گل بخشالوی
رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں محمد آباد کے باسیوں نے ماہِ مبارک کے احترام میں بھرپور مذہبی جوش وخروش کا مظاہرہ کیا موسم بھی خوب تھا سردی تھی بڑوں کیساتھ بچوں نے بھی روزے رکھے نماز مغرب سے کچھ دیر قبل گاﺅں کی واحد مسجد میں سبھی آجاتے ان کے ہاتھوں میں اپنی افطاری کیلئے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا کھجور ہر آدمی کی قوت ِخرید سے باہر ہے اس لےے جب کوئی صاحب زر کھجور لاتا تو دوسرے روزہ دار بھی کھجور سے روزہ افطار کرنے کا ثواب حاصل کرلیتے مغرب کے وقت روزہ دار مسجد میں افطاری کیلئے بیٹھے ہوئے ایسے لگتے جیسے ایک ہی خاندان کے افراد ہوں ۔
محمد آباد شہر سے دور اطراف کی پہاڑیوں میں ایک خوبصورت وادی ہے اس کی آبادی بہت زیادہ تونہیں لیکن جتنی بھی ہے خوب ہے گاﺅں میں نہ کوئی وڈیرہ ہے نہ ہاری ،بس سب اللہ ہی کے بندے ہیں گاﺅں میں نہ تو بجلی ہے اور نہ سکول ،ہسپتال تو دور کی بات ہے گاﺅں سے شہر تک پکی سڑک بھی نہیں کئی ایک بنیادی ضرورتیں نہ ہونے کے باوجو د بھی محمد آباد کے باسی اپنے حال میں خوشحال ہیں ۔
گاﺅں میں اپنی مدد آپ کے تحت بنوائی گئی پکی مسجد محمد آباد میں مذہب سے محبت اور محمد آباد کے باسیوں کی شان ہے ۔مسجد کے قریب برگد کا ایک پرانا درخت ہے جس کے سائے میں بچوں کا سکول ہے سردیوں میں تو کھلے آسمان کے نیچے بچے برگد کے نیچے چھٹی تک ایک جگہ بیٹھ کر پڑھتے ہیں البتہ گرمیوں میں سکول برگد کے سائے کیساتھ ساتھ گردش میں رہتا ہے اور اگر بارش ہوتوبچے یا تو گھروں کو چلے جاتے ہیں یامسجد میں پڑھ لیا کرتے ہیں ۔گاﺅں میں پانچویں جماعت تک تعلیم ہے مڈل سکول محمد آباد سے کچھ فاصلے پر غریب آباد میں ہے پانچویں جماعت تک تعلیم کے بعد بچے غریب آباد میں مڈل سکول میں داخلہ لے لیا کرتے ہیں ۔
خدا کا دیا محمد آباد میں سب کچھ ہے وہی کھاتے ہیں جو اُگاتے ہیں ۔گاﺅں اور شہر کے درمیان ایک پرانی ویگن ہے جو اس گاﺅں کی واحد سواری ہے فجر سے پہلے گاﺅں کے دکاندار ویگن میں شہر جاتے ہیں اور منڈی سے روز مرہ ضروریات کی اشیاءلے آیا کرتے ہیں ۔خوبصورت وشاداب گاﺅں کے خوب سیرت لوگ آپس میں ایک خاندان کی سی زندگی سے سرفراز ہیں دین مصطفےٰﷺ سے محبت ان کے روشن چہروں کا جمال ہے
یہ ہے محمد آباد کی قابل رشک معاشرتی زندگی درحقیقت محمد آباد کا دوسرا نام محبت آباد ہے
افطاری اور نماز مغرب کے بعد امام مسجد گلفراز خان نے اعلان کیا شکر الحمد للہ ہم رمضان المبارک کے بابرکت ایام میں روزہ رکھنے کی محبت سے سرفراز ہوئے آج ہم ماہِ مبارک کو الوداع کہیں گے اس دعا کےساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہماری عبادت قبول فرمائے ۔عید الفطر کا چاند نظر آگیا ہے انشاءاللہ العزیز کل صبح 8بجے نماز ِعید ادا کی جائے گی ۔
ماسٹر گل محمد جو محمد آباد کے پرائمری سکول کے ہیڈ ماسٹر ہیں کہنے لگے محمد آباد کی معاشرتی اور مذہبی زندگی قابل رشک ہے گاﺅں کا بچہ بھی جانتا ہے کہ کس گھر میں کتنے لوگ ہیں اور ان کے نام کیا ہیں ۔اس گاﺅں کے لوگ نہ تو سیاسی مزدور ہیں اور نہ ہی بدیسی فقیر ،گاﺅں میں نہ کوئی موچی ہے ،نہ نائی ،نہ دھوبی اور نہ کمی کمین ،نہ کوئی زردار ہے نہ کوئی وڈیرا ،ہم لوگ خدا کی مخلوق ہیں صرف اُسی کے بندے ہیں ،ہماری شان اُس بچے کی سی ہے جو ماں کی گود میں انسان کے روپ میں جنم لیتا ہے وہ اُس وقت صرف انسان ہوتا ہے ۔
عید کی صبح محمد آباد میں رونق قابل دید تھی صبح سویرے گاﺅں کے مرد اور عورتیں محمد آباد کے قبرستان میں اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضر تھیں یہ ہم مسلمان قوم کی شان اور پہچان ہے اپنی مذہبی خوشیوں میں ہم اپنے گزرے ہوئے پیاروں کو بھی اپنے ساتھ شریک کرلیتے ہیں ۔گاﺅں کے لوگ اپنے پیارے بچوں کیساتھ مسجد کی طرف آنے لگے خواتین گھروں میںعیدین کے کھانے تیار کرنے لگیں خوش ذائقہ کھانوں کی خوشبو سے گاﺅں کی فضا میں ذائقے رقصاں تھے ۔پاک شفاف کپڑے پہنے گلاب صورت چہروں پر سجائے محمد آباد کی معصوم بیٹیاں گلیوں میں دوڑنے لگی تھیں خوشی اور مسرت نے عید کی خوشی کو چارچاند لگادئےے تھے ۔نماز ِعید کےلئے امام مسجد ممبر رسول ﷺپر تشریف فرماہوئے ۔میں مسجد کے آخری کونے میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا مسجد میںآنے والے ہر فرد پر میری نظر تھی گاﺅں کے چھوٹے بڑے پاکیزہ اُجلے لباس میں آرہے تھے امام مسجد عیدکا خطبہ دینے لگے ۔میں دیکھ رہا تھا کہ ایک چادر پوش مسجد میں داخل ہوا چہرہ ناشناس سا تھا میرے ساتھ کئی ایک دوسروں کی نگاہ نے بھی اُس کے سروپاکا جائزہ لیا شاید کسی کا کوئی مہمان ہوگا وہ شخص امام مسجد کے سامنے دوسری صف میں بیٹھ گیا مولوی صاحب دین مصطفےٰﷺ کے اوصاف بیان کررہے تھے نمازی چہروں پر مذہبی رنگ سجائے خاموشی سے مولوی صاحب کو سن رہے تھے ۔
امام مسجد نے کہا فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺنے مکہ کے گھبرائے ہوئے باسیوں سے فرمایا ۔اے لوگو!آج وہ شخص جو ابوسفیان کے گھر یا خانہ خدا میں پناہ لے گا وہ محفوظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کیساتھ ہی مسجد میں دھماکہ ہوا چند لمحے پہلے کا خوبصورت منظر خون میں نہا گیا گلنار جسموں کے ٹکڑے مسجد کی چھت سے ٹکرائے اور دھڑام سے فرش پر گرے میں خود سے بے خبر یہ خونی منظر دیکھ رہا تھا ۔چیخ وپکار سے محمد آباد کی فضا لرز اُٹھی ۔چند لمحے پہلے ہنستے مسکراتے لوگ خون میں تڑپتے سردہوتے رہے وجود بکھرے پڑے تھے ،زخمی تڑپ رہے تھے ،مسجد کا ہال اور صحن خون کا تالاب تھے گاﺅں کی خواتین اپنے پیاروں کے خون میں کھڑی ماتم کر رہی تھیں۔چند لمحے قبل کی خوبصورت مسکراتی زندگی موت کے رقص میں رقصاں تھی،کچھ دیر تک تو میرے حواس نے میرا ساتھ دیا میںدیکھتا رہا ،پھر کیا ہوا میں نہیں دیکھ پایا میرے ہوش نے میرا ساتھ نہیں دیا اور اب جب ہوش آیا تو ہسپتال میں دونوں ٹانگوں سے محروم آپ کے سامنے ہوں ۔
ماسٹر گل محمدکہنے لگے ایسے مناظر کی منظر کشی کی چنداں ضرورت نہیں اس لےے کہ ایسے مناظر وطن عزیز میں آئے روز دیکھتی آنکھوں میں دیکھے جارہے ہیں یہ آئے روز کا ظلم ہے جو ہم پوری قوم پر ہورہا ہے اب ہمارے لےے یہ کوئی نئی بات نہیں مساجد ،بازاروں ،جنازہ گاہوں ،تعلیمی اداروں میں دہشت گردی کا کھیل جاری ہے ۔مسلمان ہی مسلمان کا خون بہارہا ہے محمد آباد کے باسیوں کیساتھ ایسا کیوں ہوا اس سوال کا جواب ہے کسی کے پاس ،ہم معصوم لوگوں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ہم تو اُمت ِمصطفےٰﷺ کے فقیر ہیں دین مصطفےٰﷺ سے باہر زندگی کا تصور تک نہیں کرسکتے ۔ظالموں نے محبتوں میں آبا دبستی کے خوبصورت گل شہید کر دئےے۔محبتوں کے چراغ گل ہوگئے یہ کون سے دین کی پرچار کر رہے ہیں کس قوم کی عظمت کیلئے جہاد کی آڑ میں دہشت گر ی کا راج ہے، ۔میری نظر میں تو یہ لوگ مسلمان نہیں کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں یہ مسلمان نہیں بہروپئے مغربی کاسہ لیس شیطان ہیں ،ضمیر فروش ہیں،وطن فروش ،وطن دشمن ہیں ،دین مصطفےٰﷺ کے منکر ہیں ،کہتے ہیں یہ نظام اسلام اور نفاذ شریعت کی لڑائی ہے اگر واقعی ایسا ہے تو کیا محمد آباد کے باسی یہودی ہیں کیا ہم ہندو ہیں ہم تودین مصطفےٰﷺ کے پروانے ہیں اللہ ہی کے گھر میں اللہ ہی کو سجدہ کرنے آئے تھے ہم تو سجدئہ عبادت کیلئے آئے تھے ۔
میں آپ کے سامنے ہوں میری دونوں ٹانگیں کٹ چکی ہیں ۔رینگنے کیلے دھڑباقی ہے ماسٹر گل محمد ہسپتال میں سانحہ محمد آباد میں ظلم وبربریت پر اپنا درد
بیان کر رہے تھے اور میں اخبارنویس سوچ رہا تھاکیا سوچ رہا تھا یہ سوچنے کی کوشش کر رہا ت
ALLAH Aise halaat se bachae