شاعر: جناب رفیع الدّین راز
رہ گزارِ شوق میں کیا دشت و دریا دیکھنا
عشق کا احرام باندھا ہے تو پھر کیا دیکھنا
شوقِ دیدہ زندگی کا استعارا دیکھنا
دن میں سورج دیکھنا شب میں ستارا دیکھنا
اس تماشا گاہ میں کیا کار ہائے روز و شب
یا تماشا بن کے رہنا یا تماشا دیکھنا
جاگنے تو دو شعورِ عاشقی کو روح میں
قطرۂ خونِ تمنّا کا تقاضا دیکھنا
کِتنا روشن کس قدر شفّاف ہے اِس کا وجود
طفل ہے یا روشنی کا استعارا دیکھنا
مانتا ہوں فیل، فرزیں ،اسپ سب نظروں میں ہیں
مات کا باعث نہ بن جائے پیادا دیکھنا
راز مشکل ہے بہت اِس جگمگاتی بزم میں
سادگی کے ساتھ رہنا خوابِ سادا دیکھنا
پیشکش: انیس