ایک ٹیچر نے اپنے سٹوڈنٹس کا ٹیسٹ لینے کے لیے انہیں کچھ اشعار تشریح کرنے کے لیے دیے۔ جواب میں جو سامنے آیا وہ اپنی جگہ ایک ماسٹر پیس ہے۔ املاء سے تشریح تک سٹوڈنٹس نے ایک نئی زبان کی بنیاد رکھ دی ہے۔
اسے پڑھئے اور دیکھئے کہ پاکستان میں کیسا کیسا ٹیلنٹ بھرا ہوا ہے۔
سوالنامہ میں اس شعر کی تشریح کرنے کے لیے کہا گیا تھا:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں.
ایک ذہین طالبعلم نے لکھا کہ: ’’اِس شعر میں مستنصر حسین تارڑ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے‘ لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر ’چونک‘ میں کھڑے ہوگئے ‘ اُسی ’چونک ‘ میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کر رہا تھا ‘ شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی ’بجائے‘ وہ تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔۔!‘‘.
اگلاشعر تھا:
رنجش ہی سہی ‘ دل ہی دُکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ.
مستقبل کے ایک معمار نے اس کی تشریح کچھ یوں کی کہ: ’’یہ شعر نہیں بلکہ گانا ہے اور اس میں ’مہندی حسن‘ نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے محبوب تم میرا دل دُکھانے کے لیے آجاؤ لیکن جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے چلے جانا کیونکہ مجھے ایک فنکشن میں جانا ہے اور میں لیٹ ہورہا ہوں۔۔‘‘.
تیسرا شعر تھا:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
میں تو دریاہوں سمندر میں اتر جاؤں گا
.
ایک لائق فائق طالبہ نے اس کی تشریح کا حق ادا کر دیااور پورے یقین کے ساتھ لکھا کہ: ’’یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتاہے ‘اس شعر میں بھی یہ شاعر یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ دریا ہے لہذا مرنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا‘ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین۔
اگلا شعر یہ تھا:
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے.
ایک سقراط نے اس کو یوں لکھا کہ: ’’اس شعر میں شاعرکوئے یار سے لمبا سفر کرکے راولپنڈی کے ’فیض آباد‘ چوک تک ’پونچا‘ ہے لیکن اسے یہ مقام پسند نہیں آیا کیونکہ یہاں بہت شور ہے‘ شاعر یہاں سے نکل کر ٹھنڈے اور پرفضا مقام ’دار‘ پر جانا چاہتا ہے اور کہہ رہاہے کہ بے شک اسے سوئے مارے جائیں‘ وہ ہر حال میں ’دار ‘ تک پہنچ کر ہی دم لے گا.
اگلا شعر یہ تھا:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
جواب تھا کہ: ’’یہ شعر وصی شاہ کا ہے اور اس میں انہوں نے بڑی ’محارت‘ سے یہ بتایا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو زیادہ سے زیادہ بلند کرلیں‘ اونچی اونچی بلڈنگیں بنائیں تاکہ خدا سے اتنے قریب ہوجائیں کہ خدا آرام سے ہم سے پوچھ لے کہ اے میرے بندے آخر تم اور کتنی ’اُنچی‘ منزلیں بنانا چاہتے ہو۔
اگلا شعر پھر بڑا مشکل تھا:
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے.
نئی تشریح کے ساتھ اس کا ایک جواب کچھ یوں ملا کہ: ’’اس شعر میں حامد میرنے اپنی مصروفیات کا رونا رویا ہے‘ وہ دن بھر مصروف رہتے ہیں‘ رات کو ٹی وی پر ٹاک شو کرتے ہیں‘ ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی ‘ ہر روز شیو کرتے ہوئے اُنہیں’ٹک‘ بھی لگ جاتاہے اور اتنی زور کا لگتا ہے کہ وہ سارا دن روتے رہتے ہیں اور روتے روتے سو جاتے ہیں لہٰذا وہ اپنی فیملی سے کہہ رہے ہیں کہ میرے سرہانے آہستہ بولا کرو۔
اگلا شعر پھر ایک نیا امتحان تھا:
محبت مجھے اُن جوانو ں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند.
ایک محنت کش سٹوڈنٹ نے اس کی بہترین تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ: ’’اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے صرف سلمہ ستارے کا کام کرنے والے جوان اچھے لگتے ہیں اور مجھے محبت بھی انہی سے ہے کیونکہ وہ سارا سارا دن کھڈی پر کمند ڈال کر سوئی دھاگے سے کپڑوں پر ستارے لگاتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی آنکھیں بھی خراب کر بیٹھتے ہیں”