9987309013 نہال صغیر
کہتے ہیں ایک خاموشی ہزار مصیبتوں سے نجات دلاتی ہے ۔شاید نریندر مودی بھی اس کے فوائد سے اچھی طرح واقف ہیں اسی لئے وہ مون موہن کی طرح مون مودی بن چکے ہیں۔لیکن جناب یہ خاموشی صرف اپنے پیادوں کی شرانگیزی پر قابو پانے یا اخبارات یا نیوز چینل کو انٹر ویو دینے تک ہی محدود ہے ۔اس کے علاوہ وہ خوب بولتے ہیں اور بولتے ہی چلے جاتے ہیں۔ اور کیا کیا بول جاتے ہیں یہ شاید انہیں بھی یاد نہیں رہتا یا پتہ نہیں ہوتا ۔ابھی دورہ جرمنی کے دوران وہ ہندوستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے اپنے کسی گرو کا تذکرہ کررہے تھے (گرو جی کو آثار قدیمہ میں ازحد دلچسپی تھی) انہوں نے مودی سے کہا تھا کہ وہ ایک ایسے مجسمہ کو دیکھ آئے ہیں جو آٹھ سو سال پرانا ہے ۔اس مجسمہ کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ایک حاملہ عورت کا تھا اور مجسمہ ساز نے اسے کاٹ کر نصف بنایا تھا اور اس میں یہ دکھایا تھا کہ بچہ ماں کی کوکھ میں کیسے رہتا ہے اس کی پوری طرح عکاسی ہو رہی تھی ۔مودی جی نے اس کے حوالے سے یہ بتایا کہ آٹھ سو سال پہلے بھی ہماری سائنسی معلومات دیکھئے کہ ایک مجسمہ ساز کو بھی ماں کی کوکھ میں بچہ کی کیفیت کی معلومات تھی یعنی ہم سائنس اور ٹکنالوجی میں کتنے آگے ہیں۔اس کے باوجود میڈیکل سائنس میں ہمارا کیا مقام ہے وہ دنیا جانتی ہے ۔ہمارے یہاں سے جو ڈاکٹر امریکہ یا یوروپ جاتے ہیں وہ وہ مراعات پاکر واپس نہیں آتے وہیں رہ جاتے ہیں۔اس سے پہلے مودی جی ہی نے گنیش کے ہاتھی کے سر کو سرجری کی ترقی سے جوڑ کر بتایا تھا اور مہابھارت کا ایک تخیلاتی کردار جو بنا ماں یا بنا باپ کے پیدا ہوا تھا اسے جینیٹک سائنس میں ہندوستان کے درجہ کمال سے جوڑ دیا۔اس طرح کی باتوں اور ہوائی بیان بازیوں سے لوگوں کے ذہن میں کئی سوالات اٹھتے ہیں جس کا وہ جواب چاہتے ہیں یا اسے سمجھنا چاہتے ہیں اسی لئے وہ صحافیوں کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں کسی نے ان کی ان بے سر پیر کی باتوں پر کچھ استفسار مانگ لیا تو کیا جواب بن پڑے گا؟یہ الگ بات ہے کسی صحافی کو پدم بھوشن دینے کے وعدوں پر وہ کہیں عوام کی عدالت میں حاضر ہو جاتے ہیں تاکہ ان سے وہی سوال پوچھے جائیں جس کا جواب سہل ہو اور جو ان کے ماضی قریب کے سیاہ کارناموں پر سے پردہ اٹھانے والا نہ ہو۔ آپ تک یہ خبر بھی پہنچی ہو گی کہ فرانس کے اک معروف و مقبول عام اخبارلی مونڈ نے ان کی یہ فرمائش پوری نہیں کی اور انٹر ویو لینے کا فیصلہ منسوخ کردیا۔اب وہ ہندوستان کا تو کوئی پیڈ اخبار یا کوئی پیڈ صحافی تو تھا نہیں کہ وہ انہیں سوالات لکھ کر دے دیتا کہ لیجئے جناب یہ ہوم ورک گھر سے کر کے لادیجئے ۔آپ نے دنیا کا یہ واحد ایسا لیڈر دیکھا ہو گا جس نے ایسی فرمائش کی ہو اور یقین مانئے کہ اگر جھوٹ فریب اور اشتعال انگیزی پر دنیا میں ایوارڈ کا سلسلہ شروع کیاجائے تو موجودہ وزیر اعظم ان کے کابینی رفقاء وغیرہ کے علاوہ دنیا میں کوئی مائی کا لال ایسا نہیں ہوگا جو اس ایوارڈ میں ان کا شریک ہو سکے۔
مودی حکومت سب کی ترقی سب کا ساتھ کے نعروں کے ساتھ آئی تھی۔عوام کانگریس کی قیادت والی یو پی اے حکومت سے مہنگائی اور روز بروز منظر عام پر آنے والی بد عنوانی سے ناراض تھے،اس لئے انہوں نے مودی حکومت کو دل کھول کر ووٹ دئیے۔حالانکہ خبریں تو یہ بھی ہیں کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین میں بڑے پیمانے پر ہیر پھیر کی گئی ۔اس کی کئی شکایات موصول بھی ہوئی لیکن اس پر پردہ ڈال دیا گیا ۔کیوں کہ برہمن لابی اس بار مودی کی قیادت میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی حکومت لانا چاہتا تھا ۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چونکہ آر ایس ایس کے قیام کو سو سال پورا ہونے والا ہے اور ان کا سو سال کے اندر میں اس ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا منصوبہ ہے ۔سو انہوں نے حالیہ انتخاب میںہندو راشٹر کے لئے دھوکہ فریب اور جھوٹ جیسے ہر حربہ کو آزمایا ۔حالانکہ ہم تو اس ملک کو آزادی کے بعد سے ہی ہندو راشٹر مانتے ہیں ۔کانگریس کی حکومت پوری طرح ہندوراشٹر کی بنیاد اور استحکام کے لئے ہی کام کرتی رہی ہے ۔اس کے باوجود بڑے بڑے جبہ و دستار پوش علماء نے کانگریس پر ہی اپنا ایمان جتایا اور آج بھی وہ ان کے ایمان کا حصہ ہے ۔اگر کسی کو کانگریس کی حکومت سیکولر نظر آتی رہی ہو تو آئے ہم کیا کرسکتے ہیں ۔کوئی طوفان کا سامنا ہی نہیں کرنا چاہتا ہو وہ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر گھسا کر اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتا ہو تو یہ اس کے ظرف کی بات ہے ۔بہر حال حکومت میں آنے کے بعدسے اب تک کے دس مہینوں میں نہ تو کہیں ترقی ہوتی نظر آرہی ہے اور نہ ہی اس کے دور دور تک آثار ہیںبلکہ اس کے الٹ مہنگائی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے اور خوب ہو رہا ہے۔بد عنوانی کے گرچہ کوئی معاملات سامنے نہیں آرہے ہیں لیکن بد عنوانی بھی خوب جاری ہے ۔ مرکز سمیت کئی ریاستی حکومت سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ ان کا خزانہ خالی ہو گیا ہے ۔کسی ترقیاتی منصوبہ کو زمینی سطح پر لانے کے لئے ان کے پاس فنڈ نہیں ہے ایسے ہی کسی معاملہ میں بامبے ہائی کورٹ کے جج نے حکومت سے سوال بھی کیا کہ اگر آپ کے پاس رقم نہیں ہے تو یہ اشتہارات کیوں شائع ہو رہے ہیں اور ان کے لئے رقم کہاں سے آرہی ہے۔جرائم میں بھی کوئی کمی نہیں آئی ہے پچھلے دنوں عام آدمی کی طرف سے ایک بیان نظر سے گذرا جس کے بموجب مودی حکومت میں زنا بالجبر کی واردات میں بیس فیصد سے زیادہ کا اضافہ درج کیا گیاہے۔قدرت بھی شاید مودی حکومت کو ناپسند کرتی ہے اسی لئے پورے ملک میں ربیع کے فصلوں کی کٹائی کے موقع پر ژالہ باری اور تیز بارش جاری ہے جس سے کسان تباہ ہو رہے ہیں اور وہ اپنی زندگی ہار رہے ہیں ۔لیکن مودی سب کو پاٹھ پڑھا نے میں مصروف ہیں کہ یو پی اے کی حکومت میں کوئلہ محض کوئلہ ہی تھا لیکن ان کے ہاتھ میں آتے ہی وہ ہیرامیں تبدیل ہو چکا ہے شاید انہیں بھی ہزاروں سال پرانا کوئی ویدک سائنسی فارمولہ ہاتھ آ گیا ہے !
ترقی کے راستوں سے ہٹ کر حکومت میں شامل ایم پی اور وزیر آئے دن اقلیتوں اور خواتین کی تضحیک والے بیانات دے رہے ہیں۔حالیہ بیان سنجے رائوت کا مسلمانوں سے حق رائے دہی سلب کرنے سے متعلق ہے جو انتہائی شر انگیز ہے ۔اس طرح کے بیانات دستور ہند کی کھلی توہین اور اس سے بغاوت کے زمرے میں آتا ہے ۔لیکن جب حکومت ہی ان کی ہے توان پر کون کارروائی کرے اور کون انہیں بولنے سے روک سکتا ہے ؟اس طرح کے بیانات مودی حکومت کے ترقی ماڈل جو انہوں نے انتخاب سے قبل پیش کیا تھا اور دن و رات جس کی گردان کرکے وہ حکومت میں آئے تھے اس کے بالکل بر خلاف ہے۔ مودی حکومت نے عوام کو سنہرے خواب دکھائے تھے وہ پورا کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے اس لئے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو اس طرح کی اشتعال انگیز بیان بازی کے لئے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تاکہ وہ عوام میں انتشار پھیلائیں۔اور اس میں الجھ کر حکومت کا مواخذہ کرنے کے بارے میں وہ سوچ بھی نہ سکیں۔ملک عزیز میں حکومت کا آزمودہ نسخہ ہے کہ جب وہ ناکام ہو جاتی ہے تو اس کے لئے اسی میں عافیت ہوتی ہے کہ وہ فرقہ وارانہ صورت حال کو بگاڑے اور عوام کو مذہب ،نسل اور ذات کی بنیاد پر تقسیم کرے۔لیکن یہ ان کی بھول ہے اب عوام اتنے بھی بھولے نہیں ہیں وہ ضرور جس عزت و احترام کے ساتھ انہیں حکومت میں لائے تھے آنے والے دنوں میں اسی سرعت سے انہیں دھول بھی چٹادیں گے ۔حالانکہ کاٹجو کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگ مورکھ ہیں لیکن یہ ان کی مایوسی کی علامت ہے ،ہم اسقدر مایوس نہیں ہیں ۔ہمیں امید ہے کہ جس طرح کی شر انگیزی مودی حکومت میں جاری ہے اور مودی بذات خود جس قدر جھوٹ پر جھوٹ بولے چلے جارہے ہیں وہ شاید کاٹجو کی باتوں کو صحیح سمجھ کر ایسا کررہے ہیں لیکن اس بار ان کی صفائی دلی میں اسمبلی انتخاب کی طرح ملکی پیمانے پر ہوگی اور پھر شاید وہ اور ان کی پارٹی ہندوستانی تاریخ کا ایک بد نما باب بن کر رہ جائیں ۔یہ بات مودی اور ان کے ساتھیوں کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے ،عوام کے تو اچھے دن آئے نہیں لیکن مودی حکومت کے برے دنوں کی شروعات ہو جائے گی۔