قسط نمبر 29 ۔ مصحف

وہ صبح بہت زرد سی طلوع ہوئی تهی- آئینے کے سامنے کهڑی خود کو دیکھ رہی تهی- آج اس نے اونچی پونی کی بجائے سادہ سی چوٹی بنائی تهی- شفاف چہرے پہ ذرا سی پژ مردگی چهائی تهی- وہ چند لمحے خود کو دیکهتی رہی، پهر سیاه چادر سر پہ رکهی، اور ٹهوڑی تک لپیٹ کر بکل دوسرے کندهے پہ ڈالی- آج اسے گواہی دینی تهی- فواد کے خلاف یا اپنے خلاف-
لاؤنج میں تینوں چچا انتظار کر رہے تهے- کلف لگے سفید شلوار قمیص میں آغاجان کمر پہ ہاتھ باندهے ادهر ادهر بےچینی سے ٹہل رہے تهے- اسےے راہداری سے آتے دیکها تو رک گئے-
” چلیں-” وہ سپاٹ چہره لیے ان کو دیکهے بغیر دروازے کی طرف بڑهی اور اسے کهول کر باہر نکلی- وہ سب اکٹهے باہر نکلے-
گیٹ کهلا ،یکے بعد دیگرے دونوں گاڑیاں پورچ سے باہر سڑک پہ رواں دواں تهیں- اس اونچے گهر کی بہت سی کهڑکیوں میں بہت سی عورتیں انہیں جاتے دیکھ رہی تهیں- گاڑیاں گم ہو گئیں تو لڑکیوں نے پردے چهوڑ دیئے-
زرد سی راہداری میں وہ سمٹی سمٹائی، نگاہیں نیچی کیے آغاجان کے ساتھ ساتھ چل رہی تهی- ادهر ادهر پولیس والے، وکلاء اور کتنے ہی لوگ گزر رہے تهے- بہت وحشتناک سی جگہ تهی وہ- اس سے اوپر
سر نہیں اٹهایا جا رہا تها- بس لمحے بهر کو اس نے چہرہ اوپر کیا تو کاریڈور کے اختتام پہ وہ کهڑا تها- اپنے کسی سپاہی کو اکهڑے تیور لیے غصے سے کچھ کہتا ، یونیفارم میں ملبوس، سر پہ کیپ- وہ بہت وجیہہ تها- اور زندگی میں پہلی دفعہ محمل کو اس پہ غصہ نہیں آیا تها- اسے ان تمام لوگوں میں اک وہی اپنا ہمدرد نظر آیا تها-
اس نے نگاہیں جهکا لیں- کاریڈور کے موڑ کے قریب ہی تهی جب ہمایوں کی نگاہ اس پہ پڑی اور وہ ٹهہر گیا- آغاکریم کے بائیں کندهے کے پیچهے چهپی ہوئی، گردن جهکائے آئی، سیاه چادر میں لپٹی لڑکی جس کے چہرے پہ زمانوں کی تهکن رقم تهی- اس نے سر نہیں اٹهایا- وہ اسے دیکهتا رہا، یہاں تک کہ وہ اس کے قریب سے سر جهکائے گزر گئی-
ہاں آغاکریم نے ایک متنفر نگاہ اس پہ ضرور ڈالی تهی-
وہ اب گردن موڑ کر اسے دیکهنے لگا- شاید وہ اس کی آنکهیں دیکهنا چاہتا تها- انہیں پڑهنا چاہتا تها- کاریڈور کے درمیان میں یکدم اس کالی چادر والی لڑکی نے گردن پیچهے موڑی- دونوں کی نگاہیں لمحے بهر کو ملیں ، اسے محمل کی آنکهو ں میں زمانوں کی تهکن دکهی تهی- پهر اس نے چہرہ موڑ لیا اور اسی طرح اپنے چچاؤں کے نرغے میں آگے چلتی گئی-
کمرہ عدالت میں وہ قطار کی بائیں نشست پر سب سے پیچهے بیٹهی تهی- آغاجان اس کے دائیں طرف تهے- اس کے بائیں جانب کچھ نہ تها، قطار خالی تهی- وہ سر جهکائے ساری کاروائی سنتی رہی- اس سے نظر تک نہ اٹهائی جاتی تهی- یوں جیسے ہر کوئی اسے ہی دیکھ رہا ہو-
اور پهر ایک ساعت کو جیسے ہی اس نے سر آٹهایا – وہ دوسرے اسٹینڈ میں بیٹها، گردن ترچهی کیے اسے ہی دیکھ رہا تها- وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکهتے رہے- ہمایوں کی آنکهوں میں سوال تهے- چبهتے ہوئے- پریشان کن سوال- اس سے زیادہ دیر دیکها نہ گیا- وہ گردن موڑ کر آغاجان کو دیکهنے لگی جو لب بهنچے وکلاء کے دلائل سن رہے تهے- نگاہوں کے ارتکاز پہ چونک کر محمل کو دیکها-
“کیا؟” وہ جس طرح انہیں دیکھ رہی تهی، وہ ذرا سا الجهے-
“جائیداد میں میرا حصہ مجهے مل جائے گا؟” اس نے سرگوشی کی، نگاہیں ان پرسے ہٹائے بغیر-
” ہاں کیوں نہیں؟”
“یہی اگر میں پوچهتی کہ کیوں نہیں تو؟”
“کیا مطلب؟”
” میں ابهی جا کر ہمایوں داؤد کے خلاف گواہی دوں تو کیا گارنٹی ہے کہ آپ مکر نہیں جائیں گے؟”
” تمہیں مجھ پہ شک ہے؟”
” اگر ہے تو؟”
آغاجان کے ماتهے پہ غصے کی لکیر ابهری جسے وہ ضبط کر گئے- “تم اب کیا چاہتی ہو؟”
“یہ!” اس نے کالی چادرمیں سے بیگ نکالا، زپ کهولی اور ایک کاغذ اور پیں نکال کر انکی ظرف بڑهایا-
” میری صرف فیکٹری کے شئیرز کی قیمت نو کروڑ کے لگ بهگ ہے- باقی کا حساب میں ابهی نہیں مانگ رہی- یہ آپ کی چیک بک کا چیک ہے رقم میں نے بهر دی ہے اسے سائن کر دیں-” اس نے پین ان کے سامنے کر دیا- وہ کبهی اس کو دیکهتے کبهی پین کو-”
آغاجان! محمل بچی نہیں ہے-” آپ مجھ سےمیری آخرت خرید رہے ہیں- اگر میں نے جهوٹی گواہی دی تو پل صراط پار کرنے سے پہلے ہی گر جاؤنگی- اگر گرنا ہے تو کچھ ورتھ تو ہونا چاہیے نا- آپ یہ سائین کریں میں ابهی جا کر جهوٹی گواہی دیتی ہوں- ”
اس نے پین اور چیک ان کے ہاتھ پہ رکها-
اس ہال میں کوئی میرے اشارے کا منتظر ہے میں یہ چیک سائین کروا کر ابهی اس کو بینک بهیجتی ہوں جیسے ہی چیک کیش ہو گا وہ مجهے سگنل کرے گا تب میں گواہی دے دوں گی ورنہ نہیں-
دوسری طرف محمل کا.نام پکارا گیا- وہ انهیں متنبہ نگاہوں سے دیکهتی اٹهی اور سر اٹهائے پورے اعتماد سے کٹہرے کی طرف بڑهی-
آغاکریم کبهی چیک کو دیکهتے کبهی اسے جو کٹہرے میں کهڑی تهی اور اس کے سامنے غلاف میں لپٹا قرآن لایا گیا تها- وہ نگاہیں ان پہ جمائے پلک جهپکے بغیر قرآن پہ ہاتھ رکهے چند فقرےدہرائے جا رہی تهی-
انہوں نے آخری بار چیک کو دیکها اور پهر طیش میں آ کر اسے مروڑ کر دو ٹکڑے کیے-
محمل تلخی سے مسکرائی، سر جهٹکا اور وکیل کی طرف متوجہ ہوئی – وہ اس سے کچھ پوچھ رہا تها-
فواد کی ضمانت منسوخ ہو گئی،اس کے خلاف ثبوت بہت تهے- وہ واپس جیل بهیج دیا گیا-
واپسی کا سفر بہت خاموشی سے کٹا- وہ آغاجان کی لینڈ کروزر کی پچهلی سیٹ پہ بہت خاموشی سے سارا راستہ باہر دیکهتی آئی تهی- جب کار پورچ میں رکی تو وہ سب سے پہلے اتری-
لان میں بہت سی عورتیں تیزی سے ان کی طرف بڑهی تهیں –
” کيا ہوا؟” وہ کسی کو دیکهے بغیر تیزی سے اندر چلی گئی تهی-
” اس احسان فراموش لڑکی نے فواد کے خلاف گواہی دے دی-”
” ذلیل نہ ہو تو-”
” مگر فکر کی بات نہیں ہے، وہ جلد ہی باہر آجائے گا، کیس اتنا مضبوط نہیں ہے-”
غفران چچا اور اسد چچا انہیں تسلی دینے لگے، مگر تائی مہتاب کا چہرہ سفید پڑتا گیا-
” ہائے میرا فواد-” وہ سینے پہ دوہتڑ ماڑ کر اونچا اونچا رونے لگیں، روتے روتے وہ لڑهکنے کو تهیں کہ فضہ اور ناعمہ نے بڑه کر انہیں سہارا دیا-پل بهر میں لان میں کہرام مچ گیاتها- اپنے کمرے میں پردے کو ہاتھ میں پکڑ کر ذرا سی جهری سے دیکهتی وہ پرسکون کهڑی تهی- کالی چادر سر سے پهسل کر پیچهے گردن پہ پڑے بالوں پہ پهسل گئی تهی- بهورے بال چہرے کے اطراف میں گرے تهے- وہ کانچ سی سنہری آنکهیں سکیڑے پرسوچ نگاہوں سے باہر کا منظر دیکھ رہی تهی-
وہ ستون سے ٹیک لگائے ننگے پاؤں گهاس پہ رکهے بیٹهی تهی- جوتے ساتھ اترے پڑے تهے- سفید شلوار قمیص اور سر پہ گلابی اسکارف باندهے وہ گردن جهکائے دونوں ہاتهوں میں چهوٹا قرآن لیے پڑھ رہی تهی- چهٹی ہو چکی تهی اور لڑکیاں ادهر ادهر گزرتی باہر جا رہی تهیں- اسے سورۃ کہف پڑهنی تهی- آج جمعہ تها-
” السلام علیکم-” سارہ آہستہ سے آئی اور اسکے ساتھ پاؤں لٹکا کر سیڑهی پہ بیٹهی-
اس نے صفحے کو کنارہ پکڑے اور سر کے اثبات سے جواب دیا اور صفحہ پلٹا-
ربیعہ اپنی گود مین رکهی اسائنمنٹ حل کرنے لگی- گیٹ کے قریب فرشتے کهڑی کسی لڑکی سے بات کر رہی تهی- وہ لڑکی منمناتے ہوئے کچھ کہہ رہی تهی، مگر فرشتے نفی میں سر ہلا رہی تهی- اس کا ازلی پراعتماد، دوٹوک مگر نرم انداز –
” کیا کر رہی ہو سارہ؟”
” فرشتے باجی کی اسائنمنٹ کر رہی ہوں، فرشتے باجی نے دی ہے-” الجھ کر سر اٹهایا- ، یہ دین اور مذہب میں کیا فرق ہوتا ہے؟”
” دین ریلیجن کو کہتے ہیں، جیسے اسلام اور مذہب کسی بهی دین کے کسی اسکول آف تهاٹ کو کہتے ہیں- مسلک کسی مذہب کے اندرکسی طریقے کا نام ہوتا ہے- مثلا فقہی مسالک جیسا کہ شافعی ، حنفی وغیرہ – آئی سمجھ؟”
” تمہارا فہم اچها ہے محمل!”
” فرشتے نے سمجهایا تها اس دن -” اس نے ذرا سی گردن موڑی- فرشتے اسی طرح اس سے بات کر رہی تهی- سارہ بهی اس کی نگاہوں کے تعاقب میں اسے دیکهنے لگی-
” فرشتے کی آئز( آنکهیں) مجهے بہت پسند ہیں -” محمل کے لبوں سے پهسلا-
” ہاں، بہت مشابہت ہے، آئی نو-” وہ بری طرح چونکی-
” مشابہت؟” وہ ایک دم بہت پرجوش ہو کر اسکی طرف مڑی-” مشابہت ہے نا سارہ! مجهے ہمیشہ فرشتے کی آنکهیں دیکھ کر لگا ہے کہ یہ کسی سے بہت ملتی ہیں- تمہیں پتا ہے یہ کس سے ملتی ہیں-؟”
” تو تمہیں نہیں پتا؟” ربیعہ حیران ہوئی-
” کیا آن کے کزن سے؟”
” کزن کون؟”
” چهوڑو ، تم بتاؤ کس…. کس سے ملتی ہیں؟-
ربیعہ کچھ دیر حیرت سے اسے دیکهتی رہی ، پهر ہنس پڑی-
” تم سے ملتی ہیں محمل- بالکل تمہارے جیسی ہیں- کیا تم آئینہ نہیں دیکهتیں؟”
” مجھ سے؟” محمل ساکت رہ گئی- اپنا چہرہ ہر وقت نگاہوں کے سامنے نہیں رہتا- شاید اسلیے وہ اتنے عرصے میں اندازہ نہیں کر سکی-
اس لڑکی کی کسی بات پہ فرشتے ذرا سا مسکرائی- اس کی آنکهیں مسکراتے ہوئے کناروں سے ذرا سی چهوٹی ہو گئیں- بالکل اس کی اپنی طرح- ہوبہو- وہ پلک جهپکے بنا اسے دیکهے گئی-
وہ بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے، گهٹنوں پہ کتاب رکهے کسی سوچ میں گم تهی- بهورے باک کهلے شانوں پہ گرے تهے- مسرت اندر داخل ہوئیں تو وہ اسی طرح خلاء میں گهور رہی تهی- آہٹ ہہ چونکی-
” اماں…….بات سنیں-”
” ہاں بولو-” مسرت الماری کهول کر کچھ تلاش کر رہی تهیں-
” آپ ماموں لوگوں سے پهر کبهی نہیں ملین؟”
” نہیں-” ان کے یاتھ لمحے بهر کو تهمے پهر کپڑے الٹ پلٹ کرنے لگے-
” ماموں کی ایک ہی بیٹی ہے نا؟”
“ہاں شاید-”
” اس کا نام کیا ہے؟”
” پتہ نہیں، میرے شادی کے بعد ہوئی تهی- ” وہ مطلوبہ کپڑا نکال کر کهلے دروازے سے باہر چکی گئیں-
اور یہ تو وہ جانتی تهی کہ اماں شادی کے بعد ماموں سے کبهی نہیں ملیں- نہ ہی وہ خود کبهی ان سے ملی تهیں – اس نے تو ان کو دیکها تک نہ تها- اماں اور ابا کی پسند کی شادی تهی- اور اماں کے خاندان والوں نے پهر کبهی کوئی رابطہ نہ رکها تها- آج فرشتے کی آنکهیں دیکھ کر یونہی اسے کچھ لگا تها، کہ شاید….. مگر خیر……
” ہم نے فیصلہ کر دیا ہے-” باہر تائی کے زور سے بولنے کی آواز پہ اس کا دل یکدم دهڑکا- وہ کتاب بند کیے لحاف اتار کر تیزی سے ننگے پاؤں باہر آئی- اس نے دروازہ کهول کر دیکها-
آغاجان اور تائی بڑے صوفے پہ پررعونت بهرے انداز میں بیٹهے تهے اور مسرت ان کے سامنے جیسے بےبس سی کهڑی تهیں- دروازہ کهلنے کی آواز پہ مسرت نے اسے دیکها- بے بسی، آنکهوں میں آنسو-
” اپنی بیٹی کو بهی بتا دینا-” تائی نے ایک تفاخر بهری نگاہ اس پہ ڈالی- ” ہم اس کو بہو بنا رہے ہیں، ہمارا احسان ساری زندگی بهی تم دونوں چاہو تو نہیں اتار سکتیں-”
” وہ جہاں تهی، وہیں کهڑی رہ گئی- تو کیا فواد واقعی جیل سے باہر آ جائے گا؟”
” مگر بهابهی……” مسرت کی آنسوؤں میں ڈوبی آواز آئی-” محمل ….. محمل کبهی نہیں مانے گی وسیم کے لیے-”
” وسیم؟” وہ جهٹکے سے دو قدم پیچهے ہٹی-
اور یہ چند روز پرانی ہی تو بات تهی جب فریدہ پهپهو نے گهر آ کر خوب مزے لے لے کر وسیم کے چند” آنکهوں دیکهے قصے” سنائے تهے- فریدہ پهپهو محمل کے ابا کی کزن تهیں اور ہر خبر سارے خاندان میں سب سے پہلے ان کے پاس پہنچتی تهی- گهر میں تو چلو تائی نے انہیں چپ کرا دیا، مگر ہفتے بعد ہی ایک شادی کی تقریب میں انہوں نے وہی قصے چهیڑ دیے- ابهی فواد کی گرفتاری کے چرچے پرانے نہیں ہوئے تهے کہ خاندان والوں کے ہاتھ ایک اور شوشہ لگ گیا-
پوری تقریب گویا اکهاڑہ بن گئی-تائی مہتاب ان عورتوں کو جتنا لعن طعن کر سکتی تهیں کیا، مگر وہ اکیلی تهیں اور مقابل ہورا جتها تها- معنی خیز نگاہیں اور طنزیہ انداز-

جاری ہے…….

اپنا تبصرہ لکھیں