پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
سائنسی اعتبار سے ہر اس شخص کو زندہ کہا جاتا ہے جس کے تنفسی اعضاء کام کرتے رہتے ہیں اور جس کے یہاں سانس کی آمد وشد کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ ایک اردو کے شاعر پنڈت برج نرائین چکبست کے الفاظ میں زندگی عناصر میں ظہور ترتیب کا نام ہے اور موت ان عناصر کے پریشاں ہونے کانام ہے ۔میڈیکل سائنس میں زندہ انسان وہ ہے جس کے دل اور دماغ مسلسل کام کرتے رہتے ہیں لیکن اخلاقی کردار کے اعتبار سے زندہ انسان کسی اور شخصیت کا نام ہے ، ایسی شخصیت کا نام ہے جسکے اندر کچھ صفات اورکچھ خوبیاں موجود ہوتی ہیں ۔ یہ صفات اگر نہیں ہیں تو پھر وہ زندہ انسان نہیں ہے، زندہ انسان اعلی انسانی قدروںکا حامل ہوتا ہے ، اسی لئے انسانوں کی بھیڑ میں زندہ انسان بہت کم نظر آتے ہیں ۔انسانی شکل وصورت کا انبوہ ہر طرف امنڈتا ہوا نظر آتا ہے لیکن حقیقی طور پر زندہ انسان بہت مشکلوں سے بہت زمانہ کے بعد کہیں اتقاق سے نظر آجاتا ہے، یہ وہ زندہ انسان ہوتا ہے جو کسی اعلی قدر اور بڑے مقصد کے لئے جان کی بازی لگا سکتا ہے وہ زندہ شخصیت کا مالک ہوتا ہے وہ اپنی جان دینے کے باوجود زندہ کہلانے کا مستحق ہوتا ہے ۔ یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ جو اللہ کے راستہ میں میں جان دیتے ہیں انہیں مردہ نہ کہو وہ زندہ ہیں اور اللہ کے یہاں انہیں رزق کی نعمت دی جاتی ہے اور یہی مطلب ہے اس فارسی شعر کا
ہرگز نہ میرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است برجریدہ ٓ عالم دوام ما
مولانا جلال الدین رومی نے ایک قصہ لکھا ہے کہ انہوں نے دیکھا کے ایک پیر فرتوت جس کے سارے بال سفید تھے اور کمر خمیدہ تھی چراغ لے کر اندھیرے میں سنسان راستوں میں کچھ تلاش کر رہے ہیں انہوں نے پوچھا کہ آپ کیا تلاش کررہے ہیں انہوں نے جواب دیا کہ مجھے انسان کی تلاش ہے ۔ جلال الدین رومی فارسی زبان کے شاعر تھے اردو کے شاعر غالب نے بھی اسی حقیقت کا اظہار اپنے شعر میں کیا ہے
بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
جس طرح آسمان سے موسلا دھار بارش ہوتی ہے اور بارش کے قطروں میں کوئی ایک قطرہ موتی بنتا ہے اور جس طرح زمین کے کان سے کوئی ہیرا بہت مشکل سے برآمد ہوتا ہے اسی طرح سے انسانوں کے ہجوم میں زندہ انسان مشکل سے ملتا ہے ۔ زندہ شخصیت وہ شخصیت ہے جس کے اندر شعور‘ حسن عمل‘ ہمت ‘ جذبہ اور استقامت اور ارادہ کی مضبوطی موجود ہوتی ہے، وہ جان دے سکتا ہے لیکن اعلی قدروں سے دستبردار نہیں ہوسکتا ہے ، اس کی کوئی قیمت نہیں لگا سکتا ہے اسے کوئی خرید نہیں سکتا ہے ۔ اگر یہ صفات موجود ہیں تو آپ کی شخصیت ایک زندہ شخصیت ہے اور اگر یہ صفات موجود نہیں ہیں تو آپ کی شخصیت زندہ شخصیت نہیں ہے آپ ایک مردہ انسان ہیں ۔ دنیا کے اندر اسلام کے حق میں کسی بڑی تبدیلی کے لئے زندہ شخصیتوں کا وجود ضروری ہے اسلام کے حق میں حالات کی تبدیلی اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک مسلمانوں میں ضروری صفات نہ پیدا ہوجائیں ان میں زندہ شخصیتیں نہ ابھر آئیں، ایسی شخصیتیں جو دردناک حالات سے متاثر ہوتی ہوں اور ان پر اپنا رد عمل ظاہر کرتی ہوں ۔ایک بے جان انسان پر موسم کی تبدیلی کا یاکسی حرکت اور تغیر کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے اگر کوئی بڑے سے بڑا واقعہ پیش آجائے مسلمانوں کے لئے کوئی قیامت کھڑی ہوجائے تو بے جان لاشہ کھڑا نہیں ہو سکتا ہے اس لاشہ کو کھڑا کرنیکے لئے نفخ صور کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ ایک زندہ انسان وہ ہے جو ہر افسوسناک واقعہ کا اثر قبول کرتا ہے اور وہ واقعہ اسے متحرک بنا دیتا ہے ۔اگر انسان ایسے خارجی حالات سے متاثر نہیں ہوتا ہے جو اسلام کی عظمت اور اقتدار کو اور شریعت کی اہمیت کو نگاہوں میں ختم کرتے ہیں اور اسلام کے بارے میں پورے مفہوم کو بدلتے ہیں اور اگر سیال سونے کی ہوس اسے ایسے نازک موقعہ پر خاموش کردیتی ہے تو اس کا مطلب یہ کہ وہ زندہ انسان نہیں ہے وہ ایک مردہ انسان ہے اور مردہ انسان کوئی انقلاب برپا نہیں کرسکتا ہے ۔افسوسناک حالات سے متاثر اور مضطرب ہونے والا دل موجود ہے تو انسان ایک زندہ انسان ہے شاعر نے کہا ہے
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مرجائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
خارجی حالات کی کوئی تبدیلی اندرون کی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں ہے اندرونی تبدیلی یہ ہے انسان شدید طور پر حساس ہو جائے ، دنیا میں کوئی واقعہ جس کی ضرب اسلام پر پڑتی ہو اسے بے چین کردے ۔۔زمین کے اندر روئیدگی کی صلاحیت ہو تو آسمان کی بارش زمین میں گل بوٹے کھلاتی ہے زمین کو سبزہ زار بناتی ہے اورسبز انقلاب لاتی ہے اور اگر روئیدگی کی صلاحیت نہ ہو تو زمین بنجر رہ جاتی ہے اور بارش بے فیض ہو جاتی ہے ۔کسی بیرونی نبدیلی کے لئے پہلے اپنے اندرون کو بدلنا پڑتا ہے ۔نقطہ نظر درست کرنا پڑتا ہے دین کے بارے میں حساس بننا پڑتا ہے ۔ سیرت کی کتابوں میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ نہیں آتا تھا لیکن اگر دین کے بارے میں کوئی استخفاف ہواور اسلام پر زد پڑے تو آپ غضبناک ہوجاتے تھے ۔ اس وقت صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ مسلم ملک میں جمہوریت کا قتل ہورہاہے اور آزادی اظہار پر پہرے بٹھا دئے گئے ہیں اجتجاج کی آزادی سلب کرلی گئی ہے مظاہرہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جارہا ہے اسلام پسندوں کوجو اسلامیت کا عالمی نشان ہیں اور احیاء اسلام کے علم بردار ہیں جن کا مقصد دین کی سربلندی ہے جن کی دینی خدمات کا رکارڈ ہے ، پھانسیاں دی جارہی ہیں یہ عرب دنیا کا ایسا وحشتناک اور شرمناک ظلم ہے جس سے بڑا اور کوئی ظلم نہیں ہوسکتا ہے ،جس پر زمین اور آسمان سوگوار ہے ،لیکن ہمارے علماء اور قائدین کی پیشانی پر ناراضی کی کوئی شکن نظر نہیں آتی ہے سعودی عرب کی ہیئۃ کبار العلماء خاموش ہے ان کے علماء کو لوگ اب علماء سوء کہنے لگے ہیں ، کیونکہ یہ لوگ حکومت کے اشارہ چشم اور جنبش ابرو کو دیکھ کر فتوے صادر کرتے ہیں ۔ سعودی حکومت حسنی مبارک کی حامی و طرف دار تھی اس لئے حسنی مبارک کے خلاف شورش میں یہ علماء انقلاب کو غیر اسلامی قرار دے رہے تھے لیکن یہی علماء معمر اقذافی اور بشار الاسد کے خلاف بغاوت میں حکمرانوں کے طرفدار نہیں تھے کیونکہ سعودی حکومت ( بجا طور پر ) عوام کے ساتھ تھی ۔ حکومت اور حاکم کے خلاف بغاوت درست ہے یا نہیں اس پر علماء کے اختلافات ہیں جو کتابوں میں مذکور ہیں ۔ یہاں صرف اتنا ذکر کرنا ہے کہ دین اور اہل دین پر ظلم ہو اور پھر ضمیر اس کی چبھن محسوس نہ کرے دینی جماعت کی منتخب اور دستوری حکومت کا تختہ الٹ دیا جائے اور دل میں کوئی اضطراب نہ ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ دینی حمیت اور غیرت سب رخصت ہوچکی ہے یہ بہت افسوسناک صورحال ہے یہ مردہ اور بے ضمیر انسانوں کی پہچھان ہے یہ بے ضمیری ہندوستان میں بہت عام ہے ۔ اس کی بڑی وجہ خلیجی ملکوں سے مالی اور مادی مفادات کی وابستگی ہے اور ان خلیجی ملکوں نے مصر میں ظالموں کا اور اسلام دشمن طاقتوں کا سا تھ دیا ہے اور اس سے بھی بڑا ان کا جرم یہ ہے کہ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ خفیہ روابط قائم کرکھے ہیں ، اب یہ روابط سربستہ راز نہیں رہے ۔ کیا ان خلیجی ملکوں کے فرماروائوں سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ مسجد اقصی کو واگذار کراسکتے ہیں اور فلسطینیوں کو انصاف دلا سکتے ہیں ، یہ تو اسرائیل سے جہاد کرنے والی جماعت حماس کو بھی دہشت گرد قرار دیتے ہیں ، کیوں نہیں ان کی حکومتوں کا بھی اسی طرح تختہ الٹ دیا جائے جس طرح تیونس مصر لیبیا اور یمن کے حکمرانوں کا تختہ الٹ دیا گیا تھا، لیکن ہم ابھی اس کی دعوت نہیں دیتے ہیں یہ کام اکثر قدرت خود کر لیتی ہے ۔ شام اور عراق کے حکمرانوں کے مظالم پر روک لگانے کے لئے قدرت نے کچھ وحشیوں کو کھڑا کردیا ہے ۔ ان وحشیوں کی کوئی حمایت نہیں کرتا ہے لیکن یہ سب خدائی انتظامات ہیں یہ قدرت کی تدبیریں اور تعزیریں ہیں ۔ ’’ حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں ‘‘ آج تک عراق کی حکومت ان سے نپٹ نہیں سکی ہے ۔غادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز سے ابھی اچھی توفعات وابستہ ہیں انہوں نے براقتدار آتے ہی کئی اچھے کام کئے ہیں ، انہوں نے ہم سب ے دلوں میں امید کی شمعروشن کردی ہے ۔ امید ہے اخوان کی قیادت کو دار ورسن سے بچانے میں وہ اپنا رول ادا کریں گے کیونکہ سعودی حکومت نے مصر کی اتنی بڑی مالی مدد کی ہے کہ مصر کا سر احسان کے بوجھ سے سعودی حکومت کے سامنے جھکا ہوا ہے اور اس وجہ سے صرف سعود ی عرب اس پوزیشن میں ہے کہ مصر پر دباو ڈا لے اور اس کے سر پر غرور کو جھکائے ۔ اخوان کے ممتاز لوگوں کو مصر میں جمال عبد الناصر نے بھی تختہ دار پر چڑھایا تھا او راس وقت مصر میں فرعونی تہذیب کا کلمہ پڑھا جارہا تھا چوراستوں پر فرعون کے مجسمے نصب کئے جارہے تھے ، اس وقت سعوری عرب کی پالیسی اخوان کی حمایت کی تھی بہت سے اخوانیوں نے سعودی عرب میں پناہ لی تھی ء لیکن اس بار سعودی حکومت نے کچھ اپنے اندیشہ ہائے دور دراز کے تحت اور کچھ امریکہ کے اشارہ پر غلط اور تکلیف دہ رول اختیار کیا ہے اور مصر میں پہلی بار منتخب حکومت کو گرانے کی سازش میں شریک ہوگئی ہے اگر اس بار اخوان کی قیادت کو پھانسی دی گئی تو قتل نامہ کے محضر پر گویا ان خلیجی ریاستوں کی دسیتخط بھی ثبت ہوگی جنہوں نے عبد الفتاح سیسی جیسے سفاک قاتل اور مجرم کی مدد کی ہے۔ ترکی اور قطر نے مصری عدالت کے فیصلوں کی مذمت کی ہے لیکن اس میں فیصلہ کن رول خادم الحرمین سلمان بن عبد العزیز کا ہوگا ۔
سینہ میں دل زندہ کے موجود ہونے کی نشانیاں حالات سے متاثر ہونا ہے ، اگر آپ دوسروں کی خوشی سے خوشی محسوس کرتے ہیں اور اگر انسانی برادری میں امن و آمان اور اطمنان دیکھ کر راحت محسوس کرتے ہیں عالم اسلام میں اسلامی شریعت اگرکہیں نافذ ہو تو اسے دیکھ کر اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اوراگر نافذ نہ ہو تو بے چین ہوتے ہیں تو آپ زندہ انسان ہیں ۔کسی ملک میں اسلام کو اقتدار سے ہٹانا اور ہٹانے کی سازش میں کسی مذہبی ملک کا شامل ہوجانا اور پھر غاصب اورجابر طاقت کے لئے ایک مذہبی ملک کی طرف سے مالی مدد کا اجراء کوئی معمولی درجہ کی بات نہیں ، اس پر راضی ہو جانے سے دین وشریعت کے بارے میں ذہن کا سانچہ تبدیل ہوتا ہے اور لوگوں پر یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ مسجد میں اگر نماز کی اجازت ہے تو بس کافی ہے شریعت کے قوانین کا نفاذ ضروری نہیں یہ ایک طرح کی تصوراتی تحریف دین ہے جس کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے، اصل دین اور خلافت علی منہاج النبوۃ کا خیال بھی پردہ ذہن کے پیچھے مستور ہوتا جارہا ہے ، استحکام کی فریب نظر منطق عام ہوتی جارہی ہے، مذہب کو ایک پرایویٹ چیز سمجھا جارہا ہے ، تاریخ میں بے شمار مجددین اسی لئے تو آتے رہے تھے کہ دین کے بارے میں غلط تصور کو درست کیا جائے ۔ یہ بھی دین کے بارے میں غلط تصور ہے کہ کوئی بھی شخص اقتدار پر قابض ہوجائے اگر وہ نماز روزہ کی اجازت دیتا ہے تو بس یہ کافی ہے ۔ اگر دین بس اسی کا نام ہے تو حضرت حسین سے لے کر سید احمد شہید تک سب کا جہاد غلط قرار پائے گا ، اگر مسلم قائدین اور علماء کسی ملک کی ناراضی کے ڈر سے اور مالی شہ رگ کے کٹ جانے کے خوف سے خاموش رہ جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اندر زندہ شخصیت کا فقدان ہے، ان میں حوصلہ مندی اور عالی ہمتی نہیں ہے ان میں حق بات کہنے کی جرأت نہیں ہے ۔ اور وہ روحانی اور فکری افلاس کا شکار ہیں اور وہ بالکل مردہ ہو چکے ہیں ،کیونکہ زندہ شخصیت کی ایک بڑی پہچھان حق گوئی اور بیباکی ہوتی ہے، ان کے اندر وہ استغنا پایا جاتا ہے جو ضمیر کو زندہ رکھتا ہے اور جس کا توکل اللہ پر ہوتا ہے اور جو یہ کہہ سکتا ہے ۔
نہیں ہیں غم جو گریزاں ہیں چند پیمانے
نگاہ یار سلامت ہزار میخا نے
اگر آپ دوسروں کے غم سے مغموم ہوتے ہیں اوراگر دنیا میں اپنے بھائیوں پر ظلم دیکھ کر اور ظالم حکومتوں کی طرف سے دین کے خدمت گذاروں کو موت کی سزا دینے پر اوران ظالم حکومتوں کی مسلم ملکوں اور مسلم بادشاہوں کو مدد کرتا ہوا دیکھ کر اور اپنے گرد وپیش میں یا کسی ملک میں ظلم کے سبب سے مسلمانوں کو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے دیکھ کر اور یہ دیکھ کر کہ ان ستم رسیدہ انسانوں کو کہیں پناہ نہیں مل رہی ہے آپ بے چین ہو جاتے ہیں ، آپ کی راتوں کی نیند حرام ہوجاتی ہے ، پھر آپ کو اپنا کھانا پینا بھی اچھا نہیں لگتا ہے پھر آپ مظلوم کی مدد کے لئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اس کے لئے سرمایہ بھی خرچ کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں تو آپ ایک زندہ انسان ہیں ، زندہ انسان ایک باشعور انسان ہوتا ہے زندہ انسان کے اندر جذبہ کی حرارت ہوتی ہے وہ انقلاب کے لئے بیتاب اور مثل ماہی بے آب ہوتا ہے انسانوں پر ظلم دیکھ کر اسے اپنا کھانا پینا اچھا نہیں لگتا ہے اگر یہ خصوصیات کسی انسان کے اندر موجود ہیں تو وہ زندہ اور شاہین صفت انسان ہے اور اگر یہ خصوصیات موجود نہیںہیں اور دنیا میں مسلمانوں پر کچھ بھی گذر رہی ہو اسے کوئی مطلب نہ ہو تو وہ انسان ہوتے ہوئے بھی پتھر ہے اور خاک رہگذر ہے مردہ انسان ہے ، جس سے کسی خیر کی توقع نہیں، حالات کی تبدیلی میں وہ کوئی مثبت رول نہیں ادا کرسکتا ہے ۔ کم سے کم ظلم سے اپنے تنفر کا اظہار کرنا اور ظالم کے خلاف بیان دینا اور رائے عامہ کو ظالم کے خلاف ہموار کرنا بھی زندہ ضمیر کی اور زندہ شخصیت کی علامت ہے ۔ہمیں غور کرنا چاہئے ہماری ملت میں ایسی زندہ شخصیتیں اب کتنی رہ گئی ہیں ۔