۔قسط نمبر 40 ۔
مصحف
تحریر عمیر احمد
انتخاب راحیلہ ساجد
“محمل تم سے نہیں ملے گی، تم جا سکتی ہو-”
آغاجان کی آواز پہ موبائل پر مصروف فرشتے نے چونک کر سر اٹهایا- وہ سامنے سے چلے آریے تهے- کلف لگے شلوار قمیص میں ملبوس کمر پہ ہاتھ باندهے وہ غیض و غضب کی تصویر بنے ہوئے تهے-
“السلام علیکم کریم چچا!” وہ موبائل رکھ کر اٹھ کهڑی ہوئی- چہرے پہ ازلی اعتماد اور سکون تها-
“فرشتے! تم یہاں سے جا سکتی ہو-”
” آپ مجهے نکال سکتے ہیں؟” وہ ذرا سا مسکرائی- ” آپ کو لگتا ہے کریم چچا کہ آپ مجهے نکال سکتے ہیں؟”
“میں نے کہا، یہاں سے جاؤ، وہ غصے سے ایک دم دهاڑے تهے-
” میں بهی اتنا اونچا چیخ سکتی ہوں مگر میں ایسا نہیں کرونگی، میں یہاں یہ کرنے نہیں آئی، میں صرف محمل سے ملنے آئی ہوں-” وہ سینے پہ ہاتھ باندهے پراعتماد سی ان کے سامنے کهڑی تهی-
لاؤنج میں سب اکٹهے ہونے لگے تهے- لڑکیاں ایک طرف کهڑی اشاروں میں ایک دوسرے سے پوچھ رہی تهیں- اسدچچا، غفران چچا، فضہ چچی اور ناعمہ چچی بهی وہیں آ گئی تهیں- حسن بهی شور سن کر سیڑهیوں سے نیچے اتر آیا تها- لاؤنج کے بیچ و بیچ آغاجان کے سامنے کهڑی وہ درازقد سیاہ عبایا والی لڑکی کون تهی؟ بیت سی آنکهوں میں سوال تها-
” تمہارا محمل سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ تم سے نہیں ملے گی، سنا تم نے-”
” آپ یہی بات محمل کو بلوا کر پوچھ لیں نا کریم چچا! کہ وہ مجھ سے ملے گی یا نہیں-”
“ہم تمہيں نییں جانتے کہ تم کون ہو، کہاں سے اٹھ کر آ گئی ہو، تم فورا نکل جاؤ ورنہ مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا-”
” آغاجان یہ کون ہیں؟” حسن الجها ہوا آگے بڑها-
” تم بیچ میں مت بولو-” انہوں نے پلٹ کر اتنی بری طرح سے جهڑکا کہ حسن خائف ہو گیا-
” ہٹو-” بیوٹیشن کا ہاتھ ہٹا کر وہ اٹهی اور کامدار دوپٹہ سنبهالتی ننگے پاؤں باہر کو لپکی-
” آپ مجھ سے ملنے آئی ہیں؟” لاؤنج کے سرے پہ رک کر وہ بولی تو سب نے چونک کر اسے دیکها-
فرشتے ذرا سا مسکرائی-
“کریم چچا کہہ رہے تهے کہ تم مجھ سے نہیں ملو گی-”
“محمل! تم اندر جاؤ-” تائی مہتاب پریشانی سے آگے بڑهیں-
“آغاجان! تائی اماں ! فرشتے کو میں نے خود انوائیٹ کیا ہے، آپ گهر آئے مہمان کو کیسے نکال سکتے ہیں؟”
“تم نے؟” تائی بهوچکی رہ گئیں- ” تم جانتی ہو اسے؟”
” ہاں- میں انہیں جانتی ہوں-”
“اور یہ کیسے نہیں جانتی ہونگی، ان کے عاشق کی عزیزہ ہیں نا یہ-”
کوئی تمسخرانہ انداز میں کہتا سیڑهیوں سے اتر رہا تها- محمل نے چونک کر گردن اٹهائی- وہ فواد تها- ہشاش بشاش، چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ لیے، وہ ان کے سامنے آ کهڑا ہوا تها-
” یہ کون ہے؟” فرشتے نے قدرے ناگواری سے اسے دیکھ کر محمل کو مخاطب کیا-
“یہ اس ملک میں قانون کی بےبسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جن کو قانون زیادہ دیر تک حراست میں نہیں رکھ سکتا- ایک جتاتی نظر فواد پہ ڈال کر اس نے چہرہ موڑ لیا تها- ” آپ اندر آ جائیں فرشتے! بیٹھ کر بات کرتے ہیں-”
” ہرگز نہیں-” تائی تیزی سے آگے بڑهیں- ” محمل! یہ لڑکی فراڈ ہے، یہ صرف ابراہیم کی جائیداد کے پیچهے ہے-” وہ تو آپ بهی ہیں مہتاب آنٹی! اور شاید اسی لیے آپ محمل کو بہو بنا رہی ہیں؟”
اس نے فرشتے کو کسی سے اتنی درشتی سے بات کرتے آج پہلی بار دیکها تها- مگر اسے حیرت نہیں ہوئی تهی-
” یہ ہمارے گهر کا معاملہ ہے، تم بیچ میں مت بولو-”
” میں بولونگی، محمل کے لیے میں ضرور بیچ میں بولوں گی-” وہ پلٹی اور محمل کو دونوں کندهوں سے تهام کر اپنے سامنے کیا-
” محمل! مجهے بتاؤ، ان لوگوں نے تمہارے ساتھ زبردستی کی ہے؟ یہ تمہیں کیوں مجبور کر رہے ہیں اس شادی پہ؟-” مجهے کسی نے مجبور نہیں کیا، یہ میرا اپنا فیصلہ ہے، میں خوش ہوں-”
فرشتے ایک دم چپ سی رہ گئی- اس کے کندهوں پہ اس کے ہاتھ ڈهیلے سے پڑ گئے-
” سن لیا تم نے، اب جاؤ-” آغاجان نے استہزائیہ سر جهٹکا اور دروازے کی طرف اشارہ کیا- مگر وہ ان کی طرف متوجہ نہ تهی-
“محمل تم نے اتنا بڑا فیصلہ اکیلے کر لیا؟” وہ دکھ سے اسے دیکھ رہی تهی- جب کسی کو اپنا مخلص دوست کہا جاتا ہے اور اپنے دوست کی محبت اور خلوص کے دعوے کیے جاتے ہیں تو اتنے بڑے فیصلوں سے قبل اسے مطلع بهی کیا جاتا ہے-” میں آپ کو بتانے ہی……”
” میں اپنی بات نہیں کر رہی-”
” پهر ؟ کون؟” وہ چونکی- ” کیا ہمایوں؟” اسکا نام اس نے بہت آہستہ سے لیا تها-
” میں..” وہ مزید اس کے قریب آئی اور اس کی آنکهوں میں دیکهتے دهیرے سے بولی-” میں اس مصحف کی بات کر رہی ہوں جس کے اتارنے والے سے تم نے سمعنا و اطعنا( ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی) کا وعدہ کیا تها- کیا تم نے ا سے بتایا-”
” فرشتے!” وہ بنا پلک جهپکے اسے دیکھ رہی تهی- ” اللہ کو سب پتا ہے، میں کیا بتاؤں؟”
” کیا تمہں دن میں پانچ بار اپنی اطاعت کا بتانا نہیں پڑتا؟ پهر اپنے فیصلوں میں تم اسے کیسے بهول سکتی ہو؟”
محمل ٹکر ٹکر اسکا چہرہ دیکهنے لگی- اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تها کہ فرشتے کیا کہہ رہی ہے، کیا سمجهانا چاہ رہی ہے-” مگر میں نے نماز، تسبیح ، کچھ نہیں چهوڑا، میں ساری نمازیں پڑهتی ہوں-” وہ دونوں بہت مدهم سرگوشیوں میں بات کر رہی تهیں-.
“لیکن کیا تم نے اس کی سنی تهی؟ اس نے کچھ تو کہا ہو گا تمہارے فیصلے پر-” فرشتے نے ابهی تک اسے کندهوں سے تهام رکها تها اور وہ یک ٹک سے تکے جارہی تهی-
” محمل تم اس کی بات سنتی تو سہی، اس سے پوچهتی تو سہی،! تم قرآن کهولو اور سورہ مائدہ کا ترجمہ دیکهو-”
اس کی آواز ميں تاسف گهل گیا- محمل نے ایک جهٹکے سے اس کے ہاتھ اپنے شانوں سے ہٹاۓ، اسے لگا، اس سے غلطی ہو گئی ہے- ” میں ابهی آتی ہوں، آپ جائیے گا نہیں-”
وہ کام دار دوپٹے کا پلو انگلیوں سے تهامے ننگے پاؤں بهاگتی ہوئی کمرے کی طرف بهاگی-
“محترمہ! آپ جا سکتی ہیں-” فواد نے دروازے کی طرف اشارہ کیا-
” یہ میرے باپ کا گهر ہے، اس میں ٹهہرنے کے لیے مجهے آپ کی اجازت کی ضرورت نہیں چاہیئے-” وہ رکهائی سے کہتی صوفے پہ بیٹهی اور پهر سے موبائل اٹها لیا-
فواد اور آغاجان نے ایک دوسرے کو دیکها- نگاہوں میں کسی اشاروں کا تبادلہ کیا اور پهر آغاجان بهی گہری سانس لیتے ہوئے صوفے پہ بیٹھ گئے- تقریب کے شروع ہونے مین دو ڈهائی گهنٹے رہتے تهے- مہمانوں کی آمد کا سلسلہ ابهی شروع نہین ہوا تها-
محمل دوڑتے قدموں سے اپنے کمرے میں آئی تهی- دروازے کے چٹخنی چڑها کر وہ شیلف کی طرف بڑهی-
سب سے اوپر والے خانے میں اس کا سفید جلد والا مصحف رکها تها- اس نے دهڑکتے دل کے ساتھ دونوں ہاتهوں سے اوپر رکها مصحف اٹهایا اور آہستہ سے اسے دونوں ہاتهوں میں تهامے اپنے چہرے کے سامنے لائی، اسے سب یاد رہا تها، صرف یہ بهول گیا تها کیوں؟
وہ اسے مضبوطی سے پکڑے بیڈ پہ آ بیٹهی اور کور کهولا- وہ سورہ مائدہ کی 106 آیت تهی-
” اے ایمان والو، جب تم کسی کی موت کا وقت آجائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو—-
چند الفاظ پڑھ کر ہی اس کا دل بری طرح سے دهڑکا- اس نے زور سے پلکیں جهپکیں، کیا وہ سب کچھ واقعی ادهر لکها تها؟ وصیت…. موت کا وقت، وصیت- ” مسرت نے مرتے وقت وصیت کی تهی-”
” تمہارا رشتہ وسیم سے….” بہت سی آوازیں ذہن میں گڈ مڈ ہونے لگیں- وہ سر جهٹک کر پهر سے پڑهنے لگی-
” اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہےکہ تمہاری جماعت میں دو صاحب عدل آدمی گواہ بنائے جائیں یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آ جائے تو غیر لوگوں میں ہی سے دو گواہ لے لیے جائیں پهر اگر ( ان کی بتائی ہوئی وصیت میں) کوئی شک پڑ جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو ( مسجد) روک لیا جائے اور وہ قسم کها کر کہیں کہ ہم کسی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں اور خواہ کوئی ہمارا رشتے دار ہی کیوں نہ ہو( ہم اس رعایت کرنے والے نہیں) اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چهپانے والے ہیں ، اگر ہم نے ایسا کیا تو گناهگاروں میں شمار ہوں گے-”
وہ ساکت سی ان الفاظ کو دیکھ رہی تهی- اس کی آنکهیں پتهرا گئی تهیں- قرآن کو تهامے دونوں ہاتھ بےجان سے ہو گئے تهے- کیا وہ سب واقعی یہاں لکها تها؟ مگر….. مگر کیسے؟ وصیت….. دو افراد کی قسم کها کر گواہی….. رشتہ دار یہ سب تو…… یہ سب تو اس کے ساتھ ہو رہا تها-
وہ پلک تک نہ جهپک رہی تهی- اس کا دل جیسے رعب سے بهر گیا تها- رعب سے اور خوف سے- یکایک اسے لگا کہ اس کے ہاتھ کپکپا رہے ہیں، اسے ٹهنڈے پسینے آ رہے ہین، وہ بہت بهاری کتاب تهی، بہت بهاری ، بہت وزنی، وہ جس کا بوجھ پہاڑ بهی نہ اٹها سکتے ہوں، وہ کیسے اٹها سکتی تهی؟ اسے لگا اس کی ہمت جواب دے جائے گی- وہ اب مزید وہ بوجھ نہیں اٹها پائے گی- وہ عام کتاب نہیں تهی، وہ اللہ کی کتاب تهی- اسے اللہ نے اس کے لیے، خاص اس کے لیے اتارا تها- ہر لفظ ایک پیغام تها- ہر سطر ایک اشارہ تهی- اس نے اتنی زندگی ضائع کر دی- اس نے یہ پیغام کبهی دیکها ہی نہیں-
” محمل! تم نے اتنی عمر بےکار گزار دی- یہ کتاب غلاف میں لپیٹ کر بہت اونچا سجانے کے لیے تو نہ تهی- یہ تو پڑهنے کے لیے تهی-”
یر دفعہ کی طرح آج پهر اس کتاب نے اسے بہت حیران کیا تها- سوچنا سمجهنا تو دور کی بات وہ تو متحیر سی ان الفاظ کو تکے جا رہی تهی، یہ سب کیا تها؟ کیسے اس کتاب کو سب پتا ہوتا تها؟
” کیونکہ یہ اللہ کہ کتاب ہے، نادان لڑکی! یہ اللہ کہ بات ہے، اس کا پیغام ہے، خاص تمہارے لیے، تم لوگ نہ سننا چاہو تو یہ الگ بات ہے-” کسی نے اس کے دل سے کہا تها- ” وہ کون تها؟ وہ نہ جانتی تهی-
دروازے کهلنے کی آواز پہ سب نے چونک کر اس کی طرف دیکها- وہ آہستہ سے چلی آ رہی تهی- کام دار دوپٹے کا کنارہ ٹهوڑی کے قریب سے اس نے دو انگلیوں میں لے رکها تها- اس کے چہرے کی رنگت قدرے سفید پڑی ہوئی تهی یا شاید کچھ اور تها جو انہین چونکا گیا تها- وہ دهیرے دهیرے چلتی ہوئی ان کے سامنے آ کهڑیی ہوئی-
” آغاجان!” اس نے ان کی آنکهوں میں جهانکا- وہ اس کے اجنبی لہجے پہ چونک سے گئے-
” ہاں، بولو-”
میری ماں کی وصیت کے وقت موجود لوگوں میں سے کون سے دو لوگ عصر کی نماز کے بعد اللہ کے نام کہ قسم اٹها کر گواہی دیں گے کہ انہوں نے یہ وصیت کی تهی یا نہیں؟”
پل بهر کو لاؤنج میں سکوت چها گیا، فرشتے نے مسکراہٹ دبا کر سر نیچے کر لیا-
آغاجان حیران سے کهڑے ہوئے” کیا مطلب؟”
” آپ کو پتا ہے سورہ مائدہ کہتی ہے کہ نماز کے بعد آپ میں سے دو لوگوں کو اللہ کے نام کی قسم اٹها کر گواہی دینی پڑے گی-”
” کیا بکواس ہے یہ-” وہ حسب توقع بهڑک اٹهے- ” تمہیں ہماری بات کا اعتبار نہیں ہے؟”
” نہیں ہے!”
” تم !” وہ غصہ ضبط کرتے مٹهیاں بهنچ کر رہ گئے- تب ہی نگاہ فرشتے پہ پڑی تو اس نے فورا شانے اچکا دیے-
” میں نے تو کچھ نہیں کیا کریم چچا-” ” تم سے تو میں بعد میں……”
” آپ لوگ گواہی دیں گے یا نہیں؟” وہ ان کی بات کاٹ کر زور سے بولی تهی، پهر چہرے کا رخ صوفوں پہ بیٹهے نفوس کی طرف موڑا- ” کون کون تها اس وقت آپ لوگوں میں سے ادهر؟” کون دے گا گواہی؟ کون اٹهائے گا قسم، بولیے، جواب دیجئے-”
سب خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکهنے لگے- اسے اس کے سارے جواب مل گئے تهے- کاش وہ پہلے اس آیت کو پڑھ لیتی تو اتنے غلط فیصلے نہ کرتی، صحیح کہتا ہے اللہ تعالی ہماری بہت سی مصیبتیں ہمارے اپنے ہاتهوں کی کمائی ہوتی ہیں-
” تو آپ لوگوں نے مجھ سے جهوٹ بولا- بہت بہتر- مجهے اب کوئی شادی نہیں کرنی- ” اس نے ماتهے پہ جهولتا ٹیکہ نوچ کر سامنے پهینکا- نازک سا ٹیکہ ایک آواز کے ساتھ شیشے کے میز پہ گرا-
” اب میرا فیصلہ بهی سن لو-” آغاجان نے ایک گہری سانس لی- ” مگر پہلے تم لڑکی-” انہوں نے حقارت سے فرشتے کو اشارہ کیا- ” تم مجهے یہاں سے چلتی نظر آؤ-”
” میرے باپ کا گهر ہے، میں تو کہیں نہیں جاؤنگی-”
” ٹهیک ہے فواد-” انہوں نے فواد کواشارہ کیا- وہ سر ہلا کر آگے بڑها اور صوفے پہ بیٹهی فرشتے کو ایک دم بازو سے کهینچا-
“چهوڑو مجهے-” وہ اس اچانک افتاد کے لیے تیار نہ تهی، بےاختیار چلا کر خود کو چهڑانے لگی، مگر وہ اسے بازو سے کهینچ کر گهسیٹتا ہوا باہر لے جانے لگا- اسی پل آغاجان محمل کی طرف بڑهے-
” تو تم یہ شادی نہیں کرو گی-؟”
” ہاں، ہرگز نہیں کرونگی، چهوڑو میری بہن کو-” وہ غصے سے فواد پر جهپٹنا ہی چاہتی تهی جو فرشتے کو زفرشتے کو زبردستی باہر لے کر جا رہا تها، مهر اس سے پہلے ہی آغاجان نے اسے بالوں سے پکڑ کر واپس کهینچا-
“تو تم شادی نہیں کرو گی؟” انہوں نے اس کے چہرے پہ تهپڑ مارا- وہ چکرا کر گری-
” تمہیں لگتا ہے ہم پاگلوں کی طرح تمہاری منتیں کریں گے؟ تمہارے آگے ہاتھ جوڑیں گے؟ نہیں بی بی شادی تو تمہیں کرنی پڑے گی، ابهی اور اسی وقت- اسد! نکاح خواں کو بلواؤ ابهی- میں بهی دیکهتا ہوں یہ کیسے شادی نہيں کرتی-”
” میں نہیں کرونگی، سنا آپ نے-” وہ روتے ہوئے بولی، وہ مسلسل اسے تهپڑوں اور مکوں سے مار رہے تهے-
” میری بہن کو چهوڑو” خود کو چهڑاتی فرشتے محمل کو پٹتے دیکھ کر تو لمحہ بهر کو سکتہ میں رہ گئی تهی، اور پهر دوسرے ہی پل اس نے زور اے فواد کو دهکا دینا چاہا’ مگر وہ مرد تها- وہ اس کو دهکیل نہ سکتی تهی- وہ اسکا بازو پکڑتے ہوئے اسے دروازے سے باہر نکال رہا تها-
جاری ہے…….