„ آبو ، امّی ، بھیا ، بھابھی آپ لوگ کہاں ہیں ۰ آئیں دیکھیں تو؟
میری کہانی آج کے اخبارشائع ہوئ ہے۰ چھپ گیا ۰میں واقعی چھپ گیا”وہ خوشی سے پاگل ہوا جارہا .
آج اس کی دیرینہ آرزو پوری ہوئ تھی . شروع میں اپنے افسانے دوستوں کو سنائے تو انھوں نےاسے فیس بک پوسٹ کرنے کی صلاح دی . دوستوں کی تعداد کم تھی تو لائک کر نےکےلالے پڑنے لگے.وہ بڑے ادیبوں کو ٹیگ کرنےسےلگا۰ ایک دن اپنی اس حرکت پر ایک بزرگ ادیب سےاتنی صلواتیں سننی پڑیں کہ ہوش ٹھکانے آگئے. دوستوں کو ان کے میسیج باکس میں لائک کی درخواست کے ساتھ پوسٹنگ شروع کرنےلگا،ان کی ٹائم لائن پرپوسٹ کرنےلگا.کچھ نے تو مروّتا”سراہا ، کچھ نےاسے بلاک کردیا لیکن کچھ نےاچھے اچھے افسانوں کو فیس بکیا ٹائیٹل دے ڈالا.مدتوں پا بندی سے اخبار ورسالوں کے مدیروں کے دروں پرجبیں سائ کرکے مایوس ہوچکا تھا ۰
اور آج سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہو گیا.
وفورجذبات سے مغلوب ہوکراس نے فون اٹھایااور ان گنت لوگوں کو یہ خوش خبری سنا ڈالی.
پھر اسی عالم شوق میں اس نےدنیائے افسانہ نگاری کی ایک نامور ہستی کوبھی کال کرلی ۰
„ ہاں اچھا تو ہوا لیکن اخبار تو زیادہ تر پر چون کی دکانوں پر پڑیا باندھنے کے ہی کام آتے ہیں“۰انھوں نے انتہائ روکھے لہجہ میں کہا۰
„ لیکن سر ! کچھ تو آفس ریکارڈ کے لئے بھی ضرور رکھے جاتے ہونگے“. بے اختیارانہ اس کی زبان سے نکل گیا
وہ سوچتا رہا کہ واقعی کیا ادبی دنیا میں نوآموز تخلیق کاروں کے ساتھ استادوں کاایسا معاندانہ روّیہ کسی فن کی ترقّی و بقا میں معاون ہوسکتا ہے؟
رضیہ کاظمی