مسِ یوز
مہتاب قدر۔جدہ
مِس (Miss) بہت خوبصورت لفظ ہے،شائد اسی لئے ہمارے معاشرے میں کثرت سے استعمال ہوتاہے،کوئی موقع ہو ہم لفظِ مِس کو مِس نہیں ہونے دیتے۔ہمارے پرائمری اسکول کی ایک مِس (Miss) ہوا کرتی تھیں جنہیں ہم آج بھی مِس ہی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں،بہرحال دنیا کی کسی بھی خاتون کو چاہے وہ اپنی عمر کے کسی بھی حصہ میں ہو مِس کہہ کر مخاطب کیجئے ،وہ اگر خوش نہ ہوئی تو بُرا بھی نہیں مانے گی،لیکن کسی ان بیاہی لڑکی کومسز (Mrs (کہنا (اگر مخاطب زبان دراز ہو جس کے چانسس آج کل زیادہ ہیں تو) خطرے سے خالی نہیں بلکہ اسطرح آپ پر کسی لڑکی سے مِس بی ہیف ( ( misbehave کرنے کا الزام بھی آسکتا ہے اسلئے آپ سے گزارش ہے کہ چاہے جو کیجئے یہ مِسٹیک ((mistakeنہ کیجئے کہ یہ سڑک کے کسی موڑ پر اورٹیک کرنے سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ہمارے گھروں کے معاملات میں مِس کا خاص دخل ہونا اظہر من الشمس ہے کہ ان کے بغیر گھر گھر ہی نہیں ہوسکتا ، یہ اور بات ہے کہ مِس ۔۔ پھر مِس ۔۔نہیں رہتیں لیکن اس بات کا دہرانا بھی مِس انڈسٹینڈنگ misunderstanding پید ا کر سکتا ہے ہم آپ پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اپنی بیویوں کو بھی مِس کہہ کر پکارنے میں کوئی قباحت نہیں کہ اس طرح بیویوں سے جھوٹ بولنے کی مذہبی اجازت سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔کہتے ہیں کہ ساس بہو کے سارے جھگڑے ایک دوسرے کو مس کوڈ miscodeکرنے سے ہی پیدا ہوتے ہیں ۔کوڈ پر یاد آیا کہ آجکل بعض اردو کے جدید ذہن جنہیں اپنے وسیع الذہنی کا خواہ مخواہ یقین ہے ،کوڈ آف کنڈکٹ سے بے نیازانگریزی کی نقالی میں لفظوں کے تقدس کا مِس یوزmisuse کر رہے ہیں۔ شائد اس کا تجربہ آپ کو بھی ہو کہ بعض گھروں میں بیویاں اور بعض مکانوں میں شوہر مِس کالز miscallsکا سبب بنتے ہیں۔مس کالز میں عموماََ کنجوسی یا پھر احتیاط کا پہلو کارفرما ہوتا ہے،وجوہات چاہے کچھ بھی ہوں لیکن ہوتی ضرور ہیں۔دراصل بعض شادیاں ہی مِس میچنگ کی وجہ سے مِس لیڈکی طرح ایک طرفہ رویّوں کا شکار ہو کر مِس فارچون بن جاتی ہیں۔مِس کالز ایک مستقل موضوع ہے جس پر تحقیقی مقالہ لکھ کر یعنی تحقیق کے میدان کا مِس یوز کرکے کسی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی جا سکتی ہے۔آجکل ڈگریاںیوں ہی حاصل کی جارہی ہیں،مقالہ شرط ہے چاہے موضوع کوئی بھی ہواور مقالہ نگار کوئی بھی ہو۔تحقیقی مقالہ چاہے تقلیدی مقالہ ہی کیوں نہ ہو،مقالہ داخل کرنے والے ڈگری دی جاتی ہے۔ خیر بات کی مِس کی تھی اوردرمیان میں تعلیمی اداروں کا مِس مینیجمنٹ در آیاظاہر ہے جس مینیجمنٹ میں مِسیں زیادہ ہوں گی وہاں مس مینیجمنٹ کے امکانات کسی اکاونٹ کے دفتر میں مس الائینس misalliance کی طرح شامل ہیں یعنی مس مینیجمنٹ کے امکانات کو نکال باہر کرناہو یا حسابات سے misalliance کو نکالنا دونوں صورتوں میں بعض لوگوں کے اختیارات کو مس یوز کرنے کے راز کھل جانے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ہم آپ کو مس کا نام لے کر خواہ مخواہ مسمرائز mesmerize نہیں کرنا چاہتے کہ اس سے آپ کے مس لیڈ ہونے کا خدشہ ہے اور یہ پیشہ ہم نے ان لیڈروں کے لئے چھوڑ رکھا ہے جوسچی رہنمائی کے بجاے مس گائیڈ misguide کرنے کی عادت سے مجبور ہیں۔
عرب ملکوں میں آکر ہمیں ایک ایسی قوم سے پالا پڑا ہے جنہیں مصری کہا جاتا ہے،بچپن سے یہاں آنے تک مصری کا لفظ سنتے ہی منہ میں مٹھاس کا احساس جاگنے لگتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا بلکہ اب اس خیال سے ہی ہمارے کانوں میں زوردار آوازیں آنے لگتی ہیں، اوللک اے، خدبالک، نہردا وغیرہ وغیرہ اور ہم فوراََ مصری کے تصور کو ذہن سے نکال دیتے ہیں اور مسواک کرتے ہوئے مسجد کی طرف واک کرجاتے ہیں۔ایک دفعہ ہم نے ایک لڑکے سے پوچھا کیاآپ نے مسواک دیکھی ہے،وہ منہ بنا کر ہمیں ایسے دیکھنے لگا گویا ہم نے کوئی نامناسب بات پوچھ لی ہواور پھر اس کے سوال نے ہمارا تجسس دور کردیاجب اس نے ہم سے پوچھا یہ کون مِس missہیں جنہیں آپ پوچھ رہے ہیں یہاں تو کوئی مِس نہیں ہوتیں۔دراصل قصور بچو ں کا نہیں ہے انہیں جو پڑھایا یا سکھایا جاتا ہے وہی انہیں معلوم ہے۔کسی بھی شعری محفل میں جہاں آجکل عموماََ(میں سب شرکاء کی بات نہیں کر رہا ہوں) ڈھلتی عمروں کے لوگ ہی اپنے مہاسوں کے زمانے کی یاد تازہ کرنے چلے آتے ہیں،کسی نئی نسل کے نمائندہ لڑکے کو لایا جائے تو اُس کی رسائی غزل یا نظم تک تو کیا ہوگی جب کہ اُسے مصرعہ تک کا مفہوم سمجھنے میں بھی کسی مِس کے حائل ہو جانے کاامکان غالب ہو سکتا ہے۔اس طرح ہم نے اپنے بچوں کو اپنی تہذیب وثقافت اور شعروادب سے دورکرکے اپنے تمدن کے قدیم قلعہ کومسمارکردیا ہے اور اس مسماری میں ہماری اُن گھریلو مسماتوں کا زیادہ ہاتھ ہوتا ہے جنہیں اپنے بچوں کوسابقہ آقاؤں کی زبان انگریزی بولتے ہوئے دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے،چاہے خود انہیں انگریزی کے دو لفظ نہ آتے ہوں ۔
ابتداء مسِ سے ہوئی تھی اسلئے اختتام پر بھی ہم ایک اور مسِ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی بات کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں ، مسیار عربی کا لفظ ہے۔کسی مِس کو یار کرلو تو لفظ مسیار بنتا ہے شائد اسی لئے بعض مسلمان ملکوں میں بھی زواجِ مسیار ( مشروط و مخفی شادی) رواج پانے لگی ہے،ظاہر ہے کہ یار سے یاری کے جو تقاضے ہیں ان میں کسی مالی معاونت کی اہمیت اتنی زیادہ نہیں اس لئے مسیار میں بھی دونوں پارٹیاں اپنا اپنا بوجھ اُٹھا لیتی ہیں اور وقت میں بھی دن رات کی لازمی شرط نہیں جو طئے ہو جائے یار سے وہی لمحہ وصل ہے چاہے دن ہو یا رات۔ بشیر بدرنے اپنے اس شعر میں خوب وضاحت کردی ہے کہ
رات کا انتظار کون کرے آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا