ورنگزیب عالمگیر کے دربار میں ایک بہروپیا آیا اور اس نے کہا
” باوجود اس کے کہ آپ رنگ و رامش ، گانے بجانے کو برا سمجھتے ہیں – شہنشاہ معظم ! لیکن میں فنکار ہوں اور ایک فنکار کی حیثیت سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور میں بہروپیا ہوں – میرا نام کندن بہروپیا ہے – اور میں ایسا بہروپ بدل سکتا ہوں آپ کو جو اپنے علم پر بڑا ناز ہے کو دھوکہ دے سکتا ہوں اور میں غچہ دے کر بڑی کامیابی کے ساتھ نکل جاتا ہوں – اورنگزیب عالمگیر نے کہا : تمھاری بات وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے – میں تو شکار کو بھی بیکار کام سمجھتا ہوں یہ جو تم میرے سامنے دعوہ کر رہے ہو اس کو میں کوئی اہمیت نہیں دیتا – ” اس نے کہا : ہاتھ کنگن کو آرسی کیا – آپ اتنے بڑے شہنشاہ ہیں اور دانش میں اپنا جواب نہیں رکھتے – میں بھیس بدلونگا آپ پہچان کر دکھائیے – ” تو انھوں نے کہا ! ” منظور ہے ” اس نے کہا حضور آپ وقت کے شہنشاہ ہیں – اگر تو آپ نے مجھے پہچان لیا تو میں آپ کے دینے دار ہوں – لیکن اگر آپ مجھے پہچان نہ سکے اور میں نے ایسا بھیس بدلہ تو آپ سے پانچ سو روپیہ لونگا – شہنشاہ نے کہا شرط منظور ہے – اسے پتا چلا کے اگلے سال شہنشاہ مرہٹوں پر حملہ کریگا چانچہ وہ وہاں سے پا پیادہ سفر کرتا ہوا اس مقام پر پہنچ گیا – ایک سال کے بعد جب اپنا لاؤ لشکر لے کر اورنگزیب عالمگیر ساؤتھ انڈیا پہنچا اور پڑاؤ ڈالا تو تھوڑا سا وہ خوفزدہ تھا – اور جب اس نے مرہٹوں پر حملہ کیا تو وہ اتنی مضبوطی کے ساتھ قلعہ بند تھے کہ اس کی فوجیں وہ قلعہ توڑ نہ سکیں – لوگوں نے کہا یہاں ایک درویش ولی الله رہتے ہیں ان کی خدمت میں حاضر ہوں – پھر دعا کریں پھر ٹوٹ پڑیں – شہنشاہ پریشان تھا بیچارہ بھاگا بھاگا گیا ان کے پاس – سلام کیا اور کہا ؛ ” حضور میں آپ کی خدمت میں ذرا ………… ” انھوں نے کہا ! ” ہم فقیر آدمی ہیں ہمیں ایسی چیزوں سے کیا لینا دینا – ” شہنشاہ نے کہا ! ” نہیں عالم اسلام پر بڑا مشکل وقت ہے ( جیسے انسان بہانے کرتا ہے ) آپ ہماری مدد کریں میں کل اس قلعے پر حملہ کرنا چاہتا ہوں – ” تو فقیر نے فرمایا ! ” نہیں کل مت کریں ، پرسوں کریں اور پرسوں بعد نماز ظہر – ” اورنگزیب نے کہا جی بہت اچھا ! چانچہ اس نے بعد نماز ظہر جو حملہ کیا ایسا زور کا کیا اور ایسے جذبے سے کیا اور پیچھے فقیر کی دعا تھی ، اور ایسی دعا کہ قلعہ ٹوٹ گیا اور فتح ہو گئی – مفتوح جو تھے پاؤں پڑ گئے – بادشاہ مرہٹوں کے پیشوا پر فتح مند کامران ہونے کے بعد سیدھا درویش کی خدمت میں حاضر ہوا – باوجود اس کے کہ وہ ٹوپیاں سی کے اور قران پاک لکھ کے گزارا کرتا تھا لیکن سبز رنگ کا بڑا سا عمامہ پہنتا تھا بڑے زمرد اور جواہر لگے ہوتے تھے – اس نے جا کر عمامہ اتارا اور کھڑا ہوگیا دست بستہ کہ حضور یہ سب آپ ہی کی بدولت ہوا ہے – اس فقیر نے کہا : ” نہیں جو کچھ کیا الله ہی نے کیا ” انھوں نے کہا کہ آپ کی خدمت میں کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں
درویش نے کہا : ” نہیں ہم فقیر لوگ ہیں – ‘ اورنگزیب نے کہا دو پرگنے یعنی دو بڑے بڑے قصبے – اتنے بڑے جتنے آپ کے اوکاڑہ اور پتوکی ہیں وہ آپ کو دیتا ہوں اور اور آئندہ پانچ سات پشتون کے لئے ہر طرح کی معافی ہے – اس نے کہا : ” بابا ہمارے کس کام کی ہیں یہ ساری چیزیں – ہم تو فقیر لوگ ہیں تیری بڑی مہربانی – ” اورنگزیب نے بڑا زور لگایا لیکن وہ نہیں مانا اور بادشاہ مایوس ہو کے واپس آگیا – اور اورنگزیب اپنے تخت پر آ کر بیٹھ گیا جب وہ ایک فرمان جاری کر رہا تھا عین اس وقت کندن بہروپیا اسی طرح منکے پہنے آیا – تو شہنشاہ نے کہا : ” حضور آپ یہاں کیوں تشریف لائے مجھے حکم دیتے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا – ” کندن نے کہا ! ” نہیں شہنشاہ معظم ! اب یہ ہمارا فرض تھا ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو جناب عالی میں کندن بہروپیا ہوں – میرے پانچ سو روپے مجھے عنایت فرمائیں – ” اس نے کہا : ” تم وہ ہو – کندن نے کہا ہاں وہی ہوں – جو آج سے ڈیڑھ برس پہلے آپ سے وعدہ کر کے گیا تھا – اورنگزیب نے کہا : ” مجھے پانچ سو روپے دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں جب میں نے آپ کو دو پرگنے اور دو قصبے کی معافی دی جب آپ کے نام اتنی زمین کر دی جب میں نے آپ کی سات پشتون کو یہ رعایت دی کہ اس میری ملکیت میں جہاں چاہیں جس طرح چاہیں رہیں – آپ نے اس وقت کیوں انکار کر دیا ؟
یہ پانچ سو روپیہ تو کچھ بھی نہیں – اس نے کہا : ” حضور بات یہ ہے کہ جن کا روپ دھارا تھا ، ان کی عزت مقصود تھی – وہ سچے لوگ ہیں ہم جھوٹے لوگ ہیں – یہ میں نہیں کر سکتا کہ روپ سچوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی کروں