انتخاب راحیلہ ساجد
ناول نگار عمیر احمد
ناول نگار عمیر احمد
قسط نمبر 54 ۔اسے یاد آیا وہ غلطی سے قرآن پہ رجسٹر رکھ کر لکھ رہی تهی-صفحہ ختم ہوا تو لاشعوری طور پر اس نے لفظ قرآن کے کور پہ مکمل کر دیا- اسی وقت اسے کلاس انچارج سے ڈانٹ پڑی تو یہ بات ذہن سے محو ہو گئی- وہ کبهی جان ہی نہ پائی کہ یہ مٹا مٹا سا م اس ادهورے لفظ کی تکمیل تها- آج برسوں بعد وہ قصہ مکمل ہو گیا تها- اس کے ذہن میں ایک روشنی کا کوندا سا لپکا تها اور ساری گتهیاں سلجھ گئی تهین-
بنی اسرائیل کو شہر کے دروازے میں داخل ہونے سے قبل بخشش مانگنے کا حکم ملا تها- مگر وہ گندم مانگتے رہے- بخشش نہیں مانگی- یہ بنی اسرائیل کی ریت تهی اور یہی ریت خود اس نے بهی دہرائی تهی-
ہم زمانہ جاہلیت سے دور اسلام میں آ کر ایک ہی دفعہ توبہ کرتے ہیں، ساری عمر پهر عمل صالح تو کرتے رہتے ہیں، مگر ہم بار بار کی توبہ بهول جاتے ہیں- ہم ایک کهائی سے بچ کر سمجهتے ہیں کہ زندگی میں پهر کبهی کهائی نہیں آئے گی- اور اگر آئی بهی تو ہم بچ جائیں گے- ہم ہمیشہ نعمتوں کا اپنی نیکیوں کا انعام سمجهتے ہیں اور مصیبتوں کو گناہ کی سزا ‘ اس دنیا میں جزا بہت کم ملتی ہے اور اس میں بهی امتحان ہوتا ہے-نعمت شکر کا امتحان ہوتی ہے اور مصیبت صبر کا اور زندگی کے کسی نئے امتحان میں داخل ہوتے ہی منہ سے پہلا کلمہ حطتہ کا نکلنا چاہیئے- مگر ہم وہاں بهی گندم مانگنے لگتے ہیں-
اللہ اسے زندگی کے ایک مختلف فیز میں لایا تو اسے بخشش مانگنی چاہئے تهی- مگر وہ” ہمایوں’ اور “تیمور” کو مانگنے لگ گئی- حنطتہ حنطتہ کہنے لگ گئی- گندم مانگنا برا نہیں تها- مگر پہلے بخشش مانگنی تهی- وہ پہلا زینہ چڑهے بغیر دوسرے کو پهلانگنا چاه رہی تهی- اور ایسے پار کب لگا جاتا ہے-؟
اسے نہیں معلوم وہ کتنی دیر تک میز پہ سر رکهے زار و قطار روتی رہی، آج اسے اپنے سارے گناه پهر سے یاد آ رہے تهے- آج وہ پهر سے توبہ کر رہی تهی- وہ توبہ جو بار بار کرنا ہم “نیک” بننے کے بعد کرنا بهول جاتے ہیں-
زندگی میں بعض لمحے ایسے ہوتے ہیں جب آپ سے خود قرآن پڑها نہیں جاتا- اس وقت آپ کسی اور سے قرآن سننا چاہتے ہیں- آپکا دل چاہتا ہے کہ کوئی آپ کے سامنے کتاب اللہ پڑهتا جائے اور آپ روتے رہیں- بعض دفعہ آپ خوش ہونے کے لیے اس کے پاس جاتے ہیں اور بعض دفعہ صرف رونے کے لیے-
اس کا دل کر رہا تها کہ وہ خوب روئے- قرآن سنتی جائے اور روتی جائے- تلاوتوں کی کیسٹوں کا ڈبہ پاس ہی پڑا تها- ٹیپ ریکارڈر بهی ساتھ تها- اس نے بنا دیکهے آخر سے ایک کیسٹ نکالی اور بنا دیکهے ہی ڈال دی- ابهی نہ وہ معانی جاننا چاہتی تهی، نہ ہی فہم پہ غور و فکر کرنا چاہتی تهی- ابهی وہ صرف سننا چاہتی تهی- صرف رونا چاہتی تهی-
اس نے پلے کا بٹن دبایا اور سر میز پہ رکها- آنسو اس کی آنکهوں سے ٹپک کر میز کے شیشے پہ گر رہے تهے-
قاری صہیب احمد کی مدهم، پرسوز آواز دهیرے سے کمرے میں گونجنے لگی تهی- ” والضحی… قسم ہے دن کی-”
وہ خاموشی سے سنتی رہی- اسے اپنی زندگی کے روشن دن یاد آرہے تهے، جب وہ اس گهر کی ملکہ تهی-
” اور قسم ہے رات کی جب وہ چها جائے-”
اس کو وہ سناٹے بهری رات یاد آئی جب ہمایوں نے اسے طلاق دی تهی، وہ رات جب وہ یہیں بیٹهی چهت کو دیکهتی رہی تهی-
تمہارے رب نے تمہیں اکیلا نہیں چهوڑا اور نہ ہی وہ ناراض ہے-( الضحی 3)
اس کے آنسو روانی سے گرنے لگے تهے- یہ کون تها جو اس کی ہر سوچ پڑھ لیتا تها؟ یہ کون تها؟
” یقنیا” تمہارے لیے انجام آغاز سے بہتر ہو گا-“( الضحی 4)
اس نے سختی سے آنکهیں میچ لیں- کیا واقعی اب بهی اس سارے کا انجام اچها ہو سکتا تها؟
” تمہارا رب تمہیں بہت جلد وہ دے گا جس سے تم خوش ہو جاؤ گے-“(الضحی 5)
ذرا چونک کر بہت آہستہ سے محمل نے سر اٹهایا-
اللہ کو اس کی اتنی فکر تهی کہ وہ اس کے اداس دل کو تسلی دینے کے لیے اسے یہ سب بتا رہا تها؟ کیا واقعی وہ اس سے ناراض نہیں تها؟ کیا واقعی اس نے اسے چهوڑا نہیں تها؟
” کیا اس نے تمہیں یتیم پا کر ٹهکانا نہیں دیا؟” (الضحی 6)
وہ اپنی جگہ سن سی رہ گئی- یہ…..یہ….سب…. اتنا واضح’ اتنا صاف’ یہ سب اس کے لیے اترا تها؟ کیا وہ اس قابل تهی؟
” کیا اس نے تمہیں راه گم پا کر ہدایت نہیں دی؟” ( الضحی7)
وہ ساکت سی سنے جا رہی تهی- ہاں یہ ہی تو ہوا تها-
” اور تمہیں نادار پا کر غنی نہیں کر دیا تها؟” ( الضحی 8)
اس کے آنسو گرنا رک گئے تهے- کپکپاتے لب ٹهہر گئے تهے-
” پس تم بهی یتیم پہ سختی نہ کرنا’ اور سائل کو مت ڈانٹنا- اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتے رہنا-“(الضحی9)
سورت الضحی ختم ہو چکی تهی- !اس کی زندگی کی ساری کہانی گیارہ آیتوں میں سمیٹ کر اسے سنا دی گئی تهی- وہ سورت جیسے ابهی ابهی آسمانوں سے اتری تهی- اس کے لیے صرف اس کے لیے-
اس نے تهک کر سر کرسی کی پشت پہ گرا دیا اور آنکهیں موند لیں- وہ کچھ دیر ہر سوچ سے بے نیاز سانو چاہتی تهی- پهر اٹھ کر اسے فرشتے سے ملنا تها-
بادل زور سے گرجے تهے-
محمل نے ایک نظر کهڑکی سے باہر پهسلتی شام پہ ڈالی اور دوسری بند دروازے پہ- اس کی دوسری طرف اسے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تهی- ابهی چند منٹ قبل اس نے فرشتے کو گیٹ سے اندر داخل ہوتے دیکها تها- اس کے آنے کے کچھ دیر بعد ہمایوں کی گاڑی اندر داخل ہوئی تهی- البتہ وہ بمشکل ایک منٹ بعد ہی کچھ کاغذات اٹها کر واپس چلا گیا تها- اس کی گاڑی ابهی ابهی نکلی تهی-
وہ کهڑکی کے اس طرف چوکیدار کو گیٹ بند کرتے دیکھ رہی تهی، جب دروازہ ہولے سے بجا-
” محمل؟” فرشتے نے اپنے مخصوص نرم انداز میں پکارا’ پهر ہولے سے دروازہ کهولا – اب وہ کثرت سے سلام نہیں کرتی تهی- محمل نے گردن موڑ کر اسے دیکهاوہ دروازے کے بیچ و بیچ کهڑی تهی- درازقد’ کانچ سی سنہری انکهوں والی لڑکی’ جو کهلتے گلابی رنگ کے لباس میں ‘ سر پہ دوپٹہ لیے کهڑی تهی- وہ کون تهی- اسے لگا وہ اسے نہیں جانتی-
” کیسی ہو؟” وہ نرم سی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے اندر داخل ہوئی-
” بلقیس بتا رہی تهی تم میرا پوچھ رہی تهیں-” وہ آگے بڑھ کر عادتا” شیلف پہ رکهی کتابییں، رجسٹر اور ٹیپ وغیرہ سلیقے سے جوڑنے لگی- اس کے بهورے بال کهلے تهے اور اس نے ان ہی پہ دوپٹہ لے رکها تها- ایسے کہ چند لٹیں باہر گر رہی تهیں- گلابی دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ چمک رہا تها-
” جی، مجهے پتا نہیں تها کہ آپ کدهر ہیں؟” محمل نے بغور اس کو دیکها’ جو اس کے سامنے سر جهکائے کتابیں سیٹ کر رہی تهی-
اسے ابهی بهی تیمور کی بات پہ یقین نہیں تها-
فرشتے ایسا نہیں کر سکتی تهی، کبهی بهی نہیں ‘ یقینا” تیمور کو سمجهنے میں غلطی ہوئی تهی-
“میں ایک دوست کے ساتھ تهی، کچه شاپنگ کرنا تهی-” بےحد رسان سے بتا کر اس نے رجسٹر ایک دوسرے کے اوپر رکها-
نہ اس نے جهوٹ بولا نہ سچ بتایا- اس کا یقین ڈگمگانے لگا-
” آپ نے آگے کا کیا سوچا ہے فرشتے؟ میرے جانے کے بعد آپ کیا کریں گی؟”
” ابهی پلان کرونگی، دیکهو کیا ہوتا ہے-” وہ اب گلدان میں رکهے گلدستے سے سوکهے پهول احتیاط سے نکال رہی تهی- اس کے جواب مبہم تهے- نہ سچ نہ جهوٹ-
” اور تم سارا دن کیا کرتی ہو؟” اس نے چرمرائے پهول ڈسٹ بن میں ڈالے-
” کچھ خاص نہیں-”
دونوں خاموش ہو گئیں اپنی اپنی سوچوں میں گم-
اب اس کے پاس حقیقت جاننے کا ایک ہی طریقہ تها اور اس نے اسے استعمال کرنے کا ارادہ کیا-
” فرشتے وہ جسم کس کی کرسی پہ ڈالا گیا تها؟”
“کون سا جسم؟” فرشتے نے پلٹ کر اس سے پوچها- پلٹنے سے اس کا دوپٹہ سرکنے سے بهورے بال جهلکنے لگے-
” قرآن میں ایک جگہ ایک جسم کا ذکر ہے جو کسی کرسی پہ ڈالا گیا تها- آپ کو یاد ہے وہ کس کا جسم تها؟” اس کا انداز یوں تها جیسے وہ بهول گئی ہو-
فرشتے نے الجھ کر چند لمحے سوچا پهر نفی میں سر ہلایا کہ نہیں مجهے نہیں یاد آرہا-”
اور محمل کو سارے جواب مل گئے تهے- فرشتے قرآن بهول گئی تهی- اگر وہ اسے پڑهتی رہتی تو اسے یاد رہتا، لیکن وہ اسے پڑهنا چهوڑ چکی تهی- اور قرآن تو چند دنوں کے لیے بهی چهوڑ دیا جائے تو وہ فورا” ذہنوں سے مکمل طور پہ محو ہو جاتا ہے- یہ کتاب اللہ کی سنت تهی اور یہ کبهی تبدیل نہیں ہو گی-
اس نے گہری سانس لی-
” وہ سلیمان علیہ السلام کی کرسی تهی جس پہ ایک جسم ڈال دیا گیا تها-”
” اوہ اچها-” فرشتے نے میز پہ گرے پانی کے قطرے ٹشو سے صاف کیے-
” کیوں، کیا آپ نے ایسا، فرشتے؟ وہ بہت دکھ سے بولی تهی- اب وقت آ گیا تها کہ وہ چوہے بلی کا کهیل بند کر دے-
” کیا؟” فرشتے نے سر اٹها کر اسے دیکها- اس ہے چہرے پہ صرف استفسار تها-
” وہ جو اس گهر میں ہوتا رہا، میں وہ سب جاننا چاہتی ہوں-”
“مثلا” ؟” اس نے ابرو اٹهائی’ اس کے چہرے پہ وہی نرم سا تاثر تها-
” سب کچھ!”
” سب کچھ؟ کس بارے میں؟ میری اور ہمایوں کی شادی کے بارے میں؟ اس کے انداز میں ندامت تهی نہ پکڑے جانے کا خوف’ وہ بہت آرام سے پوچھ رہی تهی-
” سب کچھ!” اس نے آہستہ سے دہرایا-
” جب ہمایوں کراچی سے آیا تو اس نے مجهے پروپوز کیا- وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تها، مگر طلاق سے قبل وہ مجھ سے شادی بهی نہیں کر سکتا تها- سو ہم نے ڈیسائیڈ کیا کہ جب تم ہوش میں آ جاؤ تو وہ تمہیں ڈائیورس دے دے گا اور ہم شادی کر لیں گے-”
وہ جیسے موسم کی کوئی خبر سنا رہی تهی-
” وہ کہتا تها کہ علماء سے فتوی لے لیتے ہیں’ مگر میرا دل نہیں مانا’ میں نے سوچا کہ کچھ وقت انتظار کر لیتے ہیں اور پهر تم ہوش میں آ گئیں- سو اس نے ڈائیورس پیپرز سائین کر دیے- مجهے پروپوز کرنے سے قبل ہی وہ تمہیں ڈائیورس دینے کا فیصلہ کر چکا تها- اگر ضروری نہ ہوتا وہ تب بهی ایسے ہی کرتا، کیونکہ وہ یہ شادی رکهنے کو راضی نہیں تها-”
وہ بہت اطمینان اور سکون سے میز سے ٹیک لگائے کهڑی اس کے بارے میں ان کہے سوالات کے جوبات دے رہی تهی-
” میں نے اس کا پروپوزل اس لیے قبول کر لیا کہ طلاق کے بعد اس کو بهی کسی نہ کسی سے شادی کرنی تهی اور مجهے بهی اور چونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کو اچهی طرح سے جانتے اور سمجهتے تهے’ سو اس کا پروپوزل میرے لیے بہترین چوائس تها- میں اس کو تمہارے ساتھ تعلق رکهنے پہ مجبور نہیں کر سکتی تهی’ نہ ہی وہ کسی کی مانتا ہے- سو شرعی لحاظ سے میرے پاس پروپوزل قبول کرنے کا حق تها سو میں نے وہ استعمال کیا-”
اس کے پاس دلائل تهے’ توجیہات تهیں’ ٹهوس اور وزنی شرعی سہارے تهے- محمل خاموشی سے اس کی ساری باتیں سنتی رہی’ وہ ذرا دیر کو چپ ہوئی تو اس نے لب کهولے-
” اور جب ہمایوں نے آپ سے میرے اور فواد کے تعلق کی نوعیت اور ان تصاویر کے بارے میں پوچها تها ‘ تب آ پ نے کیا کہا تها؟” اس نے اندهیرے میں تیر چلایا-
” وہ ہی جو سچ تها-” وہ اب بهی پرسکون تهی- ” اس کو معیز نے کچھ تصاویر اور وہ اگری منٹ لا کر دکهایا تها جو ہم نے فواد سے طے کیا تها- میں سمجهتی تهی کہ تم نے اس کے بارے میں ہمایوں کو بتا دیا ہو گا- میں نے اس کے غصے کے ڈر سے خود نییں بتایا تها- مگر تم نے بهی نہیں بتایا تو اسکا غصہ کرنا لازمی تها- اس نے مجهے بلایا’ پهر مجھ پہ وہ چیخا چلایا- میں چپ کر کے سنتی رہی’ اس نے پوچها کہ یہ ایگریمنٹ سچا ہے یا جهوٹا- میں نے سچ بولا- وہ غصے سے چلاتا رہا، اسے دکھ تها کہ ہم دونوں نے اس پرٹرسٹ نہیں کیا- پهر اس نے وہ تصویریں مجهے دکهائیں اور پوچها کہ وہ سچ ہیں یا جهوٹ؟ میں نے سچ ہی بولا-”
“کیا بولا؟” محمل نے تیزی سے اس کی بات کاٹی-
” یہ ہی کہ مجهے معلوم نہیں اور مجهے واقعی معلوم نہیں تها-”
اور وہ اسے دیکهتی رہ گئی- یہ فرشتے کاسچ تها-؟
” پهر اس نے پوچها کہ معیز جو باتیں اسے بتا گیا ہے وہ سچ ہیں یا جهوٹ؟ وہ اسے یہ بتا کر گیا تها کہ تمہارا اور فواد کا افئیر تها- اس رات فواد نے تمہیں پروپوز کرنا تها کوئی رنگ بهی دی تهی غالبا” اور پهر اس نے تمہیں بہانے سے ہمایوں کے گهر بهیج دیا- اس رنگ کا ذکر فواد کی اس فون کال میں بهی تها جو ہمایوں نے ٹیپ کی تهی- یہ بات اس نےپہلے اگنور کر دی تهی’ پهر ظاہر ہے معیز نے یاد دلایا تو وہ الجھ گیا – اس نے مجھ سے پوچها تو میں نے سچ بولا-”
اب کی بار وہ خاموش رہی- اس نے نہںں ہوچها کہ فرشتے کا سچ کیا تها – وہ جان گئی تهی کہ وہ کیا کہنے جا رہی ہے-
” میں نے اسے بتا دیا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی، نہ ہی تم نے کبهی مجهے اس معاملے مین رازدار بنایا ہے- اس نے اس رات کے متعلق پوچها تو میں نے سچ سچ بتا دیا کہ فواد تمہیں پروپوز کرنے کے بہانے ہی ڈنر پہ لے کر جا رہا تها- تم نے مجهے یہ ہی بتایا تها’ سو میں نے یہی بتا دیا-”
وہ چپ چاپ یک ٹک سامنے کهڑی مطمئن سی لڑکی کو دیکهتی رہئ- جس کے چہرے پہ ملال تک نہ تها- وہ اس کا ایک راز تک نہیں سنبهال سکی تهی-
وہ سچ کیسے ہو سکتا ہے’ جس میں کسی امانت کا خون شامل ہو؟ وہ تو اسے جانتی تهی’ وہ اس کی بہن تهی’ کیا وہ اس کی پردہ پوشی نہیں کر سکتی تهی؟ فواد نے کبهی نہیں کہا تها کہ وہ اسے پروپوز کرنے جا رہا ہے- یہ سب تو اس نے خود اخذ کیا تها- اس سے ایک غلطی ہوئی تهی- وہ سمجهی تهی کہ وقت کی دهول نے اس غلطی کو دبا دیا ہو گا’ مگر لڑکیوں کی کچی عمر کی نادانیاں اتنی آسانی سے کہاں دبتی ہیں-”
” اس ٹیپ میں کسی رنگ کا بهی ذکر تها- ہمایوں نے بار نار سنا’ وہ مجھ پہ غصہ ہوتا رہا کہ میں نے اسے بےخبر کیوں رکها’ پهر اس نے اپنا ٹرانسفر کراچی کروا لیا-”
وہ اب کهڑکی سے باہر لان کو دیکهتے ہوئے کہہ رہی تهی-
” وہاں کراچی میں اسے آرزو ملی- اس کے فادر کی ڈیتھ کے بعد کریم چچا اور غفران چچا نے اس کا حصہ بهی دبا لیا تها- سو اس نے سوچا کہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں- اس نے فواد سے تمہارا اور میرا سائن کردہ کاغذ لیا اور معیز کے ہاتهوں ہمایوں کو بهجوایا- فواد’ آرزو کو پسند کرنے لگا تها’ وہ اب اس سے شادی کرنا چاہتا تها’ وہ اسے اپنانے کےلیے تڑپ رہا تها- مگر آرزو کو ہمایوں بہتر لگا’ سو اس نے چاہا کہ ہمایوں تمہارا حصہ قانونی طور پہ آغا کریم سے واپس لے’ اس کا حصہ لینے میں بهی مدد کرے’ تا کہ جب وہ ہماہوں سے شادی کرے تو تمہارے حصے پہ بهی وہ قابض ہو سکے جو ہمایوں کی ملکیت میں ہو گا’ اور نیچرلی تمہارے بارے میں وہ پریقین تهی کہ تم کبهی نہین اٹهو گی-”
بادل ایک دفعہ پهر زور سے گرجے ‘ دور کہیں بجلی چمکی’ شام کی نیلاہٹ سارے میں بهر رہی تهی-
وہ ابهی تک خاموشی سے فرشتے کو سن رہی تهی-
” مگر ہمایوں کو فواد سے ضد ہو گئی تهی- صرف اس لیے کہ فواد آرزو کو پسند کرتا ہے ‘ اس نے آرزو کو اپنے قریب آنے دیا- فواد ہمایوں کی منتیں کرتا رہا کہ وہ آرزو کو چهوڑ دے مگر ہمایوں اس سے اپنے سارے بدلے چکانا چاہتا تها- وہ کہتا تها کہ فواد نے اس کی محبت کو چهینا ہے’ وہ بهی اس کی محبت کو ویسے ہی چهینے گا- وہ آرزو سے کبهی بهی شادی نہین کر رہا تها-مگر اس نے آرزو کو دهوکے میں رکها- ابهی مجهے ڈراپ کر کے وہ آرزو کے پاس ہی گیا ہے- اس کو یہ بتانے کہ جیسے وہ اس کو استعمال کر رہی تهی وہ بهی ویسے ہی اسے استعمال کر رہا تها- وہ شدت پسند لڑکی جانے غصے میں کیا کر ڈالے- مگر جو بهی ہو وہ آج اسے آئینہ دکها کر ہی واپس آئے گا-”
کهڑکی کے بند شیشے پہ کسی چڑیا نے زور کی چونچ ماری’ پهر چکرا کر پیچهے کو گری، بادل وقفے وقفے سے گرج رہے تهے-
” شاید تم یہ سمجهو کہ میں نے تمہارے ساتھ برا کیا یے یا یہ کہ مجهے ایسا نہیں کرنا چاہئیے تها- لیکن تم یہ سوچو کہ میں پهر اور کیا کرتی؟ میں ہمایوں سے بہت محبت کرتی تهی اور کرتی ہوں- مگر جب مجهے لگا کہ تم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہو تو میں درمیان سے نکل گئی- لیکن اب وہ تمہیں نہیں چاہتا اور مجهے بهی کسی نہ کسی سے شادی تو کرنی تهی- مجهے بتاؤ میں نے غلط کیا؟ میرے دین نے مجهے پروپوزل سلیکٹ کرنے کا اختیار دیا تها- سو میں نے اسے استعمال کیا- تم کسی بهی مفتی سے پوچھ لو اگر کوئی عورت شوہر کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہ رہی ہو تو شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے- اور اس میں کسی کی حق تلفی کی کوئی بات نہیں ہے نہ ہی قطع رحمی کا عنصر شامل ہے’ یاد کرو’ سورہ نساء میں ہم نے کیا پڑها تها کہ اگر کوئی ایک حقوق ادا نہ کر سکے تو پهر اپنے حقوق چهوڑ دے’ الگ یو جائے کہ اللہ دونوں کے لیے وسعت پیدا کر دے گا-”
اپنے مطلب کی آیات اسے آج بهی یاد تهیں-
آئی ہوپ کہ اب تمہاری کنفیوژن اور اعتراضات دور ہو گئے ہونگے- میں نے سات سال تمہاری خدمت کی ‘ حالانکہ میرا فرض نہیں تها’ مگر اس لیے کہ تم یہ نہ سمجهو کہ میں تم سے پیار نہیں کرتی- میں آج بهی تم سے بہت پیار کرتی ہوں- تم نے ایک دفعہ مجھ سے کہا تها کہ ضرورت پڑنے پر تم میرے لیے اپنا حق چهوڑ دوگی’ جب فواد نے تمہاری گردن پہ پستول رکها تها ‘تمہیں بچانے کے لیے میں نے اپنا حق چهوڑا تها’ یہ باتیں میں نے آج کے دن کے لیے سنبهال کر رکهی تهیں’ تاکہ آج میں تم سے تمہارے وعدے کی وفا مانگ سکوں-”
وہ خاموش ہو گئی’ اب وہ محمل کے بولنے کی منتظر تهی-
” آپ نے کہہ لیا جو آپ نے کہنا تها؟”
“ہاں-”
” کیا اب آپ میری سنییں گی؟” اس کا لہجہ سپاٹ تها-
” ہاں-”
” تو پهر سنیئے’ اعوذبااللہ من الشیطن الرجیم-” اس نے تعوذ پڑها توفرشتے نے ذرا الجھ کر اسے دیکها- مگر وہ رکی نہین تهی، بہت دهیمے مگر مضبوط لہجے میں اسے کچھ سنانے لگی تهی- وہ عربی جو ان دونوں کو سمجھ میں آتی تهی-
” اور اسی طرح ہم کهول کهول کر آیات بیان کرتے ہیں’ شاید کہ وہ پلٹ آئیں-…..شاید کہ وہ پلٹ آئیں-”
فرشتے کی آنکهوں میں الجها سا تاثر ابهرا- محمل بنا پلک جهپکے اس کی انکهوں میں دیکهتے ہوئے پڑهتی جا رہی تهی-
” ان لوگوں کو اس شخص کی خبر پڑھ کے سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیات دی تهیں- جس کو ہم نے اپنی” آیات” دی تهیں- پهر وہ ان سےنکل بهاگا تو اس کے پیچهے شیطان لگ گیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا-“.
فرشتے کی بهوری آنکهوں میں بےچینی ابهری تهی- ” محمل! میری بات سنو-”
مگر وہ نہیں سن رہی تهی- پتلیوں کو حرکت دیے بنا نگاہیں اس پہ مرکوز کیے کہتی جا رہی تهی-
” تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا-” اس کی آواز بلند ہو رہی تهی- ” اور اگر ہم چاہتے تو اسے انہی آیات کے ساتھ بلندی عطا کرتے’ لیکن وہ زمین کی طرف جهک گیا-”
” محمل چپ کرو-” وہ زیر لب بڑبڑائی تهی’ مگر محمل کی آواز اونچی ہو رہی تهی-
” لیکن وہ زمین کی طرف جهک گیا اور اس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی- تو اس کی مثال اس کتے جیسی ہے – تو اس کی مثل کتے جیسی ہے-”
” اگر تم اس پہ حملہ کرو تو وہ زبان باہر نکالتا ہے’ یا تم اس کو چهوڑ دو ‘ تو بهی وہ زبان باہر نکالتا ہے-”
‘ خاموش ہو جاؤ! خدا کے لیے خاموش ہو جاؤ-” اس نے تڑپ کر محمل کے منہ پر ہاتھ رکهنا چاہا’ اس کا دوپٹہ کندهوں سے پهسل گیا تها’ کهلے بال شانوں پی آگرے تهے-
محمل نے سختی سے اس کا ہاتھ جهٹکا- اسی میکانکی انداز میں اسے دیکهتی پڑهتی جا رہی تهی-
” جسے اللہ ہدایت بخشے ‘ پس وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بهٹکا دے ‘ بس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں-”
اس کے ہاتھ بے دم ہو کر اپنی گود میں آ گرے تهے- وہ پهٹی پهٹی نگاہوں سے اسے دیکهتی ‘ گهٹنوں کے بل اس کے قدموں میں گری تهی-
” بےشک ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جنوں میں سے اور بہت سےانسانوں میں سے پیدا کیے ہیں- ان کے لیے دل ہیں- وہ ان سے کچھ نہیں بهی سمجهتے اور ان کے لیے آنکهیں ہیں ‘ وہ ان سے کچھ بهی نہیں دیکهتے- اور ان کے لیے کان ہیں- وہ ان سے کچھ بهی نہیں سنتے- یہی لوگ مویشیوں کی طرح ہیں’ بلکہ یہ تو زیادہ بهٹکے ہوئے ہیں- یہی وہ لوگ ہیں جو غافل ہیں’ جو غافل ہیں-” وہ کسی معمول کی طرح بار بار وہی لفظ دہرا رہی تهی-
فرشتے سفید چہرہ لیے بےدم سی بیٹهی تهی-اس کے لب ہولے ہولے کپکپارہے تهے- محمل نے آہستہ سے پلک جهپکی تو دو آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکهوں سے گرے-
” اور اسی طرح ہم کهول کهول کر اپنی آیات بیان کرتے ہیں ‘ شاید کہ وہ پلٹ آئیں!”
اس نے وہیل چئیر کے پہیوں کو دونوں اطراف سے تهاما اور اس کا رخ کهڑکی کی طرف موڑا وہ آہستہ آہستہ وہیل چئیر کو کهڑکی کی طرف بڑهانے لگی-
فرشتے پیچهے بیٹهی رہ گئی تهی-محمل نے پلٹ کر اسے نہیں دیکها- وہ ابهی پلٹنا نہیں چاہتی تهی-
” اور اسی طرح ہم کهول کهول کر آیات بیان کرتے ہیں ‘ شاید کہ وہ پلٹ آئیں!” وہ کهڑکی کے پار دیکهتے ہوئے زیرلب بڑبڑائی تهی-
فرشتے سے مزید کچھ نہیں سنا گیا- وہ تیزی سے آٹهی اور منہ پر ہاتھ رکهتے ہوئے تیزی سے بهاگتی ہوئی باہر نکل گئی-
محمل اسی طرح نم آنکهوں سے باہر چمکتی بجلی کو دیکهتی رہی-
بنی اسرائیل کو شہر کے دروازے میں داخل ہونے سے قبل بخشش مانگنے کا حکم ملا تها- مگر وہ گندم مانگتے رہے- بخشش نہیں مانگی- یہ بنی اسرائیل کی ریت تهی اور یہی ریت خود اس نے بهی دہرائی تهی-
ہم زمانہ جاہلیت سے دور اسلام میں آ کر ایک ہی دفعہ توبہ کرتے ہیں، ساری عمر پهر عمل صالح تو کرتے رہتے ہیں، مگر ہم بار بار کی توبہ بهول جاتے ہیں- ہم ایک کهائی سے بچ کر سمجهتے ہیں کہ زندگی میں پهر کبهی کهائی نہیں آئے گی- اور اگر آئی بهی تو ہم بچ جائیں گے- ہم ہمیشہ نعمتوں کا اپنی نیکیوں کا انعام سمجهتے ہیں اور مصیبتوں کو گناہ کی سزا ‘ اس دنیا میں جزا بہت کم ملتی ہے اور اس میں بهی امتحان ہوتا ہے-نعمت شکر کا امتحان ہوتی ہے اور مصیبت صبر کا اور زندگی کے کسی نئے امتحان میں داخل ہوتے ہی منہ سے پہلا کلمہ حطتہ کا نکلنا چاہیئے- مگر ہم وہاں بهی گندم مانگنے لگتے ہیں-
اللہ اسے زندگی کے ایک مختلف فیز میں لایا تو اسے بخشش مانگنی چاہئے تهی- مگر وہ” ہمایوں’ اور “تیمور” کو مانگنے لگ گئی- حنطتہ حنطتہ کہنے لگ گئی- گندم مانگنا برا نہیں تها- مگر پہلے بخشش مانگنی تهی- وہ پہلا زینہ چڑهے بغیر دوسرے کو پهلانگنا چاه رہی تهی- اور ایسے پار کب لگا جاتا ہے-؟
اسے نہیں معلوم وہ کتنی دیر تک میز پہ سر رکهے زار و قطار روتی رہی، آج اسے اپنے سارے گناه پهر سے یاد آ رہے تهے- آج وہ پهر سے توبہ کر رہی تهی- وہ توبہ جو بار بار کرنا ہم “نیک” بننے کے بعد کرنا بهول جاتے ہیں-
زندگی میں بعض لمحے ایسے ہوتے ہیں جب آپ سے خود قرآن پڑها نہیں جاتا- اس وقت آپ کسی اور سے قرآن سننا چاہتے ہیں- آپکا دل چاہتا ہے کہ کوئی آپ کے سامنے کتاب اللہ پڑهتا جائے اور آپ روتے رہیں- بعض دفعہ آپ خوش ہونے کے لیے اس کے پاس جاتے ہیں اور بعض دفعہ صرف رونے کے لیے-
اس کا دل کر رہا تها کہ وہ خوب روئے- قرآن سنتی جائے اور روتی جائے- تلاوتوں کی کیسٹوں کا ڈبہ پاس ہی پڑا تها- ٹیپ ریکارڈر بهی ساتھ تها- اس نے بنا دیکهے آخر سے ایک کیسٹ نکالی اور بنا دیکهے ہی ڈال دی- ابهی نہ وہ معانی جاننا چاہتی تهی، نہ ہی فہم پہ غور و فکر کرنا چاہتی تهی- ابهی وہ صرف سننا چاہتی تهی- صرف رونا چاہتی تهی-
اس نے پلے کا بٹن دبایا اور سر میز پہ رکها- آنسو اس کی آنکهوں سے ٹپک کر میز کے شیشے پہ گر رہے تهے-
قاری صہیب احمد کی مدهم، پرسوز آواز دهیرے سے کمرے میں گونجنے لگی تهی- ” والضحی… قسم ہے دن کی-”
وہ خاموشی سے سنتی رہی- اسے اپنی زندگی کے روشن دن یاد آرہے تهے، جب وہ اس گهر کی ملکہ تهی-
” اور قسم ہے رات کی جب وہ چها جائے-”
اس کو وہ سناٹے بهری رات یاد آئی جب ہمایوں نے اسے طلاق دی تهی، وہ رات جب وہ یہیں بیٹهی چهت کو دیکهتی رہی تهی-
تمہارے رب نے تمہیں اکیلا نہیں چهوڑا اور نہ ہی وہ ناراض ہے-( الضحی 3)
اس کے آنسو روانی سے گرنے لگے تهے- یہ کون تها جو اس کی ہر سوچ پڑھ لیتا تها؟ یہ کون تها؟
” یقنیا” تمہارے لیے انجام آغاز سے بہتر ہو گا-“( الضحی 4)
اس نے سختی سے آنکهیں میچ لیں- کیا واقعی اب بهی اس سارے کا انجام اچها ہو سکتا تها؟
” تمہارا رب تمہیں بہت جلد وہ دے گا جس سے تم خوش ہو جاؤ گے-“(الضحی 5)
ذرا چونک کر بہت آہستہ سے محمل نے سر اٹهایا-
اللہ کو اس کی اتنی فکر تهی کہ وہ اس کے اداس دل کو تسلی دینے کے لیے اسے یہ سب بتا رہا تها؟ کیا واقعی وہ اس سے ناراض نہیں تها؟ کیا واقعی اس نے اسے چهوڑا نہیں تها؟
” کیا اس نے تمہیں یتیم پا کر ٹهکانا نہیں دیا؟” (الضحی 6)
وہ اپنی جگہ سن سی رہ گئی- یہ…..یہ….سب…. اتنا واضح’ اتنا صاف’ یہ سب اس کے لیے اترا تها؟ کیا وہ اس قابل تهی؟
” کیا اس نے تمہیں راه گم پا کر ہدایت نہیں دی؟” ( الضحی7)
وہ ساکت سی سنے جا رہی تهی- ہاں یہ ہی تو ہوا تها-
” اور تمہیں نادار پا کر غنی نہیں کر دیا تها؟” ( الضحی 8)
اس کے آنسو گرنا رک گئے تهے- کپکپاتے لب ٹهہر گئے تهے-
” پس تم بهی یتیم پہ سختی نہ کرنا’ اور سائل کو مت ڈانٹنا- اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتے رہنا-“(الضحی9)
سورت الضحی ختم ہو چکی تهی- !اس کی زندگی کی ساری کہانی گیارہ آیتوں میں سمیٹ کر اسے سنا دی گئی تهی- وہ سورت جیسے ابهی ابهی آسمانوں سے اتری تهی- اس کے لیے صرف اس کے لیے-
اس نے تهک کر سر کرسی کی پشت پہ گرا دیا اور آنکهیں موند لیں- وہ کچھ دیر ہر سوچ سے بے نیاز سانو چاہتی تهی- پهر اٹھ کر اسے فرشتے سے ملنا تها-
بادل زور سے گرجے تهے-
محمل نے ایک نظر کهڑکی سے باہر پهسلتی شام پہ ڈالی اور دوسری بند دروازے پہ- اس کی دوسری طرف اسے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تهی- ابهی چند منٹ قبل اس نے فرشتے کو گیٹ سے اندر داخل ہوتے دیکها تها- اس کے آنے کے کچھ دیر بعد ہمایوں کی گاڑی اندر داخل ہوئی تهی- البتہ وہ بمشکل ایک منٹ بعد ہی کچھ کاغذات اٹها کر واپس چلا گیا تها- اس کی گاڑی ابهی ابهی نکلی تهی-
وہ کهڑکی کے اس طرف چوکیدار کو گیٹ بند کرتے دیکھ رہی تهی، جب دروازہ ہولے سے بجا-
” محمل؟” فرشتے نے اپنے مخصوص نرم انداز میں پکارا’ پهر ہولے سے دروازہ کهولا – اب وہ کثرت سے سلام نہیں کرتی تهی- محمل نے گردن موڑ کر اسے دیکهاوہ دروازے کے بیچ و بیچ کهڑی تهی- درازقد’ کانچ سی سنہری انکهوں والی لڑکی’ جو کهلتے گلابی رنگ کے لباس میں ‘ سر پہ دوپٹہ لیے کهڑی تهی- وہ کون تهی- اسے لگا وہ اسے نہیں جانتی-
” کیسی ہو؟” وہ نرم سی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے اندر داخل ہوئی-
” بلقیس بتا رہی تهی تم میرا پوچھ رہی تهیں-” وہ آگے بڑھ کر عادتا” شیلف پہ رکهی کتابییں، رجسٹر اور ٹیپ وغیرہ سلیقے سے جوڑنے لگی- اس کے بهورے بال کهلے تهے اور اس نے ان ہی پہ دوپٹہ لے رکها تها- ایسے کہ چند لٹیں باہر گر رہی تهیں- گلابی دوپٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ چمک رہا تها-
” جی، مجهے پتا نہیں تها کہ آپ کدهر ہیں؟” محمل نے بغور اس کو دیکها’ جو اس کے سامنے سر جهکائے کتابیں سیٹ کر رہی تهی-
اسے ابهی بهی تیمور کی بات پہ یقین نہیں تها-
فرشتے ایسا نہیں کر سکتی تهی، کبهی بهی نہیں ‘ یقینا” تیمور کو سمجهنے میں غلطی ہوئی تهی-
“میں ایک دوست کے ساتھ تهی، کچه شاپنگ کرنا تهی-” بےحد رسان سے بتا کر اس نے رجسٹر ایک دوسرے کے اوپر رکها-
نہ اس نے جهوٹ بولا نہ سچ بتایا- اس کا یقین ڈگمگانے لگا-
” آپ نے آگے کا کیا سوچا ہے فرشتے؟ میرے جانے کے بعد آپ کیا کریں گی؟”
” ابهی پلان کرونگی، دیکهو کیا ہوتا ہے-” وہ اب گلدان میں رکهے گلدستے سے سوکهے پهول احتیاط سے نکال رہی تهی- اس کے جواب مبہم تهے- نہ سچ نہ جهوٹ-
” اور تم سارا دن کیا کرتی ہو؟” اس نے چرمرائے پهول ڈسٹ بن میں ڈالے-
” کچھ خاص نہیں-”
دونوں خاموش ہو گئیں اپنی اپنی سوچوں میں گم-
اب اس کے پاس حقیقت جاننے کا ایک ہی طریقہ تها اور اس نے اسے استعمال کرنے کا ارادہ کیا-
” فرشتے وہ جسم کس کی کرسی پہ ڈالا گیا تها؟”
“کون سا جسم؟” فرشتے نے پلٹ کر اس سے پوچها- پلٹنے سے اس کا دوپٹہ سرکنے سے بهورے بال جهلکنے لگے-
” قرآن میں ایک جگہ ایک جسم کا ذکر ہے جو کسی کرسی پہ ڈالا گیا تها- آپ کو یاد ہے وہ کس کا جسم تها؟” اس کا انداز یوں تها جیسے وہ بهول گئی ہو-
فرشتے نے الجھ کر چند لمحے سوچا پهر نفی میں سر ہلایا کہ نہیں مجهے نہیں یاد آرہا-”
اور محمل کو سارے جواب مل گئے تهے- فرشتے قرآن بهول گئی تهی- اگر وہ اسے پڑهتی رہتی تو اسے یاد رہتا، لیکن وہ اسے پڑهنا چهوڑ چکی تهی- اور قرآن تو چند دنوں کے لیے بهی چهوڑ دیا جائے تو وہ فورا” ذہنوں سے مکمل طور پہ محو ہو جاتا ہے- یہ کتاب اللہ کی سنت تهی اور یہ کبهی تبدیل نہیں ہو گی-
اس نے گہری سانس لی-
” وہ سلیمان علیہ السلام کی کرسی تهی جس پہ ایک جسم ڈال دیا گیا تها-”
” اوہ اچها-” فرشتے نے میز پہ گرے پانی کے قطرے ٹشو سے صاف کیے-
” کیوں، کیا آپ نے ایسا، فرشتے؟ وہ بہت دکھ سے بولی تهی- اب وقت آ گیا تها کہ وہ چوہے بلی کا کهیل بند کر دے-
” کیا؟” فرشتے نے سر اٹها کر اسے دیکها- اس ہے چہرے پہ صرف استفسار تها-
” وہ جو اس گهر میں ہوتا رہا، میں وہ سب جاننا چاہتی ہوں-”
“مثلا” ؟” اس نے ابرو اٹهائی’ اس کے چہرے پہ وہی نرم سا تاثر تها-
” سب کچھ!”
” سب کچھ؟ کس بارے میں؟ میری اور ہمایوں کی شادی کے بارے میں؟ اس کے انداز میں ندامت تهی نہ پکڑے جانے کا خوف’ وہ بہت آرام سے پوچھ رہی تهی-
” سب کچھ!” اس نے آہستہ سے دہرایا-
” جب ہمایوں کراچی سے آیا تو اس نے مجهے پروپوز کیا- وہ تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تها، مگر طلاق سے قبل وہ مجھ سے شادی بهی نہیں کر سکتا تها- سو ہم نے ڈیسائیڈ کیا کہ جب تم ہوش میں آ جاؤ تو وہ تمہیں ڈائیورس دے دے گا اور ہم شادی کر لیں گے-”
وہ جیسے موسم کی کوئی خبر سنا رہی تهی-
” وہ کہتا تها کہ علماء سے فتوی لے لیتے ہیں’ مگر میرا دل نہیں مانا’ میں نے سوچا کہ کچھ وقت انتظار کر لیتے ہیں اور پهر تم ہوش میں آ گئیں- سو اس نے ڈائیورس پیپرز سائین کر دیے- مجهے پروپوز کرنے سے قبل ہی وہ تمہیں ڈائیورس دینے کا فیصلہ کر چکا تها- اگر ضروری نہ ہوتا وہ تب بهی ایسے ہی کرتا، کیونکہ وہ یہ شادی رکهنے کو راضی نہیں تها-”
وہ بہت اطمینان اور سکون سے میز سے ٹیک لگائے کهڑی اس کے بارے میں ان کہے سوالات کے جوبات دے رہی تهی-
” میں نے اس کا پروپوزل اس لیے قبول کر لیا کہ طلاق کے بعد اس کو بهی کسی نہ کسی سے شادی کرنی تهی اور مجهے بهی اور چونکہ ہم دونوں ایک دوسرے کو اچهی طرح سے جانتے اور سمجهتے تهے’ سو اس کا پروپوزل میرے لیے بہترین چوائس تها- میں اس کو تمہارے ساتھ تعلق رکهنے پہ مجبور نہیں کر سکتی تهی’ نہ ہی وہ کسی کی مانتا ہے- سو شرعی لحاظ سے میرے پاس پروپوزل قبول کرنے کا حق تها سو میں نے وہ استعمال کیا-”
اس کے پاس دلائل تهے’ توجیہات تهیں’ ٹهوس اور وزنی شرعی سہارے تهے- محمل خاموشی سے اس کی ساری باتیں سنتی رہی’ وہ ذرا دیر کو چپ ہوئی تو اس نے لب کهولے-
” اور جب ہمایوں نے آپ سے میرے اور فواد کے تعلق کی نوعیت اور ان تصاویر کے بارے میں پوچها تها ‘ تب آ پ نے کیا کہا تها؟” اس نے اندهیرے میں تیر چلایا-
” وہ ہی جو سچ تها-” وہ اب بهی پرسکون تهی- ” اس کو معیز نے کچھ تصاویر اور وہ اگری منٹ لا کر دکهایا تها جو ہم نے فواد سے طے کیا تها- میں سمجهتی تهی کہ تم نے اس کے بارے میں ہمایوں کو بتا دیا ہو گا- میں نے اس کے غصے کے ڈر سے خود نییں بتایا تها- مگر تم نے بهی نہیں بتایا تو اسکا غصہ کرنا لازمی تها- اس نے مجهے بلایا’ پهر مجھ پہ وہ چیخا چلایا- میں چپ کر کے سنتی رہی’ اس نے پوچها کہ یہ ایگریمنٹ سچا ہے یا جهوٹا- میں نے سچ بولا- وہ غصے سے چلاتا رہا، اسے دکھ تها کہ ہم دونوں نے اس پرٹرسٹ نہیں کیا- پهر اس نے وہ تصویریں مجهے دکهائیں اور پوچها کہ وہ سچ ہیں یا جهوٹ؟ میں نے سچ ہی بولا-”
“کیا بولا؟” محمل نے تیزی سے اس کی بات کاٹی-
” یہ ہی کہ مجهے معلوم نہیں اور مجهے واقعی معلوم نہیں تها-”
اور وہ اسے دیکهتی رہ گئی- یہ فرشتے کاسچ تها-؟
” پهر اس نے پوچها کہ معیز جو باتیں اسے بتا گیا ہے وہ سچ ہیں یا جهوٹ؟ وہ اسے یہ بتا کر گیا تها کہ تمہارا اور فواد کا افئیر تها- اس رات فواد نے تمہیں پروپوز کرنا تها کوئی رنگ بهی دی تهی غالبا” اور پهر اس نے تمہیں بہانے سے ہمایوں کے گهر بهیج دیا- اس رنگ کا ذکر فواد کی اس فون کال میں بهی تها جو ہمایوں نے ٹیپ کی تهی- یہ بات اس نےپہلے اگنور کر دی تهی’ پهر ظاہر ہے معیز نے یاد دلایا تو وہ الجھ گیا – اس نے مجھ سے پوچها تو میں نے سچ بولا-”
اب کی بار وہ خاموش رہی- اس نے نہںں ہوچها کہ فرشتے کا سچ کیا تها – وہ جان گئی تهی کہ وہ کیا کہنے جا رہی ہے-
” میں نے اسے بتا دیا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتی، نہ ہی تم نے کبهی مجهے اس معاملے مین رازدار بنایا ہے- اس نے اس رات کے متعلق پوچها تو میں نے سچ سچ بتا دیا کہ فواد تمہیں پروپوز کرنے کے بہانے ہی ڈنر پہ لے کر جا رہا تها- تم نے مجهے یہ ہی بتایا تها’ سو میں نے یہی بتا دیا-”
وہ چپ چاپ یک ٹک سامنے کهڑی مطمئن سی لڑکی کو دیکهتی رہئ- جس کے چہرے پہ ملال تک نہ تها- وہ اس کا ایک راز تک نہیں سنبهال سکی تهی-
وہ سچ کیسے ہو سکتا ہے’ جس میں کسی امانت کا خون شامل ہو؟ وہ تو اسے جانتی تهی’ وہ اس کی بہن تهی’ کیا وہ اس کی پردہ پوشی نہیں کر سکتی تهی؟ فواد نے کبهی نہیں کہا تها کہ وہ اسے پروپوز کرنے جا رہا ہے- یہ سب تو اس نے خود اخذ کیا تها- اس سے ایک غلطی ہوئی تهی- وہ سمجهی تهی کہ وقت کی دهول نے اس غلطی کو دبا دیا ہو گا’ مگر لڑکیوں کی کچی عمر کی نادانیاں اتنی آسانی سے کہاں دبتی ہیں-”
” اس ٹیپ میں کسی رنگ کا بهی ذکر تها- ہمایوں نے بار نار سنا’ وہ مجھ پہ غصہ ہوتا رہا کہ میں نے اسے بےخبر کیوں رکها’ پهر اس نے اپنا ٹرانسفر کراچی کروا لیا-”
وہ اب کهڑکی سے باہر لان کو دیکهتے ہوئے کہہ رہی تهی-
” وہاں کراچی میں اسے آرزو ملی- اس کے فادر کی ڈیتھ کے بعد کریم چچا اور غفران چچا نے اس کا حصہ بهی دبا لیا تها- سو اس نے سوچا کہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں- اس نے فواد سے تمہارا اور میرا سائن کردہ کاغذ لیا اور معیز کے ہاتهوں ہمایوں کو بهجوایا- فواد’ آرزو کو پسند کرنے لگا تها’ وہ اب اس سے شادی کرنا چاہتا تها’ وہ اسے اپنانے کےلیے تڑپ رہا تها- مگر آرزو کو ہمایوں بہتر لگا’ سو اس نے چاہا کہ ہمایوں تمہارا حصہ قانونی طور پہ آغا کریم سے واپس لے’ اس کا حصہ لینے میں بهی مدد کرے’ تا کہ جب وہ ہماہوں سے شادی کرے تو تمہارے حصے پہ بهی وہ قابض ہو سکے جو ہمایوں کی ملکیت میں ہو گا’ اور نیچرلی تمہارے بارے میں وہ پریقین تهی کہ تم کبهی نہین اٹهو گی-”
بادل ایک دفعہ پهر زور سے گرجے ‘ دور کہیں بجلی چمکی’ شام کی نیلاہٹ سارے میں بهر رہی تهی-
وہ ابهی تک خاموشی سے فرشتے کو سن رہی تهی-
” مگر ہمایوں کو فواد سے ضد ہو گئی تهی- صرف اس لیے کہ فواد آرزو کو پسند کرتا ہے ‘ اس نے آرزو کو اپنے قریب آنے دیا- فواد ہمایوں کی منتیں کرتا رہا کہ وہ آرزو کو چهوڑ دے مگر ہمایوں اس سے اپنے سارے بدلے چکانا چاہتا تها- وہ کہتا تها کہ فواد نے اس کی محبت کو چهینا ہے’ وہ بهی اس کی محبت کو ویسے ہی چهینے گا- وہ آرزو سے کبهی بهی شادی نہین کر رہا تها-مگر اس نے آرزو کو دهوکے میں رکها- ابهی مجهے ڈراپ کر کے وہ آرزو کے پاس ہی گیا ہے- اس کو یہ بتانے کہ جیسے وہ اس کو استعمال کر رہی تهی وہ بهی ویسے ہی اسے استعمال کر رہا تها- وہ شدت پسند لڑکی جانے غصے میں کیا کر ڈالے- مگر جو بهی ہو وہ آج اسے آئینہ دکها کر ہی واپس آئے گا-”
کهڑکی کے بند شیشے پہ کسی چڑیا نے زور کی چونچ ماری’ پهر چکرا کر پیچهے کو گری، بادل وقفے وقفے سے گرج رہے تهے-
” شاید تم یہ سمجهو کہ میں نے تمہارے ساتھ برا کیا یے یا یہ کہ مجهے ایسا نہیں کرنا چاہئیے تها- لیکن تم یہ سوچو کہ میں پهر اور کیا کرتی؟ میں ہمایوں سے بہت محبت کرتی تهی اور کرتی ہوں- مگر جب مجهے لگا کہ تم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہو تو میں درمیان سے نکل گئی- لیکن اب وہ تمہیں نہیں چاہتا اور مجهے بهی کسی نہ کسی سے شادی تو کرنی تهی- مجهے بتاؤ میں نے غلط کیا؟ میرے دین نے مجهے پروپوزل سلیکٹ کرنے کا اختیار دیا تها- سو میں نے اسے استعمال کیا- تم کسی بهی مفتی سے پوچھ لو اگر کوئی عورت شوہر کی ضروریات پوری کرنے کے قابل نہ رہی ہو تو شوہر دوسری شادی کر سکتا ہے- اور اس میں کسی کی حق تلفی کی کوئی بات نہیں ہے نہ ہی قطع رحمی کا عنصر شامل ہے’ یاد کرو’ سورہ نساء میں ہم نے کیا پڑها تها کہ اگر کوئی ایک حقوق ادا نہ کر سکے تو پهر اپنے حقوق چهوڑ دے’ الگ یو جائے کہ اللہ دونوں کے لیے وسعت پیدا کر دے گا-”
اپنے مطلب کی آیات اسے آج بهی یاد تهیں-
آئی ہوپ کہ اب تمہاری کنفیوژن اور اعتراضات دور ہو گئے ہونگے- میں نے سات سال تمہاری خدمت کی ‘ حالانکہ میرا فرض نہیں تها’ مگر اس لیے کہ تم یہ نہ سمجهو کہ میں تم سے پیار نہیں کرتی- میں آج بهی تم سے بہت پیار کرتی ہوں- تم نے ایک دفعہ مجھ سے کہا تها کہ ضرورت پڑنے پر تم میرے لیے اپنا حق چهوڑ دوگی’ جب فواد نے تمہاری گردن پہ پستول رکها تها ‘تمہیں بچانے کے لیے میں نے اپنا حق چهوڑا تها’ یہ باتیں میں نے آج کے دن کے لیے سنبهال کر رکهی تهیں’ تاکہ آج میں تم سے تمہارے وعدے کی وفا مانگ سکوں-”
وہ خاموش ہو گئی’ اب وہ محمل کے بولنے کی منتظر تهی-
” آپ نے کہہ لیا جو آپ نے کہنا تها؟”
“ہاں-”
” کیا اب آپ میری سنییں گی؟” اس کا لہجہ سپاٹ تها-
” ہاں-”
” تو پهر سنیئے’ اعوذبااللہ من الشیطن الرجیم-” اس نے تعوذ پڑها توفرشتے نے ذرا الجھ کر اسے دیکها- مگر وہ رکی نہین تهی، بہت دهیمے مگر مضبوط لہجے میں اسے کچھ سنانے لگی تهی- وہ عربی جو ان دونوں کو سمجھ میں آتی تهی-
” اور اسی طرح ہم کهول کهول کر آیات بیان کرتے ہیں’ شاید کہ وہ پلٹ آئیں-…..شاید کہ وہ پلٹ آئیں-”
فرشتے کی آنکهوں میں الجها سا تاثر ابهرا- محمل بنا پلک جهپکے اس کی انکهوں میں دیکهتے ہوئے پڑهتی جا رہی تهی-
” ان لوگوں کو اس شخص کی خبر پڑھ کے سناؤ جس کو ہم نے اپنی آیات دی تهیں- جس کو ہم نے اپنی” آیات” دی تهیں- پهر وہ ان سےنکل بهاگا تو اس کے پیچهے شیطان لگ گیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا-“.
فرشتے کی بهوری آنکهوں میں بےچینی ابهری تهی- ” محمل! میری بات سنو-”
مگر وہ نہیں سن رہی تهی- پتلیوں کو حرکت دیے بنا نگاہیں اس پہ مرکوز کیے کہتی جا رہی تهی-
” تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا-” اس کی آواز بلند ہو رہی تهی- ” اور اگر ہم چاہتے تو اسے انہی آیات کے ساتھ بلندی عطا کرتے’ لیکن وہ زمین کی طرف جهک گیا-”
” محمل چپ کرو-” وہ زیر لب بڑبڑائی تهی’ مگر محمل کی آواز اونچی ہو رہی تهی-
” لیکن وہ زمین کی طرف جهک گیا اور اس نے اپنی خواہشات کی پیروی کی- تو اس کی مثال اس کتے جیسی ہے – تو اس کی مثل کتے جیسی ہے-”
” اگر تم اس پہ حملہ کرو تو وہ زبان باہر نکالتا ہے’ یا تم اس کو چهوڑ دو ‘ تو بهی وہ زبان باہر نکالتا ہے-”
‘ خاموش ہو جاؤ! خدا کے لیے خاموش ہو جاؤ-” اس نے تڑپ کر محمل کے منہ پر ہاتھ رکهنا چاہا’ اس کا دوپٹہ کندهوں سے پهسل گیا تها’ کهلے بال شانوں پی آگرے تهے-
محمل نے سختی سے اس کا ہاتھ جهٹکا- اسی میکانکی انداز میں اسے دیکهتی پڑهتی جا رہی تهی-
” جسے اللہ ہدایت بخشے ‘ پس وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بهٹکا دے ‘ بس وہی لوگ خسارہ پانے والے ہیں-”
اس کے ہاتھ بے دم ہو کر اپنی گود میں آ گرے تهے- وہ پهٹی پهٹی نگاہوں سے اسے دیکهتی ‘ گهٹنوں کے بل اس کے قدموں میں گری تهی-
” بےشک ہم نے جہنم کے لیے بہت سے جنوں میں سے اور بہت سےانسانوں میں سے پیدا کیے ہیں- ان کے لیے دل ہیں- وہ ان سے کچھ نہیں بهی سمجهتے اور ان کے لیے آنکهیں ہیں ‘ وہ ان سے کچھ بهی نہیں دیکهتے- اور ان کے لیے کان ہیں- وہ ان سے کچھ بهی نہیں سنتے- یہی لوگ مویشیوں کی طرح ہیں’ بلکہ یہ تو زیادہ بهٹکے ہوئے ہیں- یہی وہ لوگ ہیں جو غافل ہیں’ جو غافل ہیں-” وہ کسی معمول کی طرح بار بار وہی لفظ دہرا رہی تهی-
فرشتے سفید چہرہ لیے بےدم سی بیٹهی تهی-اس کے لب ہولے ہولے کپکپارہے تهے- محمل نے آہستہ سے پلک جهپکی تو دو آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکهوں سے گرے-
” اور اسی طرح ہم کهول کهول کر اپنی آیات بیان کرتے ہیں ‘ شاید کہ وہ پلٹ آئیں!”
اس نے وہیل چئیر کے پہیوں کو دونوں اطراف سے تهاما اور اس کا رخ کهڑکی کی طرف موڑا وہ آہستہ آہستہ وہیل چئیر کو کهڑکی کی طرف بڑهانے لگی-
فرشتے پیچهے بیٹهی رہ گئی تهی-محمل نے پلٹ کر اسے نہیں دیکها- وہ ابهی پلٹنا نہیں چاہتی تهی-
” اور اسی طرح ہم کهول کهول کر آیات بیان کرتے ہیں ‘ شاید کہ وہ پلٹ آئیں!” وہ کهڑکی کے پار دیکهتے ہوئے زیرلب بڑبڑائی تهی-
فرشتے سے مزید کچھ نہیں سنا گیا- وہ تیزی سے آٹهی اور منہ پر ہاتھ رکهتے ہوئے تیزی سے بهاگتی ہوئی باہر نکل گئی-
محمل اسی طرح نم آنکهوں سے باہر چمکتی بجلی کو دیکهتی رہی-
جاری یے۔۔۔۔۔۔۔۔۔