شہزاد بسرائ
ہوائی اڈے والی رَڑی (خالی کھلا میدان ) جو کہ چک جھمرہ سے کو ئی دو میل دور پاک فضائیہ کے ایمونیشن ڈپوکے ساتھ واقع تھا۔سکول کے زمانے میں ہم چھٹی والے دِن اِس میدان میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے ۔ ایک دِن میچ کھیل رہے تھے کہ ایک گیند کھیلتے ہوئے بلے سے ٹکرا کر آصی کے منہ پہ جا لگی۔ اس کا سامنے کا اوپر والا ایک دانت ٹوٹ گیا۔ بہزاد نے زمین سے ٹوٹا ہوا دانت اٹھا لیا۔ پانی کی کُلیوں سے خون بمشکل بند ہوا ۔ واپسی پر جب کمپنی باغ کے گیٹ پر پہنچے تو بہزاد رُک گیا اور آصی سے کہنے لگا ” محمد حسین کو دکھاتے ہیں”۔
ڈاکٹرمحمد حسین اس وقت ایک مریض کو سڑک پہ لٹا کر آپریشن کر رہے تھے۔ دراصل وہ ایک سائیکل کو پنکچر لگا رہے تھے۔ قرب و جوار میں آپ پنکچر لگانے اور سائیکلوں کے رِم سیدھے کرنے میں شہرت رکھتے تھے ۔اس کے ساتھ ساتھ آپ کا ایک اور شغل بھی تھا جو کہ دراصل آپ کا خاندانی پیشہ بھی تھا یعنی آپ حجامت اور شیو بناتے تھے۔ اس وقت بھی جب وہ سائیکل کا پنکچر لگا رہے تھے ایک گاہک کو اندر اسٹول پر منہ پر صابن لگا کر بٹھا آئے تھے۔گاہک کویہ دلاسہ دے رکھا تھا کہ مُنہ پر کچھ دیر صابن لگا رہنے د و شیو نرم ہو کر اچھی بنے گی۔ اس دوران وہ سائیکل کے گاہک کو نبٹا رہے تھے ۔شادی بیاہ ‘ ختنوں اور قل چالیسواں وغیرہ پہ آپ پکوائی بھی کرتے تھے۔جبکہ آپ بچوں کے ختنے بھی مَنی بِیک گارنٹی سے کیاکرتے تھے۔
نہ توآصی کو پنکچر لگوانا تھا اور نہ ہی اس کی حجامت بنوانی تھی۔ رہا سوال ختنوں کا تو ایسا بھی کوئی پروگرام نہ تھا۔ آصی کو دراصل محمد حسین کی دوکان کے باہر آویزاں بورڈ پڑھنے کے بعد لائے تھے۔ بورڈ پہ جلی حروف میں لکھا تھا
محمد حسین دندان ساز
یہاں بغیر درد کے دانت نکالے جاتے ہیں اور نئے دانت بھی لگائے جاتے ہیں
توحقیقت میں آپ Dentistتھے باقی تو آپ کے Side Businessاورفارغ اوقات کے اشغال تھے۔ان تمام خوبیوں کے علاوہ موصوف میں ایک اوربھی خدا داد صلاحیت تھی۔ آپ ایک بہترین پہرہ دار ثابت ہو سکتے تھے یعنی آپ بھینگے واقع ہوئے تھے۔
آصی کے ٹوٹے دانت اور متاثرہ جگہ کا گریس والی انگلی سے ملاحظہ کرنے کے بعد ارشاد فرمایا
”یہی دانت لگوانا ہے یا پھر نیا؟”
”یہی لگا دیں”
‘کچا لگانا ہے یا پکا”
کیا ریٹ ہے؟ ” بہزاد نے پوچھا
”کچے کے 10روپے اور پکے کے 25”
”پکا ہی لگا دیں”
آپ نے سائیکلوں کو پنکچر لگانے کے سامان والی صندوقچی کھولی اور ایک چھوٹی سی ڈبیا نکالی۔ کوئی سلوشن کی طرح کا محلول تھا۔ ٹوٹے ہوئے دانت کی ٹوٹی سطح پر اس سلوشن کو لگا کر دھوپ میں سوکھنے واسطے اِینٹ پر رکھ دیا۔ اس دوران آپ نے عاصی کا منہ کھول کر دانتوں کے درمیان ماچس کی تیلی پھنسا دی تاکہ منہ مسلسل کھلا رہے ۔تھوڑا سا محلول آصی کے منہ میں ٹوٹے ہوئے دانت پر بھی لگا دیا۔ پھر دانت کو ایک چمٹی سے پکڑ کر منہ کے اندر متاثرہ جگہ پہ رکھ دیا۔ اوپر سے دبا دبا کر دانت کی پوزیشن کو درست کیا۔ اِس دوران آصی کو نہ ہلنے کا مشورہ بھی دیا۔منہ مسلسل کھلا رہنے کی وجہ سے آصی کے منہ میں اس قدر پانی پھر چکا تھا کہ رالیں بہنے کو تھیں۔
اس دوران آپ نے بہزاد کو آصی کے بازو پیچھے سے مضبوطی سے پکڑنے کو کہا اور خود ماچس کی تیلی جلا کر آصی کا منہ پکڑ لیا۔ کہنے لگے
” گھبرانا نہیں تھوڑا سیکا (گرم کرنا) دینا ہے پھر ہمیشہ کے لئے مضبوط ہو جائے گا”
جلتی تیلی دیکھ کے آصی کاپننے لگا۔ آپ نے مریض کے ہونٹوں پر سرسوں کا تیل لگا دیا اور پھر جلتی ماچس کی تیلی کو ہلا ہلا کر دانت کو سیکا دینا شروع ہو گئے ۔کوئی تیسری تیلی جلا کر سیکا دے رہے تھے کہ زیادہ جلنے کی وجہ سے تیلی کا اوپر والا حصہ بھاری ہو گیا تو جھڑ کر منہ میں جمع شُدہ پانی میں جا گرا۔ ایک شوں کی آواز آئی اورآصی کی ایک دلدوز چیخ بھی جو کہ تیلی کی جھڑی ٹوپی کے منہ پہ گرم گرم لگنے سے جلن کا نتیجہ تھی۔
کوئی بیس برس گزرنے کے باوجودآصی کے منہ میں اب بھی وہ دانت مضبوتی سے موجود ہے۔