اُردو کی کہانی اُردو کی زبانی ‎

محمد سلیمان دھلوی.

بانی صدر انڈو قطر اردو مرکز (دوحہ دِلّی(

اُردو کی کہانی اُردو کی زبانی

میں اردو ہوں، میری داستانِ حیات اتنی طویل نہیں کہ اسکو پڑھنے اور سمجھنے میں کسی کو دیر لگے ، کیونکہ میں بڑی آزاد مزاج اور ملنسار واقع ہوئی ہوں اس لئے جو مجھے اپناتا ہے اس کی ہوکر رہ جاتی ہوں جو مجھے پناہ دیتا ہے اس سے محبت کرتی ہوں جو مجھے پڑھتا ہے اسے آگاہی بخشتی ہوں جو مجھے سمجھتا ہے اسے رازِ حیات بتاتی ہوں، میرا کہیں قیام نہیںمیری کوئی سرحد نہیں ہر قوم سے میری دوستی ہے ہر ملّت سے میرا ناتا ہے انسانیت میرا مذہب ہے مٹھاس میری سرشت ہے اتحاد میری کوشش ہے یگانگت میرا نعرہ ہے.

میرا دامن عربی کی طلاقت، جامعیت اور قادر الکلامی سے ، فارسی کی شیرینی اور حلاوت سے ، ہندی کے پیار اور اپنایت سے ، ترکی کی وسیع القلبی اور انگریزی، فرانسیسی و ہسپانوی جیسی عالمی زبانوں کی اصطلاحات اور الفاظ سے بھرا پڑا ہے.

میری طرف سے بے توجہی برتنے والے بھی میری توجہ کے محتاج رہتے ہیں ، مجھے جاننے والے میرے ہوکر اور چاہنے والے میرے بن کر رہ جاتے ہیں، میں جنگ کے میدانوں میں ترانہ بن کر کر گونجتی ہوں، امن کے دور میں نغمہ بن کر گنگناتی ہوں، عوامی جلسوں کو رونق اور خواص کی محفلوں کو اعتماد عطا کرتی ہوں، اجنتا اورالوارا پر لکھے ہوئے گیتوں اور تاج محل پر لکھی جانے والی پاکیزہ نظموں کو میں نے جنم دیا ہے ، آزادی کے متوالوں کو نعرے دیئے ہیں امن کے نقیبوں کو پروان چڑھایا ہے ، ہندو میرے گیت اور مسلمان میرے گُن گاتے ہیں ، سکھ مجھے دہراتے ہیں، عیسائی مجھے اپناتے ہیں اور جینی مجھے سراہتے ہیں.

جی ہاں میں اردو ہوں وہی اردو جس نے دِلّی میں چھٹپن و لڑکپن گذارا اسی شہر کی پُر پیچ گلیوں و بازاروں میں چلنا و سنبھلنا سیکھا ، یہیں کے چوراہوں، باغوں ، مرغزاروں اور میدانوں میں گھوم پھرکے ہوش سنبھالا ، جامع مسجد کی سیڑھیوں پر پروان چڑھی، قلعہ معلی میں ادب و آداب سیکھے ، علماء و صوفیا کی محفلوں میں اخلاقیات کا درس لیا ، امراء و حکماء کے دیوان خانوں میں تہذیب و تمدن سے آگاہی حاصل کی ، اسی شہر ِ اماں میں انگریزوں نے مجھے ملک کے انتظامی امور کا ذریعہ بنایا تو اپنے تابناک مستقبل کا احساس ہوا ، لکھنئو کی علمی و ادبی محفلوں میں بننا سنورنا سیکھا، حیدر آباد کے ایوانہائے علم و ادب سے سیراب و سرفراز ہوئی ، عظیم آباد کے قیام نے شعور ِ نقدو نظر عطا کیا ، اکبرآباد کے نظیر ؔ نے عوامی جذبوں سے روشناس و متعارف کرایا ، کلکتہ کے علمی و ادبی اداروں میں جدید طرزِ انشا و نثر کا احساس ہواتو علی گڑھ کے رومان پرور ما حول نے ترقی پسندی کے نظریات کو جلا بخشی اور لاہور میں صحا فت ، سیاست اور طباعت کے عالمی مزاج سے آشنا ہوئی .

مجھے اپنے پنجابی،ہریانوی ، راجستھانی ، بھوجپوری ،بنگالی ، گجراتی، دکنی، تامل، ملیالی ، کشمیری،  بلوچی، سندھی، پشتو، اور سرائیکی لہجوں پر فخر ہے انہی لہجوں کے ضمیر سے میرا خمیر اُٹھا ، انہی کے رنگ آمیزی سے مجھ پر نکھار آیا .

میں گنگا، جمنا، برہمپتر، سندھ، راوی ، ستلج، چناب ، جہلم، بیاس ، کرشنا ، کا ویری، گوداوری اور سرسوتی کے کناروں پر قرنوں سے آباد شہروں اور بستیوں میں پنپنی، پھلنے پھولنے اور وہاں سے ہر سو پھیلنے والی عظیم برِ صغیر کی کی تہذیب و تمدن کی کا پس منظر ہوں، امیر خسروؔ میرے دسترخوانِ اتحاد و یگانگت کے خوشہ چیں ، ولیؔ دکنی میرے شریکِ بزم ، کبیر و نانک میرے ہمدم، میرؔ و غالب ؔ میرے ہمراز و ہم نوا، انیس وؔ دبیر ؔ اور چکبست مجھ پر نا زاں، ساحرؔ و شکیل ، فراقؔ و فیضؔ ، مجروح ؔ،ن۔م۔راشد اور احمد فرازؔ میرے فدا ئین کی صفو ں میں شامل رہے ہیں، جبکہ سرسیّد ڈپٹی،نذیر احمد، حالیؔ، ذکا اللہ میرے ہم خیال ا ور ہم نوالہ و ہم پیالہ تھے ، میں اقبالؔ کے شاہین کی پرواز کا آہنگ اور دوربینی کی غماز، راشد الخیری ، ڈپٹی نذیر احمد اور پریم چند کے کرداروں کی آواز، کرشن چندر ، راجندر سنگھ بیدی، اور سعادت حسن منٹوکے افسانوں کا شاہکار، فکر تونسوی کے سماجی و سیاسی نشتروں کی نوک، ، پطر س بخاری، کنہیا لال کپور، شوکت تھانوی، کرنل شفیق الرحمن ، ابن انشا، کرنل محمد خاں اور مشتاق احمد یو سفی کی حسِ مزاح کا ضمیر، حا لی اور فاروقی کے نقدو نظراور نارنگ کی فراست کی امین ہوں، مجھے فخر ہے کہ میں مولانا ابولکلام آزاد ؒ جیسے عالمِ بے بدل، مدبر اور وسیع القلب سیاستداں کے منہ سے بولی اور ان کے قلم سے لکھی گئی، یہ سب کچھ اور بہت کچھ میرا ہی سرمایہ حیات ہے ، کب تک بتاؤں، کہاں تک سنا ؤں کہ میں کیا ہوں ، کون ہوں اور تم میرے کیا ہو؟

یاد رکھو تم میرے اور میں تمہارے بغیر کچھ بھی نہیں، میرے جاننے والے جانتے اور سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ میں کون ہوں، کیا ہوں اور کیوں ہوں؟ مجھے کسی قوم یا نظرئیے نے نہیں اسی ملک کی مٹی نے جنم دیا ہے ، میں نہ کہیں باہر سے آئی نہ لائی گئی میں تو خسروؔ کی پہیلی ، نظیرؔ کی سہیلی ، میر ؔ کی محبوبہ ، غالبؔ کی معشوقہ ، نانک کا نور، کبیر کی عظمت ،اسماعیل میرٹھی، حامد اللہ خاں افسرکے بچوں کے ادب ، ابن صفی کے جاسوسی ادب، ماہنامہ شمع کے فلمی ادب، اور ای۔آر خاتون سے لیکر واجدہ تبسم ، ہاجرہ مسرور ، خدیجہ مسطور ، عصمت چغتائی ، جیلانی بانو ، ثریا بجیا کے نسوانی ادب پاروں، افسانوں ، ناولوں ، اور پروین شاکر کی شاعری کی عظمتوں کی راز داں اسی زمیں اسی برِ صغیر کی بیٹی ہوں، یہاں کے سبزہء نورستہ کی خنکی ،پرندوں کی خوش الحانی ، رواں چشموں کا ترنم ،آبشاروں کی گھن گرج ،پہاڑوں کی رفعت ، دریاؤں اور ندیوں کا زیرو بم سب کچھ میرا ہی تو ہے ، اس سب کو شاعروں اور ادیبوں نے میرے اندر سمویا ہے ، فن کاروں نے اس ہی کے نقش و نگار بنا کر مجھے حُسن و رعنائی عطا کی ہے ، بچوں کی کوششِ گفتار، بڑوں کے علم و فراست کی منہ بولتی تصویر ، صحافت کی تحریر ا ور سیاست کی تقریر میں ہی تو ہوں .

میں بلا لحاظ ِ مذہب و ملّت اور جنسی تفریق سب کو ساتھ لئے چل رہی ہوں ، میں نے کبھی کسی کا ساتھ نہیں چھوڑا، کسی کے دِل کو ٹھیس نہیں پہنچائی، کسی کی وراثت پر حریصانہ نظر نہیں ڈالی بلکہ ہر ایک کی اچھائی کو اپنے اندر جذب کیا ہے اور اسے حقیقی دوام بخشا ہے ، میری ہمیشہ سے یہی کوشش اور دعا ہے کہ سب کو اپنے ساتھ لیئے چلتی رہوں، میں تو دلوں کو جوڑنے ، رشتوں کو نبھانے ، تعلقات بنانے اور دوریوں کو مٹانے والی ہوں ، اب تو میرے چاہنے والے میری شمع فروزاں کو لئے برِ آعظم یورپ و امریکہ کے شہروں سے لیکر مشرقِ وسطیٰ کی بستیوں اور بازاروں تک آپہنچے ہیں اور انہیں کی بدولت اب روسی ، یورپی ، امریکی اردو ادب و شاعری کی بنیادیں استوار ہو رہی ہیں.

پَر، اے میرے پیارو میرے چاہنے والوںیہ یاد رہے کہ میری جان میرے رسم الخط میں اور میری بقا اس کو آنے والی نسلوں تک منتقل کرنے میں ہے ، ورنہ میری اور تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں ، میری بقا و دوام کو روٹی روزی سے جوڑنا ہے تو ضروری، لیکن حالات کے تحت کسی حد تک ضروری دیوناگری رسم الخط کی آڑ میں میرے خلاف ہونے والی ذہن سازی کا شکار تم یہ کیوں بھول جاتے ہو کہ رزق پر کسی کا اجارہ نہیں، یہ تو منجاب اللہ ہے ، وہ جسے چاہے جتنا چاہے رزق دیتا ہے ، کیڑوں کو پتھروں میں، آبی مخلوق کو پانی میں، صحراؤں میں آہوکو، بنجر اور سنگلاخ زمینوں کے مکیں جانداروں اور بے آب و گیاہ لق و دق ریگستانوں کے زہریلے حشرات کو ، جنگلوں کے وحشی درندوں کو اور برفانی علاقوں کی مخلوق تک کو رزق عطا کرتا ہے ، تو کیا تم اپنے بچوں اور بچیوں کو اسکو لوں میں اردو پڑھوا ؤگے تو انہیں رزق نہیں دیگا؟

فروری، ١٩٩٨ ، دوحہ، قطر

)نوک پلک درست کرنے اور کچھ اضا فہ کے بعد جنوری ٢٠١٤ دِلّی(

اپنا تبصرہ لکھیں