عارف وقار
پطرس بخاری نے پانچ دسمبر انیس سو اٹھاون کو نیویارک میں وفات پائی |
پروفیسر احمد شاہ بخاری کو ہم لوگ ’پطرس بخاری‘ کے قلمی نام سے زیادہ جانتے ہیں۔ موت کے پینتالیس برس بعد مرحوم کو حکومت پاکستان نے ہلال امتیاز کے اعزاز سے نوازا ہے۔
دیر آید درست آید کے مصداق اگرچہ اس اعزاز کو علمی و ادبی حلقوں میں خوش آمدید کہا گیا لیکن حقیقت یہی ہے کہ پطرس کی شخصیت ایسے اعزازات سے ماوراء تھی۔ یہ فخر تو خود ’ہلال امتیاز‘ کو ہونا چاہئے کہ اسے پطرس جیسی عظیم شخصیت کے سینے پر سجنے کا موقعہ ملا ہے۔
پطرس بخاری صحیح معنوں میں ایک ہمہ گیر شخصیت تھے۔ وہ بیک وقت ایک منفرد مزاح نگار، ایک باضمیر صحافی، اعلیٰ ماہر تعلیم، عمدہ مترجم، زیرک نقّاد، قابل براڈ کاسٹر اور ایک منجھے ہوئے سفارت کار تھے۔
ان کی پیدائش اٹھارہ سو اٹھانوے میں پشاور کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔ اردو ، فارسی، پشتو اور انگریزی پر انہیں سکول ہی کے زمانے میں خاصی دسترس حاصل ہوگئی تھی۔ انگریزی اتنے درست تلفّظ کے ساتھ بولتے تھے کہ سکول کی ایک تقریب میں صوبہ سرحد کے انگریز چیف کمشنر سر جارج کیمپل بے اختیار کہہ اٹھے : ’کاش میں بھی اس روانی اور مہارت سے پشتو بول سکتا‘۔
احمد شاہ بخاری نے گورنمنٹ کالج لاہور میں معروف اساتذہ کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کی اور کالج کے معروف مجلّے ’راوی‘ کی ادارت سنبھالی۔ یہیں سے لکھنے لکھانے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ بعد میں سول اور ملٹری گزٹ کے مضامین کی اشاعت شروع ہوئی۔
اعلیٰ تعلیم کیلئے جب کیمبرج گئے تو انگریزی شعروادب کو اس کے اصل ماحول میں جانچنے، پرکھنے کا موقعہ ملا۔ یہیں انہیں یہ خیال آیا کہ انگریزی کے چیدہ چیدہ ادب پاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنا چاہئے۔ ہندوستان واپس آکر انہوں نے کئی قریبی دوستوں کو ترجمے اور تالیف کے کام کی طرف راغب کیا۔ انہیں اس بات کا شدید احساس رہتا تھا کہ: ’گیسوئے اردو ابھی منّت پذیرِ شانہ ہے‘۔
لیلیٰءِ اردو کے گیسو سنوارنے کی فکر انہیں اس لئے بھی دامن گیر رہتی کہ وہ اس زبان کو اعلیٰ تعلیم کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے اور اس کیلئے ضروری تھا کہ اردو میں جدید علوم وفنون کا خزانہ موجود ہو۔ دراصل ان کے ذہن میں حیدرآباد دکن کی طرز کا ایک ادارہ تھا جو کہ اردو کیلئے اسی طرح کی خدمات پنجاب میں سرانجام دے سکے۔ اس مقصد کیلئے انہیں فیض احمد فیض، ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر، حفیظ جالندھری اور پروفیسر منظور حسین جیسے عمائدین کا مکمل تعاون بھی حاصل تھا۔
جب انہیں آل انڈیا ریڈیو کا ناظم اعلیٰ مقرر کیا گیا تو اردو ہندی کا جھگڑا زوروں پر تھا۔ ہندی لابی نے الزام لگایا کہ پطرس بخاری نے آل انڈیا ریڈیو کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی اس قومی نشریاتی ادارے پر مسلمانوں کی زبان مسلّط کر دی ہے اور چن چن کر اردو کے ادیب ریڈیو میں ملازم رکھ لئے ہیں۔
پطرس بخاری کا استدلال یہ تھا کہ ریڈیو کی زبان سادہ اور عام فہم ہونی چاہئے، اسے اردو کا نام دو یا ہندی کا یا ہندوستانی کا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن ہندی والوں کے ایک تنگ نظر گروہ نے ان کا جینا حرام کئے رکھا۔ وہ صدر دفتر کو شکایات بھیجتے رہے کہ ریڈیو پر اردو والوں کا قبضہ ہوتا جارہا ہے۔ انگریز افسران بالا کی جانب سے بخاری کو آئے دن وضاحت طلب خط وصول ہوتے رہتے اور بخاری اپنی ذہانت، معاملہ فہمی اور انگریزی دانی کے زور پہ افسران کو مطمئن کرتے رہتے۔
انیس سو سینتالیس میں بخاری اس دانتا کل کل سے یوں آزاد ہو گئے کہ انہیں گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل کا عہدہ پیش کیا گیا جو انہوں نے بخوشی قبول کر لیا۔ ان کا خیال تھا کہ گورنمنٹ کالج کے علمی و ادبی ماحول میں انہیں گیسوئے اردو سنوارنے کی دیرینہ خواہش پوری کرنے کا موقعہ میسر آئے گا۔
لیکن انہی دنوں لیاقت علی خاں کی نگاہ جوہر شناس بخاری پر پڑ گئی اور وہ اپنے اوّلین دورہ امریکہ میں ایک پاکستانی ترجمان کے طور پر بخاری کو ساتھ لے گئے۔
سن پچاس کا عشرہ شروع ہوا تو بخاری کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہو گیا۔ وہ اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب کے فرائض سرانجام دینے لگے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ہمیر شولڈ نے بخاری کی صلاحیتوں کا عملی اعتراف یوں کیا کہ انہیں اپنا نائب خصوصی مقرر کر دیا اور یوں احمد شاہ بخاری اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل بن گئے۔
امریکہ میں قیام کے دوران انہیں امریکی ادیبوں اور شاعروں سے قریبی روابط کا موقعہ ملا۔ یہاں بھی ان کے ذہن میں یہی دھن سمائی رہی کی معروف امریکی ادب پاروں کو اردو میں منتقل کیا جائے۔
کولمبیا یونیورسٹی کی طرف سے انہیں یہ پیش کش ہوئی کہ اقوام متحدہ میں اپنا عرصہ ملازمت پورا کرنے کے بعد اگر وہ چاہیں تو تدریس کے من پسند شعبے سے دوبارہ وابستہ ہو جائیں۔ لیکن پطرس بخاری کو لاہور کی یاد بہت ستانے لگی تھی اور انہوں نے ملازمت کے خاتمے پر لاہور جا کر تالیف و ترجمے کا کام کرنے کی ٹھان رکھی تھی۔
وہ امتیاز علی تاج کے ساتھ مل کر ہندوستان کے تھئیٹر کی ایک مفصّل تاریخ لکھنا چاہتے تھے اور امریکہ کے کتب خانوں سے انہوں نے اس سلسلے میں کچھ خام مواد بھی جمع کر لیا تھا لیکن ان کے یہ سب منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اقوام متحدہ کی ملازمت کے دوران انہیں دل کا دورہ پڑا اور دسمبر انیس سو اٹھاون میں نیو یارک میں ان کا انتقال ہوگیا۔
اگر وہ ایک بین الاقوامی سطح کے سفارت کار نہ بھی ہوتے اور تعلیم و تدریس کے میدان میں کوئی کارنامہ سر انجام نہ بھی دیتے تو بھی اردو کے ایک عام قاری کے دل میں ان کا احترام ہمیشہ موجود رہتا۔ آگے بڑھنے سے پہلے آئیے اس شگفتہ تحریر پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
’اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے، اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں، اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ اب بہتر یہی ہے کہ آپ اس کتاب کو اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کو حق بجانب ثابت کریں۔۔۔۔
ان لفظوں سے شروع ہوتا ہے اس چھوٹی سی کتاب کا دیباچہ جو ’پطرس کے مضامین‘ کہلاتی ہے اور اپنی جامعیت اور گہرائی کی بدولت بہت سے مزاح نگاروں کے کلیّات پہ بھاری ہے۔ یہ مضامین آج سے ستّر برس پہلے لکھے گئے تھے لیکن زبان کی تازگی، انداز کی ندرت اور موضوعات کی نوعیت دیکھئے تو یہ بالکل اکیسویں صدی کی تحریریں ہیں۔
شہروں کو آلودگی سے پاک رکھنے اور لوگوں میں ماحولیاتی آگاہی پیدا کرنے کی مہم مغربی ملکوں میں بھی زیادہ پرانی نہیں ہے اور تیسری دنیا میں تو یہ ایک بالکل نیا موضوع ہے لیکن پطرس بخاری نے انیس سو تیس کے عشرے میں لاہور کا حدود اربعہ بیان کرتے ہوئے لکھا تھا
’کہتے ہیں کسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا لیکن طلباء کی سہولت کیلئے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا ہے۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے اور روز بروز واقع تر ہوتا جارہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ دس بیس سال کے اندر لاہور ایک صوبے کا نام ہوگا جس کا دارالخلافہ پنجاب ہوگا۔ یوں سمجھئے کہ لاہور ایک جسم ہے جس کے ہر حصّے پر ورم نمودار ہو رہا ہے لیکن ہر ورم موادِ فاسد سے بھرا ہوا ہے۔ گویا یہ توسیع ایک عارضہ ہے جو اس جسم کو لاحق ہے۔۔۔۔
زمانہ حال کے معروف مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کتّوں کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کتّوں کے وجود کا ایک ہی مقصد تھا کہ پطرس بخاری ان پر ایک زبردست مضمون لکھ سکیں اور چونکہ یہ مقصد عرصہ دراز ہوا پورا ہو چکا ہے اس لئے اب کتوں کا وجود بے کار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خود پطرس نے بھی اپنے مضمون میں بنیادی سوال یہی اٹھایا ہے کہ اس مخلوق کا فائدہ کیا ہے؟
’علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا، سلوتریوں سے دریافت کیا، خود سر کھپاتے رہے لیکن کبھی سمجھ نہ آیا کہ آخر کتوں کا فائدہ کیا ہے۔ گائے کو لیجئے، دودھ دیتی ہے۔ بکری کو لیجئے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کتا وفادار جانور ہے۔ اب جناب اگر وفاداری اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم لئے بھونکتے ہی چلے گئے تو ہم لنڈورے ہی بھلے۔۔۔۔
اور آخر میں ذکر ہے اس مضمون کا جو مختلف کتابوں کے نصاب میں شامل رہنے کے سبب ان کا معروف ترین مضمون ہے۔ نام تو ہے اس کا ’مرحوم کی یاد میں‘ لیکن اس کی ایک مختصر شکل ’مرزا کی بائسیکل‘ کے عنوان سے ہائی سکول کے اردو نصاب میں عرصہ دراز تک شامل رہی ہے۔ اس مضمون میں ایک پرانی اور پھٹیچر سائیکل کا نقشہ اس خوبی سے کھینچا گیا ہے کہ پڑھنے والا خود کو عملاً اس سائیکل پر سواری کرتا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے
’آخر کار بائسیکل پر سوار ہوا۔ پہلا ہی پاؤں چلایا تو ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی مردہ اپنی ہڈیاں چٹخا چٹخا کر اپنی مرضی کے خلاف زندہ ہو رہا ہو۔۔۔۔زنجیر ڈھیلی ڈھیلی تھی۔ میں جب کبھی پیڈل پر زور ڈالتا، زنجیر میں ایک انگڑائی سی پیدا ہوتی جس سے وہ تن جاتی اور چڑ چڑ بولنے لگتی۔ پھر ڈھیلی ہو جاتی۔
پچھلا پہیہ گھومنے کے علاوہ جھومتا بھی تھا۔ یعنی ایک تو آگے کو چلتا تھا، دوسرا دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کو بھی حرکت کرتا تھا۔ چنانچہ سڑک پر جو نشان پڑتا جاتا تھا، اسے دیکھ کر یوں لگتا تھا جیسے کوئی مخمور سانپ لہرا کے گزر گیا ہے۔۔۔
جس طرح مرزا غالب نے اپنے اردو کلام پہ کبھی فخر نہیں کیا تھا اسی طرح پطرس نے اپنے مضامین کو کبھی زیادہ اہمیت نہ دی بلکہ کئی برس تک ان مضامین کا مسوّدہ پریس میں پڑا رہا اور پطرس بخاری دیباچہ لکھنے میں سستی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ آخر کار افسانہ نگار غلام عباس نے سر پر کھڑے ہو کر دیباچے کی ڈکٹیشن لی اور مسوّدہ چھپ کر منظر عام پر آیا۔
یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جس طرح غالب کی بقائے دوام کا سہرا بالآخر ان کے اردو کلام کے سر بندھا، اسی طرح پطرس کی شہرتِ عام بھی انہی اردو مضامین کی مرہونِ منّت ہے۔ چونکہ پطرس بخاری نے ان مضامین کے حقوقِ اشاعت محفوظ نہیں کرائے تھے اس لئے ہر ایرا غیرا پبلشر تجارتی مقاصد کیلئے ان مضامین کو بے شمار غلطیوں سمیت شائع کرتا رہا ہے۔
عرصہ دراز سے اس بات کی ضرورت تھی کہ کوئی بندہ خدا اس پبلک پراپرٹی کا ایک صاف ستھرا ایڈیشن شائع کرے جو کتابت اور طباعت کی غلطیوں سے پاک ہو اور پطرس کو صحیح رنگ میں نئی نسل کے سامنے پیش کر سکے۔
کچھ عرصہ قبل اسلام آباد کے اشاعتی ادارے ’الحمرا‘ نے یہ دیرینہ ضرورت پوری کر دی ہے اور پطرس کے مضامین کا نہایت عمدہ پاکٹ ایڈیشن شائع کر دیا ہے۔ دیگر خوبیوں کے علاوہ مشکل الفاظ کے معانی بھی ہر صفحے کے ساتھ ساتھ فٹ نوٹ میں دیئے گئے ہیں تاکہ طالب علموں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا بھی بھلا ہو سکے جو ’اورڈو‘ کو ایک ’ڈفی کلٹ لینگویج‘ سمجھتے ہیں