مصحف

قسط نمبر 42 ۔“ایک …………..”
لمحہ بھر کو اس کا دل کانپا’اگر وہ گولی چلا دے تو محمل مر جائے گی ‘پھر وہ بھلے ہمایوں کو بلا لے یا کوٹ کچہری میں گواہیاں دیتی پھرے ‘اس کی بہن واپس نہیں آ سکے گی _
“دو ………”
بھلے فواد کو پھانسی ہو جائے اور وہ سار ی جائیداد کی مالک بن جائے اس کی بہن واپس نہیں آے گی _
“تین ……..”
“رکو !میں سائن کر دوں گی _”وہ شکست خوردہ لہجے میں بولی ‘لیکن آپ کو محمل کی شادی اسی وقت وہاں کروانا ہو گی جہاں میں کہوں گی’اور اس میں نہ صرف آپ بلکہ اپ کا سارا خاندان شریک ہو گا _محمل اسی گھر سے رخصت ہو گی _”
“منظور ہے “فواد جھٹ بولا تھا _محمل پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی ‘فرشتے کیا کہنا چاہ رہی ہے ‘وہ نہیں سمجھ پا ی تھی ‘پھر اس نے حسن کو دیکھا جو اسی طرح بےبس کھڑا تھا ‘فضہ نے اس کا بازو تھام رکھا تھا ‘بے بس اور کمزور مرد ‘وہ جو اتنے دعوے کرتا تھا سب بیکار گئے _
“ٹھیک ہے پھر نکاح خواں کو بلایئے ‘میں ہمایوں کو بلاتی ہوں ‘”اس نے جھک کر میز پہ رکھا موبائل اٹھایا _
“ہمایوں؟ ہمایوں داؤد “فواد کو گویا کرنٹ لگا تھا _جی وہی’فرشتے تلخی سے مسکرا کر سیدھی ہوئی ‘بولیے اب آپ کو یہ معائدہ قبول ہے ؟”
ہمایوں داؤد “وہ اے ا یس پی ؟”
“وہ پولیس والا؟”
نہیں ہر گز نہیں “بہت سی حیران غصیلی نگاہیں ابھری تھیں جن میں سب سے بلند آغا جان کی تھی _
“وہ شخص اس گھر میں قدم نہیں رکھ سکتا ‘جس نے میرے بیٹے کو جیل بھجوایا تھا ‘تمھیں دستخط نہیں کرنا تو نہ کرو ‘مگر میں محمل کی شادی کبھی اس سے نہیں کروں گا _
“میں آپ سے بات نہی کر رہی کریم چچا ‘!میں یہ معائدہ فواد کے ساتھ کر رہی ہوں ان ہی کو بولنے دیجئے نا_”
“مگر………..”
نہیں آغا جان !کوئی مسئلہ نہیں ہے آپ بلائیں اس کو _ہمیں قبول ہے “وہ اب سنبھل چکا تھا چہرے کی مسکراہٹ واپس آ چکی تھی _
مگر فواد یہ کل کو مکر گئی تو ؟آغا جان نے پریشانی سے سے اس کا شانہ پکڑ کر اپنی جانب کیا _
یہ تو ما شاء الله مسل۔۔۔۔۔مان ہیں _یہ وعدے سے نہیں پھریں گی ‘مسلمان کو توڑکر کہتے ہوے اس نے استہزایہ مسکراہٹ فرشتے کی جانب اچھالی _وہ لب بھینچے تنفر سے اسے دیکھتی رہی _
ٹھیک ہے آپ بلاییں اپنے کزن کو ،فنکشن تو آج ہونا ہونا ہی ہے _اسد اب تک نکاح خواں کا بندوبست کر چکا ہو گا _غفران چچا مصروف سے لہجے میں کہتے دروازے کی طرف بڑھ گئے _ان کی جیسےجان چھوٹ گی تھی _فضہ سے بھی اپنا اطمینان اور خوشی چھپانی مشکل ہو رہی تھی _ان دونوں کو گویا اپنا بیٹا واپس مل گیا تھا پھر بھی وہ حسن کا بازو مضبوطی سے تھامے کھڑی تھیں _مگر اب وہ شاید رسی تڑ ا کر بھاگنے کے قابل نہ رہا تھا اس کا تو آسرا ہی ختم ہو گیا تھا _آؤ اندر چلو ‘فرشتے نے تھکے تھکے انداز میں محمل کا ہاتھ پکڑا اور اسے لئے اندر اس کے کمرے کی طرف بڑھ گئی _سب گردن موڑ کے انہیں جاتا دیکھتے لگے تھے _پورے گھر میں عجیب سے خاموشی دوڑ گئی تھی _
وہ سب کسی خواب کی سی کفیت میں ہوا تھا _شاید وہ ایک حسین خواب ہی تھا جس کی تعبیر کی اسے بہت بھاری قیمت چکانی پڑی تھی _بہت سا رے خواب توڑنے پڑے تھے ‘مگر اسے اس وقت وہی صحيح لگا تھا _یہ نہ کرتی تو وہ لوگ اسے خاندان بھر میں بدنام کر دیتے _اس کے مرحوم باپ کا نام اچھالا جاتا یا پھر سب سے بری وجہ وہ تھی ‘جو فواد کو بھی معلوم تھی اور جس کو اس نے استعمال کیا تھا _محمل کی دکهتی رگ ‘کہ اس کا خاندان اس کو عزت سے بیاہ دے _اسے دولت سے زیادہ اپنا مقام اور عزت چاہیئے تھی اور فواد نے اسی دکھتی رگ کو ایسے دبایا تھا کے اس کا دل تڑپ اٹھا تھا _وہ فیصلہ جذباتی تھا مگر اسے صحيح لگا تھا _
پھر جو بھی ہوا جسے نیند کی حالت میں ہوا _فرشتے اس کا چہرہ کلینر سے صاف کر کے بیوٹی شن کے ساتھ اس کا دوپٹہ سیٹ کر رہی تھی ‘پھر وہ تائی مہتاب کے زیور اتار کر اس کی ماں کے زیور پہنا رہی تھی ‘پھر وہ اس کا میک اپ کر رہی تھی ‘پھر وہ اس کے سینڈل کے اسٹریپ بند کر رہی تھی ‘پھر وہ مسکراتے ہوۓ کچھ کہہ رہی تھی اور پھر وہ بہت کچھ کر رہی تھی ‘مگر اسے آواز نہیں آ رہی تھی _سا ری آوازیں بند ہو گئیں تھیں سا رے منظر دھندلا گئے تھے ‘بس وہ اپنے ہاتھوں کو دیکھتی بت بنی بیٹھی تھی _
وہ حسین خواب تھا مگر اس کا دل خالی تھا سا رے جذبات گویا مر سے گئے تھے _خواہش کے جگنو کھو سے گئے تھے_
یا شاید ہمیں خوشی سے محبّت نہیں ہوتی ‘خوشی کی “خواہش ” سے محبّت ہوتی ہے ہماری ساری محببتیں خواہشات سے ہوتی ہیں ‘کبھی کسی کو پانے کی تمنا کبھی کسی خاص چیز کو حاصل کرنے کی آرزو _شاید محبّت صرف خواہش سے ہوتی ہے چیزوں یا لوگوں سے نہیں _
اس نے اپنی خواہش کو پہلو میں بیٹھتے دیکھا ‘مگر اس کا اپنا سر جھکا ہوا تھا ‘سو زیادہ دیکھ نہ پائی اور اسی جھکے سر کے ساتھ نکاح نامے پہ دستخط کرتی گئی ،کرتی گئی کرتی گئی _
جب اس کا ہاتھ تھام کر فرشتے اٹھا رہی تھی تو اس نے لمحے بھر کو اس کو دیکھا ‘جو سامنے لب بھینچے کھڑا تھا _براؤن شلوار کرتے میں ‘سنجیدہ اور وجیہ اس نے نگاہیں جھکا لی اسے اس کی سنجیدگی سے خوف آیا تھا _کیا وہ اس پہ مسلط کی گئی تھی ؟ان چاہی بے وقعت بیوی ؟
اس نے بے عزتی اور توہین محسوس کرنا چاہی مگر دل اتنا خالی تھا کہ کوئی احساس بیدار نہ ہوا _
ارد گرد لوگ بہت کچھ کہہ رہے تھے مگر اس کی سماعتیں بند ہو گئی تھیں _وہ سر جھکاۓ ہمایوں کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ بیٹھ گئی اسے لگا اب زندگی کھٹن ہو گئ، بہت کھٹن _
وہ اس جہازی سائز بیڈ کے وسط میں سر گھٹنوں پے رکھے گم سم سی بیٹھی تھی _فرشتے کچھ دیر ہوئی اسے یہاں بیٹھا خود جانے کہاں چلی گئی تھی اور ہمایوں کو تو اس نے گا ڑی سے نکل کے دیکھا ہی نہیں تھا وہ تیزی سے اندر چلا گیا تھا اور پھر سامنے نہیں آیا تھا _
اس کے دل میں عجیب عجیب سے خیال آ رہے تھے وہ بار بار آعوذ باللہ پڑھتی مگر وسوسے اور وھم ستانے لگے تھے ‘شاید وہ اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا ‘اب شاید اس کے پاس نہیں آۓ گا شاید کبھی بھی بات تک نہ کرے ‘شاید وہ اسے چھوڑ دے شاید وہ شاید…… وہ …
بہت شاید تھے جن کے آگے سوالیہ نشان لگے تھے ‘بار بار شاید اس کے ذهن کے پردے پہ ابھرتے اور اس کا دل ڈوبنے لگتا وہ مایوس ہونے لگی تھی جب دروازہ کھلا _
بے اختیار سب کچھ بھلا کر وہ سر اٹھاۓ دیکھنے لگی _
وہ اندر داخل ہو رہا تھا _اس کا دل دھڑکنا بھول گیا تھا _جانے اب وہ کیا کرے ؟
؟وہ دروازہ بند کر کے اس کی طرف پلٹا ‘پھر اسے يوں بیٹھے دیکھ کے مسکرایا _
السلام علیکم ‘کیسی ہو ؟_آگے بڑھ کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل کی دراز کھولی وہ خاموشی سے کچھ کہے بنا اسے دیکھے گئی _وہ اب دراز میں چیزیں الٹ پلٹ رہا تھا _
“تم تھک گئی ہو گی ‘اتنے بڑے ٹروما سے گزری ہو ‘پریشان مت ہونا سب ٹھیک ہو جائے گا وہ اب نچلے دراز میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا لہجہ متوازن تھا اور الفاظ……..الفاظ پہ تو اس نے غور ہی نہیں کیا تھا وہ بس اس کے ہاتھوں کو دیکھ رہی تھی جو دراز میں ادهر ادهر حرکت کرتے ایک دم رکے تھے اور پھر اس میں اس نے ایک میگزین پکڑے دیکھا (کیا اس میں گولیاں بھی ہیں ؟کیا یہ مجھے مار دے گا)وہ عجیب سی باتیں سوچ رہی تھی وہ ميگزین نکال کر سیدها ہوا ‘
سوری محمل !ہمیں سب بہت جلدی میں کرنا پڑا اور میں جانتا ہوں تم اس سب کے لئے تیار نہیں تھی۔
وہ کہ رہا تھا اور وہ سانس روکے اس کے ہاتھ میں پکڑے میگزیں کو دیکھ رہی تھی ‘میں ابھی آن ڈیوٹی ہوں ۔ ریڈ کے لئے کہیں جانا ہے رات فرشتے تمہارے ساتھ رک جائے گی میں پرسوں تک واپس لوٹ آؤں گا پریشان مت ہونا _”
وہ خالی نگاہوں سے اسے دیکھے گئی ‘عجیب شادی ‘عجیب دلہن ‘اور عجیب دولہا، اسے اس کی باتیں بہت عجیب لگی تھی _
” تم سن رہی ہو نا؟” وہ اس کے سامنے بیڈ پہ بیٹها بغور اس کی آنکهوں میں دیکھ رہا تها- وہ ذرا سی چونکی-
” ہوں، جی جی-” بےساختہ نگاہیں جهکا لیں-
پهر پتا نہیں وہ کیا کیا کہتا رہا ، محمل نظریں نیچی کئے سنتی رہی- الفاظ اس کے کانوں سے ٹکرا کر گویا واپس پلٹ رہے تهے- کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تها وہ کب خاموش ہوا، کب اٹھ کر چلا گیا؟ اسے تب ہوش آیا جب پورچ سے گاڑی نکلنے کی آواز آئی-
اس نے ویران نظروں سے کمرے کو دیکها- یہی وہ کمرہ تها جس میں ہمایوں نے کبهی اسے بند کیا تها- تب وہ سیاہ ساڑهی میں ملبوس تهی-
آج اس نے سرخ شلوار قمہص پہن رکهی تهی- عروسی جوڑا، عروسی زیورات- وہ دلہن تهی اور پتا نہیں کیسی دلہن تهی- اس نے تو سوچا بهی نہ تها کہ وہ اس کمرے میں یوں کبهی ہمایوں کی دلہن بن کر آئے گی- ہاں فواد کے خواب دیکهے تهے اس نے، مگر وہ اس کے دل کا ایک چهپا ہوا راز تها ، جس کی خبر شاید خود فواد کو بهی نہ تهی-
اس نے تهک کر سر بیڈ کراون سے ٹکا دیا اور آنکهیں موند لیں- اس کا دل اداس تها ، روح بوجهل تهی- اب اسے راحت چاہیئے تهی، سکون چاہئے تها، اپنے خاندام والوں کی قید سے نکلنے کے احساس کو محسوس کرنے کئ حس چاہیئےتهی- اسے غم سے نجات چاہیئے تهی- اس نے ہولے سے لبوں کو حرکت دی اور آنکهیں موندے دهیمی آواز میں دعا مانگنے لگی-
” یا اللہ، میں آپکی بندی ہوں اور آپ کے بندے کی بیٹی ہوں اور آپ کی بندی کی بیٹی ہوں- میری پریشانی آپ کے قابو میں ہے، میرے حق میں آپکا حکم جاری ہے، آپکا فیصلہ میرے بارے میں انصاف پہ مبنی ہے- میں آپ سے سوال کرتی ہوں آپ کے ہر اس نام کے واسطے سے جو آپ نے اپنے لیے پسند کیا یا اپنی کتاب میں اتارا، یا اپنی مخلوق سے کسی کو سکهایا یا اپنے علم غیب میں آپ نے اس کو اختیار کر رکها ہے، اس بات کو کہ آپ قرآن عظیم کو میرے دل کی بہار اور میری آنکهوں کا نور بنا دیں اور میرے فکر اور غم کو لے جانے کا ذریعہ بنا دیں-”
وہ دعا کے الفاظ بار بار دہراتی گئی- یہاں تک کہ دل میں سکون اتر گیا، اس کی آنکهیں بوجهل ہو گئیں اور وہ نیند میں ڈوب گئی-
دو دن فرشتے اس کے ساتھ رہی- ان دو دنوں میں انہوں نے بہت سی باتیں کیں، سوائے اس شام کے ڈرامے کے- وہ ایسا موضوع تها کہ دونوں ہی خاموش معاہدے کے تحت اس سے احتراز برت رہی تهیں-
فرشتے نے اسے بہت کچھ بتایا- ابا کے بارے میں، اپنی ماں کے بارے میں، ہمایوں کی امی کے بارے میں، اپنی زندگی، گهر اور پرانی یادوں کے بارے میں- وہ دونوں چائے کے مگ تهامے گهنٹوں لان میں بیٹهی باتیں کرتی رہتیں، چائے ٹهنڈی ہو جاتی، شام ڈهل جاتی مگر ان دونوں کی باتیں ختم نہ ہوتیں-
” پتا ہے محمل، ادهر لان میں…..” وہ دونوں برآمدے کے سیڑهیوں پہ بیٹهی تهیں، چائے کے مگ ہاتھ میں تهے، تب فرشتے نے بازو لمبا کر کے انگلی سے سامنے کی طرف اشارہ کیا- ” وہاں ایک جهولا تها، بالکل کونے میں -”
محمل گردن موڑ کر اس کونے مین دیکهنے لگی- جہاں اب صرف گهاس اور کیاریاں تهیں-
” ہم بچپن میں اس جهولے پہ بہت کهیلتے تهے اور اس کے اس طرف طوطوں کا پنجرہ تها- ایک طوطا میرا تها اور ایک ہمایوں کا- اگر میرا طوطا اسکی ڈالی گئ چوری کها لیتا تو ہمایوں بہت لڑتا تها- وہ ہمیشہ سے ہی اتنا غصے والا تها، مگر غصہ ٹهنڈا ہو جائے تو اس سے بڑھ کر لونگ اور کئیرنگ بهی کوئی نہیں ہے-”
محمل مدهم مسکراہٹ لیے سر جهکائے سن رہی تهی-
” جب میں بارہ سال کی ہوئی تو ابا نے مجهے سے پوچها کہ میں ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں یا اماں کے ساتھ؟ میں وقتی طور پہ ابا کے ساتھ جانے کے لیے راضی ہو گئی، مگر اس دن ہمایوں مجھ سے بہت لڑا- اس نے اتنا ہنگامہ مچایا کہ میں نے فیصلہ بدل دیا-” چائے کا مگ اس کے دونوں ہاتهوں میں تها اور وہ دور کہیں کهوئی ہوئی تهی-
” پهر جب ہم بڑے ہوئے اور میں نے قرآن پڑها تو ہمایومجھ سے ذرا دور رہنے لگی- وہ خود بهی سمجهدار تها مجهے زیادہ آزمائش میں نہیں ڈالتا تها- پهر میری اماں کی ڈیته ہوئی تو……..”
دفعتا” گاڑی کا ہارن بجا- وہ دونوں چونک کر اس طرف دیکهنے لگیں- اگلے ہی لمحے گیٹ کهلا اوت سیاہ گاڑی زن سے آندر داخل ہوئی-
” چلو تمہارا میاں آگیا، تم اپنا گهر سنبهالو، میں اپنا سامان پیک کر لوں-”
محمل متذبذب سی بیٹهی رہ گئی- وہ گاڑی سے نکل کر اس کی طرف آ رہا تها- یونیفارم میں ملبوس، کیپ ہاتھ میں لیے تها تهکا سا- اسے دیکھ کر مسکرا دیا-
” تو تم میرے انتظار میں بیٹهی ہو، ؟” وہ مسکرا کر کہتا اس کے سامنے آ کهڑا ہوا تو وہ گڑ بڑا کر کهڑی ہوئی- گلابی شلوار قمیص پہ بهورے بالوں کی اونچی پونی ٹیل بنائے وہ اداس شام کا حصہ لگ رہی تهی-
“وہ میں……”
” کہہ دو کہ تم میرا انتظار نہیں کر رہی تهیں-”
” نہیں- وہ….. چائے لاؤں ؟”
” اونہوں، یہی کافی ہے-” اس نے محمل کے ہاتھ سے مگ لیا- ایک گهونٹ بهرا اور مگ لیے دروازے کی طرف بڑھ گیا- پهر جاتے جاتے پلٹا-” فرشتے ہے؟”
” جی، وہ اندر ہیں-”
” اوکے، میں شاور لے کر کهانا کهاؤنگا، تم ٹیبل لگا دو-” وہ کہہ کر دروازہ کهول کر اندر چلا گیا-

جاری ہے……..!

اپنا تبصرہ لکھیں