شہزاد بسرائ
اگرچہ پیجو مِراثی ایک نشئی تھا مگر ایک اعلی پائے کا درزی بھی تھا ۔ لوگ اس سے کپڑے سلوانا بھی چاہتے تھے مگر اجتناب بھی کرتے تھے ۔ اُس کی کپڑوں کی سلائی کے سبھی قائل تھے اور نوجوان خصوصاً اس کے گاہک تھے مگر وہ کئی کئی دن دکان بندرکھتا اور گاہک اُس کو ڈھنڈتے پھرتے۔ اُس کے کچھ نشئی دوست ساتھ والے گاؤںمیں رہتے تھے ۔ وہ جب وہاں جاتا تو پھر کئی کئی دن نظر نہ آتا۔ مگر ایسا ہمیشہ نہ ہوتا ۔ کبھی کبھی وہ کئی دن مسلسل دکان بھی کھولتا اور لوگ اُس پر اعتبار کر بیٹھتے۔
ایک دن میں پیجو کو ایک شلوار قمیض سلنے دینے گیا تو وہیں ساتھ والے محلے سے اشفاق بھی سوٹ سلوانے آیا ہو ا تھا ۔ چند دن بعد اس کی شادی تھی۔ پیجو دولہا کا ناپ لینے کے بعد سلیٹی رنگ کے چمکدار کپڑے کو دیکھ رہا تھا ۔ “ہاں کپڑا توپورا ہے۔ سوٹ بن جائے گا۔ قمیض بنوانی ہے یا کُرتا؟”
اشفاق نے قمیض تجویز کی۔
“بارات کس دن جانی ہے؟”
“بھئی بارات تو میری جمعہ کے دن جائے گی۔ مگر تم بدھ تک سوٹ تیار کردینا”
“تو فکر کیو ں کرتے ہو۔ سوٹ ٹائم پر ہی تیار ہو جائے گا”
“فکر مجھے یہ ہے کہ تم کہیں غائب نہ ہو جانا ۔ اگر تمہارا کوئی ایسا پروگرام ہے تو پھر میں کسی اور درزی کو دے دیتا ہوں ”
“میں نے کہا ں ناں کہ علی مرشد کی دعاؤں سے تمہارا سوٹ وقت پر ہی مل جائے گا”
میں نے بھی پیجو کو تنبیہ کی کہ میرے سوٹ کی جلدی نہیں مگراس بچارے کی شادی ہے اسے پہلے سی دینا ۔اگلے دن سے پیجو کی دوکان بند ہو گئی۔ اشفاق کی شادی صرف 3دن بعد تھی ۔ مجھے فکر لاحق ہونا شروع ہوگئی کہ پیجو اشفاق کو ذلیل نہ کروا دے۔ اشفاق بچارہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا اُس نے شادی کے لئے بمشکل یہی ایک سوٹ خریدا ہوگا اور اس افیمی درزی کو دے بیٹھا ۔ اگر وہ شادی سے پہلے نہ آیا تویہ غریب کیا کرے گا ۔ کیا پرانے کپڑے پہن کے دولہن لینے جائے گا۔ بدھ والے دن اشفاق بار بار پیجو کی دکان پہ چکر لگاتا مگر بے کار۔ آخر شام کو وہ دکان کے باہر ہی بیٹھ گیا ۔ رات گئے تک وہ آنے جانے والوں سے پیجو کے متعلق دریافت کرتا رہا مگر پیجو کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ آخر کار جمعرات کی شام کو پیجو برآمد ہوا۔ اشفاق کو خبر ہوئی تو وہ بھا گا آیا ۔
“وہی ہوا ناں جس کا ڈر تھا اور تم کہاں دفع ہوگئے تھے۔صبح میری بارات جانی ہے۔ کہاں ہے میرا سوٹ؟ “اشفاق غصے سے غرارہا تھا۔
“اوے فکر کیوں کرتا ہے۔ ابھی سئیے دیتا ہوں “۔پیجو بے فکری سے بولا۔
“میں اب سوٹ لے کر ہی جاؤں گا۔ ابھی سی کر دو”
“ذرا صبر سے کام لے۔ مجھے دوائی کھانی ہے اور پھر سوٹ کھڑے کھڑے تو سیئے گا نہیں ۔ کوئی گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ تو کم از کم لگ ہی جائے گا”۔
“کوئی بات نہیں ۔ میں ادھر ہی بیٹھا ہوں ” اشفاق درشتگی سے بولا
“گھر مہمان آئے ہونگے ۔ تم اُن کی دیکھ بھال کرو ۔ فکر مت کرو۔ میں اب آگیا ہوں” ۔ پیجو نے دلاسا دیا
“مجھے تم پر اعتبار نہیں ۔ تم کہیں پھر نہ غائب ہو جاؤ” ۔
کافی دیر تکرار کے بعد آخر پیجو نے اشفاق کو دوگھنٹے کا وعدہ کر کے گھر بھیج دیا۔کوئی نو بجے کے قریب اشفاق سوٹ لینے آیا ۔ تو دکان بند تھی۔ پیجو کے گھر سے پتا کیا تو خبر ملی کہ وہ سو چکا ہے۔ اشفاق گلی ہی میں گالیاں بکنا شروع ہو گیا ۔ وہ اسقدر غصے میں تھا کہ پیجو کو باہر آنا ہی پڑا ۔
“کدھر ہے میرا سوٹ ۔ مجھے ابھی دو۔ تم تو کہ رہے تھے کہ گھنٹہ ڈیڑھ کا کام ہے ۔ سی دیا کیا؟۔
پیجو بڑے سکون سے بولا ۔ “کل تمہاری بارات کتنے بجے روانہ ہوگی؟”
“کیا مطلب۔ کل سے تمہیں مطلب۔ مجھے ابھی اور اسی وقت سوٹ چاہیے” ۔
“میں تھکا ہوا ہوں اور سخت نیند آئی ہے۔ سوٹ تو میں نے کاٹ کے رکھا ہے۔ صبح صبح 10منٹ میں سلائی کردوں گا۔تمہاری بارات جانی کتنے بجے ہے؟”
“پھر وہی بات ۔ مجھے ابھی سی کر دو۔ صبح ہم نے جلدی نکلنا ہے کوئی 8بجے کے قریب بارات جانی ہے۔ صبح تم دیر کردو گے۔ مجھے ابھی سی کر دو”۔ اشفاق اب لڑنے مرنے پہ آ گیا تھا۔
“دیکھو ضد نہ کرو۔ جلدی کا کام اچھا نہیں ہوتا”۔
“اسے تم جلدی کہتے ہو۔ ابھی دوکان میں چلو اور سی کر دو۔وگرنہ مجھ سے بُرا کوئی نہ ہو گا”۔ اشفاق غُصے سے غُرا رہا تھا
“دیکھو نینداور تھکاوٹ کی وجہ سے سوٹ خراب ہو جائے گا۔پھر کیا فائدہ ہو گا ۔ صبح میں تازہ دم آرام سے سی دوں گا”۔پیجو نے کمال سُکون سے جواب دیا۔
آخر اشفاق کو ہی ہار ماننا پڑی ۔ وہ اس وقت کسی اور درزی کو بھی سوٹ نہیں دے سکتا تھا ۔ صبح 6بجے کا وعدہ لے کر اُسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔اگلی صبح 7بجے بڑی مشکل سے پیجو کو خوابِ غفلت سے اُٹھایا گیا ۔ اشفاق اپنے مہمانوں سمیت موجود تھا ۔ وہ تقریباًگھسیٹتے ہوئے پیجو کو دکان تک لے کر گئے۔ 8بجے تک پیجو نے شلوار سی دی ۔ اشفاق کو شلوار تھماتے ہوئے بولا ۔
“تم حمام جاؤ ۔ نہاؤ ۔ شیو بنواؤ ۔ شلوار پہنو ۔ میں اتنی دیر میں قمیض تیار کردیتا ہو ۔ فکر مت کرو”۔
اشفاق کی عجیب حالت تھی ۔ دولہے کے علاوہ سب تیار تھے ۔ آخر اشفاق کو پیجو کی ھدایات پر عمل کرنا پڑا۔ 9بج چکے تھے ۔ دولہا حمام سے نہا دھو کر نئی شلوار اور پرانی قمیض پہن کر پیجو کی دوکان کے باہر پھر موجود تھا۔ساری بارات گلی میں موجو د تھی اور قیمض کے تیار ہونے کی منتظر ۔ اشفاق چلایا ۔ “اب کتنی دیر ہے۔ ہم پہلے ہی لیٹ ہو چکے ہیں “۔
پیجو بولا ۔” قمیض کی سلائی تو مکمل ہو چکی ہے۔ بس بٹن اور کف کالر دومنٹ میں لگ جائیں گے۔ تم ایسا کرو ۔ دربار سلام کر آؤ ۔ میں وہیں قیمض لے کر آتا ہوں” ۔
باراتیوں نے بھی پیجو کی تجویز سے اتفاق کیا اور دولہے کو لے کر دربار سلام کرنے چلے گئے جو کہ ایک پرانی روایت تھی ۔
اب کوئی 10بجے کا عمل تھا ۔ دولہا سہرا اورہار پہنے گھوڑی پر سوار بارات سمیت پیجوکی دکان کے باہر موجود تھا ۔ پیجو نے قمیض کے سامنے کے بٹن تو لگا دیئے تھے مگر کالر ابھی تک نہیں لگایا تھا۔
“اب کیا دیر ہے”
“کالر کے لئے بکرم نہیں ہے۔ بازار سے منگوانا پڑے گا۔اور بٹن بھی کم ہیں بازوؤں کے کف پر لگانے ہیں ۔دیر ہو جائے گی تم ایسے ہی پہن لو”۔
“تمہارا دماغ خراب ہے۔ بغیر کالر اور کھلی آسین کے کیسے قمیض پہن لوں “۔ اشفاق تقریباً رو دیا۔
“کالر کا کیا ہے یہ تو ہار میں چھپ جائے گا۔ اور رہے بازو تو میں ٹانکا لگا دیتا ہوں ۔ اگر نہیں منظور تو میں بازار سے چیزیں لے آتا ہوں مگر تھوڑی دیر ہو جائے گی “۔ کوہ ہمالیہ جتنا سکون تھا پیجو کے لہجے میں۔
ناچا ر قمیض ایسے ہی بغیر کالر کے اور بغیر آستن کے بٹنو ںکے پہننی پڑی ۔ جب اشفاق نے سائیڈ جیب میں ہاتھ ڈالا تو جیب کا سوراخ تو تھا مگر جیب لگائی ہی نہیں گئی تھی۔ پیجو نے بڑے اطمینان سے دلیل پیش کی کہ اس کا بڑا فائدہ ہے۔ دولھا کی جیب ہونی ہی نہیں چاہئے ۔ رش کی وجہ سے کٹنے کا خطرہ نہیں رہتا۔
پیجو آجکل ریپبلک آف چک جھمرہ میں اعلی حکومتی عہدیدار ہے۔ جس کے پاس لوگوں کو مطمئن کرنے کے لئے بڑا سکون ہو۔ حکومت سب کچھ تو دے رہی ہے مثلاََ جِس ماڈل کی گاڑی چاہئے مارکیٹ میں موجود ہے ،انٹرنیشنل میعار کے 5 سٹار ہوٹل اور شاپنگ مال جگہ جگہ موجود ہیں۔لوگ جائیں اور انجوائے کریں۔مارکیٹیں بھری پڑی ہیں اجناس سے، پھلوں سے۔ اب لوگوں کی قوتِ خرید نہیں تو حکومت کا کیا قصور۔بلا وجہ بچے پیدا کیے جائیں تو قصور کس کا۔ اِسی لیے تو پیجو جیسے حکومتی ترجمان ہیں جو لوگوں کو مسلسل سمجھا رہے ہیں کہ چینی صحت کے لیے مضِر ہے، زیادہ روٹیاں کھانا بھی اچھا نہیں۔ٹرانسپورٹ نہیں ہے تو پیدل چلو صحت بہتر ہو گی۔ اور قمیض کی جیب تو ہونی ہی نہیں چاہئے، کٹنے کا خطرہ رہتا ہے۔