میںلاہور میں تھی کہ اسکا ٹیکسٹ (ایس ایم ایس )آیا ۔۔ “میری بیوی کی زچگی ہونیوالی ہے میں
اسے فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال میں داخل کرنے آیا ہوں ۔۔ میرا ہاتھ بہت تنگ ہے بلکہ تہی دست ہوں ۔ آپ میری مدد کریں میں چند روز میں آپکو لازمی واپس لوٹا دونگا۔۔
مجھے اس بات سے کافی اچنبھا سا ہوا وہ میرا پراپرٹی ڈیلر تھا ۔اسکے ذریعے میں نے دو سودے کروائے تھے اسنے اپنی کمیشن لی اور بات ختم ہوگئی۔۔میرا اس سے عرصہ دراز سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پاکستان آمد پر ایک اور ایجنٹ سے اسکا نمبر مانگا اور یوں میرا دوبارہ رابطہ ہوا وہ بھی ایک زمین کی قیمت کی تحقیق کے سلسلے میں ۔
میں نے اپنے بھائی کو اس قصے کا بتایا تو وہ اسے ایک جعل سازی سمجھے ۔۔ شمالی آ مریکہ میں اس قسم کے قصے انٹر نیٹ اور فون پر آئے دن ہوتے رہتے ہیں ۔۔ پھر بھی میں نے اسے جواب دیا کہ میں لاہور میں ہوں اور تمہاری مدد کرنے سے قاصر ہوں ۔۔ چند روز بعد از راہ ہمدردی میں نے اسے ٹیکسٹ کیا ” تمہاری بیوی کی طبیعت اب کیسی ہے؟
میرا بچہ پیدا ہوا تھا لیکن فوت ہو گیا اور میں بیوی کو لیکر ملتان اپنے والدین کے پاس آگیا ہوں ۔۔”
مجھے کافی افسوس ہوا اور اس سے دریافت کیا کہ اسکے اور کتنے بچے ہیں؟
جی میرے دو اور بچے ہیں ۔
میں نے ان بچوں کے لئے دعائیں لکھیں۔۔
چند روز بعد اسکا فون ایا ،کیا آپ واپس آگئی ہیں ؟
میرا جواب سنکر وہ مجھے مختلف سودے دکھانے کی بات کرنے لگا ۔وہ بات چیت میں کافی نارمل لگ رہا تھا ۔میں نے بھی اسکا دکھ بڑھانے کی کوئی بات نہ کی۔۔
دوپہر کو میں لیٹی تھی کہ اسکا فون آیا ۔۔ میں بہت پریشانی میں ہوں خدا کیلئے مجھے پانچ ہزار عنایت کریں میں نے ایک مکان کرائے پر لگایا ہے پرسوں لازمی مجھے کمیشن مل جائیگا اور میں آپکے مطالبے سے پہلے ہی ادائیگی کر دونگا ۔۔
مجھے اسکی یہ بات بہت عجیب لگی ۔۔” تمہارا اور میرا کاروباری تعلق ہے اور اس طرح کی باتیں اسمیں ہرگز زیب نہیں دیتیں ۔۔تم اپنے کسی دوست یا ساتھی سے کیوں نہیں مانگتے؟
جی ان سے بھی مانگتا ہوں ابھی کوئی دینے پر تیار نہیں ہے ۔۔
اسکی یہ صاف گوئی مجھے بری طرح کھٹکی۔۔”جی میں بہت مجبور ہوں اگر اسوقت آپ میری مدد کریں تو میں ہمیشہ یا د رکھو ں گا اللہ آپکو اسکا اجر دے گا۔۔ نہ جانے کیوں میں اسکی باتوں سے پسیج سی گئی۔۔ اچھا اب تو میں لیٹی ہوئی ہوں تم پانچ بجے آنا۔
ٹھیک پانچ بجے فون کی گھنٹی بجی وہ باہر دروازے پر موجود تھا ۔۔ ایسا کرو میں تمہیں چیک دے دیتی ہوں میں نے اسے فون پر ہی کہا۔۔ جی آب تو بنک بند ہو چکے ہیں اگر کیش دے دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔۔ میں نے بٹوے کی تلاشی لی تو پانچ ہزار نکل آئے۔۔میری چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ یہ پیسے واپس نہیں ملنے اور اگر نہیں ملتے تو زکوُٰةکی نیت سے دے دو۔۔
رقم لے کر میں گیٹ پر گئی تو اس سمارٹ ،خوش لباس نوجوان کی جگہ ایک نحیف و نزار شخص میلے کچیلے حلیے میں کھڑا تھا ۔۔زرد آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے ،پاؤں میں ایک پرانی سی سینڈل ۔۔ اسے دیکھ کر مجھے عجیب دھچکا سا لگا۔۔
اسنے مجھے ایک للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا۔۔” یہ تمہارا کیا حلیہ بنا ہے کیا تم نشہ کرنے لگے ہو” ؟نہیں جی میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور پھر کاروبار ماندہ ہوگیا۔ وہ کچھ عجیب سے انداز سے کہنے لگا۔۔اور تمہاری فیملی؟
باپ تو فوت ہو گیا ہے ، ما ں جی ٹین میں رہتی ہے” اور بیوی بچے ؟ اپنی ماں کے گھر ہیں جی لے کے آؤنگا -وہ بالکل بھول چکا تھا کہ چند روز پہلے اسنےمجھے۔کیا د استان سنائی تھی۔۔
جلدی جلدی وہ مجھے ایک مکان کے بارے میں بتانے لگا اور پھر یہ یقین دہانی کہ وہ میری رقم پرسوں ضرورلوٹا دے گا۔۔میں نے اسے اتنا کہا کہ اگر تم نے یہ رقم مقررہ وقت میں ادا نہیں کی تو آئندہ مجھے اپنی شکل نہیں دکھانا اور نہ ہی کوئی رابطہ رکھنا۔۔
اسکے جانے کے بعد مجھے خیال آیا کہ مجھے آصف سے جسنے اسکا نمبر دیا تھا پوچھنا چاہئیے ۔۔کہ حقیقت کیا ہے ؟ اسنے میرے خدشات پر مہر تصدیق ثبت کی اور یہ یقین دہانی کہ آپ اس رقم کو بھول جائیں ۔۔ ساتھ ہی اسنے بتایا کہ وہ اسی طرح جھوٹ گھڑ کے لوگوں سے رقم لیتا رہتا ہے۔ اور پچھلے ایک سال سے اس لت میں مبتلا ہو چکا ہے ۔ کیا اسکا کوئی دوست ،عزیز یا ہمدرد نہیں جو اسکا علاج کرے ۔جو اسکو ذلالت کے اس دلدل سے نکالے ۔؟۔
ایک ہفتہ گزرنے کے بعد میں نے اسے محض آزمانے کے لیئے ٹیکسٹ کیا”تم نے ابھی تک میری رقم واپس نہیں کی؟
دو ہفتے گزر چکے ہیں اور وہ خاموش ہے ۔۔
میری قوم کا ایک اور نوجوان اس طرح تباہ ہو رہا ہے ۔۔ افسوس صد افسوس