’’ ہم تو روزے سے نہیں ہیں‘‘
ہم نے ذرا سختی سے کہا’’ آپ کو افطاری کے دسترخوان کا احترام کرنا چاہیے اور انتظار کریں۔ جب اذانِ مغرب ہو جائے گی تو شوق پورا فرمالیجئے گا‘‘۔
باباجی کو اگرچہ ہمارا ٹوکنا ناگوار گزرا مگر جب جائزہ لیا کہ دسترخوان کے گِرد بیٹھے سب لوگ اذان کے منتظر ہیں تو قدرے شرمندگی سے پیچھے ہٹے مگر کھجوروں کا ایک پورا پیکٹ اپنے سامنے رکھ لیا۔
مسجدِ نبوی میں نمازِ مغرب سے پہلے کئی دسترخوان بچھ جاتے ہیں ۔ مقامی عرب لوگ جو روزے سے ہوتے ہیں وہ یہ اہتمام کرتے ہیں کہ 40-50افراد کا دسترخوان سجا کر روزہ کھولیں ۔ دعوتِ عام ہوتی ہے۔ ایسی افطاری میں عموماً صرف کھجور ہوتی ہے اور چھوٹی چھوٹی خوبصورت پیالیوں میں عربی قہوہ ۔کچھ لوگ ذائقہ دار حلوہ بھی پیش کرتے ہیں ۔ہم نے چند دفعہ تو تِلوں والے نمکین نان اور قہوہ کی افطاری بھی دیکھی ۔ ہر ایسی افطاری عموماً ایک مقامی عرب کی جانب سے ہوتی وہ خود تو دسترخوان پر بیٹھ جاتا اور اس کے بیٹے دسترخوان سجاتے اور لوگوں کو قہوہ پیش کرتے اور کھجوریں آس پاس بیٹھے افراد کو بھی تقسیم کرتے ۔
عرب لوگ اپنی روائتی میزبانی کو ابھی تک جاری رکھے ہوئے ہیں ہم بھی سنتے تھے کہ پٹھان لوگ بڑے مہمان نواز ہوتے ہیں مگر شمالی علاقوں میں جانے کے بعد اس کا کبھی عملی مظاہرہ نہیں دیکھا اور سیاحوں کی جو درگت مقامی پٹھان بناتے ہیں اس سے سب آگاہ ہیں ۔ مگر عرب ابھی تک اس روایت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ رمضان میں تو اس کا عروج دیکھا جا سکتا ہے۔ جب حرمین میں لاکھوں لوگوں کے لئے وافر افطاری کا اہتمام ہوتا ہے۔ جبکہ عمومی حا لات میں بھی اگرچہ یہاں نذر و نیاز کی بدعات نہیں ہیں مگر سخاوت اور مہمانداری کے طور پرکثرت سے کھجور تقسیم کی جاتی ہے۔ راستہ میں اچانک ایک عرب بڑا سا پیکٹ اُٹھائے لوگوں میں کھجور تقسیم کرنا شروع کر دے گا۔ جو عرب روزے سے ہوں وہ پھر اپنا روزہ حرمین میں افطار کرتے ہیں اور ساتھ 40-50افراد کو افطارکروائیں گے ۔
یہ شرمندگی کہ افطار کے دسترخوان پر اذان سے پہلے ہی کھانا شروع کردو تقریباً ہر دفعہ دیکھی اور زیادہ تر انڈین یا بنگالی بابے اس میں ملوث پائے گئے اور کھانے کے علاوہ کچھ کھجوریں جیب میں ڈالنے سے بھی نہ چوکتے۔ کھجوروں اور قہوہ کے علاوہ کم ہی کوئی چیز تقسیم ہوتے دیکھی سوائے ایک موقع پر ۔ عصر کی نماز کے بعد باب عزیز کے سامنے مسجدِاحرام کے صحن میں عین خانہ کعبہ کے سامنے صفیں بچھ چکی تھیں اور لوگ مغرب کے کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹہ پیشتر ہی نماز کے انتظار میں بیٹھ رہے تھے۔ہم بھی طواف کے بعد حرم کے صحن میں جگہ پا چکے تھے کہ ایک وجیع ، دراز قد ، لمبی سفید داڑھی اور بہترین صاف ستھرا عرب لباس پہنے بزرگ نمودار ہوئے ۔ انہوں نے گلے میں ایک بڑا سا کپڑے کا تھیلا لٹکایا ہوا تھا۔ تھیلے میں ہاتھ ڈال کر چند پتلی پتلی مسواکیں نکالی اور لوگوں سے بات چیت شروع کردی ۔دور سے آواز تو نہیں آرہی تھی مگر انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ بزرگ خاصے زندہ دل اور خوش گفتار ہیں کیونکہ عر ب لوگ ہنس رہے تھے ۔بزرگ اپنی مرضی سے کسی کے ہاتھ میں ایک مسواک پکڑاتے اور کچھ مسواکیں فضاء میں اچھال دیتے جنہیں لوگ جھپٹ لیتے۔بزرگ پھر آگے بڑھ جاتے یا پھر اگلی صف میں چلے جاتے۔ ان کا انداز ایسا پیارا تھا کہ سب لوگ متوجہ ہو گئے اور وہ خوش گفتاری سے ماحول کو زعفرانِ زار بنارہے تھے اگرچہ ہم عربی سے نابلد تھے مگر اُن کی حرکات سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔ انہوں نے مسواک جیسی چیز کیلئے لوگوں میں شدید اشتیاق پید ا کردیا۔ حسبِ معمول پاکستانی ، انڈین اور بنگالی لوگ صفیں پھلانگ کر ان سے مسواک لینے کیلئے جھپٹے مگر وہ بزرگ کمال کے آدمی تھے جونہی کوئی خود ہاتھ ان کی طرف بڑھاتا وہ مسواک پیچھے کر لیتے اور جو خود آتا اُسے واپس جانے کا اشارہ کرکے خالی ہاتھ بھیج دیتے ۔ مسواک جیسی چیز کے نہ ملنے کی بے عزتی کروا کے لوگ شرمندے شرمندے واپس اپنی جگہ پر جا بیٹھتے اور اردگرد والوں کی شرارتی
مسکراہٹ کا سامنا کرتے ۔ پھر لوگوں نے ان کی طرف جانا چھوڑ دیا اور اپنی جگہ انتظار کرنا شروع کر دیا۔ بزرگ ہر کسی کو کچھ مذاق کرتے پھر موڈ ہوتا تو مسواک دیتے ورنہ ویسے ہی آگے بڑھ جاتے ۔ان کا ایسا انداز تھا کہ چند بے سرے لوگوں کے صفیں پھلانگیں اور شرمندہ ہو نے کے بعد پھر کوئی ان کی جانب نہیں گیا۔ بزرگ نے کوئی 100سے اوپر مسواک تقسیم کی ہونگی مگر چھینا جھپٹی نہیں ہونے دی۔آخر میں تھیلا جھاڑا اور آخری مسواک ہوا میں اچھال دی جو ہماری گود میں آگری۔ مگر یہ فن سب کو کہاں آتا ہے کچھ لوگوں کا تو بُرا حال ہو جاتا ہے جیسے تُرکی کی ایک خاتون کا۔
ایک دِن ایک معصوم صورت ترکش خاتون اچھی قسم کی کجھوریں اپنی فیملی کیلئے لے کر آ رہی تھیں۔اُس کی فیملی مسجدِحرام کے صحن میں بیٹھی تھی۔ خاتون کافی پڑھی لکھی اور معزز لگ رہی تھیں۔فیملی کے پاس پہنچیں تو پاس ہی بیٹھے کسی بندے مذاق سے کچھ کہا تو خاتون نے کھجور کا ڈبا مروتاً اخلاقاً ان طرف بڑھا یا کہ ایک آدھ لے لیں کیونکہ وہ ہمسایہ میں بیٹھے ہیں۔ہمیں شرارت سوجھی۔ہم نے بیگم کو کہا کہ کھجور تقسیم ہو رہی ہے۔ بیگم نے فوراً آگے بڑھ کے کچھ کھجوریں اُٹھالیں ۔پھر کیا تھا آس پاس کے حاجی لوگوں نے سمجھا کہ کھجور کی نیاز ہے۔ ایک ہجوم اُمڈ آیا ۔ خاتون حیران پریشان کھجوروں کا ڈبالے کر کھڑی ہیں اور حاجی لوگ ثواب حاصل کرنے کی خاطر اپنی جان جوکھوں میں ڈال کے لوگوں کو پھلانگ پھلانگ کے کھجوروں کے پیکٹ پر جھپٹ پڑے ۔ کوئی 2کلو کھجوریں ہونگی جو صرف 25-30حاجیوں میں بٹ سکیں ۔ باقی حاجی خالی ہاتھ اس امید پر خاتون کو گھیرے کھڑے تھے کہ ابھی اور کھجور آئے گی۔ جب مایوسی ہو گئی تو ایسی نظروں سے دیکھنے لگے جیسے کہ رہے ہوں
’’ نکالو اور۔یہ بھی کوئی تقسیم یا نیاز ہے؟ ثواب کمانا ہے تو کم از کم ایک من کھجور سے تو کرواؤ‘‘
اور خاصی ناگواری سے حاجی لوگ اپنی دعائیں اپنے ساتھ ہی لے کر واپس جانا شروع ہوگئے ۔خاتون شرمندگی سے خالی ڈبہ ان کو دکھا رہی تھیں اور اس کی فمیلی جو کھجوروں کے انتظار میں تھی اُن پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے اورغالباً کوئی بھی ایک کھجور تک نہ چکھ سکا۔
مہمان نوازی اور سخاوت کی انتہا میدانِ عرفات میں ہوتی ہے۔ مقامی لوگ جگہ جگہ بڑے ٹرالوں اور کنٹینروں پر پانی، دودھ، لبن، جوس، کیک، بسکٹ، پلاؤ، کھانا، فروٹ، غرضیکہ ہر قسم کی اشیاءِ خوردونوش کی وافر اور مسلسل تقسیم۔ بہت ساری کمپنیاں چھتریاں اور کمبل وغیرہ بھی تقسیم کرتی ہیں۔ خیرات کرنے والوں کو اللہ ثواب سے نوازے مگر حالت یہ ہوتی ہے کہ حاجی عبادت چھوڑ کر اِن ٹرالوں کے پیچھے بھاگ بھاگ کر اتنی چیزیں اکٹھی کر لیتے ہیں کہ اُٹھائی نہیں جاتی مگر پھر بھی اور کے لیے بھاگے پھر رہے ہیں۔ کچھ نظارے تو یہ بھی تھے کہ سر پر کمبل، دونوں بغلوں میں کئی کئی چھتریاں او ر دونوں ہاتھوں میں کئی کئی لبالب بھرے شاپنگ بیگ اشیاءِ خوردونوش کے۔ بمشکل خیمہ تک پہنچتے اور پھر اور کی تلاش میں نکل جاتے۔ شام کو پیدل یا بسوں پر مزدلفہ جانا ہوتا ہیتو سامان اُٹھایا نہیں جاتا۔ زیادہ تر سامان خیموں میں یا سڑکوں پر ہی پھینک دیا جاتا۔ کیا فائیدہ ایسی خیرات اورسخاوت کا کہ سادہ لوح حاجیوں کی توجہ عبادت سے ہٹا کر لالچی بنا دیا جائے۔ ہمارے خیمہ میں ایک بزرگ خانصاحب دہی اور لبن (لسی) کے دوبڑے بڑے پیکٹ دیگر اشیاء سے لدھے بندھے آئے۔ اب حیران ہیں کہ اِن اشیاء کا کیا کروں؟ دو پیکٹ دہی کھایا اور ایک ڈبا لسی کا پیا۔ ساتھ کچھ فروٹ اور کیک وغیرہ بھی نوشِ جان کیا تو پیٹ بھر گیا مگر اشیاء کا ڈھیر ویسے کا ویسا۔
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغرو مینا میرے آگے
کی تصویر بنے کبھی لسی، کبھی دہی اور کبھی پلاؤ کبھی کچھ اور کو دیکھ رہے ہیں۔ پھر جی کڑا کرکے ایک فیصلہ کیا کہ لبن کے آدھے پیکٹ خیمے میں بانٹ دیتا ہوں باقی آہستہ آہستہ شام تک پیتا رہوں گا جبکہ دہی ساتھ ہی لے جاؤں گاہفتہ بھر کھاتا رہوں گا۔چناچہ آدھے لبن کے پیکٹ اٹھا کے تقسیم کر نے گئے تو حاجی لوگ سمجھے کہ سب تقسیم کے لیے ہے تو خان صاحب کو کیوں تکلیف ہو خود ہی لے لیتے ہیں۔ خان صاحب نے پیچھے جو غدر مچا دیکھا تو پیکٹ پھینک کر باقی کو بچانے دوڑے مگر اُن کی پشتو کی کسی کو سمجھ نہ آئی اور حاجیوں نے تمام لبن، دہی، جوس، فروٹ دیکھتے ہی دیکھتے لوٹ لیا ۔ خان صاحب شام تک پشتو میں چیختے چلاتے رہے سوگ مناتے رہے ، سب عبادت دعائیں بھول بھال کر۔