شہزاد بسراء
”مولوی جی ۔ ابھی بانگ نہ دیں۔ میں نے تو ابھی تندوری گرم کی ہے”۔
سحری کا وقت ختم ہو ا ہی چاہتا تھا اورمولوی جی اذان کی تیاری کررہے تھے کہ اچانک ترکھانوں کی مائی آشاں کی یہ آواز سنائی دی ۔ آج ترکھانوں کے گھر میں سحری کے لئے اُٹھنے میں دیر ہوگئی تو مائی آشاں بھاگی بھاگی مسجد آئی اور مولوی صاحب سے درخواست کی کہ ابھی اذان مت دیں کیونکہ ابھی تو ہم نے تندوری گرم کی ہے اور روٹیاں پکا رہے ہیں، کوئی ١٥ افراد کا گھرانہ اور فی کس ٤۔٣ روٹیاں ۔گو یا روزہ شروع ہونے کے وقت کا اختیارمولوی صاحب کے پاس ہے۔ مولوی صاحب نے بھی اپنے ”اختیارات ” کا استعمال کرتے ہوئے اذان میں کچھ تاخیرفرمادی اور ترکھانوں کی فیملی کو روزہ رکھوانے کا ثواب حاصل کرلیا۔نہ کسی کو اعتراض ہوا اور نہ ہی روزے کی صحت پر کچھ اثر ہوا، روزہ پکا ہی رہا۔
آج کل مولوی صاحبان سے الیکٹرانک میڈیا نے یہ اختیارات چھِن لیے ہیں ۔اَن گنت ٹی وی چینلز کی ”بریکنگ نیوز” اور خبر پہلے ”بریک” کرنے کی سَرپِٹ دوڑ کی طرح مساجدبھی سحری کا وقت پہلے بتانے کی دوڑ میں مبتلا ہیں۔ ریفریجریٹر اور مائیکروویو اوون جب ابھی عام نہ تھے اور ”کم بچے خوشحال گھرانے” کی بھی آگاہی نہیں تھی تو خواتینِ خانہ کو ہر روز ڈھیر ساری تازہ سحری تیار کرنے کیلیے بہت جلدی اُٹھنا پڑتا تھا۔ مگر اب تو مختصر سی فیملی کے لیے ریفریجریٹر، مائیکروویو اوون اور شوہر کی مدد سے خاتونِ خانہ چند مِنٹ میں سحری تیار کر لیتی ہے۔ مگر مساجد میں سحری کا وقت بتانے کے ثواب کے شوقین حَضرات اب بھی اعلان فرما رہے ہوتے ہیں۔
”حضرات سحری کا وقت ختم ہونے میں ‘صرف’ تین گھنٹے باقی ہیں۔’جلدی جلدی’ کھانا کھا لیں”
ارے بھائی سحری کے لیے اُٹھائو، تم تو سونے ہی نہیں دے رہے۔اِتنی جلدی سحری کھلا کے کیوں خلقِ خدا کا روزہ طویل کرتے ہو۔حیرت تو یہ ہوتی ہے کہ خلقِ خدا کی خدمت کے لیے اپنی نیند قربان کر کے آدھی رات سے مسلسل اعلان کرنے والے حضرات خود کس وقت کھاتے پیتے ہیں۔جب چہارسُو اذانیں آنا شروع ہو جاتیں ہیں تو تب کچھ حضرات اعلان فرما رہے ہوتے ہیں
” حضرات سحری کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ کھانا پینا بند کر دیں”
غالباََ اُن کے کچھ عقیدت مند اذان کو اِس ضمن میں ناکافی سمجھتے ہوں گے۔
چچا چھیدا تو روزہ تازہ کر نے اکثر دوپہر کو ٹیوب ویل پر نہانے چلے جاتے اور خوب لمبی لمبی ڈبکےّاں لگاتے۔ اس دوران کئی دفعہ غوطہ بھی آجاتا ۔ کچھ پانی بھی پیٹ میں چلاجاتا مگر مجال ہے روزے کی صحت پر کوئی اثر پرتا ۔ بڑا پکا روزہ ہوتا تھا ۔ سب سے پکا روزہ تو اُس دِن ہوا جب شدید گرمی میں میں دوپہر ٣ بجے یونیورسٹی سے واپس آیا تو حسبِ عادت سیدھا کچن گیا اور فرج کھول کے غٹاغٹ پانی پیا۔ سامنے پلائو نظرآیا تو رہا نہ گیا۔سوچا تھوڑا منہ کرارہ کرتا ہوں، باقی فریش ہو کے تسلی سے کھائوں گا۔ سو جلدی جلدی بغیر چمچ کے ہاتھ سے ہی چار پانچ نوالے ٹھونس لیے۔ جلدی کا نتیجہ چاول حلق میں پھنس گئے اوپر سے مرچ مصالحہ بھی کچھ تیز تھا۔ سانس بند ہونا شروع ہوگیا۔ جلدی سے پانی کی بوتل کھول کے ابھی منہ کو لگائی ہی تھی کہ یاد آ گیا کہ روزے سے ہوں۔اب نہ جائے رفتن نہ پائے مانند۔ نہ تو چاول نگلے گئے اور نہ ہی باہرآئے۔گرمیوں میں دِن بھی شیطان کی آنت کی طرح بے تحاشہ لمبے ہوتے ہیں۔ شام تک یہی کیفیت رہی۔ کم از کم میری زندگی کا سب سے پکا روزہ تھا۔
اب کچھ عرصہ سے یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ بس پہلی اذان کی آواز آتے ہی سحری کے کھانے کا جو لقمہ ہاتھ میں ہے وہ بھی چھوڑ دو ، اگر پکا روزہ رکھنا ہے۔حالانکہ پہلے سحری تسلی سے کھائی جاتی تھی اورتب تک کھائی جاتی تھی جب تک اندھیرے میں کالے اور سفید دھاگے کی پہچان نہ ہو جاتی۔ تب بھی روزہ پکا ہی رہتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے قبلہ والد گرامی بڑے اہتمام سے سحرو افطار کا بندوبست فرماتے تھے ۔سحری میں کئی بَلوں والے پراٹھے آملیٹ اور دہی سے کھانے کے ساتھ ساتھ ایک بڑا جگ لَسّی بھی نوش کر جاتے ۔ اکثر یوں ہوتا کہ لَسّی کا آخری گلاس انہیںکھڑا ہو کے پینا پڑتا چونکہ بیٹھ کر مزید کھانا پینا ناممکن ہوتا تھا۔ ہاں کبھی کبھار تھوڑی بہت اگر قَے ہو جاتی تو اور لَسّی بنانا پڑتی۔ سحری تناول فرمانے کے بعد قبلہ ابا جان ایک چارپائی پر لیٹ جاتے اور سگریٹ نوشی شروع کردیتے ۔ ایک کے بعد ایک سگریٹ ۔ اس دوران وقفے وقفے سے اذانیں ہوتی رہتیں آجکل کی طرح نہیں کہ ایک دم اذانوں کا شور سا ہی مچ جاتا ہے۔ بلکہ ہر موذّن اپنے مسلک ، اعتقاد اور گھڑی کے مطابق ہی اذان دیتا تھا ۔ عموما ً یہ سلسلہ کوئی آدھ پون گھنٹہ توچلتا رہتا۔ والد صاحب کی سگریٹ نوشی تب تک جاری رہتی جب تک کہیں دور دراز سے آخری اذان بھی آنی بند نہ ہو جاتی ۔ اس ضمن میں اکثر ہم بہن بھائی بھی ان کی مدد کرتے اور چھت پر چڑھ کے سنتے کہ کہیں سے اذان کی آواز آرہی ہے کہ نہیں۔ جب ہمیں کوئی اذان نہ سنائی دیتی تو ہم اعلان کردیتے کہ سحری کا وقت ختم ہوگیا ہے اور قبلہ والد صاحب جلدی جلدی لمبے لمبے کش لے کر سگریٹ پھینک دیتے ۔ تب بھی روزہ انتہائی پکا ہوا کرتا تھا۔
کچھ اِسی طرح وزیروں اور مشیروں کی ایک فوجِ ظفر موج بھی چَھتوں پر چڑھی ڈھونڈڈھونڈ کے اپنے آقاوئں کو خبر دے رہی ہے کہ یہ مسکین عوام ابھی کچھ زندہ ہیں، جان کی رمق ابھی باقی ہے۔ ابھی اُنہیں اور کھائو، انہیں اور کھائو۔ کوئی یہ خبر دے رہا ہے کہ یہ ابھی مزید مہنگی بجلی خرید سکتے ہیں، اور کوئی یہ خوشخبری لا رہا ہے کہ یہ لوگ ابھی مزید ٹیکسوں کا بوجھ برداشت کر سکتے ہیں ۔ ابھی اور کھائو۔ ابھی اور کھائو۔یہ کونسا پکا روزہ رکھنے جا رہے ہیں کہ جِس کے کھانے کی ہَوس ٦٣ برس گُزرنے کے باوجود ختم ہی نہیں ہو رہی۔خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔سپیدہء سحر نمودار ہونے کو ہے اور ابھی ایک آواز ظلمت کا سناٹا چیرے گی
” حضرات سحری کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ کھانا پینا بند کر دیں”