڈالی-
” تو سوائے چند ایک کے، انہوں نے اس میں سے پی لیا-”
وہ اب آہستہ آہستہ چهوٹے چهوٹے چمچ لے رہی تهی-
” تو تمہیں کب تک جانا ہو گا محمل؟”
آغاجان نے پوچها تو یکدم پهر سے ہال میں سناٹا چها گیا- چمچوں کی آواز رک گئی- بہت سی گردنیں اس کی طرف مڑیں، اس نے سر اٹهایا- سب اس کی طرف متوجہ تهے-
” اگست کے اینڈ تک-”
” یعنی تم ستمبر سے پہلے تک نہیں ہو گی-”
” نہیں-”
” کیا مطلب؟ آغاجان چونکے-”
” میں نہیں جا رہی-” اس نے چمچ واپس پیالے میں رکهااور نیپکن سے لب صاف کیے-
” کیا مطلب؟”
” تم اتنا بڑا اسکالرشپ چهوڑ دو گی؟” فضہ چچی نے تحیر سے کہا تها-
” میں چهوڑ چکی ہوں-”
” مگر…. مگر کیوں؟”
وہ نیپکن ایک طرف رکھ کر اٹھ کهڑی ہوئی-
” کیونکہ ہر جگہ رکنے کے لیے نہیں ہوتی- اگر میں نے اس نہر سے پانی پی لیا تو میں ساری عمر اسی پہ بیٹهی رہ جاؤنگی، اور طالوت کو لشکر دور نکل جائے گا- بعض حلال چیزیں کسی خاص وقت میں حرام ہو جاتی ہیں- اگر اس وقت آپ اپنے نفس کو ترجیح دیں، تو خیر کا کام کرنے والے دور نکل جاتے ہیں- میں نہر پہ ساری عمر بیٹهی نہیں رہنا چاہتی- مجهے وہ داؤد بننا ہے جو جالوت کو مار سکے-”
وہ سوچ کر رہ گئی، اور کہا تو بس اتنا-
” مجهے ابهی قرآن پڑهنا ہے-” اور تیز تیز قدم اٹهاتی باہر نکل گئی-
شام کی ٹهنڈی ہوا اپنی لے پہ بہہ رہی تهی- وہ چائے کا کپ لیے ٹیرس پہ کرسی ڈالے دور آسمان کو دیکھ رہی تهی- جہاں شام کے پرندے اپنے اپنے گهروں کو اڑتے جا رہے تهے-
ٹیرس سے سامنے والوں کو گهر نظر آتا تهآ- ان ہی برگیڈئیر صاحب کا گهر جن کی قرآن خوانی ایک روز اس نے دیکهی تهی- قرآن کو بهی پتا نہیں ہم لوگوں نے کیا بنا دیا ہے-
اس نے کسی خیال کے تحت کپ سائیڈ پہ رکها اوراٹهی- ابهی مڑی ہی تهی کہ سامنے فواد کا چہرہ دکهائی دیا- وہ گهبرا کر ایک قدم پیچهے ہٹی-
وہ اندر کهلنے والے دروازے میں کهڑا تها ، سینے پہ ہاتھ باندهے، لب بهنچے اسے دیکھ رہا تها-
” تم مجھ سے کتراتی پهر رہی ہو- حالانکہ تم جانتی ہو ، میرا قصور نہیں ہے-” وہ چپ رہی-
” کل دوپہر تین بجے میں اسٹاپ پہ تمہارا انتظار کرونگا، مجهے تم سے ضروری بات کرنی ہے- آئی ہوپ کہ تم ضرور میری بات سننے آؤ گی-” وہ کہہ کر ایک طرف ہو گیا- وہ بنا اسے دیکهے تیزی سے دہلیز پار کر گئی-
ایک قسم تهی جو اس نے کها لی تهی، وہ اسے توڑ نہیں سکتی تهی، اور اس لمحے ، سیڑهیاں اترتے اسے محسوس ہوا کہ شاید وہ اس قسم کے بوجھ سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے- اب اس سے وہ قسم نبهائی نہیں جا رہی- بس اگر ایک دفعہ وہ فواد سے باہر مل لے تو کیا ہو جائے گا؟ بس ایک دفعہ…. کل دوپہر تین بجے- نہیں میں قسم نہیں توڑونگی اس نے گهبرا کر سر جهٹکا- اس کے اندر کی سوچیں اسے وحشت زدہ کرنے لگی تهیں- پهر اسے یاد آیا، وہ ٹیرس سے بهلا نیچے کیوں آنے لگی تهی؟ اور ہاں وہ قرآن خوانی والا گهر، وہ کچھ سوچ کر گهر سے باہر نکل آئی-
ساتھ والا بنگلہ بیلوں سے ڈهکا خوبصورت بنگلہ تها-اس نے گیٹ کے ساتھ نصب بیل پہ ہاتھ رکها، دوپٹہ شال کی طرح کندهوں کے گرد لپیٹے ، اونچی کسی ہوئی پونی ٹیل ادهر ادهر جهلاتی وہ ارد گرد کا جائزہ لے رہی تهی-
قدموں کی چاپ سنائی دی- اور پهر گیٹ کهلا- اسی ملازم کی شکل سامنے آئی-
” جی؟”
” برگیڈئیر صاحب گهر پہ ہیں؟”
” نہیں، پر آپ کون؟”
” میں محمل ابراہیم ہوں، ساتھ والے گهر میں رہتی ہوں، آغاہاوس میں- یہ کچه پمفلٹس ہیں، بریگیڈئیر صاحب کو دے دینا، وہ پڑھ کر مجهے واپس کر دیں، میں ان سے واپس لینے ضرور آؤنگی- یہ ذمے داری مین تمہیں دے رہی ہوں، ذمہ داری امانت ہوتی ہے- اگر امانت میں خیانت کی تو پل صراط پار نہیں کر سکو گے- سمجهے؟”
چند پمفلٹس اور کارڈز تهما کر اس نے اسے تنبیہہ کی تو ملازم نے گهبرا کر ” اچها جی” کہہ کر سر اندر کر لیا-
وہ شام ، وہ رات اور وہ اگلی صبح بہت کٹهن تهی- وہ لمحے بهر کو بهی سو نہ سکی تهی- ساری رات بستر پہ کروٹیں بدلتے گزری- مستقبل بہت سے اندیشوں کی دهند میں لپٹا نظر آتا تها – وہ کیا کرے کس سے مشورہ کرے، کس سے پوچهے؟
او جواب تو اسے سوچنے کی ضرورت ہی نہ تهی- جب صبح کے قریب اس نے قسم توڑنے کا سوچآ تو بستر سے نکلی اور معاملہ اللہ پر چهوڑنے کا فیصلہ کر لیا-
کل انکی کلاس میں سورت بقرہ ختم ہوئی تهی- غالبا پہلی گیارہ آیات پڑهنی تهیں- اسے پکا یقین تها کہ کوئی حل آج کے سبق میں موجود ہو گا- سو اس نے آج آیات کهولیں-
پهر ان تمام آیات کو اس نے دو تین دفعہ پڑها- دل میں عجیب سی بےچینی پیدا ہوئی- وہاں کوئی ذکر نہ تها- نہ قسم کا، نہ قسم توڑنے کا کفاره کا-
” کفارہ؟” وہ چونکی- ” تو کیا میں قسم توڑنا چاہتی ہوں؟”
“ہاں-” دل نے واضح جواب دیا تو اس نے خود سے نگاہیں چرا کر مصحف بند کیا، اور اوپر رکھ دیا-
فرشتے ایک فائل پہ سرسری نگاه ڈالتے کاریڈور میں سے گزر رہی تهی جب وہ پهولی سانس کے تقریبا دوڑتی ہوئی اس کے سامنے آئی-
، فرشتے! مجهے آپ سے کچھ پوچهنا ہے-”
فائل کا صفحے کے کنارہ فرشتے کی انگلیوں کے درمیان تها اس نے سر اٹهایا-
” السلام علیکم ! کیا بات ہے؟”
” وعلیکم السلام-” وہ پهولی سانسوں کے درمیان تیز تیز بول رہی تهی- ” وہ ایک فتوی لینا ہے-”
” میں مفتی نہیں ہوں-”
” مگر….. بس ایک فقہی مسئلہ ہے-”
” ضرور پوچهنا، مگر آج کی تفسیر سن لو، اس میں تمہارا مسئلہ-” محمل کو جهٹکا لگا-
” آپ کو میرے مسئلے کو پتا ہے؟”
” ارے نہیں، مجهے تو آج کی آیات کا بهی نہیں پتا، میڈم مصباح لیتی ہیں نا آج کل آپ کی کلاسز؟”
” پهر آپ کو کیسے پتا کہ…..”
” کیونکہ یہی ہمیشہ ہوتا ہے- تفسیر کا ویٹ کر لو، تمہارا مسئلہ کلیئر کٹ لفظوں میں آ جائے گا-” اس نے فائل کا صفحہ پلٹا اور سرسری اوپر نیچے دیکهنے لگی-
” صبر لڑکی! علم صبر کے ساتھ آتا ہے، تفسیر کے بعد پوچھ لینا مگر اس کی یقینا نوبت نہیں آئے گی-” وہ ہلکا سا اس کا گال تهپتهپا کر فائل دیکهتی آگے بڑھ گئی- محمل نے اپنے گال کو چهوا، پهر سر جهٹک کر کاریڈور میں آگے بهاگ گئی-
یہ کبهی نہیں ہوا تها کہ وہ خو سوچے ،وہ قرآن میں لکها ہوا نہ آئے- لوگ اس کی بات نہیں سنتے تهے- سنتے تهے تو توجہ نہیں کرتے ، اگر کرتے تو سمجهتے نہیں، اور ایک قرآن تها، اسے کہنا بهی نہ پڑتا اور وہ دل کی بات دهیان سے سنتا، توجہ کرتا، سمجهتا، اور پهر دانائی اور حکمت سے اسے سمجهاتا تها، اور اس جیسا کوئی نہ سمجهاتا تها-
مگر اسے لگا آج کی آیات میں ایسی کوئی بات نہیں تهی جو اس سے متعلق ہو-
بہت بےدلی اور رنج سے اس نے سیپارہ کهولا- وہ سفید چادر پہ دوزانو ہو کر بیٹهی تهی، سامنے ڈیسک پہ سیپارہ کهلا پڑا تها، ایک طرف رجسٹر تها جس پہ جهکی وہ تیز تیز لکھ رہی تهی-
اب میڈم مصباح محکم آیات اور متشابہہ آیات کا مطلب سمجها رہی تهیں-
” محکمات وہ آیات تهیں جن کا مطلب ہم سمجھ سکتے ہیں، مثلا احکامات، اس دنیا کی باتیں، دنیا کے کسی باغ کی مثال، تاریخی واقعات اور متشابہات وہ آیات تهیں جو ہم تصور نہیں کر سکتے، مگر ان پہ ایمان بالغیب لانا ضروری ہے- مثلا جنت، دوزخ ، اللہ کا ہاتھ، فرشتوں کی ہییئت- مشابہات کے پیچهے نہیں پڑنا چاہیے- اور جو پڑے ، اس سے دور رہنا چاہیئے- میڈم مصباح یہی سمجها رہی تهیں- سست روی سے تمام پوائینٹس رجسٹر پہ لکھ رہی تهی-
” متشابہات پہ ایمان بالغیب ایسا ہونا چاہیئے جیسے….” میڈم کی آواز ہال میں گونج رہی تهی” جیسے اگلی آیات میں ذکر ہے کہ راسخوں فی العلم، ان پہ ایمان لاتے ہیں- اب یہ راسخون فی العلم کون ہوتے ہیں؟ ایک ہوتا ہے طالب علم، ایک صاحب علم اور اس سے بڑا درجہ راسخ علم والے کو ہوتا ہے- یہ کون لوگ ہوتے ہیں؟ ان کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچها گیا کہ راسخون فی العلم کون ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا-
” وہ جو قسم پوری کرتے ہیں-”
محمل کے ہاتھ سے پین گر پڑا- سیاہی کے چند چهینٹے چادر کو بهگو گئے-
میڈم آگے بهی کہہ رہی تهیں-” جن کے دل مستقیم ہوں-”
مگر وہ یک ٹک ٹک پهٹی پهٹی نگاہوں سے سیپارے پہ لکهے ” راسخون فی العلم” کے انفاظ دیکهے جا رہی تهی-
ایک ہی تکرار اس کے کانوں میں بار بار گونج رہی تهی-
” وہ جو قسم پوری کرتے ہیں-”
وہ بس سکتے کی کیفیت میں سیپارے کو دیکهے جا رہی تهی-
” راسخون فی العلم” سیپارے کے الفاظ دهندلا گئے- اس کی آنکهوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے تهے- صدیوں پہلے عرب کے صحراؤں میں کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وسلم سے پوچها تها کہ پختہ علم والے کون ہوتے ہیں- اور تب انہوں نے بتایا تها کہ وہ جو قسم کو پورا کرتے ہیں- اسے لگا صدیوں پہلے کی گئی بات کسی اور کے لیے نہیں ، صرف اس کے لیے تهی- وہ انگلیوں کی پوروں سے ان تین الفاظ کو بار بار چهو رہی تهی، انہیں محسوس کر رہی تهی- آنسو اس کے گالوں سے لڑهک کر گردن پہ پهسل رہے تهے-
” ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی-” !اس نے ہتهیار ڈال دیے تهے- قسم کهانا ناپسندیدہ تها، لیکن اب وہ اسے ہمشہ نبهانی تهی- اور وہ جانتی تهی کہ یہی اس کے لیے بہتر تها-
اس روز وہ تین بجے سے پہلے ہی گهر آ گئی تهی-
جاری ہے………