شام کے دھندلکے میں غصے میں کچھ بڑبڑاتی ہوئی بانو آپاحسین بھائی کے گھر سے نکلیں اور اپنا سو کلو کا بدن سنبھالتے ہوئے اپنے گھر کی طرف چلیں۔حسین بھائی کے گھر سے چار گھر چھوڑ کر ان کا گھر تھا۔گھر کیا تھا ۸ کمروں پر مشتمل عالیشان کوٹھی تھی ۔ہر کمرہ کشادہ خوبصورت
اور فرنیچر سے آراستہ۔گھر میں تو بہت گنجائش تھی مگر بانو آپا کے دل میں گنجائش بالکل نہیں تھی۔محلے کی عورتوں بچوں کا گذر ان کے گھر میں قطعی نہیں تھا۔ہاں حسین بھائی کے چھوٹے سے تین کمروں والے گھر میں عورتوں بچوں اور خاص طور پر لڑکیوں کا خوب خوب گذر تھا ۔خود
بانو آپا بھی اس گھر میں ایک آدھ گھنٹہ گزار آتیں۔اپنی بہو کی کارگزاریاں حسین بھائی کی اہلیہ زینب بھابی کو سناتیں۔پھر کبھی بہو کو بھی موقع مل جاتا تو وہ زینب بھابی کے سامنے اپنی بیگناہی اور بانو آپا کی زیادتی ثابت کرنے کے لئے دلیلیں پیش کرتی۔غرض محلے کی ساری عورتیں اپنی
اپنیپریشانی زینب بھابی کے کان میں انڈیل کر سکون محسوس کرتیں۔اور یہ نیک عورت سب کے دکھ درداپنے سمندر جیسے سینے میں چھپا لیتی۔
ہر ایک کو تسلی دیتی اور زندگی کی سختیوں سے لڑنے کا حوصلہ دیتی۔
بڑی بیٹی کی شادی حسین بھائی نے اٹھارہ سال کی عمر میں کردی تھی ۔باقی تین بیٹیوں اور زینب بھابی نے گھر کو جنت بنا رکھا تھا ۔محلے کی عورتیں اور لڑکیاں یہاں سے سلائی بنائی ،کڑھائی سیکھتیں اور دینداری کی تعلیم حاصل کرتیں۔حسین بھائی دن بھر اپنی سائیکل کی دکان میں محنت کرتے ۔۵ وقت قریب کی مسجد میں جاتے اور پر سکون رہتے۔
آج بانو آپا نے اچانک زینب بھابی سے سوال کرڈالا۔’’دوسری بیٹی کی شادی نہیں کروگی؟ کب تک پڑھاؤگی اسے؟
جب تک اپنے پاس ہے پڑھ لے گی ۔شادی تو کرنا ہی ہے ۔مناسب رشتے کا انتظار ہے۔
اتنے میں حسین بھائی دوپہرکھاناکھانے گھر آگئے اور بات ادھری رہ گئی۔
بانو آپا نے گھر پہونچ کر اپنے بڑے بیٹے سے کہا ۔حسین بھائی کے گھر سے آرہی ہوں،بیٹیا ں تو ان کی بلا شک وشبہ اچھی ہیں مگر اس کے
علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔خود ان کا گھر دیکھ لوتین کمرے ہیں تینوں میں صرف چٹائیاں پڑی ہیں ایک کرسی تک نہیں ہے۔کیا ملے گا اسلم
کو وہاں سے۔ذرا اسے سمجھاؤ۔میں نے تمھاری شادی کیسے شاندار گھرانے میں کی ہے۔اسلم کو پٹہ نہیں کیا ہوگیا ہے۔دینداری کی باتیں کرتا ہے داڑھی رکھ لی ہے کہتا ہے دیندار گھرانے میں شادی کرے گا ۔خیر اگر نہ مانا تو میں کل جا کر حسین بھائی سے بات کروں گی۔وہ تو سن کر اچھل پڑیں گے ۔اچھے رشتے کا انتظار جوکر رہے ہیں۔پھر اسلم میں کیا کمی ہے شہر کے سب سے بڑے بینک کا منیجرہے۔عیش کرے گی ان کی بیٹی۔۔پھر یہ ہوا کہ اسلم نہ مانا تو بانو آپا پہونچ گئیں حسین بھائی کے گھر۔
اتوار کا دن تھا ۔حسین بھائی چٹائی پر لیٹے آرام کر رہے تھے۔بانو آپا کو دیکھ کر فوراً اٹھ بیٹھے۔تکیے کے نیچے سے ٹوپی نکال کر سر پر ڈال لی۔
کچھ رسمی باتوں کے بعد بانو آپا نے بات چھیڑی۔۔کیا کہتے ہو حسین بھائی ۔میں آپ کی بیٹی سمیرا کا رشتہ مانگنے آئی ہوں۔آپ تو جانتے
ہیں میرے بیٹے اسلم کو ۔میرے دونوں بیٹے بہت سمجھدار اور فرماں بردار ہیں۔اسلم تو کام میں بھی بہت ہوشیار ہے ۔اس نے اپنے بینک کا بزنس بھی بہت بڑھادیا ہے ۔اب تو مسجد میں بھی جاتا ہے ۔دینی کتابیں بھی پڑھتا ہے۔ان سب سے بڑھ کر یہ کہ بینک سے ۵۰ ہزار روپئے تنخواہ پاتا ہے۔اتنا کہنے کے بعد بانو آپا حسین بھائی اور زینب بھابی کے چہرے پر خوشی ڈھونڈنے لگیں۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد حسین بھائی نے کہنا شروع کیا۔ہم ایک دوسرے کے لئے اجنبی نہیں ہیں ایک دوسرے کے حالات جانتے ہیں
ہم نے اپنی بڑی لڑکی کی شادی جس وقت کی تھی اس وقت ہمارے داماد کے پاس کتابوں کی ایک چھوٹی سی دکان تھی اس سے وہ کتنا کماتے تھے ہم نہیں پوچھا تھا ۔ہم نے صرف یہ دیکھا تھا کہ لڑکا محنتی ایماندار اور صوم و صلٰوۃ کا پابند ہے۔ہمارے لئے بس یۂی کافی تھا۔شادی کے بعد اس نے آناً فاناً ترقی کی اور آج ایک بڑے شو روم کا مالک ہے۔تین آدمی اس نے نوکر رکھے ہیں۔گھر میں ہماری بیٹی کے پاس دو عورتیں
کام کے لئے لگی ہوئی ہیں۔۔۔جلدی نہیں ہے حسین بھائی میں دو دن بعد آؤں گی آپ اطمینان سے سوچ لینا۔بانو آپا بولیں۔
لیکن حسین بھائی کے لئے فیصلہ کرنا مشکل نہ تھا ۔انھوں نے فوراً کہا ۔نہیں۔ سوچنا کیا ہے ۔معاملہ صاف ہے ۔ایک بات جو میں نے ابھی تک کسی کو نہیں بتائی یہ ہے کہ سمیرا کے لئے رشتہ آیا ہوا ہے ۔اور وہ لڑکا اسکول ٹیچر ہے اور ہمارے بڑے داماد کی طرح تمام خوبیوں کا حامل
ہے۔آپ کا بیٹا بینک میں کام کرتا ہے گویا وہ ایک سودی کاروبار میں معاون و مددگار بنا ہوا ہے تو ایسی روزی میرے نزدیک جائز نہیں ہے
لہٰذا۔۔معاف کیجئے یہ رشتہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے۔۔یہ سنتے ہی بانو آپا بجلی کی طرح کھڑی ہو گئیں۔
پھر لوگوں نے شام کے دھندلکے میں دیکھا کہ شکست خوردہ بانو آپا بڑبڑاتی ہوئیں اپنے گھر کی طرف چلدیں۔