نشیب و فراز

افسانچہ

از:انصاری نفیس جلیل
9021360933

  فرح آج اسکول جانے کیلئے بالکل تیار نہ تھی.کیونکہ اس کا ہم جماعت عنایت جو اسکے پڑوس میں ہی رہتا تھا اور روزانہ بلا ناغہ فرح کے گھر وارد ہوجاتا اور اسے ساتھ لے کر اسکول جاتا آج بیمار تھا.انکے اس بے نام رشتے کو آٹھ سال بیت چکے تھے.دن ماہ سال برق رفتاری سے ایسے گذرے کہ انہیں ہوش ہی نہ رہا.دونوں کے گھر والے انہیں آج بھی ننھے بچے ہی سمجھ کر بے فکر تھے.حالانکہ چودہ پندرہ برس کی یہ عمر گذشتہ دو دہائی قبل بچپن ہی میں شمار ہوتی تھی لیکن آج کے زمانے میں اس عمر کو کسی بھی زاویے سے بچپن کہنا نامناسب ہے.
اب وہ دونوں نہم جماعت میں تھے.فرح بڑی مشکل سے تنہا اسکول جانے کو تیار ہوئی.راستے اور اسکول تک دسیوں لوگوں نے اس سے پوچھا”آج عنایت کیوں نہیں آیا؟”
فرح بھی اپنے آپ کو ادھورا محسوس کر رہی تھی اور بہت بےچین تھی.اس کی اس بےچینی کو صرف اسکی ماں نے محسوس کیا تھا اور ایک انجانا خوف اس کے دل ودماغ میں گھر کر گیا…
شام کو فرح نےاسکول سے گھر لوٹتے وقت سب سے پہلے عنایت کے گھر جاکر اسکی خیریت دریافت کی جب وہ مطمئن ہو گئی کہ عنایت کل اسکول آئے گا تب اسکی جان میں جان آئی.لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ ایک نیا امتحان گھر پر اس کا منتظر ہے.گھر پر والدین کی جانب سے یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ اب فرح دوسرے اسکول میں پڑھے گی.یہ فیصلہ خاص اسکی ماں کی وجہ سے ہوا تھا.اور اسکا سبب بھی والدین کے نظریے کے مطابق درست ہی تھا.جیسے ہی فرح کو اس بات کا علم ہوا اسکے پیروں تلے گویا زمین ہی کھسک گئی.وہ تذبذب کے عالم میں رونے لگی اتنے میں اچانک عنایت کی ماں جو سال میں کبھی کبھار ہی انکے گھر آتی تھی فرح کے گھر میں داخل ہوئی. وہ بھی ایک ماں تھی شاید اس نے بھی وہی انجانا خوف محسوس کر لیا تھا.دونوں مائیں کافی دیر تک الگ کمرے میں گفتگو کرتی رہیں.عنایت کی ماں کے چلے جانے کے بعد فرح کو اسکی ماں نے جذبات کے پھندے میں ایسا الجھایا کہ فرح مجبور ہو گئی کیونکہ آخر وہ بھی ایک صنف نازک ہی تھی.ماں کی زندگی کسے پیاری نہیں؟ یہ رات اسکے لئے قیامت کی رات گذری. وہ رات بھر روتی رہی.ادھر عنایت کی ماں نے اسے الگ ہی کہانی سنا ڈالی کہ فرح کے والدین کے پاس اب دولت آگئی ہے پانچ سال قبل ان کی معاشی حالت نہایت غیر تھی.اب وہ نہیں چاہتے کہ انکی بیٹی تجھ غریب کے ساتھ اسکول جائے..اور خود فرح بھی ایسا ہی سوچتی ہے.اسی لئے تو تمہیں بنا بتائے دوسرے اسکول میں داخلہ لے رہی ہے.عنایت نے فرح کی حمایت کرتے ہوئے کہا نہیں فرح ایسی نہیں ہے.
دوسرے روز عنایت دوڑتا ہوا اس کے گھر آیا لیکن فرح کو اسکے والد نئے اسکول لے کر جا چکے تھے.اس شہر میں کئی مدارس تھے عنایت کیلئے اسے تلاش کرنا نا ممکن ہی تھا وہ مایوس ہو کر گھر لوٹ گیا اسکول جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اس نے بڑی مشکل سے دن گذارا.شام کو فرح جیسے ہی اسکول سے لوٹی عنایت اس کے گھر پہنچ گیا اور اس سے صرف نئے اسکول کا نام پوچھا.فرح نے دل پر پتھر رکھ کر بے رخی کے انداز میں دوسرے کسی اسکول کا نام لیا اور کچن میں چلی گئی.عنایت اس بے رخی پر بت بنا فرح کو سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوا نکل آیا.جس اسکول کا نام فرح نے لیا تھا وہاں عنایت نے بلا تحقیق ہی داخلہ کروالیا.پہاڑ تو اس وقت ٹوٹا جب اسے حقیقت کا علم ہوا وہ پوری طرح ٹوٹ گیا.اس نے فرح سے آخری بار ملاقات کی اور اس سے کہا.”تم نے ایسا کیوں کیا؟” مجھے تم سے یہ امید نہ تھی.اب تم مجھ سے کبھی نہیں مل سکوگی…یہ آخری جملے ادا کرنے کے بعد عنایت بالکل ہی لاپتہ سا ہو گیا.دونوں مائیں اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئیں لیکن دو دلوں میں دراڑ پیدا کرکے.
آج پانچ سال کا عرصہ گذرنے کے بعد بھی فرح عنایت کو تلاش کرنے میں لگی ہے لیکن اس کا کوئی پتہ نہیں.اس کی چھوٹی بہن کو بھی عنایت کا پتہ نہ بتانے کی سختی سے ہدایت دی گئی ہے.آج بھی فرح اور عنایت اپنے بچپن کے ساتھ  کی یادوں کو محسوس کئے جئے جا رہے ہیں….

اپنا تبصرہ لکھیں