انتخاب عقیل قادری
سُبحان کے پردوں میں چھپ کر وہ اَسریٰ منانے جاتے ہیں
لیلاً کے لمحے حیراں ہیں ، کب جاتے ہیں، کب آتے ہیں
کیا اصلِ نورِ وحدت ہے ، اِس رات کھلی یہ حقیقت ہے
جب آقا ۖ تَدَلّی ٰسے آگے اَواَدنیٰ کی منزل پاتے ہیں
اِس مسجد سے اُس اقصیٰ تک، اور اقصیٰ سے پھر سدرہ تک
جبریل سواری کو تھامے ، کیا خوب سعادت پاتے ہیں
اقصیٰ میں اِمامت کی مسند بس شاہِ رُسُل کو تھی مختص
میثاقِ نبوت کے وعدے یوں سارے نبی دُہراتے ہیں
اُس نورِ ازل کی آمد پر افلاک سجائے بیٹھے ہیں
دیدار کے پیاسے قدسی بھی نظروں کی پیاس بجھاتے ہیں
کیا شان ہے رحمتِ عالم کی ، خیرات وہاں بھی بٹتی رہی
حوروں میں نگینے بانٹتے ہیں، موسیٰ کو جلوے کراتے ہیں
اک عبدِ کامل کا رُتبہ، خالق نے دِکھایا عالَم کو
قُدسی ہیں سراپا چشمِ براہ ، معراج کے دُولہا آتے ہیں
قربان میں انکی رحمت کے، بے مثل عطا اور شفقت کے
معراج کے وصل و قربت میں ، امت کو بھول نہ پاتے ہیں
ہیں پیکرِ بشری ، نورِ خدا ، پربات نہیں بس اِس پہ رضا
وہ اَرفع ہیں اُس جا سے جہاں، جبریل کے پر جل جاتے ہیں
کلام: محمد نعیم رضا قادری ۔ ویانا۔ آسٹریا