مصحف

قسط نمبر 38 ۔

کسی نے دروازے پہ ہلکی سی دستک دی- ایک دفعہ، دو دفعہ، پهر تیسری دفعہ. اس نے گهٹنوں پہ رکها سر ہولے سے اٹهایا- دروازہ بج رہا تها- وہ آہستہ سے اٹهی، بیڈ سے اتری، سلیپر پاؤں میں ڈالے اور کنڈی کهولی، باہر فضہ چچی کهڑی تهیں-
” محمل بیٹا، تمہارے آغاجان بلا رہے ہیں-”
” آتی ہوں-” اس نے ہولے سے کہا تو فضہ چچی پلٹ گئیں- وہ کچھ دیر یونہی ادهر کهڑی رہی، پهر باہر آ گئی-
سیڑهیوں کے قریب لگے آئینے کے پاس سے گزرتے وہ پل بهر کو رکی، اس کا عکس بهی رک کر اسے دیکھ رہا تها-
ہلکے نیلے رنگ کی شلوار قمیص پہ سفید ململ کا دوپٹہ سر پہ لیے وہ کمزور سی پژمردہ محمل ہی تهی؟ ہاں شاید وہ ہی تهی- سفید دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ کملاہیا ہوا لگ رہا تها آنکهوں کے گرد گہرے حلقے تهے- وہ سر جهٹک کر آگے بڑھ گئی-
آغاجان کے کمرے میں سب چچا اور چچیاں موجود تهیں، وسیم بهی ایک طرف کهڑا تها-
” آؤ محمل-” اسے آتا دیکھ کر آغاجان نے سامنے صوفے کی طرف اشارہ کیا- آج اماں کو گزرے چوتها دن تها- اور گهر والوں کا رویہ پہلے کی نسبت خاصا نرم تها-
وہ چپ چاپ صوفے پہ بیٹھ گئی-
” اس صبح ، جب مسرت کی ڈیتھ ہوئی، اس نے درد شروع ہوتے ہی یہ کچھ چیزیں وصیت کی تهیں تمہارے لیے-” ( اسے لگ رہا تها وہ اب مزید جی نہیں پائے گی) ” ہم نے سوچا کہ تمہیں دے دی جائیں-” انہوں نے ایک طرف رکها ڈبہ اٹهایا- محمل نے سر اٹها کر ڈبے کو دیکھا۔ یہ ڈبہ اماں کے زیورات کا تها- وہ اسے ہمیشہ تالا لگا کر الماری کے نچلے خانے میں رکهتی تهیں-
” یہ ایک ڈبہ تها، یہ اس کی چابی ہے، تم خود دیکھ لو اور اور ساتھ یہ کچه رقم بهی تهی، اس کی جمع پونجی، اس نے مجھ سے کہا تها کہ میں تمہارے اکاونٹ میں جمع کرا دوں- مگر میں نے سوچا کہ یہ تمہارے حوالے کر ہی دوں، تم بہتر فیصلہ کر سکتی ہو-
انہوں نے ایک پهولا ہوا لفافہ ڈبے کے اوپر رکھا- محمل نے آہستہ سے لفافہ اٹهایا اور کهول کر دیکها- اندر ہزار ہزار کے کئی نوٹ تهے- شاید اماں نے اس کے جہیز کے لیے رکهے تهے- اس کا دل بهر آیا- اس نے لفافہ ایک طرف رکها ور چابی سے کاسنی ڈبے کا تالا کهولا-
اندر کچھ زیورات تهے- خالص سونے کے جڑاؤ زیورات’ اس نے ڈبہ بند کر دیا- معلوم نہیں اماں نے کب سے سنبهال رکهے تهے-
” وسیم سمیت تمام لوگ اس وصیت کے وقت موجود تهے، تم سب سے پوچھ سکتی ہو، میں نے تمہارا حق پورا ادا کر دیا ہے یا نہیں-”
اس نے بهیگی آنکهیں اٹهائیں، سامنے صوفوں اور کرسیوں پہ بیٹهے تمام نفوس کے چہرے مطمئن تهے ، مطمئن اور بے نیاز-
” چیزیں تو آپ نے ادا کر دی ہیں آغابهائی، مگر مسرت کی وصیت-” فضہ چچی نے اضطراب سے پہلو بدلا-
” اوہو فضہ، ابهی اس کی ماں کو گزرے دن ہی کتنے ہوئے ہیں-” تائی مہتاب نے نگاہوں سے تنبیہہ کی-
” مگر بهائی! مسرت نے کہا تها کہ جلد از جلد-”
” رہنے دو فضہ! ہم اس کا فیصلہ محمل پہ چهوڑ چکے ہیں- اس کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہو گا-”
” مگر ایٹ لیسٹ اسے بتا تو دیں-”
” ابهی اس کا غم تو ہلکا ہونے دو ، پهر….-”
ان کی دبی دبی سرگوشیاں اسے بےچین کر گئیں-
تائی اماں ! کیا بات ہے؟ اماں نے کچھ اور بهی کہا تها؟”
سب ایک دم خاموش سے ہو کے ایک دوسرے کو دیکهنے لگے-
” محمل! میں تمہیں کچھ دن تک بتا دونگی’ ابهی اس قصے کو چهوڑو-”
“پلیز تائی اماں! مجهے بتائیں-”
“مگر تمہارا غم ابهی-”
” میں ٹهیک ہوں، مجهے بتائیں-” اس نے بےچینی سے بات کاٹی-
تائی مہتاب نے ایک نظر سب کو دیکها اور پهر قدرے ہچکچا کر گویا ہوئیں-
” بات یہ ہے کہ مسرت نے مرنے سے پہلے وسیم کو بلوا کر ان سب کے سامنے تمہارے آ غاجان سے کہا تها کہ اگر وہ بچ نہ سکے تو جتنی جلدی ہو، ہم محمل کو وسیم کی دلہن بنا کر سہارا دے دیں، اس کو بےآسرا نہ چهوڑیں اور تمهارے آغاجان نے اس سے وعدہ کر لیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے-”
وہ اپنی جگہ سن سی ہو گئی- زمین جیسے قدموں تلے سے سرکنے لگی تهی اور آسمان سر سے ہٹنے لگا تها-
“اماں نے یہ سب کہا؟”
“ہاں، یہ سب لوگ جو اس وقت یہاں ہیں ، یہ سب گواه ہیں، تم کسی سے بهی پوچھ لو-”
وہ ایک دم بالکل چپ ہی ہو گئی- عجیب سی بات تهی، اسے یقین ہی نہ آ رہا تها-
” لیکن محمل! ہم.نے یہ فیصلہ تم پہ چهوڑ دیا ہے، تم چاہو تو یہ شادی کرو چاہو تو نہ کرو- ہم نے تمہیں اس لیے آگاہ کر دیا کہ یہ تمہاری ماں کی آخری خواہش تهی- یہ تم پر منحصر ہے کہ تم اس کی بات رکهتی ہو یا نہیں- ہم میں سے کوئی تم پہ زور نہیں ڈالے گا-”
وہ سر جهکائے کاسنی ڈبے کو دیکھ رہی تهی- ذہن میں جیسے جهکڑ چل رہے تهے-
مگر یہ ڈبہ اور لفافہ ثبوت تها کہ یہ وصیت واقعی اس کی ماں نے کی تهی-
” اگر تمہیں منظور ہے تو ہم اگلے جمعے کو نکاح رکھ لیتے ہیں کہ مسرت کی خواہش تهی کہ یہ کام جلد از جلد کیا جائے، اگر نہیں تو کوئی بات نہیں، تم جو چاہو گی وہی ہو گا-” تائی مہتاب اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی-
اس نے ہولے سے سر اٹهایا- سنہری آنکهیں پهر سے بهیگ چکی تهیں ، کمرے میں موجود تمام نفوس دم سادهے اسے دیکھ رہے تهے-
” میں اپنی ماں کی بات کا مان رکهونگی- آپ جب کہیں گی، میں شادی کے لیے تیار ہوں-”
پهر وہ رکی نہیں، ڈبہ اور لفافہ اٹها کر تیزی سے کمرے سے نکل گئی-

وہ کچن میں کرسی پہ بیٹهی تهی، ہاتھ میں صبح و شام کے اذکار والی کتاب تهی، اور وہ منہمک سی پڑھ کر دعا مانگ رہی تهی-
” ہم نے صبح کی فطرت اسلام پہ
اور کلمہ اخلاص پہ
اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پہ
اور اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی ملت پہ جو یکسو مسلمان تهے، اور وہ مشرکوں مین سے نہ تهے-”
” محمل….!” کسی نے زور سے کچن کا دروازہ کهولا- اس نے چونک کر سر اٹهایا- سامیہ عجلت میں اندر داخل ہوئی تهی-
” تم سے کوئی ملنے آیا ہے، ڈرائینگ روم میں ہے، جاؤ مل لو-”
” کون ہے؟”
” ہمایوں آیا ہے-” وہ کتنی ہی دیر کتاب ہاتھ میں لیے بیٹهی رہی- پهر آہستہ سے اسے بند کیا، سلیب پہ رکها، لباس کی شکنیں درست کیں اور سیاہ دوپٹہ ٹهیک سے سر پہ لے کر باہر آ گئی
ڈرائینگ روم سے باتوں کی آواز آرہی تهی- جیسے دو لوگ گفتگو میں مشغول ہوں- یہ ہمایوں سے کون باتیں کر ریا ہے؟ وہ الجهتی ہوئی اندر آئی- ڈارئینگ روم اور ڈائینننگ ہال کے درمیان سفید جالی دار پردہ تها-
سامنے بڑے صوفے پہ ہمایوں بیٹها تها- اس کے بالکل مقابل سنگل صوفے پہ آرزو بیٹهی تهی- ٹانگ پہ ٹانگ رکهے، آدهی پنڈلی تک ٹراوزر پہنے وہ اپنے مخصوص بے نیاز حلیے میں تهی- کٹے ہوئے بالوں میں ہاتھ پهیرتی وہ ہنس ہنس کر ہمایوں سے کچھ کہہ رہی تهی-
جانے کیوں اسے اچها نہ لگا- اس نے ہاتھ سے پردہ سمیٹا اور اندر قدم رکها-
وہ جیسے اسے دیکھ کر کچھ کہتے رکا اور پهر بےاختیار کهڑا ہو گیا-بلیو شرٹ اور گرے پینٹ میں ملبوس وہ ہمیشہ کی طرح شاندار لگ رہا تها- آغاجان اسے پسند نہیں کرتے تهے، مگر پهر بهی اسے اندر آنے دیا گیا – شاید اس لیے کہ اب وہ انکی بہو بننے والی تهی اور وہ اسے ناراض نہیں کرنا چاہتے تهے –
“السلام علیکم-” وہ آہستہ سے کہہ کر سامنے صوفے پہ بیٹھ گئی- آرزو کے چہرے پہ ذرا سی ناگواری ابهری، جسے ہمایوں نے نہین دیکها تها وہ پوری طرح محمل کی طرف متوجہ تھا-

جاری ہے…..!

اپنا تبصرہ لکھیں